نازک سا کانچ
"صرف اور صرف میں تمھاری وجہ سے یوں ایک بجے گھر سے نکل آیا ہوں وہ بھی امی اور ابو کے منع کرنے کے باوجود لڑکی کچھ تو ٹینشن کرو تم۔ رخشی سنسان سی سڑک پر چلتے چلتے ہی آئیس کریم سے لطف اندوز ہورہی تھی جس کا مقصد تھا کہ اس کا ابھی گھر جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا تب ہی حسام نے اسے کہا تھا۔
"کچھ نہیں ہوتا نا بھائی جب میں آپ کے ساتھ ہوں تو مجھے کس چیز کا ڈر۔ وہ فخر سے بولی تھی۔ اس کی بات پر وہ جو اتنی دیر بیزار سا چل رہا تھا یکدم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھڑی تھی۔
"اتنا بھروسہ ہے مجھ پر۔۔؟ وہ بہت نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
"بہت بہت زیادہ ایک آپ ہی پر تو بھروسہ کرتی ہوں میں ساری دنیا میں۔ وہ فخر سے بولی تھی۔ اور چلتی ہوئی اس کی طرف پلٹی تھی۔
"مگر مجھے یہ بھی سننا ہے کہ مجھ پر آپ کو کتنا بھروسہ ہے۔؟ وہ مکمل طور پر سنجیدہ تھی۔ میں جانتی ہوں کہ بہنیں اکثر بھائیوں پر حد سے زیادہ بھروسہ کرتی ہیں جب کے بات ہم بہنوں پر بھروسہ کرنے کی آتی ہے تو سارے خاموش ہوجاتے ہیں ایسا کیوں۔ وہ پوچھ رہی تھی۔ اور وہ چند سانیے خاموشی سے دور فزا میں گھور رہا تھا۔
"دیکھا لگ گئی نا چپ۔ وہ موں بنا کر بولی تھی۔
"نہیں نہیں رخشی میں ان بھائیوں میں سے بالکل نہیں ہوں جو بہنوں پر بھروسہ نہیں کرتے مجھے تم پر پورا اعتماد ہے آنکھ بند کر کے چاہو تو آزما لو۔ وہ چونک کر سنجیدگی سے کہہ تا آخر میں شرارت سے بولا تھا۔ اس کی بات پر وہ خوشی سے جی اٹھی تھی اس کے سنجیدہ تاثرات یکدم خوشی میں تبدیل ہوئے تھے۔
"وقت آنے پر آزمائوں گی انشاءاللّٰہ۔ وہ کہہ تی آئس کریم سے لطف اندوز ہوئی تھی۔
وہ جواب میں کچھ کہتا کہ دو لڑکیاں ان کے پاس ہی آکر رکی تھی اس نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔
"السلام و علیکم میرا نام زرناب ہے اور یہ نایاب۔ اس نے اپنا تعارف کروایا۔
"وعلیکم السلام جی فرمائیے۔حسام نے باری باری دونوں کو دیکھ کر پوچھا تھا دنوں ہی اپنا موں چادر سے چھپا رہی تھی۔ جب کے رخشی مسکراتی نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"ایکچلی ہماری گاڑی خراب ہوگئی ہے اور ہم دونوں کو کچھ نہیں آتا بالکل پھوہڑ ہیں دونوں آپ پلیز دیکھ لینگے۔ زرناب بولی تو نایاب نے اسے گھور کر دیکھا تھا کہ فائدہ اتنی پر اعتمادی دیکھانے کا۔
"جی جی آپ چلیں میں دیکھتا ہوں۔ وہ شائستگی سے کہہ رہا تھا۔ رخشی گاڑی میں اکیلے بیٹھنا صحیح نہیں تم بھی میرے ساتھ چلو وہ رخشی کا ہاتھ پکڑتا ان دنوں کے پیچھے چل پڑا تھا۔
"یہ ہے گاڑی آپ پلیز ٹھیک کردیں ہمیں گھر بھی پہنچنا ہے۔ اس بار نایاب سہمے ہوئے لہجے سے بولی تھی اس نے چونک کر اسے دیکھا تھا جو کب سے چادر میں اپنا منہ چھپا رہی تھی یکدم اس کے دماغ میں جھماکہ ہوا تھا اسی لڑکی کی تو اسے تلاش تھی۔ اس کے یوں دیکھنے پر نایاب سٹپٹائی تھی۔
