قسط 04

ناول:- گردشِ ماہ
ازقلم:- طوبیٰ کرن

قسط 4:-
جب شام کے سائے پھیلنے لگے تو دروازہ بجا۔ دعا اور پلوشہ صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ وہ دونوں بابا کی دستک کو پہچانتی تھیں تبھی پلوشہ نے ڈرے سہمے انداز میں دعا کو دیکھا جو ایک نظر اس پر ڈالتی اٹھی اور چادر کو اپنے گرد لپیٹتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔ دستک واقعی بابا کی تھی لیکن بابا اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ ندیم صاحب اور اسد بھی آئے تھے۔ دعا انھیں دیکھ کر کچھ حیران ہوئی پھر انھیں سلام کیا اور دروزے سے ہٹ کر انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔

"پلوشہ بیٹا دیکھو ندیم صاحب تم سے ملنے آئے ہیں۔"
بابا نے پلوشہ کو دیکھتے ساتھ کہا تو وہ چارپائی سے اٹھی اور آنے والے مہمانوں کو دیکھا۔ ندیم صاحب بابا جیسے ہی لگتے تھے۔۔لمبی سفید داڑھی۔۔سفید کرتا پاجامہ اور چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ۔۔ اس نے ناچاہتے ہوئے بھی سلام کیا اور اسد کو دیکھا جو چھ فٹ کا ایک قبول صورت لڑکا تھا۔ پینٹ شرٹ زیب تن کیے وہ اچھا لگ رہا تھا۔۔لیکن پلوشہ کے لیے یہ اچھا انسان بھی فی الحال زہر کی مانند تھا۔

"پلوشہ بیٹی چائے بنا کر میرے کمرے میں لے آؤ-"
بابا حکم دیتے مہمانوں کے ہمراہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ جبکہ پلوشہ انگلیاں مڑورتی وہیں کھڑی رہ گئی۔

"کسی کو میری فیلنگز کی قدر ہی نہیں ہے۔ حد ہے۔"
بڑبڑاتی ہوئی وہ باورچی خانے کی طرف بڑھی اور دعا بھی اس کے پیچھے آگئی۔

"آپی! پلیز آپ کچھ کریں۔ اگر آج بابا نے رشتہ پکا کر دیا تو بہت پرابلم ہو جائے گا۔"
چائے کی پتیلی چولھے پر چڑھاتے ہوئے پلوشہ نے کہا تو دعا نے پتی کا ڈبہ اس کی طرف بڑھایا۔

"بابا تم سے پوچھے بغیر رشتہ طے نہیں کریں گے۔ تم فکر نہ کرو۔"

"کیسے نہ کروں آپی؟ میں اس آدمی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔اور بابا مجھے اس کی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔"
پلوشہ جو کچھ دیر پہلے کسی ایسے طالب علم کی طرح ڈری سہمی تھی جو ہوم ورک کرنا بھول گیا ہو اب بپھرے ہوئے شیر کی مانند لگ رہی تھی۔

"ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا اس لیے فکر نہ کرو اور مہمانوں کے سامنے چہرہ ڈھانپ کر جانا۔"
دعا نے ٹرے میں بسکٹ نکالتے کہا۔

"آپ جانتی ہیں میں نقاب نہیں کرتی پھر آج کیوں چہرہ چھپاؤں؟ اور ویسے بھی بابا نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ نقاب کرؤ۔"
پلوشہ مزید بگڑ گئی تو دعا نے ایک گہرا سانس لیا اور ٹرے اسے تھما دی۔

"جاؤ لے جاؤ چائے۔۔ میں اپنے کپڑے استری کر لوں پرسوں سے یونیورسٹی جانا ہے۔"
دعا نے کہا تو پلوشہ نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا لیکن وہ پلوشہ کی موڈ کی پرواہ کیے بغیر کمرے میں آگئی۔

----------☆☆☆☆

ابھی اس نے کپڑے استری کرنا شروع ہی کیے تھے جب پلوشہ کمرے میں داخل ہوئی۔

"کیا ہوا؟ بابا نے کچھ کہا ندیم چچا سے؟"
دعا نے پوچھا تو پلوشہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔

"ندیم چچا کہہ رہے تھے کہ انھوں نے اسد کے کہنے پر میرا رشتہ مانگا ہے۔ یعنی میں اسد کی پسند ہوں۔ حد ہے۔ مجھے پسند کرنا ضروری تھا؟اسے آپ پسند نہیں آسکتی تھیں؟" پلوشہ نے بےچارگی سے اسے دیکھتے کہا تو وہ استری بند کرکے اس کے پاس آبیٹھی۔

