۳۴

پھر اگر یہ لوگ پھر جائیں (اور نہ مانیں) تو کہہ دو کہ خدا مجھے کفایت کرتا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے. (سورہ توبہ آیت ۱۲۹)

اسی پر بھروسہ رکھنا ہے، یہ سیکھنا ہے کے ہر چیز، ہر رشتے کو زوال ہے۔
اور جب کوئی نظر نہیں آتا، تب وہ رب سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔۔۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے تیسے کر کے رات گزر گئی، اور صبح کی روشنی ہر سو پھیل گئی۔ ایک نیا دِن ایک نئی صبح ویسے تو بہت سی نئی اُمیدوں سے بھرا ہوتا ہے پر کیوں اُسکے لیے ہر گزرتا دِن وحشت ناک ہوتا جا رہا تھا؟

وہ کمرے میں کرسی پر بیٹھی کل رات دیکھے گئے خواب کے متعلق سوچ رہی تھی، کل رات کیسے وہ سوتے میں پھر سے رو پڑی تھی۔ ویسی ہی ایک اندھیری جگہ، گھٹن زدہ، کسی کھائی میں جیسے وہ گرتی جا رہی ہو۔ آس پاس کوئی دیوار، کوئی سہارا نہیں، با جیسے ایک گہرے، کالے خلا میں وہ اپنا آپ کھو رہی تھی۔۔۔

اوپر سے محب کے رویے پر کچھ دکھی بھی تھی۔
آج ناشتے کے ٹیبل پر محب نے آیان کو خود ناشتا کروایا، بٹھایا بھی اپنے پاس ہی تھا۔ ہدا کو ایسے لگا جیسے وہ جان کے آیان کو اُس سے دور کر رہا تھا۔

پر شاید وہ زیادہ ہی سوچ رہی تھی۔ اُسنے محب کو اپنی طرف کئی بار دیکھتے ہوئے محسوس کیا۔
جیسے شاید اُسکی آنکھیں ہدا سے کل ہوئے واقعی پر ندامت ظاہر کرنا چاہ رہی تھیں۔ پر ہدا کو اُمید کے برعکس محب کا خود کو دیکھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

اُسے اُسکی دیکھتی اور کھوجتی آنکھیں، جو بس اُسکی اور اُٹھ رہی تھیں، ایک عجیب اُلجھن میں ڈال گئیں۔

کچھ دور کھڑی ہدا کی تائی اُسے تذبذب اور خود میں کھوئے ہوئے دیکھ کے دل ہی دل میں خوش ہو رہیں تھیں۔

اُنہوں نے علینہ کو خصوصی طور سے کہا بھی تھا کے وہ ہدا کو ان دنوں میں تنگ کرے۔ وہ جانتی تھیں کے جس حال میں ہدا ہے اُس میں غصّہ اپنی انتہا تک جا سکتا ہے، اسی لیے وہ موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کے وہ ہدا کا ویسا ہی روپ سب کے سامنے لائیں جیسے صوفیہ خانم کا لائیں تھیں۔

علینہ جو رات سے اپنے پلان کے متعلق سوچ رہی تھی، ناشتے کی ٹیبل کی طرف آتے ہوئے ایک مکروہ ہنسی ہنس دی۔

ٹیبل پر ہدا کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور ناشتا کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر گزری کے نہایت ہی عام طریقے سے چائے کا پڑا کپ الٹا گئی۔
رخ ہدا کی اور تھا۔ گرم گرم چائے، کچھ ہی لمحوں میں ہدا کے ہاتھ اور دامن کو بھگو گئی۔

اُسکا ہاتھ بری طرح سے لال پڑ چکا تھا۔
سفید کپڑوں کو چائے گندا کر چکی تھی۔

"آئی ایم سو سوری!
وہ غلطی سے میرا ہاتھ لگ گیا۔"
علینہ معصوم لہجے میں بولی! سب سے پہلے ریکٹ کرنے والوں میں محب تھا۔ جو ہدا کا ہاتھ لال پڑتا دیکھ کے فوراً کمرے سے آئنٹمنٹ لیتا آگیا۔ اُسکی کرسی کے پاس آ کر اُسکا ہاتھ اٹھایا۔ اپنے نیپکن سے اُسکا ہاتھ صاف کیا اور دوا لگانے لگ پڑا۔

ہدا جو علینہ کے پیروں کو گھور رہی تھی، اپنی ضبط سے پڑتی لال آنکھیں موند گئی۔ محب کا مرہم لگانا، اس احساس نے آہستہ آہستہ اُسکے جلتے ذہن کو پرسکون کرنا شروع کردیا۔

درد تھا، شاید بےحد۔۔۔ یا اندر کا انتشار۔
وہ مرہم لگتے ہی پھر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

کسی کے سوال کا بھی، کے زخم درد تو نہیں دے رہا۔
یا ہسپتال جانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ علینہ کو پڑتی ڈانٹ بھی وہ نا سن پائی، محب کو بھی کچھ کہے بغیر اندر کی اور بھاگ گئی۔

"وہ درد میں ہے۔
ہاتھ بہت بری طرح سے جل گیا ہے میری بچی کا!
علینہ تمہارا دھیان کہاں تھا؟" دادو اُسے جاتا دیکھ کر علینہ پر غصے ہوتے ہوئے بولیں۔

