مضبوط لفظ

"مجھے حق نہیں ہے نا کسی بھی چیز کا ہاں مگر بابا جب جواب مانگیں گے تو میں ان کو بتائوں گا کہ مجھے کس سے شادی کرنی ہے۔ وہ سارے دوست آج سی سائیڈ پر آئے ہوئے تھے اور گاڑیوں کے بونٹ پر چڑہے فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنکس سے لطف اندوز ہورہے تھے وہ بھی گاڑی کی ہی بونٹ پر اس کے بہت قریبی دوست میکائیل کے ساتھ بیٹھا کہہ رہا تھا۔

"پھر نایاب کا سوچا ہے تم نے۔۔؟ میکائیل نے پوچھا تھا۔

"نہیں مگر میں کیا کروں یار وہ بہت بیوقوف ہے اور زندگی گزارنے کے لیے میری نظر میں ذہانت بہت اہم ہے۔ بہرام بولا تو میکائیل نے بغور اسے دیکھا۔

"کہیں اس کے جزبات تم سے جڑے تو نہیں ایسا نا ہو بے خبری میں تم کوئی معصوم دل توڑ دو۔۔ میکائیل نے بہت پتے کی بات کی تھی۔ اس کی بات پر کچھ دیر وہ لاجواب ہوا تھا۔

"مگر مجھے کبھی ایسا محسوس ہونے نہیں دیا اور بچی ہے بالکل اسے کیا پتہ محبت کیا ہوتی ہے۔ بہرام نے کچھ دیر بعد نفی میں سر ہلایا تھا۔

"تم وہ ہی دیکھ رہے ہو جو دیکھنا چاہتے ہو جب کہ بہت کچھ تمھارے سامنے ارد گرد ہوگا جو کہ تم دیکھ ہی نہیں پا رہے۔ میکائیل نے کہا تو وہ ہنس پڑا تھا۔

"تم جانتے نہیں نایاب کو یار وہ بیوقوف ہے اور اسے کسی بھی چیز کا پتہ نہیں بلکے وہ بہت معصوم ہے اور میرے ساتھ ایسی حد درجہ معصومیت کہاں چل سکتی ہے زندگی ہے یار اور یہ ساری زندگی عقل مندی سے گزرانی ہوگی بچپنے میں نہیں۔ وہ کولڈ ڈرنک پیتے جیسے مسکرا کر بولا تھا مگر میکائیل ہنسا نہیں تھا وہ بس خاموش ہوگیا تھا اس کے کی نظروں کی زذ میں اب وہ خوب صورت سا چودھویں کا چاند تھا جو کے پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا مگر جانے کیوں میکائیل کو اس کی چمک مانند لگ رہی تھی جانے کیو۔؟

++++
حسام کا پروگرام شہر سے باہر جانے کا فلحال ملتوی ہوگیا تھا کیوں کی حسام کے بابا کو رات میں ہی دل کو دورا پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے بروقت ہاسپیٹل پہنچایا تھا رخشی اور ربیہ بیگم نے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے تھے وہ دونوں بہت زیادہ رو رہی تھی اور حسام کو انہیں سنمبھالنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ جیسے تیسے ان کا یہ کٹھن وقت گزرا اور بلاآخر حسام کو خبر ملی کے ان کے بابا اب کھترے سے باہر ہیں پھر کچھ دیر بعد رخشی اور ربیہ بیگم وہ وہی ہاسپیٹل چھوڑ کر کچھ کھانے پینے کی چیزیں لیکر آیا تھا۔ اس برے وقت میں اس کے دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ کوئی بہت اپنا ہوتا جو اسے سنمبھالتا جو اسے دلاسا دیتا مگر کوئی نہیں تھا۔ اپنوں کی ضرورت تو ہر کسی کو ہوتی ہے پھر چاہے مرد ہو یا عورت مرد کتنا سخت تلخ مزاج کا ہو بھلے وہ اپنے آپ کو کتنا بھی مضبوط دیکھانے کی کوشش کرے مگر اندر سے وہ وہی بچہ ہوتا ہے جو ہر دکھی بات پر اپنوں کے سامنے ڈھیر سارا رونا چاہتا ہے جس کہ اندر جھانک کر دیکھو تو ڈھیر سارے غم اندر ہی اندر پلتے رہتے ہیں۔ مگر مرد کبھی روتا نہیں کبھی بھی کراہتا نہیں بس چپ کر جاتا ہے کیوں۔؟ کیوں کی وہ مرد ہے اور بچپن سے لیکر بڑے ہونے تک وہ یہی سنتا آیا کے کہ وہ مرد ہو کر کیسے رو سکتا ہے۔