"فضول باتیں مت کرو وہ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے اور یہ بتاؤ بابا نے کیا کہا؟"

"یہی کہ پلوشہ کو سوچنے کا وقت دیں پھر ہی کوئی جواب دیا جائے گا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ندیم چچا کو اور اس اسد کو بھی ہمایوں کا بتا دیتی تاکہ آئندہ اس چوکھٹ پر نہ آتے لیکن بابا کے چہرے نے مجھے یہ کرنے سے روک دیا۔ میں بتا رہی ہوں آپی اگر میری شادی اسد سے ہوئی تو میں اپنی جان دے دوں گی۔"
پلوشہ کا لہجہ اب بھیگنے لگا تھا۔ دعا نے اسے سینے سے لگا لیا۔ جو بھی تھا وہ اس کی بہن تھی۔۔

"ایسی باتیں مت کرؤ پلوشہ۔ بہت گناہ ملتا ہے۔ یہ زندگی اللہ کی امانت ہے۔ ہمیں اس میں خیانت کرنے کا کوئی حق نہیں۔"
دعا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ سسکنے لگی۔

"اگر مجھے ہمایوں نہ ملا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی پھر زندہ رہ کر کیا کرنا؟"

"اگر وہ تمہاری قسمت میں ہوا تو تمہیں ضرور ملے گا۔"
دعا نے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔

"پتا نہیں آپی آج کل دل بہت گھبراتا ہے۔"
پلوشہ نے کہا جبکہ دعا نے آنکھیں بند کر کے سچے دل سے دعا کی کہ پلوشہ کو ہمایوں مل جائے۔۔

------------☆☆☆☆

شایان کے ڈسچارج ہونے کے بعد وہ سیدھی گھر آگئی کیونکہ وہ بہت تھک گئی تھی۔ کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کیا اور الماری سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں گھس گئی۔ دس منٹ بعد نکلی اور اپنے پرس سے فون نکال کر صوفے پر آبیٹھی جہاں سے وہ ماسکو کی رنگینیاں دیکھ سکتی تھی۔ تیزی سے کسی کا نمبر ڈائل کرکے اس نے فون کان سے لگا لیا۔ کال پہلی بیل پر ہی اٹھا لی گئی جیسے مقابل اس کی کال کا ہی انتظار کر رہا تھا۔

"ہیلو ہمایوں!! کیسے ہو؟"
وہ صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی۔

"تمہاری دعا سے بالکل فٹ!!  اب یہ مت کہنا کہ تم نے میرے لیے دعا نہیں کی۔"
ہمایوں نے کہا تو میری زیرلب مسکرا دی۔

"میں نے واقعی نہیں کی۔"
اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتی وہ بولی تو دوسری طرف سے ہمایوں کا قہقہ سنائی دیا۔

"چلو خیر ہے۔۔ ویسے میری میں کل آ رہا ہوں۔ شاید شایان نے تم سے ذکر کیا ہو۔"

"ہاں اس نے بتایا تھا تبھی میں نے تمہیں کال کی۔ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔"
میری اب سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور ایک گہرا سانس لیا۔

"شایان بہت ڈسٹرب ہے۔ اتنی عجیب عجیب سی باتیں کرتا ہے۔ مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے باپ کے قتل کو بھول گیا ہے۔"
میری نے کہا تو دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

"میں جانتا ہوں میری۔ وہ میرا بڑا بھائی ہے۔ تم جانتی ہو ناں کہ ہماری ماں نے ہمارے باپ کا قتل کیا اسی وجہ سے ہم دونوں بھائیوں کو عورت زاد سے نفرت ہوگئی۔ پھر ہم روس گئے اور تم سے ملاقات ہوئی اور ہم نے پیسے کی خاطر تم سے معائدہ کر لیا اور لڑکیوں کو پکڑ کر بیچنے کا کام شروع کر دیا۔ اس سے بہت فائدہ ہوا ہے ہمیں لیکن میں نے شایان کو کھو دیا ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح ہنستا نہیں ہے۔۔بس زندہ لاش لگتا ہے۔ اس کا ضمیر مطمئین نہیں ہے۔ اور میں آبھی اسی کے لیے رہا ہوں کہ اسے سمجاؤں۔"

