۶
خودی کو جان کے ہی تو خدا تک پہنچا جاتا ہے۔ اُن مصائب سے گھبرانا نہیں چاہیے جو ہمیں ہم سے ملاتے ہیں، کے وہ ہی ہمیں ہمارے خالق تک لے کے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد آغا ولا کی طرف کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ محب کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ نومبر کا مہینہ تھا، ماحول میں کافی خنکی تھی۔
روٹ لگنے کی وجہ سے گاڑی کو کچھ دیر رکنا پڑا، محب نے باہر دیکھنا جاری رکھا۔
سب کچھ بدلا بدلا، پر انسیت سے بھرا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُسے کافی گاڑیاں چھوڑ کر ایک بزرگ نظر آئے، بظاھر بہت نحیف سے دکھائی دے رہے تھے، پر پھر بھی سڑک پر چلتی گاڑیوں کے سامنے جا کر رک رک کر کچھ بیچ رہے تھے۔
محب کو انجانے میں اُنکے حال پر ترس آگیا، اس عمر میں بھی اتنی تکلیف اٹھا کے وہ کام کر رہے تھے، اتنے میں انکی نظر محب پر پڑی اور وہ انکی گاڑی کی طرف آنا شروع ہوگئے۔
محب نے شیشہ نیچے کیا، اپنے پرس میں پڑے پاکستانی کرنسی کے نوٹ جو کچھ سال سے اُسکے پرس میں تھے، اُسنے نکالے اور انکی طرف بڑھا دیے۔
اُنہوں نے کافی پیسے دیکھ کے حیرت سے محب کو دیکھا اور مسکرا دیے۔
"نہیں بیٹا، مجھے ایسے پیسے نہیں چاہئیں، تم مجھ سے کچھ لے لو، یہ کاؤنٹرز، یہ عطریں، یہ پینز، ان میں سے کچھ۔"
"نہیں بابا جی، میں عطر نہیں لگاتا، آپ یہ رکھ لیں۔"وہ پیسے بڑھاتے ہوئے بولا۔
"میں ایسے پیسے نہیں لے سکتا بیٹا، اگر میں نے ایسے پیسے لینا شروع کر دیے تو تمہاری طرح سب ہی مجھ پر ترس کھائیں گے۔"
محب انکی بات پر تھوڑا سا خفیف ہوا۔
"تمہاری آنکھوں میں ترس دیکھ لیا تھا بیٹا، پر میں ایک سفید پوش ہوں، میرا سکون میری محنت کی کمائی میں ہے، اور میری بے سکونی اس ترس میں ہے، اگر تمہیں کچھ پسند آیا ہے تو لے لو، ورنہ کوئی مسلہ نہیں بیٹا۔"
محب انکی باتوں سے تھوڑا شرمندہ اور کافی متاثر ہوا اور وہاں پڑی چیزوں کو دیکھنا شروع کیا، اُسے وہاں پڑے پینز کافی اچھے لگے جو اُسنے اُنسے سارے لے لیے، وہ مسکرائے اور محب کو دعا دیتے وہاں سے چلے گئے۔
محب کو لگا کے واقعی کئی بار انسان جیسا دوسرے کے بارے میں سوچتا ہے، اصل میں ویسا ہوتا نہیں ہے، شاید انسانوں کو اسی لیے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں جانتا تھا کے ماضی میں اُس نے بھی کسی کو غلط سمجھا تھا، اور وہ بھی بہت غلط۔۔۔
روٹ کھلنے کے بعد گاڑی پھر سے چلنا شروع ہوگئی، سفر مکمل ہوا اور آغا ولا کے گیٹ کے عین سامنے آ کر گاڑی رک گئی۔
"چلیں محب بھائی۔"عدیل نے اُس سے کہا۔
محب کسی سوچ میں گم تھا۔
وہی گھر، وہی منظر۔
کچھ بھی بدلہ نہیں تھا۔
تب بھی رات تھی، اب بھی رات ہے۔
پر تب محب کو جانے کا کہا گیا تھا۔
ایک بھی بات سنے بغیر۔ اُس سے اُس کے حق چھین لیے گئے تھے۔
پر آج، آج اُسے بلایا گیا تھا۔
ایک فرق یہ بھی تھا کے کل اسکے ماں باپ زندہ تھے پر آج....
