فیصلہ

"پھپھو میں محبت کرتی ہوں اس سے۔ وہ اس وقت پھپھو کے کمرے میں ان کی گودھ میں سر رکھے چھت پر نظریں مرکوز کیے کہہ رہی تھی پتہ نہیں کیوں آج دل بوجھل بوجھل سا ہورہا تھا اس کا تب ہی وہ پھپھو کے پاس آگئی تھی پھپھو سے کوئی بھی بات اس کی چھپی نہ تھی ہر چیز پھپھو کو پتہ تھی یہ بھی کہ بہرام سے نایاب نے کتنی محبت کی تھی۔

"اگر تمھاری محبت سچی ہوگی تو ضرور ملے گی تم ہے۔ پھپھو نے اسے تسلی دینی چاہی تھی۔

"مگر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میری محبت مجھے نہیں ملے گی جیسے کچھ بچے گا نہیں میرے ہاتھ میں یہ پیاس بھرا سحرا پیاسا ہی رہہ جائے گا جس کہ پیچھے میں ننگے پیر بھاگ رہی ہوں وہ شخص مجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا جائے گا یہ جو میں بولائی بولائی پھرتی ہوں اس کی محبت میں پور پور بھیگی یکدم سے مجھے پتہ چل جائے گا کہ یہ محبت تو کبھی میری تھی ہی نہیں۔ نایاب کہتی ہوں آخر میں چپ ہوگئی تھی کئی آنسو پھپھو کی گود بھگو گئے تھے۔

"کیوں کرتی ہو ایسی باتیں کیا ہوگیا ہے تم تو بہت پر اعتماد تھی نا۔؟ پھپھو نے دہل کر پوچھا۔

"ابھی بھی ہوں پھپھو مگر میری چھٹی حس مجھے بار بار سگنل دے رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ نایاب نے اپنا خدشہ بیاں کیا تھا۔ تب ہی دروازے کی دستک نے دونوں کو چونکایا تھا۔ کچھ دستکیں ہوتی ہیں جن کو ہم کبھی بھی سننا نہیں چاہتے کیوں کی کچھ دستکیں ہماری روح چھیننے کی روادار ہوتی ہیں۔نایاب اس دستک کو پہچانتی تھی مگر یکدم سے وہ دعا مانگنے لگی تھی کہ اللّٰہ کرے یہ دستک رک جائے یا کوئی خواب ہو تو اس کی آنکھیں پٹ سے کھل جائیں بیدار ہوجائیں مگر ایسا ہوا نہیں تھا۔ پھپھو نے اجازت دی تو آنے والا اندر داخل ہوا۔

"بہرام۔؟ نایاب نے ساکت سی نظروں سے اسے دیکھا۔ جب کہ وہ اسے یوں گود میں لیٹا دیکھ ٹھٹکا تھا مگر پھر سر جٹھکتا آگے آیا تھا۔

"پھپھو آپ بابا کے پاس جائیں۔ بہرام نے کہا۔

"کیوں بلا رہے ہیں کیا مجھے۔؟ پھپھو نے پوچھا تھا۔

"نہیں مگر آپ جائیں بابا کے پاس۔ بہرام کا لہجہ پریشانی سے پر تھا۔

"بہرام بھائی ٹھیک تو ہے نا۔؟

"ہاں وہ ٹھیک ہیں مگر۔ بہرام نے بات آدھی چھوڑ دی تھی۔ شاید نایاب کی موجودگی کا خیال آگیا تھا۔

"مگر کیا جلدی بولو تم پریشان کر رہے ہو مجھے۔ پھپھو نے تفتیش سے دریافت کرنا چاہا تھا۔ مگر بہرام نے نایاب کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا تھا کہ وہ کیسے بولے کیوں کی نایاب گود سے اٹھتی نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی۔

"نایاب کے سامنے تم بولو یہ بھی بچی ہے میری کسی کو نہیں بتائے گی۔ پھپھو نے کہا۔ تو بہرام نے الفاظ مجتمع کیے اور گلا کنکھارا تھا۔