"ہمم۔۔۔ سب معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسے دنیا کی ساری عورتوں سے نفرت ہے لیکن وہ مجھ سے بےانتہا محبت کرتا ہے اسی لیے میں اس کی بدتمیزیوں کو اگنور کردیتی ہوں ورنہ کوئی اور ہوتا تو ابھی تک اگلے جہان پہنچ چکا ہوتا۔"
میری نے کہا تو ہمایوں ہنسا۔

"اب تم مجھے ڈرا رہی ہو۔۔"

"تو کیا تم ڈر رہے ہو؟"
میری نے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔

"کیا ڈرنا چاہیے؟"
وہ بھی ہمایوں تھا۔۔

"ہاں بالکل۔"
"پھر نہیں ڈر رہا۔۔"
ہمایوں نے کہا تو وہ ہنس دی۔

"بائی دا وے ایک مچھلی جال میں پھنسی ہے۔۔ مولوی کی بیٹی ہے۔ بہت مشکل سے ہاتھ لگی۔"

"ارے واہ گڈ! کب لے کر آرہےہو اسے یہاں؟"
میری نے پوچھا۔

"بہت جلد۔۔۔امم۔۔اچھا میری کل ملتے ہیں رات میں ابھی میں ائیر پورٹ کے لیے نکلوں دیر ہو رہی ہے۔ اوکے بائے ٹیک کئیر!"
ہمایوں نے کہہ کر فون بند کر دیا جبکہ میری چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اٹھی اور بیڈ پر آلیٹی۔

----------☆☆☆☆
مہمانوں کے جانے کے بعد بابا دعا اور پلوشہ کے مشترکہ کمرے میں آگئے۔ دعا اپنے بیگ میں رجسٹر ڈال رہی تھی جبکہ پلوشہ سستی سے چارپائی پر لیٹی فون استعمال کر رہی تھی۔ وہ دونوں بابا کو دیکھ کر سیدھی ہوئیں۔ بابا پلوشہ کے سامنے پڑی چارپائی پر بیٹھ گئے۔

"کیا کر رہی تھی دعا بیٹا؟" بابا نے دعا سے پوچھا تو وہ ان کے پاس آبیٹھی۔
"یونیورسٹی جانے کی تیاری۔ بس پرسوں سے جوائن کرؤں گی ان شا اللہ۔"
دعا نے کہا تو بابا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"اللہ تمہیں کامیاب کرئے۔ بہت دل لگا کر پڑھائی کرنا ویسے بھی انجیرنگ مشکل ہے۔"
بابا نے کہا تو وہ مسکرائی۔
"نہیں بابا مشکل تو میڈیکل ہے تبھی تو پلوشہ ہر وقت پڑھتی رہتی ہے۔"
دعا نے کہا تو بابا نے مسکراتے ہوئے پلوشہ کی جانب دیکھا جو نظریں چڑا گئی۔
"ندیم صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ شادی کے بعد بھی تمہیں پڑھائی سے نہیں روکیں گے۔ ما شا اللہ اسد بہت فرمانبردار ہے اور تمہیں پسند بھی کرتا ہے تم اس کے ساتھ بہت خوش رہو گی۔"
بابا نے پیار سے کہا لیکن پلوشہ نم آنکھوں سے انھیں دیکھتی رہی۔ وہ اس کا باپ تھا۔۔جس نے اسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا۔۔ اس کی ہر خواہش پوری کی تھی۔۔وہ بھلا ان کی نافرمانی کیسے کرسکتی تھی؟؟ لیکن یہ کم بخت محبت!! ہمایوں تو اس کا عشق تھا۔۔وہ اسے کیسے چھوڑ دیتی۔۔

"بابا۔۔میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔ آپ پلیز ندیم چچا کو منع کر دیں۔"
بہت ہمت کرکے اس نے انکار کردیا تو بابا نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا جیسے وہ اس جواب کی توقع نہیں کررہے تھے۔ دعا بےچینی سے کبھی بابا کو دیکھتی تو کبھی پلوشہ کو۔

"لیکن وجہ کیا ہے؟" بابا نے وجہ پوچھی تو پلوشہ نے سر جھکا لیا۔یہ زندگی کی سب سے مشکل گھڑی تھی۔ کچھ لمحے خاموشی سے سڑکے۔ بابا پلوشہ کا چہرہ دیکھ رہے تھے جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے گالوں پر آنسو تیرنے لگے۔

"پلوشہ! ادھر میری طرف دیکھ کر بتاؤ کیا بات ہے؟"
بابا نے سنجیدگی سے کہا لیکن پلوشہ نے سر نہ اٹھایا بس یونہی بیٹھی روتی رہی۔ کمرے میں پلوشہ کی سسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں جبکہ دعا سانس روکے بیٹھی تھی۔