"بھائی جلدی کریں بیچاری پریشان ہیں۔ رخشی نے اسے ٹھوکا دیا تھا۔ اس نے چونک کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔ پھر جب تک وہ گاڑی کی سیٹنگ دیکھتا رہا تب تک رخشی نایاب اور زرناب سے محو گفتگو ہوگئی تھی اور ان کی ایک ہی ملاقات میں بہت اچھی دوستی ہوچکی تھی۔
"اس گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوچکا ہے ٹائر بدلنے میں زرا دیر لگے گی۔ حسام نے اطلاع دی تھی۔
"اللّٰہ اب ہم گھر کیسے جائیں گے تایا ابو تو مار دینگے ہمیں۔ نایاب کی برداشت کی حد اتنی ہی تھی وہ یکدم ہچکیوں سے رو پڑی تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر تینو پریشان ہوگئے تھے۔
"نایاب نا رو کچھ نا کچھ ہوجائے گا یار اتنا کیوں ڈرتی ہو تم۔ زرناب بولی تھی۔ حسام نے بیچینی سے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا افف کیا بیبسی ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔
"ارے بھائی ہم ان لوگوں کو ان کے گھر چھوڑ دیتے ہیں جب تک آپ صبح کو گاڑی بھجوادینا ان کی بنوا کر۔ رخشی نے ائیڈیہ پیش کیا تھا جس پر حسام نے خوش ہوکر بہن کو دیکھا تھا جب کہ زرناب اور نایاب فورن بدک گئی تھی۔
"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا گاڑی صبح ضرور ماما دیکھیں گے اور پھر گاڑی نا پاکر بہت بڑا مسلہ ہو جائے گا۔ اس بار زرناب بولی تھی۔
"تو ایسا کرتے ہیں آپ گھر تو پہنچ جائیں پھر میں ابھی آدھے گھنٹے میں گاڑی کا ٹائر چینج کر کے آپ کے گھر کے ایڈریس پر چھوڑ دوں گا۔ حسام نے حل پیش کیا تھا۔
"آج ہی رات۔۔؟ نایاب نے رندھے ہوئے لہجے میں براہ راست اس سے پوچھا تھا۔
"جس پر وہ خوشی سے جی اٹھا تھا۔ جی بالکل آج کی ہی رات بس نمبر دے دیں اپنا۔ وہ بولا تو زرناب نے جھٹ سے نمبر دے دیا تھا اور وہ ان کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتا رخشی کا ہاتھ تھام تا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا۔
++++
وہ دونوں بخیریت گھر پہنچی تھی حسام نے بہت ہی کم وقت میں ان کو گھر ڈراپ کردیا تھا آتے ساتھ ہی زرناب اسی کے کمرے میں سو چکی تھی جب کے وہ گاڑی کے انتظار میں ادھر سے اُدھر ٹھل رہی تھی نیند تو اس کی کب کی اڑن چہو ہوگئی تھی اس وجہ سے اس مسئلے کی وجہ سے زرناب کو کوسا بھی بہت تھا وہ بھی خفت سے دوچار ہوئی تھی۔ زرناب کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس بھی ہوا تھا مگر نایاب کہ کمرے میں آتے ہی وہ ساری شرمندگی اور خفت بھلا کر سوگئی تھی جب کے نایاب کا ٹینشن تھا کہ بڑھ تا ہی جارہا تھا۔ تب ہی موبائیل فون کی گھنٹی زور سے بجی جو کہ زرناب کے سرہانے رکھا تھا۔جلدی سے اس نے یس کا بٹن دبایا اور فون کان پر لگایا۔