"پھپھو میں آپ کا بیٹا ہوں نا۔؟ ہمیشہ ماں سے بڑھ کر پیار محبت دیا ہے آپ نے مجھے اور آج آپ کو میرے لیے کچھ اہم فیصلہ کرنا ہوگا کیا کریں گی آپ۔؟ بہرام کہہ کر چپ ہوا تھا۔ جب کے نایاب نے سر اٹھا کر پہلے بہرام کو پھر پھپھو کو دیکھا تھا جن کا چہرہ سپاٹ ہوگیا تھا۔

"کیا چاہتے ہو تم۔؟ پھپھو نے پوچھا۔

"شادی۔ بہرام کا جواب یہ لفظی۔

"کس سے۔؟ پھپھو جیسے اس کا دماغ پڑھ رہی تھی۔

"زرناب سے۔ بہرام نے بنا توقف کہ کہا تھا۔ اور کمرے میں مکمل طور پر سکوت چھا گیا تھا۔ کئی پل یوں ہی سڑک گئے تھے پھپھو نے چہرہ موڑ کر نایاب کو دیکھا تھا جس کا چہرہ ساکت ہوگیا تھا جیسے کوئی جیتا جاگتا انسان یکدم پتھر کا ہوگیا ہو۔

"تمھارا دماغ ٹھیک ہے۔ پھپھو نے بمشکل کہا تھا۔

"کیوں آپ ہی تو کہتی تھی نا کہ زرناب سے شادی کر لو بار بار کہتی رہتی تھی پھر آج یہ کیوں کہہ رہی ہیں۔ ان کی بات پر بہرام کو تپ چڑھی تھی جب کے نایاب پر گہرا انکشاف ہوا تھا مگر اسے ہوش ہی کہاں تھا وہ یک ٹک بہرام کو دیکھ رہی تھی بنا پلک جھپکتے جیسے جیسے یہ خواب تھا یا کچھ اور مگر حقیقت تو ہرگز نہیں ہوسکتی تھی ایسے کیسے اتنی دعائیں کی تھی پھر قبول کیوں نا ہوئی تھی کیوں۔؟ وہ آہستہ سے بیڈ سے اتری تھی اور بنا کسی کی طرف دیکھے کمرے سے باہر نکل گئی تھی پیچھے بہرام کچھ اور بھی کہنے لگا تھا اس کے جانے پر چپ ہوگیا تھا اور الجہن بھری نظروں سے پھپھو کو دیکھا تھا۔

"پھپھو سمجھیں نا بات کو آپ بابا سے بات کریں زرناب اور میں بیحد خوش رہینگے قسم سے۔ بہرام نے ان کہ پاس بیٹھ کر بہت منت سے کہا تھا۔ اور پھپھو جو اتنے سالوں سے خواب دیکھ رہی تھی کہ وہ آکر کہے گا اس خواب کے پورے ہونے پر خوش بھی نا ہوسکی۔ کچھ خواب ہم کتنی چاہ کتنے مان سے دیکھتے ہیں اور جلد از جلد انہیں پورا کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے ہیں۔ مگر جب بلاآخر وہ خواب پورا ہو ہی جاتا ہے تو اس کا چہرہ کتنی بھیانک شکل اختیار کرتا ہے اور پھر ہماری زندگیوں میں کاش ہی رہہ جاتا ہے کہ کاش میں یہ ہونے کی خواہش ہی نہیں کرتی یہ خواب ہی نہ دیکھتی۔ اور پھپھو بھی بہرام دیکھتی یہی سوچ رہی تھی کہ کاش یہ خواہش یہ خواب انہونے کبھی دیکھا ہی نہ ہوتا کاش۔۔!!

"اور نایاب۔؟ پھپھو نے اتنی دیر کے بعد کہا بھی تھا تو کیا۔۔؟

"نایاب کو مجھ سے کوئی بہت اچھا مل جائے گا مگر سوری وہ اچھا میں نہیں بن سکتا ہمارے ذہن بہت بہت زیادہ الگ ہیں سمجھیں نا آپ۔ بہرام نے بیبسی سے پر لہجے میں کہا تھا۔ اور پھپھو اس کو دیکھتی ہی رہہ گئی تھی۔