"پلوشہ؟" بابا کا لہجہ کرخت ہوا تو پلوشہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ان کے سینے سے لگ گئی۔

"بابا مجھے معاف کر دیں۔ میں اچھی بیٹی نہیں ہوں۔ میں آپ کی بات کا انکار نہیں کرنا چاہتی لیکن میں بہت مجبور ہوں۔ محبت نے میرے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔۔۔۔۔بابا! میں ہمایوں سے محبت کرتی ہوں۔۔وہ میرا نامحرم ہے میں جانتی ہوں لیکن میں کیا کروں بابا محبت پر اختیار ہی نہیں چلتا۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ محبت کو ہونے سے روک سکوں۔ مجھے معاف کر دیں بابا!"
وہ بابا کے سینے سے لگی سسکتی رہی۔ وہ بابا جو مسجد کے امام تھے۔۔وہ بابا جن کی وجہ سے محلے کا کوئی آدمی ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
"مجھے معاف کردیں بابا لیکن مجھے محبت ہو گئی ہے۔" باپ کے سامنے محبت کا اقرار کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام تھا اور باپ کے حکم کا انکار کرنا سب سے بڑا گناہ لیکن وہ آج گناہگار ہو گئی تھی۔کس کے لیے؟ محبت کے لیے!!
پلوشہ سسک رہی تھی جبکہ بابا حیرت سے دعا کو دیکھ رہے تھے۔ دعا نے نظریں جھکا لیں۔
"پلوشہ! محبت کو روکا نہیں جاسکتا لیکن محبت میں نفس کی پیروی سے خود کو روکا جاسکتا ہے۔ مجھے اپنی بیٹیوں پر خود سے زیادہ بھروسہ ہے۔ تم دونوں میرا سر کبھی جھکنے نہیں دے سکتیں۔ میں ہمایوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ واقعی مخلص ہوا تو وہ تمہارا محرم بن جائے گا لیکن اگر وہ ٹھیک آدمی نہ ہوا تو تمہیں میری بات ماننی پڑے گی۔"
بابا نے پلوشہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ ان سے الگ ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔ بابا نے اسے بدکردار ہونے کے طعنے نہیں دیے تھے۔۔بابا نے اسے مارا نہیں تھا۔۔ بابا نے اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں لگائی تھی۔۔بابا نے روایتی مولویوں کی طرح اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا تھا۔۔ دعا سچ کہتی تھی کہ وہ اپنے بابا کو جانتی ہی نہیں۔
"آپ ناراض نہیں ہیں مجھ سے؟"
"نہیں۔ لیکن تم اس سے بات نہیں کرو گی۔ اگر تمہارے پاس اس کا نمبر ہے تو مجھے دو اب میں بات کروں گا۔"
بابا نے کہا تو پلوشہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے سر ہلا دیا جبکہ دعا نے بابا کا ہاتھ تھام کر آنکھ کے اشارے سے انھیں تسلی دی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ تکلیف میں ہیں۔

----------☆☆☆☆
اگلا دن بہت خاموشی سے گزرا تھا۔ بابا معمول کے مطابق کاموں میں مگن رہے۔ پلوشہ کوشش کے باوجود بھی پڑھ نہ سکی جبکہ دعا یونیورسٹی کی تیاریوں میں مصروف رہی۔ شام کے وقت بابا نے ہمایوں کو فون کیا لیکن اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ پلوشہ نے بابا کو نمبر دینے کے بعد اپنے فون سے ڈلیٹ کردیا تھا۔۔جب بابا اس کی بات سمجھ سکتے ہیں تو اسے بھی بابا کا بھروسہ نہیں توڑنا چاہیے۔
عشا کی نماز پڑھنے کے بعد دعا سونے کے لیے لیٹ گئی جب پلوشہ اس کے پاس آبیٹھی۔

"آپی! آپ یونیورسٹی کیسے جائیں گی؟"
پلوشہ نے پوچھا تو دعا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔

"کیسے جائیں گی مطلب؟" دعا نے پوچھا۔
"مطلب اکیلے جائیں گی؟" پلوشہ نے پوچھا تو دعا اٹھ کر بیٹھ گئی۔

"ہاں لوکل جایا کروں گی تمہاری طرح۔ تمہاری یونیورسٹی کا راستہ دوسرا ہے ورنہ اکٹھے چلے جاتے۔"