"ہیلو۔ نایاب نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا۔
"جی میں ہوں حسام آپ کے گیٹ کے سامنے ہی کھڑا ہوں مگر جان بوجھ کر ہارن نہیں دیا کہ کوئی نکل ہی نا آئے۔ وہ بولا تو نایاب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
"اچھا آپ ایسا کریں وہی کھڑے رہیں میں آرہی ہوں گیٹ کھولنے۔ وہ کہہ تی فون رکھتی دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلی تھی اور محتاط انداز میں چلتی ہوئی باہر آئی تو گارڈ سویا ہوا تھا اس نے دھیرے سے گیٹ کھولا اور اس کو آنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ گاڑی پورچ میں لیکر آیا تھا اور گاڑی وہی بند کرتا گاڑی سے نکل آیا تھا۔
"آپ کا بہت شکریہ مشکل وقت میں ساتھ دینے کے لیے۔ نایاب نے ممنوعیت سے کہا۔ تو وہ مسکرا دیا تھا۔
"کوئی بات نہیں۔ وہ۔ بغور اسے دیکھتا نرم لہجے سے مخاطب تھا۔
"آپ جائنگے کیسے نایاب نے اس کی نظروں کو نظر انداز کرتے آہستہ سے پوچھا تھا۔
"جو ہمیشہ ساتھ دیتے ہیں نا وہ کبھی بھی اکیلے نہیں ہوتے۔ وہ بولا تھا۔
"اس کا مطلب آپ نے بندوبست کر لیا ہے اپنا۔ نایاب نے سمجھتے ہوئے کہا تھا۔
"جی بالکل بہت پہلے کرلیا تھا۔ وہ مسکرا کر گویا ہوا تھا۔
"گڈ پھر جاتی ہوں میں بھی اور آپ بھی جائیں۔ نایاب نے کہا اور اندر کی طرف چل پڑی تھی۔
"بہت بے مروت واقع ہوئی ہیں نا چائے نا ٹھنڈا نا پانی اتنا بھی نا پوچھا کہ اندر ہی گیسٹ روم میں بیٹھیں۔ وہ اس کو جاتا دیکھ کر شرارتی لہجے سے پیچھے سے بولا تھا۔ تو بے اختیار پلٹی تھی۔
"گیسٹ روم کا مطلب ہے مہمان خانہ جب کے آپ کوئی مہمان نہیں ہیں آپ صرف مشکل وقت میں مدد کرنے والے انسان ہیں اور رہی بات کچھ کھلانے پلانے کی وہ اپنی غلطی مانتی ہوں میں کہ پوچھا نہیں مگر پوچھنے کا بھی کیا فائدہ جب آپ کہیں گے کہ نہیں نہیں پھر کبھی پھر میں پوچھوں ہی کیوں۔ وہ سپاٹ تاثرات سے کہہ رہی تھی۔ جب کے وہ کچھ دیر کے لیے لاجواب ہوا تھا۔
"آپ کی نظر میں کوئی مدد کرنے والا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ بے اختیار پوچھ بیٹھا تھا۔
"میں نے یہ کب کہا کہ معنی نہیں رکھتا بالکل رکھتا ہے مگر ایک مدد کرنے والا مہمان نہیں بن سکتا۔ وہ اپنی بات پر اٹل تھی۔
"تو کیا بن سکتا ہے۔؟ اس نے پھر سوال داغا تھا۔
"ایک مددگار یا ایک اچھا انسان۔ وہ بولی تو وہ ہنس دیا تھا اس سے جیتنا واقعی ناممکن تھا وہ ہاتھ ہلاتا گیٹ پار کر گیا تھا جس کا مطلب تھا وہ جارہا ہے اور پیچھے وہ بھی سیڑھیاں چڑھتی اندر چلی گئی تھی۔ فجر کی آذانیں آس پاس گونج رہی تھی اور اس کو جلد از جلد اپنے کمرے میں جانا تھا۔
+++
صبح کے بارہ بج رہے تھے اور وہ دونوں نیند میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی تب ہی کسی نے زور سے دروازہ بجایا تھا۔ زرناب ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔ اور ایک نظر نایاب کو سوتا دیکھ کر دروزے کی طرف لپکی تھی۔