++++
"رخشی اب تو رونا بند کردو یار دیکھو بابا اب ٹھیک ہیں اور دوائوں کے زیر اثر سو رہے ہیں تم کیو خوامخواہ اپنے آپ کو ہلکان کر رہی ہو۔؟ حسام رخشی کو کب سے روتا دیکھ کر بول پڑا تھا جب کہ رخشی چپ ہونے کا نام ہی نا لے رہی تھی۔

"بھائی اگر اگر بابا کو کچھ ہوجاتا تو م م میں تو مر ہی جاتی۔ رخشی اس سے لپٹی ہچکیوں سے کہہ رہی تھی اور حسام نے سختی سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھی یہ اس کی بیبسی کی آخری حد تھی۔ تب ہی کسی نے دروازے پر دستک دی تھی اس آواز پر وہ دونوں ہی بیک وقت چونک پڑے تھے۔ ربیہ بیگم نماز پڑھنے گئی تھی ہاسپیٹل میں ہی ایک الگ سے چھوٹا کمرا بنا ہوا تھا جہاں اکثر عورتیں نماز پڑھ تی تھی۔

"السلام و علیکم۔

"ارے نایاب آئی ہے بھائی۔ رخشی نایاب کو دیکھ کر روتی ہوئی خوشی سے بولی اور اٹھ کر اس کے گلے لگ گئی تھی۔ حسام نے رخ موڑ لیا تھا رخشی کے آنسو اسے ہمیشہ ہی تکلیف پہنچاتے تھے۔

"بس رخشی دیکھو تو انکل سہی ہوگئے ہیں اب تم ایسے کروگی تو پھر کون ان کو سنمبھالے گا۔ نایاب نے اسے سمجھایا تھا۔ اور بہت دیر اس کے آنسو پونچھے تھے اس سارے وقت میں حسام باہر نکل گیا تھا۔

"تم نے کچھ کھایا ہے۔۔؟ نایاب نے دیکھا کہ رخشی اب چپ ہوگئی ہے تو یکدم پوچھا۔

"نہیں بھائی لیکر آئے تھے مگر مجھے اچھا نہیں لگا۔ رخشی نے بتایا۔

"پاگل ہو بالکل دو کھانا مجھے میں گرم کروا کر لیکر آتی ہوں۔ وہ اس کے سر پر چپت لگاتی اٹھ کھڑی ہوئی اور رخشی نے خفت سے اسے شاپرز دی تھی۔ وہ شاپرز لیتی باہر نکل گئی تھی اوون میں کھانا گرم کروا کر وہ کینٹین سے باہر نکلتی رخشی کے ہی پاس جارہی تھی کہ راستے میں ہی اس کو حسام کسی سے فون پر بات کرتا دیکھا تھا۔ تب ہی حسام کی بھی اسی پر نظر پڑی تھی اور الوداعی قلمات کہتا اس کی طرف بڑھا تھا۔

"آپ کو کچھ چاہیے تھا۔؟ حسام نے پوچھا۔

"نہیں بس کھانا گرم کروانا تھا تو باہر نکل آئی۔ نایاب کا لہجہ پہلی ملاقات کے نسبت نرم تھا۔

"آپ کو کس نے بتایا تھا بابا کے بارے میں۔؟ حسام کو اتنی دیر سے جو بات کٹھک رہی تھی بلآخر پوچھی۔

"میں نے رخشی کے فون نمبر پر کال کی تھی جو کہ کسی ملازمہ سے اٹھایا تھا اور پھر اسی نے بتایا کہ آپ کے بابا بیمار ہیں تو ہاسپیٹل کا پوچھ کر میں یہاں آگئی۔ نایاب نے تفصیل سے بتایا۔