"آپی! آپ مجھے غلط سمجھتی ہیں نا؟"
دعا جو کل کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کی بات سن کر چونکی۔

"اب اگر تم نے ایسی باتیں کیں تو میں تمہیں ایک تھپڑ لگاؤں گی۔ دیکھو پلوشہ تم نے توبہ کر لی نا کہ اب تم اس سے نہیں ملو گی تو بس بات ختم!" دعا نے اسے دھیرے سے سمجھایا تو پلوشہ نے سر جھکا لیا۔

"لیکن میں گلٹی ہوں۔ دل پر بہت بوجھ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میں کچھ غلط کر رہی ہوں۔۔ ناجانے کیوں لیکن سکون نہیں مل رہا۔۔۔۔۔اب تو میں نے اس کا نمبر بھی ڈلیٹ کر دیا لیکن پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوں۔"
پلوشہ نے سر جھکائے کہا تو دعا نے گہرا سانس لیا۔

"تو پھر تم خود فیصلہ کر لو کہ تمہیں محبت چاہیے یا سکون؟" دعا نے کہا تو پلوشہ چند لمحے ششد سی اسے دیکھتی رہی۔

"دونوں چاہیں آپی!" پلوشہ نے کسی معصوم بچے کی طرح بےبسی سے کہا جس کی ماں اسے دو کھلونے دکھا کر کہے کہ ان میں سے ایک چن لو اور وہ بےبسی سے دونوں کو دیکھتا رہے کیونکہ وہ دونوں کا طلبگار ہو۔

"پھر دعا کرو میری جان کیونکہ اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں۔ اور جب تمہیں سکون مل جائے تو سمجھ جانا کہ تمہاری توبہ قبول ہوگئی۔"

"اتنی بار معافی مانگی ہے اللہ سے لیکن وہ معاف ہی نہیں کر رہا۔"
پلوشہ نے کہا تو دعا نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما۔

"اللہ کے بہت خاص لوگ ہوتے ہیں جو صراطِ مستقیم سے تھوڑا سا بھی ہٹیں تو بےسکونی محسوس کرتے ہیں جیسے ابھی تم محسوس کر رہی ہو۔ ورنہ دنیا میں ہر جگہ فحاشی عام ہے۔ اور آج کل دنیا کے زیادہ تر حصے میں  نامحرم سے چھپ چھپ کر ملنا تو ایک عام بات سمجھی جاتی ہے جس پر نہ بےسکونی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی پیشمانی۔ لیکن تم بہت خاص ہو تبھی تو افسردہ ہو اور پلوشہ جو لوگ خاص ہوتے ہیں اللہ چاہتا ہے کہ وہ رات کے آخری حصے میں جاگ کر دنیا سے بیگانہ ہو کر اس سے معافی مانگیں تاکہ وہ اپنی رحمت سے اپنے خاص بندوں کو اپنے اور بھی قریب کر لے۔ تم تہجد میں اللہ سے معافی مانگو۔ ان شا اللہ وہ تمہیں سکون کی چادر عطا کرئے گا۔"
دعا نے کہا تو پلوشہ کی آنکھیں یک دم چمکنے لگیں۔