"بیبی جی یہ آپ کا پارسل آیا ہے۔ مہناز(کام والی مائی) نے اس کے آگے باکس کیا تو وہ ناسمجھی سے اپنی آنکھیں پٹ سے کھولتی اس پارسل کو دیکھنے لگی۔
"تم اسے باہر لے چلو میں آکر دیکھتی ہوں۔ زرناب نے کہا اور دروازہ بند کرتی باتھ روم میں چلی گئی تھی کچھ دیر بعد فریش ہوکر نکلی اور آہستہ سے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔
"مہناز کینچی لیکر آئو۔ کوئی بہت اونچی آواز میں کہہ رہا تھا۔ اس آواز پر وہ چونک کر لاونج میں آئی تو بہرام کو پارسل کھولتا دیکھ کر وہی ٹھٹک گئی تھی۔ مہناز کینچی لیکر آئی ہی تھی کہ زرناب نیند سے بوجھل آواز میں بول پڑی۔
"بہرام یہ میرا پارسل ہے۔ وہ بولی تو بہرام نے چونک کر اسے دیکھا تھا خمار آلود آنکھیں بند ہورہی تھی شلوار قمیض پہنے بہت ہی رف حلیے میں بھی وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔
"میں نے پیمنٹ کردی ہے میں سمجھا میرا پارسل ہے میں نے بھی منگوایا تھا سو اسی وجہ سے۔ وہ پارسل سے ہاتھ کھینچتا بولا تھا۔
"جی آپ کھولیں میں دیکھوں کیا چیز آئی ہے۔ وہ بولی تو بہرام نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیوں تم ہے نہیں پتہ اس میں کیا ہے۔۔؟ وہ پوچھ رہا تھا۔
"نہیں ایکچلی دو تین چیزیں آرڈر کی تھی اب پتہ نہیں کونسی آئی ہے۔ وہ وضاحت دیتی بہت آہستہ آواز میں کہہ رہی تھی۔ اس کی بات پر وہ کینچی سے اس باکس کو کھولنے لگا تھا۔ بلاآخر اس نے باکس کھولا تو اندر بہت ہی خوبصورت پنک کلر کا ونڈ چائیم رکھا ہوا تھا اس نے نکال کر زرناب کو دیکھایا وہ جو نیند میں آنکھیں بند کر رہی تھی خوشی سے کھڑی ہوگئی تھی۔
"ہائے اللّٰہ ونڈ چائیم۔ وہ اس کے ہاتھ سے لیتی خوشی سے بولی تھی۔ وہ جو ابھی کچھ کہہ نے والا تھا اس کی خوشی پر چپ ہوگیا تھا۔
"یہ تو میں نے بہت پہلے آرڈر دیا تھا۔وہ خوشی سے اس ونڈ چائیم کو چلاتے بولی تھی۔ ونڈ چائیم کی بہت ہی خوبصورت آواز پورے لاونج میں گونجی تھی۔
"تم ہے اچھی لگتی ہیں اس طرح کی چیزیں۔ بہرام نے اسے خوش دیکھ کر مسکرا کر پوچھا تھا۔
"جی بہت اسپیشلی کانچ کی چیزیں جیسے یہ ہے ونڈ چائیم مجھے بیحد پسند ہے۔ وہ ونڈ چائیم کو پھر سے ہلاتی خوشی سے بولی تھی۔
"اب کہاں لگائوگی اسے۔ بہرام کے اندر ایک شور برپا تھا وہ زرناب کی طرف اتنا راغب کیوں ہورہا تھا اس کی خوشی میں وہ خوش کیوں ہورہا تھا۔ تب ہی وہ اندر کے شور سے ڈرتا پوچھنے لگا تھا۔
"یہی حال میں لگائو نگی میں۔ وہ کہتی ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی تھی۔ وہ رہی جگہ وہ ایک طرف اشارہ کرتی بولی تھی اور ونڈ چائیم وہیں آہستہ سے سوفے پر رکھ کر کرسی کھینچ کر اس طرف رکھ کر واپس ونڈ چائیم اٹھانے آئی تھی وہ اس کی ساری کاروائی بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ بلاآخر اس نے کیل پر وہ ونڈ چائیم بہت ہی آہستہ سے ٹانگ دیا تھا وہ پھر ایک دفاع اس کو ہلاتے کھکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ جس کی آواز پھر سے گونج اٹھی تھی۔اور تب ہی بہرام علی کی پوری دنیا ہی بدل گئی تھی۔
