۵
کچھ فیصلے رب پر چھوڑنے پڑتے ہیں، اُس پر مکمل یقین کرنا پڑتا ہے۔ کے اُس پر کیا یقین، اُس سے کی گئی اُمید کبھی ٹوٹتی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادو کے کمرے سے نکلتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف چلنا شروع ہو گئی، راستے میں ہی اسے اپنی کزنز نظر آگئیں، وہ اُنسے بچ کر اپنے کمرے میں جانا چاہتی تھی پر وہ تو جیسے اس کے انتظار میں ہی کھڑی ہوئی تھیں۔
"ارے آگئی تم واپس؟"علینہ جو کے اُسکی تایا زاد تھی بولی۔
"جی۔
آگئی ہوں علینہ باجی۔" وہ نرم لہجے میں بولی۔
"باجی نا کہا کرو کتنی بار کہا ہے تمہیں۔
اتنی بڑی نہیں ہوں میں تم سے جو تم مجھے باجی کہتی ہو۔" وہ چڑ کر بولی۔
مائرا اور اسماء بمشکل اپنی ہنسی روک پائیں۔
"آپ نے مجھے کیوں روکا ہے؟
کوئی کام ہے کیا۔"وہ تحمل سے پوچھنے لگی۔
"مجھے کوئی خاص شوق نہیں ہے تمہیں روکنے کا پر میں نے تمہیں کچھ کہنا تھا۔"
"کیا کہنا تھا؟"وہ سوالاً پوچھنے لگی۔
"یہی کے تمہیں خود بھی پتہ ہے کے جتنی معصوم اور سادی تم بنتی ہو، اتنی تم ہو نہیں۔"
" آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔"وہ ہنوز نرم لہجے میں بولی۔
" یہ کہنا چاہتی ہوں کے اس بار اپنے فائدے کے لیے کسی پر الزامات مت لگانا نا ہی اپنا گھٹیا گناہ دوسروں کے سر پر ڈالنا۔"
وہ کچھ دیر چپ رہی، پھر مسکرا دی، اور بولی۔
"کوئی کسی کے سر پر اپنا گناہ نہیں ڈال سکتا علینہ باجی، کیونکہ گناہ گناہ کرنے والے سے اسی طرح جڑا ہوا ہوتا ہے جیسے ایک اچھے انسان کے ساتھ اُسکی اچھائی۔
اگر میں نے کسی کے سر پر کوئی گناہ ڈالا ہوتا تو میرا دل مطمئن نا ہوتا۔"ہدا کے جواب نے علینہ کو اندر تک سلگا دیا۔
"تمہارا دل کیوں نہ مطمئن ہو تم جو چاہتی تھی تم نے وہ کردیا، پر ابھی میں آنے والے کل کی بات کر رہی ہو اگر ایسا کچھ دوبارہ ہوا تو اچھا نہیں ہوگا سمجھ لو!"وہ سخت لہجے میں بولی۔
"اگر آپ چاہتی ہیں کے ایسا کچھ دوبارہ نہ ہو تو مجھے نہیں آپ کو احتیاط کرنی ہوگی۔"یہ کہتی ہدا وہاں سے اپنے کمرے کے اندر چلی گئی۔
اور علینہ مائرا اور اسماء کو دیکھ کر بولی۔
"اس کے پر نکل آئیں ہیں، اسکو تو سیدھا کرنا پڑےگا۔"
"زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے، بیچاری کے ساتھ ویسے بھی اب اچھا نہیں ہونا۔"مائرا طنزیہ ہنس کے بولی۔
علینہ مائرا کی بات سن کر مسکرائی اور جواباً بولی۔
"ارے ہاں، اس طرف میرا دھیان تو گیا ہی نہیں۔" اور پھر وہ تینوں علینہ کے کمرے میں چلی گئیں۔
اور اندر ہدا آ کر بستر پر بیٹھ گئی، سر میں اٹھتی درد کی ٹیسوں کو ہاتھوں سے دبانے لگی۔
خود میں گم بیٹھی یہ سوچتی رہی کے اُسکی آزمائش اب کم ہو رہی ہے یا اصل آزمائش ابھی شروع کی گئی ہے۔
کاش وہ یہ سب کسی سے کہہ سکتی، یہ ڈر کسی سے بانٹ سکتی، وہ یہ سب ابھی تحریم کو بھی نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ وہ بات کی گہرائی کو جانتی بھی نہیں تھی۔
اُسکی ماما بھی اب اُسکے پاس نہیں تھیں، ورنہ اُسے کوئی یہ سب کہنے کئی جرات تھوڑی کرتا۔
اُسکے پاس بس اُسکے بابا تھے، وہ بھی آجکل پاکستان نہیں تھے۔
پر اگر ہوتے بھی تب بھی ہدا اُنھیں کچھ نا کہتی، وہ اپنے بابا کو بہت بکھرا ہوا دیکھ چکی تھی، ایک تایا تائی کی وفات پر اور ایک اپنی امی کے جانے پر۔