"خاص بندی؟" پلوشہ سوچتے ہوئے بولی۔

"اچھا اب مجھے سونے دو کل یونیورسٹی میں بہت خواری ہو گی۔ اور تمہیں تو پتا ہے میں کتنی سست ہوں اگر آج ٹائم سے نہ سوئی تو صبح اٹھنے نہیں ہوگا۔"
دعا نے لیٹتے ہوئے کہا تو پلوشہ اسے خدا حافظ کہتی اٹھ گئی۔
دماغ مختلف سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔ہمایوں کی محبت نے واقعی اسے الجھا کر رکھ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگ مر مر سے بنی اس عمارت میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی گویا یہاں ایک الگ دنیا آباد تھی۔جو ایک بار یہاں آتا تھا وہ اپنا دل یہیں چھوڑ جاتا تھا۔اور پھر اپنے دل سے ملاقات کے بہانے اسے بار بار اس عمارت میں داخل ہونا پڑتا تھا۔وجہ نور بانو تھی۔۔نور بانو۔۔ایک خوبصورت طوائف۔۔جس کے کھانا۔۔پینا۔۔بولنا۔۔چلنا سب منفرد تھا۔لاہور کے ایک شوروغل والے بازار میں اس بازاری عورت کا گھر تھا جس کی آنکھیں ایسی تھیں گویا گہرا سمندر ہو اور جب وہ ان میں کاجل بھرتی تو مخالف کے قتل کے لیے کسی ہتھیار کی ضرور پیش نہ آتی۔اس کی ماں  عصمت بانو بھی تو اپنے دور کی بہترین طوائف تھی لیکن اس کے قتل کے بعد اس کی گدی نور بانو کو سنبھالنی پڑی۔سترہ سالہ نور بانو نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو کئی بار تکیے میں سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔لیکن پھر۔۔وقت گزرا۔۔عمر بڑھی۔۔دل و دماغ نے قسمت کو تسلیم کیا اور وہ بے حس ہو گئی۔ وہ اکثر اپنی باورچن کو کہتی تھی "رشیدہ!پہلا قدم مشکل ہوتا ہے پھر قدم اٹھتے چلے جاتے ہیں۔پہلی رات اذیت ناک ہوتی ہے پھر قسمت سمجھوتا کروا لیتی ہے۔اور دن رات صبح شام سب برابر ہو جاتے ہیں۔پھر سورج چاند سے بھی واسطہ نہیں رہتا۔۔" اور چالیس سالہ رشیدہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیتی تھیں۔۔
"سنو!اگر میری قبر بنی تو اس پر لکھوانا کہ بھیگی آنکھوں سے خشک آنکھوں تک کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے۔" اکثر وہ اس عمارت میں اپنے زیرِ سایہ کام کرنے والی لڑکیوں سے کہتی۔۔وہاں ہر لڑکی کی اپنی ہی کہانی تھی۔۔اور انہیں ایک دوسرے کی کہانیاں سننے میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔۔
وہ بھی ایک ایسی ہی صبح تھی جب نور بانو بیدار ہوئی تو اپنے سامنے رشیدہ کو پریشان حال کھڑا پایا۔
"کیا ہوا ہے رشیدہ؟اتنی پریشان کیوں کھڑی ہو؟" خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"وہ۔۔وہ نور بیگم۔۔۔وہ آئے ہیں۔۔"
"وہ کون؟کھل کر بتاؤ۔"
"وہ نیچے آپ کے بھائی آئے ہیں۔۔" رشیدہ بدحواس سی بولی تو نور بانو کی آنکھوں میں حیرت اتر گئی۔
"کیا؟؟" اسے لگا ایک لمبے عرصے بعد اسے صدمہ ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب پلوشہ نے اسے بلایا۔
"آپی!"
"ہم؟" وہ اپنی نقاب پن لگا رہی تھی۔
"اگر آپ میری جگہ ہوتیں تو کیا کرتیں؟اگر آپ کو کسی سے محبت ہو جاتی تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟" پلوشہ نے پوچھا تو پل بھر کو اس کے ہاتھ ساکت ہوئے پھر اس نے گہرا سانس لیا۔
"معلوم نہیں۔محبت میں predictions فیل ہو جاتی ہیں۔" اس نے کہا تو پلوشہ اس کے پاس آئی۔
"میں نے پریڈکٹ نہیں کیا تھا کہ مجھے ایسے محبت ہو جائے گی۔میرا کیا قصور ہے آپی؟" دعا کو لگا اس کی بہن رو دے گی۔
"تم کچھ مت سوچو۔میں نے دعا کی ہے کہ تمہاری محبت تمہیں مل جائے۔بس بابا ایک بار تسلی کر لیں۔"
"اگر بابا کو تسلی نہ ہوئی تو؟" پلوشہ نے پوچھا۔
"پھر تمہیں سمجھوتا کرنا پڑے گا۔" دعا کہہ کر بابا کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تاکہ ان سے مل کر یونیورسٹی کے لیے نکل سکے۔