+++
"آپ کو پتہ ہے امی وہ دونوں بہت زیادہ اچھی تھی اور مجھ سے اتنے اچھے طریقے سے بات کی۔ رخشی اپنی ماں کے سامنے کل کی کاروائی دھرا کر بولی تھی۔
"یہ تم مجھے پچاسویں بار بتا رہی ہو۔ انہونے اکتا کر کہا تھا۔ تب ہی حسام بھی لاؤنج میں آکر بیٹھا تھا اور ان کی آخری بات سن کر ہنس پڑا تھا۔
"اب مہربانی کر کے تم نا شروع ہوجانا۔ وہ اس کے بیٹھے ہی بولی تھی۔
"نہیں نہیں میں نہیں کہہ تا مگر امی ایک بات ہے۔وہ آخر میں سنجیدگی سے بولا تھا۔
"کیا۔ وہ جو آلو کے کترے کر رہی تھی ان کے ہاتھ رکے اور اس کی طرف دیکھا۔
"وہ دونوں واقعی تھی بڑی اچھی۔ وہ کہہ کر قہقا لگا کر ہنس پڑا تھا جس پر رخشی نے بھی اس کا خوب ساتھ دیا تھا۔
"تم دونوں نا سدھرنا کبھی بھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتی کہہ رہی تھی۔
"اچھا امی میں کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر جانا چاہتا تھا اگر آپ اجازت دیں تو۔ وہ یکدم سنجیدگی سے بولا تھا۔
"کیوں۔؟ انہونے پوچھا تھا۔
"کچھ زمینوں کے کام سے ایک ہفتہ لگ جائے گا۔ وہ ہمیشہ سے ہی اپنی ماں اور باپ کی اجازت سے کہیں آتا جاتا تھا اس کے ہر کام میں اسے کے ماں باپ کی اجازت ہمیشہ درکار رہتی تھی وہ کوئی بھی کام ایسے ہی نہیں کردیتا تھا۔ اس نے اپنوں کو ہمیشہ ہر چیز سے بڑھ کر ترجیح دی تھی رخشی کو تو وہ اپنے ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھتا تھا اسے کچھ بھی ہو وہ برداشت نہیں کر پاتا تھا۔
"مگر بھائی میں تو بور ہوجائوگی آپ کے بنا۔ رخشی موں بنا کر کہا تھا۔
"پھر چلو نا تم بھی میرے ساتھ۔ حسام نے حل پیش کیا تھا۔ اس کی بات پر رخشی نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا جو کے خاموش تھی۔
"امی میں جائوں۔۔؟ اس نے پوچھا تھا۔
"چلو ایک ہفتہ تمھارے باپ کے ہر کام میں ہی کروں گی تم جائو حسام کے ساتھ۔ انہونے نرمی سے کہا تھا جب کے وہ دونوں حیران ہوئے تھے ان کو پتہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی وہ اجازت دے دینگی بلکہ وہ دونوں تو سوچ رہے تھے کہ ابھی نا کہہ دینگی۔
"یاہو۔ رخشی نے نارہ لگایا تھا جس پر حسام ہنس دیا تھا۔
++++
"نایاب اب بس بھی کردو تم اتنی بھی کیا ناراضگی کہا تو ہے سوری۔ پچھلے دو دنوں سے وہ زرناب کے ساتھ بات نہیں کر رہی تھی اور زرناب نے اسے منانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی مگر نایاب تھی کہ مان ہی نہیں رہی تھی۔