وہ سب سہے گی، دیکھے گی کے اُسکی حد کہاں تک اُس کا ساتھ دیتی ہے، وہ سب اللہ پر چھوڑ چکی تھی، یہ بات ذہن میں آتے ہی اُسکے سارے شکوک و شبہات اُسکے ذہن سے آہستہ آہستہ نکلنے لگے اور ایک سکون اُس میں اترنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی یونیورسٹی سے سارے ڈاکومنٹس لینے کے بعد محب کاریڈور میں حبیب کا انتظار کرنے لگا۔ بیٹھ کر تنگ آ گیا تو ٹہلنے لگا۔
کاریڈور میں اس وقت بہت کم لوگ تھے،محب اُنسے تھوڑا دور کاریڈور کی بیک سائڈ کی طرف چلنے لگا۔
یہاں عموماً سٹوڈنٹ کم آتے تھے۔وہ زیادہ آگے نہیں گیا کے اچانک سے اُسکے سامنے والے کمرے کی لائٹ آن ہوئی، کھڑکی سے تھوڑی روشنی نکلی۔
محب نے سوچا کوئی اندر ہوگا، وہ واپس کاریڈور کی طرف مڑا ہی کے اچانک سے حبیب کی آواز اُسی کمرے سے اُسے سنائی دی۔
"محب۔"
اُسنے پیچھے دیکھا تو حبیب کمرے میں اندر کی طرف کھڑا ہوا تھا۔
"حبیب، تو اندر کیا کر رہا ہے؟"
حبیب نے جواب دینے کے بجائے اُسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
وہ حیران ہوتا اندر کی طرف بڑھنے لگا۔
حبیب مسکرا رہا تھا محب نے سوچا پتہ نہیں ایسی کیا بات ہے جو حبیب ہنس رہا تھا۔
محب کمرے کے دروازے کے بلکل سامنے پہنچ گیا۔
اتنے میں اسکا فون بج پڑا۔
اُسنے فون اٹھایا۔
کالر آئ ڈی دیکھ کر محب دنگ رہ گیا۔
اُسنے وہاں دوبارہ دیکھا پر حبیب کے ہاتھ خالی تھے۔
'حبیب مجھے کیسے فون کر سکتا ہے، اسکے ہاتھ میں تو فون ہے ہی نہیں۔' محب نے دل میں سوچا۔
حبیب ہنوز محب کو ہی دیکھ رہا تھا، ویسے ہی مسکرا رہا تھا۔
محب بھی اُسے دیکھ کے مسکرا دیا، اُسے لگا جیسے یہ ایک حبیب کا مذاق ہے، اور حبیب دراصل اُسے ڈرانا چاہتا تھا، تو وہ اُسکے جال میں نا پھنستے ہوئے اُدھر ہی کچھ دیر ٹھہرا۔
اُسنے محسوس کیا جیسے حبیب کی ہنسی اور گہری ہو گئی ہو۔
محب کو اُسکی گہری ہوتی ہنسی بہت عجیب لگی۔
محب نے تیزی سے قدم بڑھایا کے اندر جا کے پوچھے، اور اس کو انسان بنائے کے اسی اثناء میں ایک دم سے اپنے پیچھے سے حبیب کی آواز اُسے سنائی دی۔
محب دنگ رہ گیا۔
سامنے حبیب تھا، اور پیچھے اُسکی آواز۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے پیچھے مڑا۔
پیچھے دیکھا تو حبیب اُسکے پیچھے کاریڈور سے آ رہا تھا، اسکے ہاتھ میں فون بھی تھا، جس سے وہ مسلسل کسی کو کال کر رہا تھا، اور یہاں محب کا فون لگاتار بج رہا تھا۔
محب کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اگر یہ حبیب تھا تو اسکے پیچھے کون تھا۔
محب کو ایسے لگا کے اگر اُسنے پیچھے دیکھا تو وہ پتھر کا بن جائیگا، جیسے بچپن میں اُس نے کہانی میں سنا تھا۔۔۔
پر حبیب کے قریب آتے ہی اُسنے آہستہ سے پیچھے کی طرف دیکھا۔
تو وہاں اُسے کوئی نہیں دکھا، وہاں بس اندھیرا تھا، اُسکے خوابوں سے ملتا ایک اندھیرا۔ روشنی کے ہر ذرے سے پرے۔
"کیا کر رہا ہے تو یہاں، فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے۔" حبیب جلدبازی میں بولا۔
محب چپ رہا اور کچھ دیر بعد بولا۔
"تُجھ سے ملنے آیا تھا۔" محب سر جھٹکتے ہوئے بولا۔
"مجھ سے؟ پر تجھے یہ کیوں لگا کے میں یہاں ہونگا؟"
"بس کسی تیرے جیسے کو دیکھ لیا تھا۔" محب نے ہلکے سے اُسے جواب دیا۔
"تیرے چہرے کا رنگ کیوں پیلا پڑا ہوا ہے؟ ایک بات بتا، میرے جیسے کو دیکھا تھا یا کسی بھوت کو؟" حبیب ہنس کے بولا۔
"دونوں باتوں میں کچھ خاص فرق ہے تو نہیں ویسے۔"محب اُسی لہجے میں بولا۔ پھر حبیب کی غُصیلی نظر خود پر محسوس کر کے بولا۔
