قسط 03

ناول:- گردشِ ماہ
ازقلم:- طوبیٰ کرن

قسط 3:-
تارکول کی سیاہ سڑک پر پھیلی سفید برف پر وہ اپنے اردگرد سے بےخبر لڑکھڑاتا چل رہا تھا۔ سفید ٹی۔شرٹ اور سیاہ ٹراوزر میں وہ حددرجہ بیمار دکھائی دیتا تھا لیکن ماسکو کے اس مصروف شہر میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ کوئی اس کی حالت پر غور کرتا۔ سرخ ہوتی آنکھوں سے اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے قدم ڈگمگائے اور وہ ڈھے گیا۔ گرنے کے بعد اس نے اپنے آس پاس ہاتھ مار کر برف کی ٹھنڈک کو محسوس کیا اور وہیں لیٹتا چلا گیا۔ برف اس کی کمر کو سہلا رہی تھی۔۔۔اذیت اسے لوڑی سنا رہی تھی۔۔۔ اور پھر وہ کب سویا اسے اندازہ نہ ہوا۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی کسی کے بری طرح جھجھوڑنے پر وہ گڑبڑا کر اٹھا۔

"شایان آر یو ڈرنک؟؟"
وہ کوئی اور نہیں بلکہ میری تھی جو بیدار ہونے کے بعد واک کے لیے نکلی تھی۔ شایان نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔

"کیا ہو گیا ہے تمہیں شایان! صبح بھی تم اتنا عجیب بی۔ہیو کر رہے تھے اور اب شراب پی کر یہاں لاوارثوں کی طرح پڑے ہو۔ ایسا تو ڈپریسڈ لوگ کرتے ہیں۔"
میری فکرمندی سے کہتی اس کے پاس بیٹھی اور اس کا ہاتھ اپنی ملائم ہتھیلیوں میں لے کر ملنے لگی۔

"میں ڈپریشن میں ہوں میری!! یہاں درد ہے یہاں!!"
وہ میری کی انگلی اپنے سینے پر زور سے لگاتے بولا تو میری نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"کیوں درد ہے یہاں؟؟" میری نے پوچھا لیکن شایان نے کوئی جواب نہ دیا اور سر جھکا لیا۔

"بولو شایان! کیوں ڈپریشن میں ہو؟ کیا ہوا ہے تمہیں؟ تم کس تکلیف میں ہو یار۔ مجھے بتاؤ ورنہ میں مر جاؤں گی۔"
میری اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولی تو وہ کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔

"تمہارے چہرے پر وہ کیوں نہیں ہے جو میرے چہرے پر ہے؟"
شایان نے پوچھا تو میری اس کی بےتکی بات پر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔

"کیا نہیں ہے میرے چہرے پر؟"

"افسوس----دکھ----بےچینی----خوف---"
شایان نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا اور پھر وہ برف پر گرتا چلا گیا۔

"شایان!! شایان!! اوہ مائی گاڈ اسے کیا ہو گیا ہے؟"
عجلت میں مارک کو فون ملاتے ہوئے اس نے شایان کا سر اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔وہی تو تھا اس کا کل جہاں۔۔اس کا سچا عشق!! وہ شایان کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ رہی تھی۔

----------☆☆☆

جب سے بابا نے پلوشہ سے رشتے کی بات کی تھی وہ بہت خاموش تھی۔۔بالکل کسی سمندر کی طرح جس کے اندر طوفان برپا ہوتا ہے لیکن وہ خاموش رہتا ہے۔ دعا اپنی بہن کی اس خاموشی کو بہت شدت سے محسوس کر رہی تھی تبھی شام ڈھلنے کے بعد وہ کمرے میں آئی جہاں پلوشہ اپنے بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ دعا اس کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیا دیکھ رہی ہیں آپی؟"
کچھ دیر بعد پلوشہ نے پوچھا تو اس نے کندھے اچکا دیے۔

"کیا ہے آپی؟ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ آپ مزید پریشان نہ کریں۔"
پلوشہ بےزاری سے کہتی اٹھی اور دوپٹہ سر پر اوڑھنے لگی۔

"کہاں جا رہی ہو؟"
دعا نے پوچھا تو پلوشہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر جوتے پہننے لگی۔

"دل کہہ رہا ہے کوئی مرنے والا ہے۔ کفن دفن کا انتظام کرنے جا رہی ہوں۔"
پلوشہ نے اسے دیکھے بغیر کہا تو اس کا دل دہل کر رہ گیا۔

"کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟ پاگل تو نہیں ہو گئی؟"
وہ چارپائی سے کھڑی ہوئی اور اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ پلوشہ نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا۔

"کہا ناں آپی کوئی مرنے والا ہے۔ اب غم بھی نہ مناؤں؟"
"کون مرنے والا ہے پلوشہ؟"
دعا نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تاکہ وہ ہوش میں آجائے لیکن پلوشہ کے چہرے پر وہی تاثرات تھے۔۔۔جیسے کسی کے مرنے کے غم میں ہوتے ہیں۔۔۔جیسے کسی سے بچھڑنے کے بعد ہوتے ہیں۔۔سرخ آنکھیں اور درد بھری مسکراہٹ!!

"کسی کے مرنے پر مسجد میں اعلان ہوتا ہے آپی۔۔یوں پہلے ہی کسی کی موت کی خبر نہیں سناؤں گی۔ جب اعلان ہو تو سن لیجیے گا اور ہاں۔۔۔دل پر ہاتھ رکھ کر سنیے گا ورنہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔"
پلوشہ نے کہا تو دعا کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے چارپائی پر بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔

"تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو ناں؟ یار! ابھی تو بس رشتہ آیا ہے اور بابا نے کہا ناں کہ آخری فیصلہ تمہارا ہو گا۔"
دعا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو پلوشہ نے نفی میں سر ہلایا۔

"اسی بات کا تو سارا روگ ہے آپی! میں بابا کو انکار نہیں کر سکتی اور۔۔۔۔"
پلوشہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ دعا نے چونک کر اسے دیکھا۔

"اور؟"
دعا نے پوچھا تو پلوشہ نے تھوک نگلا اور ایک گہرا سانس لیا۔

"میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہ ہنستا ہے تو میں ہنستی ہوں۔ وہ روتا ہے تو میں روتی ہوں۔ وہ جب بولتا ہے تو دل چاہتا ہے اسے ہی سنتی رہوں۔ وہ جب ناراض ہوتا ہے تو دنیا ویران لگتی ہے۔ وہ میرا سب کچھ ہے۔۔بس محرم نہیں ہے۔ آپی! اسے میرا محرم بنا دیں۔"
پلوشہ بولنا شروع ہوئی تو اس کے لہجے میں تھکن تھی لیکن بولتے بولتے وہ سسکنے لگی جبکہ دعا کے ہاتھ کی گرفت اس کے ہاتھ پر کمزور ہو رہی تھی۔ وہ بےیقینی کے عالم میں بیٹھی اپنی چھوٹی بہن کو دیکھ رہی تھی۔

"کون ہے وہ؟ کیا تم اس سے ملتی رہی ہو پلوشہ؟"
اس کی آنکھوں میں بےانتہا خوف تھا۔۔

"ہمایوں نام ہے اس کا اور ہاں میں اس سے کئی بار مل چکی ہوں۔ لیکن کبھی اس نے اپنی حد پار نہیں کی بس کل اس نے میرا ہاتھ پکڑا لیکن وہ غلط نیت سے نہیں تھا۔"
پلوشہ کو سمجھ نہ آئی کہ وہ اپنی محبت کا دفاع کیسے کرئے۔ وہ کہہ کر دعا کو دیکھنے لگی۔ہاں شاید اس کی بڑی بہن اسے تھپڑ مار دے۔

"تم اس کی نیت جانتی ہو پلوشہ؟ ایک تو تم اس سے ملنے جاتی رہیں ہمیں بغیر بتائے اوپر سے تم۔۔۔۔خیر!!"
اٹھتے ہوئے دعا نے خود کو ریلکس کرنے کی کوشش کی۔

"میں بابا کو کہتی ہوں وہ ہمایوں سے ملیں۔ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا اور تم نے اگر اب کفن دفن کا انتظام کرنا ہے ناں تو اپنی بےباکی کو قتل کرکے اسے کفن میں لپیٹو اور مٹی میں دفنا دو۔ اور ہاں سنو!!!"
وہ جاتے جاتے پلٹی۔ پلوشہ کچھ شرمندگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"جب اعلان ہوا تو مجھے بھی بتانا میں دل پر ہاتھ رکھ کر اللہ کا شکر ادا کرؤں گی۔۔"
کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی جبکہ پلوشہ ساکت سی وہیں بیٹھی رہ گئی۔ آج اس نے اپنی بہن کا مان توڑ دیا تھا۔