"شکریہ آنے کے لیے۔ حسام زبردستی مسکرا کر بولا تھا۔ جو کہ نایاب نے صاف محسوس کیا تھا۔

"کوئی بات نہیں رخشی میری بہنوں جیسی ہے۔ نایاب نے کہا۔ اور اس سے اجازت لیتی اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بھی ہاسپیٹل سے باہر نکل آیا تھا۔ کھلی فزا میں سانس لینے۔

نایاب رخشی کو کھانا کھلا کر چند گھنٹے اور بیٹھی تھی اس کے پاس اور ربیہ بیگم کے ساتھ بھی وہ ملی تھی ان کو ڈھیر ساری تسلیاں دیکر ان سے میں پھر آئوں گی کہہ کر گھر جانے کے لیے باہر نکل آئی تھی ہاسپیٹل سے باہر نکلتے ہی اس کی نظر حسام پر پڑی جو بینچ پر بیٹھا کسی غیر مرعی نقطے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس تک پہنچی۔ حسام پھر بھی نا چونکا تھا۔

"آپ کے بابا ٹھیک ہو جائیں گے۔ نایاب نے آہستہ سے ہی سہی مگر وہ تسلی دی تھی جو کہ حسام کتنی دیر سے چاہہ رہا تھا کہ کوئی اس کو بھی تسلی کے دو حروف بولے۔اس کی بات پر سر اٹھا کر حسام نے نایاب کو دیکھا تھا۔

"مگر ان کی حالت بہت خراب ہے۔ وہ بھاری آواز میں بولا تھا۔

"تو کیا ہوا اللّٰہ ہے نا اس کے یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں آپ اللّٰہ پر بھروسہ رکھیں انشاءاللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نایاب اسے کسی بڑے کی طرح سمجھا رہی تھی۔ اس کی بات پر حسام کی آنکھوں میں جو جوت بجھ گئی تھی یکدم امید کرن نظر آنے لگی تھی اور نایاب نے یہ صاف محسوس کیا تھا۔ وہ حیران تھی کہ اتنے بڑے وجیہ مرد کو بھی تسلی کے چند حروف چاہیے ہوتے تھے۔

"تھینکیو۔ حسام نے ممنوعیت سے پر کہا۔

"مگر کیو۔۔؟ نایاب نے ناسمجھی سے پوچھا۔

"آپ چند حروف ہی میرے بہت کچھ ہیں میں آہستہ آہستہ امید کی کرنیں کھو رہا تھا مگر آپ نے میری حمت باندھی ہے۔ حسام نے کہا تو نایاب کو احساس ہوا اس سارے واقعے میں اس کا کوئی بھی اپنا اسے نظر نہیں آیا تھا سوائے ربیہ بیگم اور رخشی کے۔

"میں چلتی ہوں۔ نایاب نے یکدم کہا تھا۔

"کیسے جائیں گی آپ۔؟ حسام نے پوچھا۔

"گاڑی لیکر نہیں آئی میں ٹیکسی سے جائوں گی۔نایاب نے بتایا اور پیچھے مڑی تھی۔

"میں ڈراپ کردیتا ہوں آپ کو۔ حسام نے فورن آفر کی تھی۔

"نو تھیکس۔ نایاب کو اس کی بات بہت کھلی تھی تب ہی سرد لہجا اپناتے یک لفظی جواب دیکر وہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔

"عجیب ہیں آپ بھی۔حسام کے لبوں سے بی اختیار پھسلا تھا مگر سد شکر کے نایاب نے سنا نہیں تھا۔ حسام کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا تھا وہ اس کے پیچھے نہیں گیا تھا وہ جانتا تھا اب اگر وہ زیادہ فورس کرے گا تو جو کچھ دیر پہلے نرمی سے بات کر رہی تھی وہ بھی نہیں کر رہی تھی اور نایاب کا سرد لہجہ اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔

+++
بہت ہی خوبصورت سا ہلکا گلابی رنگ کا جوڑا جس نفیس سا کام ہوا ہوا تھا اور ساتھ میں خوبصورت مگر بہت کم جویلری پہنے ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت ہی خوبصورتی سے سہج سہج کر قدم اٹھاتی سیڑھیاں اتر رہی تھی کے اس کا پاؤں لڑکھڑایا اور پھر کسی نے پیچھے سے کسی نے تھام نے کی کوشش کی تھی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی۔