ان سب میں محب کو وہ بھی یاد تھی جو لب سیے خاموشی سے اُسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ اُسنے اَپنا جرم نہیں مانا تھا۔ وہ چاہتی تو اس زیادتی کو ہونے سے روک سکتی تھی۔
جو کچھ اُس نے کیا وہ نا قابل معافی تھا، پر محب کے لیے اُسکی ذات اب اتنی بے مول تھی کے وہ اُس سے بدلہ لینا چاہتا ہی نہیں تھا۔
ایک بات جو اُسے ہمیشہ زِچ کرتی تھی وہ ہدا کی آنکھیں تھی، اُسکی آنکھیں اور اُن میں بسا ایک اطمینان۔ اگر وہ سچ پر نہیں تھی، تو کیوں اُسکی آنکھیں سچ بولتی تھیں؟
وہ اُسکی ذات کو مکمل نظر انداز کرنے کا ارادہ کر کے واپس آیا تھا، کے اُسے اس کی بے وقعتی بتا سکے۔
وہ اپنے ٹرانس سے باہر نکلا اور گاڑی سے اُتر کر اندر کی طرف چل پڑا۔
گیٹ سے اندر جاتے ہی محب کی آنکھیں چندھیا گئی، آغا ولا ایک دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔
جیسے کسی کی شادی ہو رہی ہو۔ محب حیران و پریشان کھڑا تھا کے اچانک وہاں عدیل اور نفیس آئے۔
"کیا ہوا بھائی؟" نفیس محب کو ٹھوکر مارتے ہوئے بولا۔
محب چونکا اور پوچھ پڑا۔
"یہاں کسی کی شادی ہو رہی ہے کیا؟"
عدیل کی بے ساختہ ہنسی نکلنے پر وہ اور عجیب نظروں سے عدیل اور نفیس کو دیکھے گیا۔
"بھائی یہ سب آپ کے آنے کے لیے کیا ہے، شادی وادی ہوتی تو سات گلیوں تک آغا ولا سے جشن کی آوازیں جاتیں۔"
"میرے آنے کے لیے، یہ سب!
پر کیوں، اس سب کے بھی اب کیا ضرورت تھی۔" محب خفگی سے بولا۔
"ارے یہ سب تو کچھ نہیں ہے، اندر آئیں اب، سب آپکا انتظار کر رہے ہونگے۔"
وہ اُن دونوں کے ساتھ اندر بھاری بھاری قدم اُٹھاتا چل دیا۔
دروازہ کھلتے ہی، بھائی آ گئے بھائی آ گئے، کے نعرے عدیل اور نفیس لگانے لگ گئے۔
محب سخت شرمندہ ہو رہا تھا۔ وہ اندر سے ایک بوجھل کیفیت میں تھا، یہ سب اُسے اور اُلجھن میں ڈال رہا تھا۔
اتنے میں ہی اُسکے آغا جان وہاں آگئے۔ اُسے اپنے گلے لگایا۔ گلے ملتے ہوئے اُسے مضبوطی سے پکڑا۔ پھر اُسکے بعد کچھ پل اُسے دیکھے گئے، محب بھی اُنسے گلے ملتے ہوئے اپنے بابا کی خوشبو محسوس کر رہا تھا۔
کیا خون کے رشتوں میں ایک اندیکھی طاقت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں انجانے میں اُسکا دل دکھنے لگ گیا تھا۔ کیا وہ آغا جان کی محبت کا اتنا متلاشی تھا کے اُسکی ازیت اور اُسکے گلے کچھ حد تک دل میں ہی دبنے لگ پڑے؟
"ایسا لگ رہا ہے آج میرا ایاز واپس آگیا ہے." آغا جان نم آنکھیں لیے بولے۔
یہ ایک جملہ محب کو اُسکا ماضی یاد دلانے کو کافی تھا۔
محب جتنا بھی مضبوط مرد تھا، اسکے دل میں کئی قلق، حسرتیں اور کئی ملال بھی تھے۔
اتنے میں ہی وہاں دادو جان بھی آگئیں۔
"میرا بیٹا، میری جان، شکر ہے تم واپس آ گئے۔
میں بہت انتظار کرتی تھی اپنے محب کا۔ اب میں تمہیں کہیں نہیں جانے دونگی۔" وہ نام آنکھیں لیے بولیں۔
اپنے ہاتھوں کی پوروں سے اُنکے آنسو صاف کر کے وہ دادو سے گلے ملا۔
اور اُسکی خود کی بھی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
سب کی توجہ کا مرکز وہ دونوں ہی تھے۔
بے اختیار اُسکی نظر اوپر کو اٹھی، اٹھنا چاہتی نہیں تھی، پر اُٹھ گئی.
کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا۔
اُسی کمرے کی طرف جہاں اُس نے کئی سال پہلے ایک ملزم کو پکڑا تھا، پر جیسے ہی اُسکی نظر اٹھی کسی نے کمرے کا پردہ فوراً بند کر دیا۔ جیسے کوئی بہت بےبسی سے اس لمحے کا حصہ بننا چاہتا تھا، پر اس ایک نظر نے وہ ہمت بھی اُس سے لے لی۔
وہ کمرہ اُسی کا تھا جو محب کی سزا میں قصوروار تھی۔
اور وہ جانتا تھا کے وہ اس وقت اُسے ضرور دیکھ رہی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ بھی لیں محب بھائی۔" نفیس کباب محب کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
"بھائی یہ حلوہ ضرور لیں۔" عدیل نے حلوے کا باؤل محب کی طرف بڑھایا۔
محب سب کے بار بار کچھ نا کچھ دینے پر پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا تھا، اُسکی حالت دیکھتے ہوئے عادل نے انہیں ڈانٹا۔
"یہیں ہے تمہارا محب بھائ، کچھ اسے کل بھی کھلا دینا، حالت دیکھو اُس بیچارے کی۔"
عادل کی بات سنتے ہی عدیل اور نفیس نے محب بھائی کو کھلانے پلانے کا پلان اگلی صبح تک ملتوی کر دیا۔ کچھ وہ عادل سے ڈرتے بھی تھے، محب کو بچانے پر محب نے مسکرا کر عادل کی جانب دیکھا۔
دادو جان آج بہت وقت کے بعد اپنے گھر کو مکمل محسوس کر رہی تھیں۔ وہ ایسی ہی سب کو ساتھ ہنستا بستا دیکھنا چاہتی تھیں۔ جانتی تھی کے آج کل میں جب ہدا کا آمنا سامنا محب سے ہوگا تو محب ڈسٹرب ہو جائیگا۔
وہ بس چاہتی تھیں کے کم سے کم کچھ دِن ایسے ہی پرسکون گزریں۔
وہ جانتی تھیں کے ہدا بےگناہ تھی پر وہ کرتی بھی تو کیا؟
ابھی میز پر مائرا، علینہ، تحریم اور اسماء کو سب کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اُنکے دل میں ایک ٹیس اٹھی تھی۔ انکی سب سے پیاری پوتی کے ساتھ وقت نے اچھا نہیں کیا تھا!