----------☆☆☆☆

یہ اگلے روز کی بات ہے جب فجر کی نماز کے بعد بابا کسی کام سے باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد دعا صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھ کر آسمان کو دیکھنے لگی جہاں رات کی سیاہ دھاری صبح کی سفید دھاری سے الگ ہو رہی تھی۔ یہ جنوری کی ایک ٹھنڈی صبح تھی۔ مشرق سے منہ نکالتا سورج اور پرندوں کی چڑچڑاہٹ۔۔۔اس کا دل چاہا اسی منظر میں کھو جائے۔۔ اس نے ایک نظر کمرے پر ڈالی جہاں پلوشہ فجر پڑھتے ساتھ ہی سو گئی تھی اور افسوس سے سر ہلاتی اٹھی اور صحن میں لگی گلاب کی کیاریوں کے پاس آگئی جہاں گلاب مرجھائے ہوئے تھے۔

"ہماری زندگی کا پھول بھی تو اک دن ایسے ہی مرجھا جائے گا ناں اللہ!"
ناجانے کیوں آج دل بہت اداس تھا۔ یوں لگتا تھا کچھ ہونے والا ہے۔ اپنی نرم ہتھیلوں میں گلاب کی مرجھائی پتیاں لیتی وہ کہہ رہی تھی۔

"ناجانے کیوں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے میرے مالک! میں کیسے بابا کو بتاؤں گی کہ پلوشہ کسی سے۔۔۔"
وہ بولتے بولتے رکی اور مٹھی بند کر کے ان پتیوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔

"میں جانتی ہوں اللہ کہ محبت کرنا گناہ نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں محبت کرنے یا نہ کرنے میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ تو ایک بہت پاکیزہ بندھن ہے لیکن یا اللہ! میں بابا کو کیسے بتاؤں گی کہ پلوشہ اس سے ملتی رہی ہے۔۔ بابا تو جیتے جی مر جائیں گے۔ کتنا اعتبار کیا تھا انھوں نے ہم پر اور اگر یہ اعتبار ٹوٹ گیا تو کیا بچے گا اللہ؟"
وہ دھیمی آواز میں اپنے رب سے ہم کلام تھی۔ تبھی اسے اپنے کندھے پر بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بےاختیار پلٹی۔

"پلوشہ؟"

"آپی! مجھے معاف کر دیں پلیز!"
پلوشہ سسکتے ہوئے بولی تو دعا کو اس کے آنسو دیکھ کر تکلیف ہونے لگی۔

"پلوشہ! تمہیں کیا ضرورت تھی ہم سے جھوٹ بولنے کی؟ اگر تمہیں کوئی پسند تھا تو تم نے بابا کو کیوں نہیں بتایا؟ کیا تمہیں بابا پر اعتماد نہیں ہے؟"
دعا نے کہا تو پلوشہ نے نفی میں سر ہلادیا۔

"وہ منع کرتا تھا مجھے۔ وہ کہتا تھا کہ جب تک میں رشتہ نہیں لے آتا تم میرے بارے میں کسی کو مت بتانا۔ میں اس کی بات نہیں ٹال سکتی تھی آپی!"
پلوشہ نے کہہ کر سر جھکا لیا جیسے نادم ہو۔ دعا کتنے ہی لمحے اسے دیکھتی رہی۔

"جانتی ہو پلوشہ! وہ صرف ہمارے باپ نہیں ہیں۔ وہ ہماری ماں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ہمارے دوست ہیں۔ ہمیں ساری باتیں ان سے شئیر کرنی چاہیں۔"
دعا کے کہنے پر پلوشہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اس کی بند مٹھی کو جس میں گلاب کی مرجھائی پتیاں قید تھیں۔

"میں کیسے بتاتی بابا کو؟ وہ میرا قتل نہ کر دیتے؟؟"
پلوشہ نے کہا تو دعا نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"ٹھیک ہے پھر میں آج انھیں سب بتادیتی ہوں۔ دیکھتی ہوں پھر وہ تمہیں قتل کرتے ہیں یا نہیں۔"
دعا نے کہا تو پلوشہ نے تڑپ کر اسے دیکھا۔