یونیورسٹی میں دن اچھا گزرا تھا۔پہلا دن تھا اسی لیے صرف تعارفی کلاسسز ہوئی تھیں۔وہ اپنی کلاس کی اکلوتی لڑکی تھی جس نے نقاب کر رکھا تھا۔کچھ لڑکیاں حجاب میں بھی تھیں۔وہ فطرتاً ایک الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی اس لیے کسی سے زیادہ بات چیت نہ ہو سکی تھی۔کلاس کے لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کی نسبت کم تھی۔
شاید خواتین کی زیادہ آبادی کا اثر اس کی یونیورسٹی پر بھی پڑا تھا۔خیر چھٹی کے وقت جب وہ یونیورسٹی سے نکلنے لگی تو سینئر کے ایک گروپ نے اسے گھیر لیا۔اس گروپ میں پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔دعا پہلے پہل انھیں نظرانداز کر کے آگے بڑھنے لگی لیکن انھوں نے اسے جانے نہ دیا۔
"راستہ چھوڑیں میرا۔۔"وہ کرخت ہوئی۔
"ارے چھوڑ دیں گے اتنی جلدی بھی کیا ہے؟" ایک لڑکے نے بتیسی نکالتے ہوئے کہا۔
"تو مت چھوڑیں۔۔" دعا نے اپنا بیگ پوری قوت سے اس لڑکے کے چہرے پر دے مارا۔بیگ میں پانی کی بوتل تھی جو اس لڑکے کے ناک پر کافی زور سے لگی تھی اور وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر کراہنے لگا۔باقی گروپ ممبرز بھی اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوگئے۔دعا نے ایک نظر سب پر ڈالی اور وہاں سے نکل آئی۔
"بدتمیز جاہل۔۔۔" اس کے پیچھے سے اسے خوبصورت القابات سے نوازا جا رہا تھا تبھی وہ دور کھڑے کسی شخص کی نظروں کے حصار میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حد ہے مطلب حد ہے۔یعنی کوئی اتنا بدتمیز کیسے ہو سکتا ہے۔" گھر پہنچ کر وہ اپنا بیگ ٹیبل پر پٹختے بولی تھی۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ پلوشہ ابھی یونیورسٹی سے نہیں آئی تھی اور بابا کسی کام سے باہر گئے تھے۔وہ کپڑے بدلنے کے بعد باورچی خانے میں چلی گئی۔اسے دوپہر کا کھانا بنانا تھا۔
ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ دروازہ بجا۔وہ چولھا بند کر کے دروازے پر پہنچی۔پلوشہ آچکی تھی۔
"السلام علیکم آپی!"
"وعلیکم السلام!کیسی ہو؟" دعا نے دروازہ بند کرتے ہوئے پوچھا تو پلوشہ دھیرے سے مسکرا دی۔
"کیسی ہو سکتی ہوں آپی؟دن رات دل سولی پر لٹکا رہتا ہے۔" پلوشہ نے کہا تو دعا نے اسے پانی کا گلاس تھمایا۔
"تمہیں پتا ہے آج کیا ہوا؟"
"کیا ہوا؟" پلوشہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
"جب میں یونیورسٹی سے نکل رہی تھی تو کچھ سٹوڈنٹس نے میرا راستہ روک لیا۔ان کے خیال میں میں کوئی ڈرپوک سی لڑکی تھی جو ان کی باتوں سے ڈر جاتی۔ مگر میں نے ان میں سے ایک لڑکے کے مُنہ پر بیگ دے مارا۔" دعا نے بتایا تو پلوشہ ہنسنے لگی۔
"یہ توقع تو مجھے بھی آپ سے نہیں تھی۔آپ تو اتنی سیدھی سادھی سی ہیں۔ہر کوئی یہی سمجھے کہ آپ آگے سے کچھ بول نہیں سکتیں۔"پلوشہ نے کہا تو دعا مسکرائی۔
"سچ بتاؤں تو میں بہت ڈر گئی تھی لیکن پھر سوچا کہ دعا بہادر ہو جاؤ۔اللہ ہے نا۔بس پھر طاقت آگئی۔" دعا نے کہا تو پلوشہ مسکرا دی۔
"آپی!"
"ہمم؟"
"پلیز آج آپ بابا سے پوچھیے گا کہ انہوں نے ہمایوں سے بات کی یا نہیں؟" پلوشہ نے محتاط لہجے میں کہا تو دعا نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"اچھا۔۔پوچھوں گی۔ فی الحال تم پانی پیو اور آکر میرے ساتھ کچن میں ہیلپ کرواؤ۔" دعا نے کہا تو پلوشہ نے سر ہلا دیا۔
اس روز رات جو دعا نے بابا سے ہمایوں کے متعلق پوچھا تھا جس کے جواب میں بابا نے کہا کہ "جو نمبر پلوشہ نے دیا تھا وہ بند ہے۔ میں کئی بار کوشش کر چکا ہوں۔"
"کہیں وہ فراڈ تو نہیں تھا؟" دعا پریشان ہو گئی۔
"اسد بہت اچھا لڑکا ہے۔میں بہت مطمئن تھا۔" بابا نے شکستہ لہجے میں کہا تو دعا نے ان کا ہاتھ تھاما۔