"آہہ۔ وہ ایک زور دار چیخ سے ہڑبڑا کر اٹھی ارد گرد نظر دوڑائی جہاں نایاب نیند خرگوش کے مزے لے رہی تھی اتنی نیند کہ اس کے چیخ نے پر بھی نا اٹھی۔"اف خواب تھا" وہ یہ کہتی گہرے گہرے سانس لیتی اپنے آپ کو پرسکون کرنے لگی مگر بے سود اس کمرے میں یکدم گھٹن محسوس ہوئی وہ تیزی سے کمبل پرے کرتی کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ اور کچن میں آتے فرج سے بوتل نکال کر پی اور لان میں نکل آئی تھی۔

"یااللّٰہ میں سچ میں تو گرنے والی نہیں۔ وہ دور آسمان کو دیکھتی کہہ رہی تھی اور اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑی تھی۔"میں بھی نا۔آسمان پر آدھے چاند کی روشنی پورے لان میں پڑ رہی تھی لائیٹس ساری بند تھی اور ایسے پٌر اندھیرے میں صرف ایک چاند کی روشنی تھی جو کہ اسے بہت بھلی لگ رہی تھی وہ مبہوت سی چاند کو دیکھ رہی اکثر وہ اس منظر میں کھو جایا کرتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ یک ٹک اوپر دیکھ رہی تھی۔ کہ کسی کے آنے کا ادراک بھی اسے نا ہوسکا۔

"زرناب۔؟
وہ پکار مانوس سی تھی زرناب نے پلٹ کر دیکھا تو چونک پڑی "بہرام"

"تم یہاں اس وقت خیر تو ہے۔ بہرام نے پوچھا۔زرناب کو یکدم اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ کیسے ایسے ہی کمرے سے نکل آئی تھی وہ بھی اس وقت۔

"میں بس یوں ہی آئی تھی نیند نہیں آرہی ہے مجھے۔ زرناب نے دیکھا کے وہ منتظر نگاہوں سے اس کے جواب کا انتظار کر رہا ہے تو بلاآخر بولی۔ اب ٹینشن سے اس کے چہرے پر خوف کے کئی سائے لہرائے تھے جو کہ بہرام سمجھنے سے کاثر تھا۔

"اچھا تم ہے بھی نیچرل چیزیں بہت پسند ہیں۔ وہ دلچسپی سے پوچھ رہا تھا۔ اور زرناب کو لگا اب وہ مزید یہاں رکی تو اس کا ہاڑٹ فیل ہوجائے گا کیو کی باہر کی بات کچھ اور تھی مگر اس گھر کے اصول کچھ اور تھے یہاں رات کے اس وقت کسی بھی لڑکے سے بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا پھر چاہے وہ گھر کا ہی لڑکا کیوں نا ہو۔

"مجھے نیند آرہی ہے۔ وہ بولی اور مزید ایک لمحا بھی ضیاء کیے بنا لمبے لمبے قدم اٹھاتی اندر کی طرف بڑھ گئی تھی۔

"رکو۔ بہرام نے بھاری آواز میں کہا تھا۔ تو وہ رک گئی تھی مگر پلٹی نہیں تھی۔

"یہ جو تم جارہی ہو وہ بھی ڈر کے کہ کہیں کوئی دیکھ نا لے تو اس بات کا مطلب میں کیا سمجھوں کیو کی یہ باتیں تو وہیں سوچی جاتی ہیں جہاں کوئی بات اندر ہی اندر پل رہی ہو۔ بہرام نے سنجیدگی سے پر لہجے میں کہا تھا اور زرناب فورن پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔

"میرے دل میں نا کوئی ایسی بات ہے نا ہوگی کیوں کی مجھے اپنی حدیں بہت اچھی طرح سے پتہ ہیں میں یہاں سے اسی لیے جارہی تھی کہ ظاہری ہے آپ سب لوگوں نے ہی یہ خود ساختہ اصول بنائے ہیں تو مجھے فالو کرنے ہوں گے۔ وہ ایک منٹ میں وہی کانفیڈنٹ سی زرناب سامنے آئی تھی اور وہ یہ کہہ تی رکی نہیں تھی اندر چلی گئی تھی مگر اس دفاع جلدی میں نہیں مظبوط قدم اٹھاتی آہستہ آہستہ سے۔ اور بہرام کو اس کا یہ انداز بہت ہی بھلا لگا تھا۔