محب اُن سب کے بیچ میں مزید بیٹھ نہیں سکتا تھا، اس لیے وہ اٹھا اور دادو سے مل کر اوپر کے پورشن میں اپنے کمرے میں چلا گیا، وہی کمرہ جہاں اُسکا بچپن گزرا تھا۔
کمرے میں آتے ہی کئی یادیں اُسکے ذہن میں تازہ ہو گئیں،وہ کچھ دیر بیٹھا پر تھکن سے اُسکا برا حال تھا،اس لیے بیڈ پر لیٹتے ہی وہ نیند کی آغوش میں گم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات ویسی ہی کالی، اور ہوا ویسی ہی سرد۔
وہی دھند، وہی خنکی، ایسی کے جیسے خون کو جما کر رکھ دے۔
جگہ کونسی تھی یہ معلوم کرنا بےحد مشکل تھا۔
آج پھر سے وہ ویسی ہی انجان جگہ پر کھڑا ہوا تھا،
جہاں کوئی راستہ نہیں تھا، کوئی روشنی نہیں تھی۔
اتنے میں ہی اُسے اپنی بائیں طرف کوئی نظر آیا،
وہ چونکا اور اُس طرف دیکھے گیا۔
ایک شبیہ نظر آئ، جو کسی بچے کی تھی۔
"کون ہے وہاں؟"
پر اُسے کوئی جواب نہیں ملا۔
محب اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگ پڑا۔
"کون ہے؟"
بچے کی پیٹھ اُسکی جانب تھی، وہ اُسکا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا۔
وہ پہلے تو آہستہ آہستہ چل رہا تھا پر پھر اُس بچے نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔
وہ بھی بھاگ کر اسکے پاس پہنچنے کی کوشش کرنے لگا پر جتنا بھی تیز بھاگتا، بچہ اُسی تیزی سے چلنا شروع ہو جاتا اور اُن کے بیچ کا فاصلا بدستور وہی رہتا۔
محب رک گیا،وہ بچہ بھی آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ تھوڑا آگے جا کر پھر وہ مڑ گیا۔
محب آہستہ آہستہ وہاں گیا اور اُسی جگہ سے مڑ گیا، پر آگے کوئی بھی نہیں تھا، اندھیرا اس جگہ زیادہ تھا۔ اُسے بہت گھٹن اور وحشت ہونے لگ پڑی۔
محب آس پاس دیکھنے لگا، پر کچھ دکھائی نا دیا۔
یہ جگہ پہلے کی نسبت بہت سرد تھی۔
محب نے اپنے ہاتھ ملنے شروع کر دیئے۔
ٹھنڈ سے اُسکے ہاتھ جمنے والے تھے!
اتنے میں کچھ گیلا گیلا اُسکے منہ پر گرا۔
وہ حیرت سے منہ پر سے وہ گیلی چیز صاف کرنے لگا۔
پھر دوبارہ سے اُس پر کچھ گرا۔
اُسنے اوپر دیکھا، اور جو اُسنے دیکھا، وہ کسی کی بھی روح کو منجمند کر دینے کیلئے کافی تھا۔۔۔
وہاں وہی بچہ درخت کی ٹہنی سے لٹکا ہوا تھا، ایک رسی سے، جیسے کسی نے پھانسی دی ہوئی تھی۔
اُسکا چہرہ درخت کی طرف تھا، پر اُسکا جسم چھوٹے موٹے زخموں سے چھلنی تھا۔ اُسی بچے کا خون محب پر گرا تھا!
اُس نے زور سے چینخ ماری، ایک دو نہیں، کئی!
اور اپنا سر پکڑ لیا۔
وہ بچہ بہت چھوٹا تھا، اُسکے چھوٹے چھوٹے پیر اور چھوٹے چھوٹے ہاتھ تھے!