"بابا! آپ اگر اجازت دیں تو میں اس کام کا ذمہ لینا چاہوں گی۔"
"تم کیسے بیٹی؟" بابا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"بابا میں کوشش کروں گی کہ مجھے معلوم ہو سکے کہ یہ ہمایوں کون ہے۔میں پلوشہ سے کھل کر بات کروں گی اس کے بعد آپ کو بتاؤں گی۔آپ بس دعا کریں۔" دعا نے کہا تو بابا نے اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔
"میری بیٹی میرا فخر ہے۔" بابا نے کہا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم یہاں کیوں آئے ہو اب؟" نور بانو پوری قوت سے چلائی۔ کھڑکی سے باہر دیکھتا وہ شخص جس کی پشت نور بانو کی طرف تھی وہ پلٹا۔
"آپ سے ملنے آیا ہوں۔" وہ شخص بولا تو نور بانو کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
"یہ حق تم بہت پہلے کھو چکے ہو۔ شاید تمہاری یاداشت کمزور ہو چکی ہے۔" نور بانو نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ شخص اس کے قریب آیا۔
"آپا!میں نے آج اسے دیکھا تھا۔ وہ بالکل نہیں بدلی۔وہی آنکھیں جن کو دیکھنے کے لیے میں ترسا کرتا تھا۔۔وہی لہجہ جس میں کسی کا ڈر نہیں ہوتا تھا۔۔وہ بالکل نہیں بدلی آپا۔" اس شخص نے کہا تو نور بانو کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"وہ کون؟ بولو وجی وہ کون؟" نور بانو نے اسے بازؤں سے پکڑ کر بُری طرح جھنجھوڑا۔
"وہی جس کی موجودگی کا سن کر ہی آپ پوری کانپ رہی ہیں۔" وجی نے کہا تو نور بانو نے دیوار کا سہارا لیا۔
"اس کے لیے آج تم نو برس بعد اس حویلی میں داخل ہوئے ہو؟"
"میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ وہ اسی شہر میں ہے۔میں اس کا گھر ڈھونڈ لوں گا۔میں اسے آپ سے ملواؤں گا۔" وجی نے کہا۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔آنکھیں تو نور بانو کی بھی بھیگ چکی تھیں۔
"مجھے کسی سے نہیں ملنا۔ اب تم جا سکتے ہو۔" وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی۔اس کا تعلق معاشرے کے اس طبقے سے تھا جہاں غم برداشت کرنا معمولی سی بات ہوتی ہے۔جہاں سکتے بہت کم طاری ہوتے ہیں۔
"آپ کیسی ہیں؟" وجی نے پوچھا تو وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
"تم واقعی نور بانو کی خیریت پوچھ رہے ہو؟میری خیریت ان مردوں سے جا کر پوچھو جو روز یہاں آتے ہیں۔شاید وہ تمہیں بہتر طریقے سے بتا سکیں۔" نور بانو نے کہا تو وجی کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
"یہ بے ہودہ باتیں مجھ سے مت کریں۔" اس نے کہا تو نور بانو مزید ہنسی۔
"جاؤ وجی! لیکن یاد رکھنا تم ایک طوائف کے بیٹے ہو اور یہ حقیقت کوئی بدل نہیں سکتا۔ تم خود بھی نہیں!" نور بانو نے کہا تو وجی کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا حویلی سے باہر نکل گیا۔
"رشیدہ! لڑکیوں کو حکم دو کہ رات کے رقص کی تیاری کریں۔" اپنی آنکھ سے بہتا آخری آنسو تلخی سے صاف کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے
السلام علیکم! امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔شاید آپ کو ابھی یہ ناول بورنگ لگے یا سمجھ نہ آئے لیکن مجھے یقین ہے آہستہ آہستہ یہ سمجھ آنا شروع ہو جائے گا۔۔۔مجھے ہمیشہ سے ہی کچھ مختلف لکھنے کا شوق ہے اس لیے ہر موضوع پر ہی طبع آزمائی کرتی رہتی ہوں۔ اس ناول میں بھی بہت سے ٹاپکس ہیں۔ کچھ بہت نازک ٹاپکس بھی ہیں۔ امید ہے آپ لوگ اسے سمجھیں گے۔
اور میں ایک دن چھوڑ کر قسط اپلوڈ کیا کروں گی کیونکہ میں ساتھ ساتھ لکھ رہی ہوں۔ میری اجازت کے بغیر اسے کہیں شئیر نہ کیجیے گا۔
شکریہ❤❤

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top