++++

وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی تھی یکدم کمرے کو لاک لگا لیا تھا اور بیڈ پر آکر تقریبن گرنے کے انداز سے بیٹھی تھی۔ وہ ابھی تک شاک میں تھی کہ زرناب کا نام بہرام لے سکتا ہے۔ کیا واقعی میں کہیں بھی نہیں تھی۔ وہ چلتی ہوئی آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔اور ٹکر ٹکر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے لگی تھی۔

"میں خوبصورت نہیں ہوں۔؟اس نے اپنے آپ سے پوچھا تھا اور چہرے پر ہاتھ لگایا تھا۔ نہیں میں خوبصورت نہیں ہوں۔ میں بہت بری ہوں میں میں بہت بہت زیادہ بری ہوں۔ وہ جیسے سمجھنے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔ کوئی اس کی حالت دیکھتا تو آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ اس کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور پھر وہ بے تاثر سی چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آکر رکی تھی اور بے اختیار اس کی نظر بڑی کیلی گرافی پر پڑی تھی جو اس کے بیڈ کے اوپر ہی لگی ہوئی تھی جس پر بہت زیادہ بڑے الفاظوں میں اللّٰہ لکھا ہوا تھا وہ ٹکر ٹکر اس فریم کو دیکھتی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔

"اللّٰہ آپ میرے ساتھ ایسا تو نہیں کرسکتے۔ وہ بلک بلک کر کہہ رہی تھی پورے کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھی۔

+++)
پورے گھر میں ایک عجیب سا سکوت پھیلا ہوا تھا جیسے کسی کی موت کے بعد ہوتا ہے مکمل گہرا سکوت ہر کوئی اپنے اپنے کمرے میں بند کسی نا کسی ٹینشن میں مصروف تھا مگر ایسے میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو کہ بہت زیادہ خوش تھا اور وہ تھی زرناب۔ زرناب بہرام کی پرسنلٹی سے تو ہمیشہ متاثر رہی تھی اور جب اسے یہ پتہ چلا تھا کہ زرناب کا نام لیا ہے بہرام نے رشتے کے لیے تو وہ کھل اٹھی تھی یہ اس کی بن مانگی دعائیں تھی جو کہ پوری ہورہی تھی۔ موسم بہت خوش گواریت لیے ہوئے تھا کالے بادل اس بات کا صاف پتہ دے رہے تھے کہ اگلے کچھ ہی منٹ میں بارش ہونے والی تھی۔ تب ہی شام کے پانچ بجے بھی ہر اندھیرا سا ہورہا تھا زرناب باہر لان میں نکل آئی تھی۔ اور کچھ ہی دیر میں بہت سارے بادل گرج اور برس رہے تھے۔

"ہائے اللّٰہ نایاب کو بلا آتی ہوں۔ وہ خوشی سے ایکسائیٹڈ سی نایاب کے کمرے میں آئی تھی۔ جہاں نایاب گھٹنوں میں منہ دیے بیٹھی تھی۔

"نایاب کیا ہوا ہے۔؟زرناب نے پریشانی سے پوچھا۔ اور آگے بڑھ آئی۔ نایاب نے پھر بھی سر نہ اٹھایا اس وقت پتہ نہیں کیوں اکتاہٹ ہورہی تھی اسے۔

"نایاب میں تم سے پوچھ رہی ہوں کچھ۔

"ہاں ہاں سن لیا ہے میں نے ٹھیک ہوں میں اکیلا چھوڑ دو مجھے پلیز۔ نایاب نے یکدم سر اٹھا کر بلند آواز میں کہا تھا۔ اس کے لہجے پر زرناب دنگ رہہ گئی تھی۔

"کیوں ایسے پیش آرہی ہو میں نے کیا کیا ہے۔؟ زرناب نے رونے والی شکل بنا کر کہا تھا۔ نایاب کو فورن اپنے رویے کا احساس ہوا۔

"سوری میں بس کچھ ڈسٹرب تھی تو اسی وجہ سے۔ نایاب نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔ زرناب اسے ٹکر ٹکر دیکھتی یکدم اس کی کلائی پکڑی تھی۔

"اللّٰہ اتنا تیز بخار۔ زرناب چیخ ہی تو پڑی تھی۔

"تم اٹھو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں اتنا تیز بخار اللّٰہ۔ زرناب نے دہائی دی اور اس کی کلائی پکڑی تھی۔