"تم جانتی بھی ہو تم نے کیا کیا ہے ایک تو گاڑی زور زبردستی سے مجھے کہا میں چلاتی ہوں اوپر سے ٹائر پنکچر کردیا اور تو اور تم سوچو اگر کوئی نا ہوتا اس وقت تو ہم کہاں جاتے تم یہ بات بھول کیسے گئی کہ ہم دونوں لڑکیاں ہیں۔ نایاب نے بلآخر چپ کا روزہ توڑا تھا اور وہ بولی تو بولتی چلی گئی تھی۔ جب کے زرناب خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔
"کب چلائی تھی تم دونوں نے گاڑی۔ کسی کی کھڑدر آواز پورے کمرے میں گونجی تھی۔ اور ان دونوں نے اچھل کر دروازے کی طرف دیکھا تھا ان دنوں کے پیروں سے زمین ہی نکل گئی تھی۔
"بہرام بھائی۔ نایاب نے ڈرتے ہوئے جیسے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا۔
"بہرام وہ اس دن ڈرائیور تھا نہیں تو اسی وجہ سے ہم دن کو نکلے تھے گاڑی لیکر نایاب نے ڈرائیو کی تھی پھر ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔ زرناب نے بروقت بات بنائی تھی۔
"تم دنوں کو کون چھوڑ کر گیا تھا۔ اس نے زرناب سے پوچھا تھا۔
"وہ ایک لڑکی مل گئی تھی رخشی اس نے۔ زرناب نے کہا جب کے نایاب تو ڈرتی ہوئی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی بہرام کے سامنے وہ کچھ بول نہیں سکتی تھی نا اسے نظریں ملا تی تھی۔
"نایاب تمھاری بیوقوفوں والی حرکتیں گئی نہیں ابھی خود تو گئی اور زرناب کو بھی لیکر گئی کوئی عقل نام چیز نہیں تم میں۔ اس نے سارا مغلبہ نایاب پر ڈال دیا تھا جب کے نایاب کا چہرہ بے عزتی سے سرخ ہوا تھا۔
"ہاں میں نے بہت روکا مگر یہ مانی نہیں۔ زرناب نے نایاب کو ایک آنکھ دبا بہرام کو شرارت سے کہا تھا۔ نایاب نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
"گاڑی کی چابی دو ابھی۔ بہرام نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔
"مگر۔ نایاب نے رندھے ہوئے لہجے میں کچھ کہہ نا چاہا۔
"جلدی۔ اس کی آواز اب کی بار بلند تھی۔ وہ جلدی سے اپنے کبڈ کی طرف بڑھی اور چابی لیکر اس کے ہاتھ پر رکھ دی تھی۔ وہ مٹھی بند کرتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا اور نایاب جو اتنی دیر سے ضبط کر رہی تھی باتھ روم میں گھس گئی تھی۔ اور وہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی اس نے کب سہے تھے ایسے لہجے مگر بہرام کے لہجے باتوں سے اس کا دل بری طرح دکھا تھا۔ کیا چیز ہے یہ محبت بھی محبت میں بھی ہمیشہ محبوب کے چند بول ہی کی ضرورت پڑتی ہے زرا سا تلخ کلام ہوجائے محبوب تو زندگی بیکار لگنے لگ جاتی ہے۔
+++
اگلے کئی پل یوں ہی سڑک گئے تھے وہ یوں ہی لیٹی ہوئی چھت کو گھور رہی تھی زرناب نے اسے معافی مانگ لی تھی جس کے جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ اس کی چند بول ہی اس کے دماغ پر اثرانداز کردیتے تھے وہ ہر روز اپنے آپ کو مظبوط کرنے کے جتن کرتی رہتی تھی اور وہ ایک سیکنڈ میں توڑ دیتا تھا۔ مگر وہ جانتی تھی کئی پل یوں ہی سڑک جائیں یا کتنی ہی سدیاں بیت جائے وہ اسے بھولنے والا نہیں تھا اس کا ہر لفظ اس کے دل پر نئے زخم کی طرح ثبت تھا۔ جس کو اس نے کبھی دور یا بھولنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ہاں انسو تھے جو ہر دفعہ نئے طریقے سے زار زار بہتے تھے۔ مگر وہ جانتی تھی یہ رات ہی روتے ہوئے گزرے گی اگلی صبح وہ پھر سے وہی نایاب ہنستی بولتی سب کے سامنے آنی تھی۔