+++
"پھپھو ایسے تو ٹھیک نہیں نا بیچاری مہناز ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ نایاب جیسے ہی ہاسپیٹل سے آئی تھی یہی بات لیکر بیٹھی تھی۔

"میں بہرام سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ اس کے باپ سے بات کرے مگر۔ پھپھو اپنی بات کہتی آخر میں خاموش ہوگئی تھی۔

"مگر کیا پھپھو۔ نایاب ہو تفیش ہوئی۔

"بہرام بہت جذباتی ہے پتہ نہیں کیا کر ڈالے۔ پھپھو نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

"تو پھر کون کر سکتا ہے بات۔ نایاب نے سوچتے ہوئے کہا۔

"بات کرنے سے کیا پتہ بات نہ بن پائے الٹا بگڑ جائے پھر کہاں جائے گی بیچاری مہناز۔ پھپھو نے کہا تو نایاب کو اور بھی زیادہ ٹینشن نے گھیرا۔

"تمھاری نظر میں کوئی ایسی دوست نہیں جس کا بھائی بات کرے اور تحمل کا بھی مظاہرہ کرے۔ پھپھو نے پوچھا۔

"نہیں پھپھو میں ایسے ہی کسی دوست کو نہیں کہہ سکتی اور اگر کہہ دوں تو کیا گارنٹی ہے کہ کچھ ہوگا نہیں۔ نایاب نے کہا اور پھر سوچ نے لگی۔

"ابھی تم گئی تھی نا رخشی سے ملنے اس کا بھائی ہے۔؟ پھپھو نے پوچھا۔

"ہاں حسام تھوڑی بہت بات ہوئی تھی میری۔ نایاب نے بتایا۔

"تو اس سے نہیں کہہ سکتی کچھ دنوں میں جب تک اس کے بابا سہی ہوجائیں۔

"مطلب رخشی کو یا حسام کو۔؟ نایاب نے پوچھا۔

"رخشی کو۔

"اوکے میں سوچتی ہوں اس بارے میں۔ نایاب نے کہا اور کسی غیر مرعی نقطے پر نظریں جما دی۔

"نایاب تم ہے پتہ ہے بہرام آیا تھا میرے پاس۔ پھپھو کے بتانے پر اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی۔

"اچھا مگر آپ مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔؟ نایاب نے کہا جب کہ بہرام کا ذکر اسے بہت بھلا لگا تھا۔

"زرناب کی تعریفیں کرگیا میرے ساتھ اور ساتھ میں ڈھیر ساری برائیاں بھی۔ وہ ہنستی بولی تھی۔

"اچھا۔ اس دفعہ وہ چہکتا ہوا لہجہ مدہوم ہوگیا تھا۔

"ہاں زرناب ہے بھی بہت اچھی نا تو کوئی کیوں نا کرے تعریف۔ پھپھو نے اپنی بیٹی کا ذکر فخر سے کیا تھا۔ اور نایاب کئی پل انہیں ٹکر ٹکر دیکھتی رہی تھی۔

"مجھے چین کبھی پڑتا ہی نہیں
"سکون کا سانس کبھی میں نے لیا ہی نہیں۔
"ہر کوئی آتا ہے کہہ جاتا ہے اپنی۔
"میری اور کوئ دیکھتا ہی نہیں
"بندش تھی میری باری پر ہر تعلق کی طرف سے
"پھر آخر میں کہانی کے ختم ہوتے ہی گلاب کے پھول
بچھ گئے مٹی کے ڈھیر پر

(کشف)

+++++

"ٹھک ٹھک۔ دروازے کی ناک پر بہرام نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا۔ اور اجازت دی۔ تو نایاب کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔

"نایاب سب خیر۔؟ بہرام نے تفتیش سے پوچھا۔ نایاب جو کہ ہاتھ مسل رہی تھی اور اپنا کانپنا قابو کر رہی تھی اس کی بات پر اور نروس ہوگئی تھی۔