"نہیں پلیز میں ٹھیک ہوں بس کچھ میڈسنز لونگی اور بھی ٹھیک ہو جائوں گی۔ نایاب نے منع کیا اور واپس بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔

"یہ فیصلہ کرنے والی میں ہوں تم نہیں کہ تم ٹھیک ہو یا نہیں۔ زرناب آبرو اچکا کر کہا۔ اور اسے زبردستی چادر اڑھاتی باہر نکل آئی تھی۔ نایاب میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اس سے مزید بیحس کر سکے اسی لیے خاموشی سے چل پڑی تھی۔ باہر بارش بہت زور پکڑ چکی تھی۔ تم ڈرائیو کر لوگی۔؟ زرناب نے اس کی حالت کے بائث پوچھا تھا۔ نایاب نے سر ہلا دیا تھا۔
++++

وہ دونوں ڈاکٹر کو دیکھا کر میڈیسن لیتی جیسے ہی باھر نکلی تھی نایاب کو بروقت چکرسا آیا تھا اور وہ لڑکھڑا سی گئی تھی جس پر کسی نے بروقت سنمبھالا تھا۔ نایاب نے چکراتا سر اٹھا کر دیکھا تو یکدم ٹھٹک گئی تھی۔زرناب جو آگے نکل گئی تھی اپنے ساتھ نایاب کو نا پاکر فورن پلٹی تھی۔

"ارے حسام۔ زرناب حیرانی سے کہا تھا۔ تو وہ جو نایاب کو یوں مرجھایا چہرہ دیکھ کر حیران تھا زرناب کے بلانے پر فورن اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اور فورن سر ہلایا تھا۔

"انہیں کیا ہوا ہے۔؟ حسام نے ڈائریکٹ زرناب سے پوچھا کیوں کہ نایاب تو بتانے والوں میں سے تھی نہیں۔

"اسے افف اتنا تیز بخار اوپر سے میڈم کسی کو بتا بھی نہیں رہی۔ زرناب کے بتانے پر حسام نے نایاب کو دیکھا جو کہ مکمل لاتعلق سی کھڑی بہت ہی اجنبی سی لگی تھی۔

"میں ڈراپ کردوں آپ دونوں کو۔؟ حسام نے کچھ مزید کہنے کا ارادہ ترک کر کے فورن پیش کش کی تھی۔ تب ہی زرناب کا فون بجا تھا۔

"ایک منٹ۔ زرناب نے کہا اور تھوڑا دور جاکر کال سننے لگی۔

"میرا خیال ہے ہمیں گاڑی میں بیٹھنا چاہیے۔ حسام نے کہا تھا۔

"ایس کیوس می ہمیں نہیں صرف مجھے اور میں خود ڈرائیو کر کہ جاسکتی ہوں۔ نایاب کا لہجہ یکدم سے کڑوا ہوگیا تھا۔اور پھر وہ بنا اس کی طرف دیکھے آگے بڑھ گئی تھی مگر کچھ ہی قدم چلنے پر اس کو زور کا چکر آیا تھا۔"اللّٰہ" یکدم وہ آگے بڑھا تھا مگر ہاتھ کے اشارے سے نایاب نے اسے وہیں روک دیا تھا اور وہ چلتی ہوئی ڈرائیونگ سیٹ پر جاکر بیٹھی تھی۔حسام یہ جانتا تھا وہ کسی بات کو لیکر پریشان ہے مگر کونسی بات یہ وہ سمجھنے سے کاثر تھا تب ہی اس کے پاس جانے کے بجائے وہ اپنی گاڑی میں آکر بیٹھا تھا اور زرناب کو بھی گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا دونوں کی گاڑی آگے پیچھے ہوتی اپنے اپنے آشیانے کی طرف لوٹ رہی تھی۔