"خیر اچھا ہوا تو مل گیا، جب تک یہاں ہے اپنا بہت خیال رکھنا، اور جلدی آنا پاکستان۔"محب حبیب کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"تو ڈراما ہے پورا، خیر ابھی کیوں خدا حافظ کر رہا ہے میں تُجھے چھوڑنے آ جو رہا ہوں ایئر پورٹ، چل اب جلدی۔ اور ہاں پیپرز لے لیے ہیں نا؟"
محب نے ہاں میں سر ہلایا اور وہ دونوں کاریڈور کی طرف چل پڑے۔
محب نے پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔۔۔
پیچھے سے لائٹ تو کمرے کی پھر سے آن ہوئی پر اب وہاں حبیب نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایئرپورٹ پر کلیئرنس کے بعد محب، حبیب کو گلے لگا کر ملا، اور اُسے جلد پاکستان آنے کو کہا۔
حبیب کی آنکھوں میں نمی آ گئی، اُسنے محب کو پھر سے گلے لگایا اور کہا کے وہ جلد پاکستان آئیگا۔
حبیب سے ملنے کے بعد محب ویٹنگ ایریا میں بیٹھ گیا۔
بورڈنگ کے کچھ دیر بعد اپنی سیٹ پر آتے ہی اُسنے آس پاس نظر دوڑائی، سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
کچھ وہ تھکا ہوا بھی تھا،
اُسنے اپنا سر سیٹ سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔
وہ نہیں جانتا تھا کے اس کا پاکستان جانے کا یہ فیصلہ اُسے کس حد تک زخم دینے ولا تھا۔
کیا کیا راز اُسکے انتظار میں تھے۔
اسی سوچ میں وہ نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔
وہ پورے سفر سویا رہا۔
فلائٹ جب لینڈ ہوئی تب ہی محب اٹھا۔
بعد میں کچھ وقت اُسے اپنا سامان کلیئر کروانے میں لگ گیا۔
باہر نکلتے ہی اُسے، نفیس اور عدیل نظر آے۔
یہ دونوں محب سے تھوڑے ہی چھوٹے تھے، پر نہایت شرارتی۔
محب کو دیکھتے ہی اُس پر لپک پڑے۔
"محب بھائی۔" نفیس محب کو گلے لگاتے ہوئے بولا۔
"کیسے ہو بھئی،اتنے بڑے ہو گئے ہو تم تو۔" محب کی بات پوری ہوتی اس سے پہلے عدیل بھی محب پر لپکا۔
"محب بھائی۔"
اُن دونوں نے محب کو بھینچا ہوا تھا۔
"مجھے سانس نہیں آ رہا۔"محب کھانستے ہوئے بولا۔
وہ دونوں اچھی طرح سے اُس سے گلے مل کر پیچھے ہوئے۔ محب کو کھانستا دیکھ کر پوچھنے لگے۔
"آپ صحیح ہیں نا بھائی؟"
محب بولا۔
"اگر تم لوگوں کے ساتھ اور کچھ دیر رکا تو ٹھیک نہیں رہونگا۔" وہ دونوں نا سمجھی میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
"اچھا تو بھائی تھک گئے ہیں، چلیں چلیں گھر جاتے ہیں۔ دادو آپکا بہت انتظار کر رہی ہیں۔"نفیس محب کے گال کھینچتے ہوئے بولا۔
محب سے اتنا پیار برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ ان دونوں کو بچپن سے جانتا تھا، یہ دونوں ایسے ہی تھے پر تب میں اور اب میں فرق تھا۔
"دادو ایسے ہی پریشان رہتی ہیں، محب بھائی تو اور بھی خو برو اور ہٹے کٹے ہو کر آئیں ہیں۔"عدیل سرگوشی میں نفیس سے بولا،جو محب نے با آسانی سن لیا۔
محب جانتا تھا اُسکی دادو اُس سے بہت پیار کرتی تھی،وہ بھی اُنسے جلد از جلد ملنا چاہتا تھا۔
"تم لوگ لے کے جاؤ گے مجھے یا نہیں۔"محب مصنوعی خفگی سے بولا۔
"جی جی بھائی، آئیں۔
عدیل، بھائی کا سامان پیچھے رکھ، اور پیچھے ہی بیٹھ جا۔ گاڑی میں چلاؤں گا۔"
یہ کہہ کر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اور آغا ولا کی طرف بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith✨
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top