"پلیز آپی! بابا کو کچھ مت بتائیں۔ میرا دل کہتا ہے میرا قتل ہو گا۔ میں اپنے باپ کے ہاتھوں قتل نہیں ہونا چاہتی-"

"پلوشہ میری بات غور سے سنو! بابا آدھے گھنٹے تک آجائیں گے۔ میں انھیں سب کچھ بتا دوں گی۔ بابا سنتے ہی کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہمایوں کو بلاؤ۔ تم اسے گھر بلا لینا اور اگر بابا اس سے مطمئن ہوگئے تو وہ تمہارا محرم بن جائے گا۔ یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔"
دعا یک دم نرم پڑی تو پلوشہ نے سر ہلا دیا۔

"لیکن۔۔۔اگر وہ ٹھیک آدمی نہ نکلا تو وعدہ کرو تم اسےبھول جاؤ گی۔"
دعا نے کہا تو پلوشہ آنسو پونجھتی اس کے گلے لگی۔

"وہ بہت اچھا ہے آپی! ساری دنیا سے اچھا!"
اس نے دھیرے سے کہا تو دعا نے مٹھی کھول کر ریزہ ریزہ ہوئی پتیوں کو ہتھیلی سے سرکنے دیا۔

------------☆☆☆

اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔۔ حسیں بیدار ہوئیں تو سونگھنے کی حس نے سب سے پہلے میری کے پرفیوم کی خوشبو سونگھی۔۔آنکھوں نے سب سے پہلے میری کے فکرمند لیکن خوبصورت چہرے کا دیدار کیا۔۔ کانوں نے سب سے پہلے میری کی آواز سنی۔۔

"شایان! کیسے ہو؟ اب کیسا فیل ہو رہا ہے؟"
میری نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا تو اس نے سر اثبات میں ہلا کر اردگرد کا جائزہ لیا۔ وہ کسی ہسپتال کے کمرے میں تھا۔۔

"تم جانتے ہو ناں شایان کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں پھر کیوں مجھے تڑپاتے ہو؟"
وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتی بولی تو شایان پھیکا سا مسکرا دیا۔

"آئی ایم سوری۔"
وہ فقط اتنا کہہ سکا۔ تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور مارک ایک شاپر اٹھائے اندر داخل ہوا۔

"یہ لیجیے میڈم! شایان سر کی دوائیں۔ دو گھنٹے بعد یہ ڈسچارج ہو جائیں گے۔"
مارک نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تو میری نے اس سے شاپر تھاما اور اسے کمرے سے جانے کا اشارہ کیا۔

"تم کچھ عرصے کے لیے کہیں آؤٹنگ پر چلے جاؤ۔ جب تک تمہارا مائنڈ ریلیکس نہیں ہوگا تم اپنے کام پر دھیان نہیں دے پاؤ گے۔"
میری نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ اپنی ہتھیلوں میں لیتے ہوئے کہا اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نہ چھڑا سکا۔

"میرا کام؟ یعنی لڑکیاں اغوا کروا کر انھیں بیچنا؟"
وہ جیسے ہنسا۔ میری نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

"کچھ دنوں سے تمہارا بی۔ہیویور بہت سٹرینج ہے شایان۔۔کم از کم میں تمہیں سمجھ نہیں پا رہی۔"

"میں بھی خود کو سمجھ نہیں پارہا۔" وہ چھت کو گھورنے لگا۔

"دیکھو۔۔تمہیں بس اپنے باپ کا انتقام لینا ہے۔ اور اپنے مقصد سے مت پھرؤ۔"

"ہاں جانتا ہوں مجھے اپنے بابا کا انتقام لینا ہے۔۔۔لاکھوں بےگناہوں سے۔۔۔خیر۔۔۔چھوڑو۔۔تم بتاؤ کہ تم کل فری ہو؟"
وہ گہرا سانس لیتے بولا۔

"ہاں کیوں؟"
میری نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"ہمایوں آرہا ہے کل۔۔" شایان نے میری کو دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔

"اوہ ریلئی؟ اس نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ حد ہے ویسے۔" میری خوشی سے بولی تو شایان مسکرا دیا۔

"تم سے ڈرتا ہے وہ۔۔۔"
شایان نے کہا تو میری ہنسی۔

"ہاں جیسے میں تمہارے بھائی کو جانتی نہیں ہوں۔"
میری نے کہا تو وہ بھی ہنس دیا۔

--------------☆☆☆☆☆

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top