+++
بہت وقت بیت چکا تھا بہرام کے بابا نے اس رشتے سے فورن انکار کردیا تھا جس پر پھپھو بہرام چپ سے ہوگئے تھے جب کہ نایاب کو اپنے اللّٰہ کے سامنے رونا یاد آیا تھا اور وہ یکدم خوش ہو اٹھی تھی کہ اتنی جلدی اس کی دعائیں قبول ہوگئی تھی اندر باہر یکدم سکون سا اترا تھا۔ مگر زرناب جس نے بہت سارے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیے تھے یکدم اس کے ٹوٹنے پر خاموش سی ہوگئی تھی وہ شوخ سی زرناب کہیں گم ہی ہوکر رہہ گئی تھی آج کل وہ بہت ہی کم کسی سے مسکرا کر بات کرتی تھی بس اپنے آپ میں بزی رہتی تھی۔ اس وقت بھی وہ خاموش سی کچن میں آئی تھی اور فرج سے بوتل نکال کر پانی پیا تھا۔ چونکہ آدھی رات تھی تو سب سو رہے تھے ایسے میں رات کا کھانا نا کھانے کے بائث اب اسے بھوک کا شدید احساس ہوا تھا۔ مگر ابھی وہ کچھ بنانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ کسی کی آہٹ پر چونک کر مڑی تھی۔ بہرام کو دیکھ کر اس کی دھڑکنیں عجیب سا رقص کرنے لگی تھی جس کو فلحال وہ سمجھنے سے کاثر تھی۔ کئی پل یوں ہی سڑک گئے تھے بلاآخر بہرام نے پہل کی تھی۔

"تم اس وقت۔؟ بہرام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

"جی وہ میں بھوک لگی تھی مجھے۔ زرناب نے کہا اور کچن کے کبڈ کھولنے لگی تھی اور بلاآخر میکرونی نکال کر وہ گیس پر چڑھا کر ان کے ابل جانے کا انتظار کرنے لگی تھی۔ بہرام بہت ہی دلچسپی سے اس کی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔ جب کچھ دیر گزری اور بہرام کو وہی کھڑا پایا تو زرناب نے پلٹ کر بہرام دیکھا۔

"آپ کو کچھ چاہیے۔؟ زرناب نے پوچھا۔

"ہاں۔ بنا توقف کہ جواب آیا تھا۔

"کیا۔؟ زرناب نے سوالیاں نظروں سے اسے دیکھا۔

"تم۔ بہرام کے منہ سے پھسلا۔

"جی۔؟ زرناب بری طرح کنفیوز ہوئی تھی۔

"میرا مطلب تمھارے میکرونی بھوک لگی ہے مجھے بھی۔ بہرام نے بروقت بات بنائی تھی۔ زرناب نے سکھ کا سانس لیا اور سر ہلایا تھا۔ اور میکرونی کا بنا الگ سے مکسچر میکرونی میں مکس کرنے لگی تھی۔ بہرام وہی رکھی کرسی ٹیبل پر جاکر بیٹھا تھا اور اپنا سر کرسی پر ٹکا کر آنکھیں موند لی تھی۔ زرناب پلٹ کر بغور اسے دیکھنے لگی تھی اٹھی ہوئی مغرور ناک خوبصورت برائون آنکھیں جو ابھی موندی ہوئی تھی۔کالے بال جو کہ آنکھوں پر گرے ہوئے تھے سفید رنگت جو کہ سردی کہ بائث سرخ سی ہورہی تھی چوڑا جسم وہ دلوں کو تسخیر کرنے والی ذہانت اور صورت رکھتا تھا تو پھر زرناب کیسے نا تسخیر ہوتی۔ وہ بھی کسی کی مسلسل نظریں اپنے آپ پر مرکوز ہوتے محسوس کرتا یکدم آنکھیں کھول گیا تھا۔ زرناب نے یکدم اپنا رکھ موڑا تھا اور اپنی خجالت مٹانے کہ لیے میکرونی کا ڈھکن کھول کر اس میں سے میکرونی برتنوں میں ڈالنے لگی تھی۔

"واہ خوشبو تو بہت اچھی آرہی ہے۔ بہرام نے مسکرا کر کہا تھا۔ زرناب نے کوئی جواب نہ دیا مگر برتوں میں میکرونی ڈالتے اس کے سامنے گرم گرم پیش کیے تھے اور خود کے میکرونی لیتی کچن سے باہر جانے لگی تھی۔