"وہ وہ تایا ابو۔

بہرام نے کوفت سے اسے یوں نروس ہوتے دیکھا مگر پھر بھی ضبط کر کہ چپ کھڑا اس کی بات مکمل کرنے کا انتظار کرنے لگا۔

"تایا ابو آپ کو بلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی چیز کا پچیس دن کے بعد فیصلہ بولا تھا آپ کا اگر وہ فیصلا ہوچکا ہو تو آپ تشریف لائیں ان کے کمرے میں۔ نایاب نے اٹک اٹک کر بلاآخر اس تک پیغام پہنچایا تھا۔ اور بہرام نے چونک کر اسے دیکھا تھا اور کچھ کھوجنا چاہا تھا مگر بہرام کو نایاب کے چہرے پر سوائے معصومیت اور بیوقوفی کے کچھ نظر نہ آیا تھا۔

"نایاب کیا تم جانتی ہو کہ یہ کونسا فیصلہ ہے۔ بہرام جانے کیا جاننا چاہتا تھا۔

"نہیں نہیں تو۔ نایاب نے لاعلمی کا مظاہرہ کیا جو کے واقعی سچ تھا وہ بھول چکی تھی کہ بہرام اور اس کے فیصلے پر پچیس دن دیے تھے تایا نے۔

"کیا تم جاننا چاہتی ہو۔؟ بہرام نے سنجیدگی سے کھوجتی نظریں اس پر مرکوز کیے پوچھا تھا۔ اور اس بار نایاب جو سر نیچے کیے ہوئی تھی یکدم چونک کر سر اٹھایا تھا وہ ایسے کیوں پوچھ رہا ہے۔؟ دل میں سوال جاگا تھا۔

"نہیں آپ کا پرسنل معاملہ ہے۔ نایاب نروس تو بہت تھی رنگ بھی اس کا سرخ ہورہا تھا مگر کہنا بھی ضروری تھا۔

"اچھا یہ سب چھوڑو تم مجھے یہ بتائو میں کیسا لگتا ہوں تم ہے۔؟ بہرام نے پھر دوسرا پتہ پھینکا۔ اور اس سوال پر نایاب دنگ رہہ گئی تھی۔ وہ کیا جاننا چاہتا ہے۔؟ جواب میں کیا کہنا چاہیے اس کو نایاب نے سوچا۔

"بہنوں اور بھائیوں کیا میں اندر آسکتی ہوں۔ زرناب نے باآواز بلند کہا اور دروازہ جو کے کھلا ہوا تھا اس سے نایاب کی طرف آئی۔ بہرام اور نایاب نے بیک وقت اسے دیکھا تھا نایاب نے سکھ کا سانس لیا جب کے بھائی کہنے پر بہرام بدمزہ سا ہوا۔

"تم یہاں ہو اور میں پورے گھر میں تم ہے ڈھونڈ رہی ہوں چلو یار۔ زرناب رات والی زرناب سے بہت مختلف لگ رہی تھی اس وقت چہکتی خوش مزاج سی۔ نایاب اس کا ہاتھ پکڑتی باہر ہی جارہی تھی کہ بہرام کی آواز پر دونوں نے رکھ موڑ کر اسے دیکھا۔

"کچھ ہی دیر میں کچھ ہوگا اور وہ بھی بڑا تو تیاری پکڑ لیں۔ بہرام کا لہجہ شرارت سے پر تھا۔

"آہا پھر انتظار رہے گا۔ زرناب نے چہک کر مسکرا کر کہا جب کہ نایاب کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے آج ہی اس کی جان پرواز ہونی لکھی تھی۔

مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ تقدیر نے اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔؟

جاری ہے۔

++++++)
السلام علیکم امید کرتی ہوں خیریت سے ہونگے تو جی کیا لگتا ہے آپ کو کیا تھام لیگا بہرام نایاب کا ہاتھ یا پھر ہوگا کچھ اور۔؟ سوچیں سوچیں اور کمینٹ میں اپنی رائے کا اظہار کریں مجھے بے انتہا آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اگر اس دفاع کمینٹ نا آئے تو میں قسط نہیں دوں گی۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top