+++
"مہناز ابھی آئی نہیں کیوں۔؟ نایاب صبح سے دن تک مہناز کا انتظار کرتی رہی مگر وہ آئی نہیں تو بلاآخر آکر پھپھو سے پوچھا تھا جو کہ موبائل پر مصروف تھی۔
"پتہ نہیں کل بھی نہیں آئی تھی اور آج بھی نہیں چھٹیوں پر چھٹیاں کر رہی ہے۔ پھپھو نے اسے دیکھ کر فون نیچے کیا اور کہا تھا۔
"پھپھو مجبوری بھی تو ہوسکتی ہے نا۔ نایاب بولی۔ تب ہی مہناز نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
"مہناز کہاں تھی تم اتنے دنوں۔ نایاب نے اسے آتے ہی پوچھا تھا۔ اس کی بات پر وہ ضبط کرتی کرتی روپڑی تھی۔
"ارے کیا ہوا تم ہے ادھر آئو۔ پھپھو نے پریشان ہوتے کہا اور اسے بلایا۔
"مارا ہے مجھے۔ اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا تھا نایاب نے دھل کر اسے دیکھا۔
"کس نے مارا ہے تم ہے۔؟ نایاب نے پوچھا۔
"ابا نے۔ وہ بولی تو دونوں خاموش ہوگئی تھی۔
"کیوں۔؟ پھپھو نے پوچھا تھا۔
"وہ وہ میری شادی کروانا چاہتے ہیں۔ اس نے آنسو پونچھ تے کہا تھا۔
"تو اس میں کونسی قباحت ہے کر لو شادی۔ نایاب نے کہا۔
"مگر مجھے وہ اچھا نہیں لگتا مجھے تو امتیاز اچھا لگتا ہے۔ وہ اب آہستہ آہستہ سنمبھل رہی تھی۔ ابا کہہ تے ہیں تم ہے اس بوڑھے شخص سے ہی شادی کرنی ہوگی ورنہ کہیں بھی نہیں مگر مجھے اچھا نہیں لگتا وہ مجھے امتیاز اچھا لگتا ہے۔ اس کے بولنے پر دونوں نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"وہ ہمارا ڈرائیور امتیاز۔ نایاب نے پوچھا۔ تو اس نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔
"کمال ہے تم نے اپنے باپ کو بتایا کہ امتیاز اچھا لگتا ہے تم ہے۔ پھپھو نے حیرانی سے پوچھا۔
"نہیں۔ اس نے کہا۔
"اچھا تم جائو کپڑے سلائی کروائے تھے تمھارے جا کر فریش ہوکر تبدیل کرو اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں۔ پھپھو کی ہدایت پر وہ باہر نکل گئی تھی۔
"پھپھو اس کا باپ تو کروا دیگا اس کی شادی۔ نایاب نے پریشان ہوتے کہا تھا۔
"ہوں کرتے ہیں کچھ۔ پھپھو نے پرسوچ نظریں غیر مرعی نقطے پر مرکوز کر کہ کہا تھا۔
"مگر کیا۔ نایاب نے پوچھا۔
"دیکھتی ہوں۔ فلحال تو کچھ دن ہیں ابھی۔ پھپھو کی بات پر وہ بھی کسی گہری سوچ میں گم ہو چکی تھی۔
+++
السلام و علیکم پیارے ریڈرز تو کیسی لگی آپ سب کو یہ دوسری قسط اپنی رائے کامنیٹ میں اظہار کریں آپ کی منفی مثبت رائے میرے لیے بہت اہم ہے۔
شکریہ۔
Also follow my instaa acc kashafwrites110
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top