"کہاں جارہی ہو۔؟ بہرام نے اسے جاتے پوچھا تھا۔

"میں اپنے کمرے میں کھائوں گی۔ زرناب نے مدہم آواز میں کہا تھا۔

"یہاں آکر کھائو نا کمپنی دو مجھے۔ بہرام کا لہجہ اگرچہ دوستانا تھا مگر زرناب پھر بھی جھجک رہی تھی۔ تب ہی اس کو خاموش پاکر بہرام بول پڑا تھا۔

"جانتا ہوں اصول کے خلاف ہے مگر یار اکیلا کھاتے میں بور ہونگا۔ ناچار زرناب کو اس کے سامنے والی کرسی پر ہی بیٹھنا پڑا تھا۔ بہرام مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔ بہرام تو شروع ہوگیا تھا کھانے میں جب کہ اس کی موجودگی سے زرناب بہت ہی سست روی سے کھا رہی تھی۔

"بہت زیادہ مزے کے بنے واہ مزہ آگیا۔ بہرام نے بھرپور تعریف کی تھی۔

"تھینکیو۔

"مجھے نہیں پتہ تھا ہماری کزن اتنی سگھر بھی ہیں۔ بہرام کا لہجہ شرارت سے پر تھا۔ زرناب نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا اسے اپنی تعریف بیحد اچھی لگی تھی۔ اسے یوں مسکراتا دیکھ بہرام کو لگا آس پاس بہت سارے پھول کھل آئے ہوں۔ اور اسے بھرپور نظر دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا تھا مگر جیسے یہ قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے وہ دھرم کر کہ پھر بیٹھ گیا تھا۔ زرناب نے اس کی یہ کاروائی دیکھی تھی تب ہی وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور بنا اس کی طرف دیکھے جلدی سے وہاں سے نکلتی اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگائی تھی یہ جانے بغیر کہ اس اچانک رد عمل سے وہ کتنا حیران اور معظوظ ہوا تھا۔

++))
"مہناز تم یہاں۔ نایاب نے حیرانی سے کہا تھا۔ وہ اس وقت اپنی دوست سے ملنے ریسٹورنٹ آئی ہوئی تھی اور ٹیبل پر اس کا انتظار کر رہی تھی کہ مہناز ہو وہاں دیکھ کر فورن اس کے پاس چلی آئی تھی۔

"ججی یہاں پر میں کام کرتی ہوں۔ مہناز نے کہا۔

"یہاں کب سے۔ نایاب نے پوچھا۔

"وہ جی میں نے بتایا تھا نا آپ کو کہ وہ میرے بابا اس شخص شادی کروانا چاہتے ہیں میری وہ جی بڑا آدمی ہے اسی نے کہا ہے کہ میں یہاں کام کروں۔ مہناز نے بتایا۔

"تو تم اسی وجہ سے نہیں آرہی ہمارے گھر پھر تم نے منع کیوں نا کیا۔

"وہ انہونے مجھے مارا ہے۔ مہناز کے آنکھوں سے یکدم ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے تھے۔

"تمھارے بابا نے۔؟ نایاب نے پوچھا۔

"نہیں جن سے شادی ہورہی ہے میری۔

"کون ہے وہ بتائو کہاں رہتا ہے ابھی اسے سیٹ کرتی ہوں ایسی خبر لونگی یاد رکھے گا۔ نایاب نے غصے سے پوچھا۔ یکدم ہی مہناز ڈرتی ہوئی اس کے پیچھے چھپ گئی تھی۔

"کیا ہوا۔؟ نایاب نے پوچھا۔

"وہ جی جو گاڑی سے نکل رہا ہے نا سفید سوٹ میں وہی ہے۔ مہناز نے ڈرتے کہا۔ نایاب نے دیکھا تو حیران ہوگئی تھی۔

"یہ مطلب تم شیور ہو۔؟ نایاب نے پھر سے پوچھا وہ بری طرح سے حیران اور غصے سے آگ بگولہ ہوئی تھی۔

"تم ادھر ہی رکو ابھی خبر لیتی ہوں میں ان صاحب کی برے پھنے خان بنے پھرتے ہیں۔ نایاب نے کہا اور چلتی ہوئی اس تک پہنچی تھی۔

+++++

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top