محب سر پکڑے زمین پر بیٹھ گیا۔
سر درد کی ٹیسوں سے پھٹ رہا تھا، وہ اُس بچے کو دیکھ کر کیوں رو رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا پر یہ سب وہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
محب کی آنکھیں بند تھیں، مسلسل رونے کی وجہ سے اُسکی ہچکی بند ہوگئی تھی، محب کاش اُسے بچا لیتا، کاش محب اُسے پکڑ لیتا۔
آنسو اُسکا چہرہ بھگو گئے، اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ تب ہی اُسکی بند آنکھوں پر آہستہ آہستہ سے روشنی پڑی، محب نے کان اور زور سے بند کیے۔
وہ اور کچھ برا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔
پر اُسے ایسا لگا اُسے جیسے کوئی اُسے پکار رہا ہے،
کوئی بلا رہا ہے۔
اُسنے آہستہ آہستہ کانوں پر سے ہاتھ ہٹا دیے، پر اُسکی آنکھیں ہنوز بند تھیں! شاید وہ انہیں کھولنا نہیں چاہتا تھا۔
ہلکی ہلکی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی۔
"حي على الصلاة"
ساری بےچینی، بے قراری اور خوف کم ہوتا جا رہا تھا، اُسکی آنکھیں ابھی بھی بند تھیں۔ لیکن ایک عجیب سا سکون اُس میں اُترنا شروع ہوگیا۔
آواز کچھ دیر کو رکی اور پھر سے وہی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی۔
"حي على الصلاة"
"حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ" "حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ"
وہ سنتا رہا، یہاں تک کہ آ ذان مکمل ہوگئی۔ اُسنے آنکھیں کھولیں اور کچھ دیر اُس سکون کو محسوس کیے گیا جو اُسنے ابھی محسوس کیا تھا۔
ایک تسلی، ایک اُمید۔ وہ بھی رب کی طرف سے۔ اُسے وہ روشنی دکھ پڑی جس سے اُسکا ایمان بڑھ گیا۔ وہ سمجھ گیا کے ہے مشکل کا ایک سبب ہے، ایک وجہ ہے۔ جسے وہ جانے گا۔
اب اس اُلجھن کو وہ اللہ پر یقین رکھنے کے ساتھ سلجھائے گا۔
اُسنے آنکھیں کھولیں پردیس میں رہنے کی وجہ سے وہ آذان سننے کی نعمت سے محروم تھا، اپنے ملک میں رہ کر ہر نماز کے وقت آذان کو سننا کس قدر بڑی نعمت تھی، اسکا اُسے آج اندازہ ہوا تھا۔
وہ رات میں نماز پڑھنا بھول گیا تھا،اور کل رات ہی کیا،وہ تو کبھی نماز کا پابند رہا ہی نہیں تھا۔۔۔
وہ اٹھ کے بیٹھا، اسکی آنکھیں ہنوز بھیگی ہوئی تھیں۔ اُسنے آنکھیں صاف کیں اور وضو کرنے چلا گیا، کل نمازی نہیں تھا پر آج تو پڑھ سکتا تھا نا۔
آج سے تو کوشش کر سکتا تھا نا۔۔۔
چاہے وہ جیسا بھی تھا، یہ یقین ضرور رکھتا تھا کے اسکا خدا اُسے سنے گا، یہ سب وہ ہی ختم کریگا۔
محب کو یقین تھا کہ خدا اُسکی مدد کریگا، وہ ساتھ نہیں چھوڑے گا۔
وہ کمرے سے باہر نکلا اور باہری دروازے کی طرف بڑھنے لگا، آج وہ اُسی مسجد میں جا کے نماز پڑھنا چاہتا تھا جہاں وہ اور بابا آغا جان کے ساتھ جاتے تھے۔
کے اتنے میں اُسے اپنے کمرے سے کچھ دور کے کمرے سے کچھ آوازیں آئیں، اور وہاں کی لائٹ آن ہوئی، وہ نا چاہتے ہوئے بھی اُس کمرے کی طرف دبے پاؤں چلنے لگا۔
پورا اوپر کا پورشن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، سب شاید سو رہے تھے۔
وہ کمرے تک پہنچا، کمرے کی کھڑکی ادھ کھلی تھی، اُسنے اندر جھانکا تو وہاں کوئی نماز پڑھ رہا تھا۔
کون تھا یہ وہ جانتا تھا۔
وہ کچھ دیر کو وہاں رُکا۔
ایک گہری نظر سے اندر دیکھنے لگا، اُسکی نظر سے یہ جاننا مشکل تھا کے اُسکے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
اور پھر وہاں سے خاموشی سے گزر گیا۔
بس ایک بات اُس کے ذہن میں گردش کر رہی تھی۔
اگر وہ گنہگار تھی، جھوٹی تھی، تو اس سکون سے نماز کیسے پڑھ سکتی تھی؟...
...........
Rani_dream_faith✨
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top