"بیچاری کے کپڑے بھی خراب کر دئیے!
میں دیکھوں کہیں اور تو نا لگ گیا ہو اُسے؟"

"دادو، غلطی سے ہوا!
آئی ایم سوری اگین!"
علینہ بےحد معصوم لہجے میں بولی، یہ جانے بغیر کے اُس سے بدلہ اس بار تو ہدا لے کے رہے گی.
اُدھر کمرے میں جاتی ہدا، اپنا شدت سے درد کرتا سر پکڑتے ہوئے رک گئی۔

اُسکی آنکھوں میں ایک آگ جل رہی تھی، ایک لاوا۔
کمرے میں جانے والے راستے کی راہداری پر اُسے کئی کپڑے نظر آے جو شرنگ کر کے ڈالے ہوئے تھے، جنہیں سلوانے کے لیے ابھی بھیجنا تھا۔ ایک سے ایک مہنگا اور برانڈڈ ڈریس۔

ہدا کی نظر علینہ کے کپڑوں کی طرف گئی، اور پھر اپنے کپڑوں پر۔

وہ آج پھر سے ہنسی تھی، اُسکی ہنسی اس بار عام نہیں تھی۔
اُسنے اپنے کمرے میں جا کے کینچی لی اور راہداری میں بھاگ کر آتے ہوئے وہ کپڑے چیرنے پھاڑنے لگی۔

علینہ کے تین سوٹس اُسنے تہس نہس کر دیئے۔
پھر کھلکھلا کر ہنسی، محسوس کرتے ہوئے کے کوئی اُسکے پیچھے آرہا وہ فوراً کمرے کی اور بھاگ گئی تھی۔

وہ اپنا درد بھول چکی تھی، بلکہ اب کافی سکون میں آگئی تھی۔ وہ کمرے میں جا کے کھلکھلا کے ہنسنے لگی۔ ہنستے ہنستے اُسکے آنسو نکل پڑے۔

وہ خوش تھی، بدلا لے کے۔
بہت خوش تھی!
پر وہ تو بدلہ لیتی ہی نہیں تھی تو پھر آج کیوں؟

وہ بیڈ پر بیٹھ گئی، اور دیوار کو دیکھنے لگی۔
وہ کھو سی گئی، بلکل گم سم سی ہوگئی۔ اُسے یہ بھی نا پتہ لگا کے کب دادو دروازہ کھول کر اندر آگئیں۔

"بیٹا۔ درد تو نہیں ہو رہا؟"
وہ لاشعوری طور پر ہنس دی اور بولی۔

"نہیں دادو مجھے تو مزا آرہا ہے۔" وہ اتنی خوشی میں بولی کے اُس کے چہرے پر درد کو کھوجنا بھی مشکل ہوگیا۔

"مزا! کیا مطلب؟" وہ نا سمجھتے ہوئے بولیں۔ پھر اُسکے کپڑوں کو دیکھ کر بولیں

"اچھا پہلے کپڑے بدل لو!
اور اگر کہیں اور جلن ہو تو یہ آئنٹمنٹ لگا لینا!"
وہ اُسے دوا پکڑواتے ہوئے بولیں اور پھر اُسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔

"علینہ کو معاف کردو۔ وہ ابھی بھی تمہارے اور محب کا رشتہ مان نہیں سکی اسلئے شاید!"

"معافی؟
دے دونگی معافی۔
پر مجھے بھی تو معاف کردیں.
مجھے یہ سب کیوں تنگ کرتے ہیں؟" اُسنے جواب دیا جو جواب سے زیادہ خود سے کیا گیا سوال تھا۔
دادو کو بےحد حیرت ہوئی، ہدا ایسے کیوں کہہ رہی تھی۔

باہر محب کا ہاتھ جھٹک کر اندر آگئی۔
وہ بھی اسے جاتا دیکھے گیا تھا، وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کے اب تک یہ لڑکی اُس سے ناراض ہے۔

وہ شرمندہ بھی تھا!
انجان تھا کہ وہ ناراض نہیں بلکہ بےبس تھی۔

وہ اُسکے پیچھے گیا بھی تھا لیکن۔۔۔

اور وہاں علینہ مزید شرمندہ ہوگئی کیوں کے اُسکی بازی اُسی پر الٹ پڑ چکی تھی!

وہ جس کو سب کی نظر میں بدتمیز کہلوانا چاہتی تھی اُسکی تو عزت بڑھ گئی تھی۔ محب نے تو اُسے خود مرہم بھی لگائی تھی!

فریحہ بیگم بہت سخت اُلجھ چکی تھیں، کیسے ہدا نے کوئی ریکشن نہیں دیا تھا!

نہیں جانتی تھیں کے اُنکی نفرت کا وار جب ہو رہا تھا تب کسی کی محبت بھری مرہم نے اُس لڑکی کو سنبھال لیا تھا۔ اور محبت بھی وہ جو دل کی سچائی کے ساتھ منسلک تھی!

                                   ...........

وہ نماز پڑھنے کے بعد ویسے ہی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کے باہر سے آتی آوازوں کی وجہ سے کمرے سے باہر گئی۔

"تم نے کیا نا یہ؟
بدلہ لے لیا نا تم نے۔" علینہ اپنے ہاتھوں میں پھٹے ہوئے کپڑے لیے بولی۔

تو یہ شور علینہ کا ڈالا ہوا تھا۔
وہ سردمہری سے علینہ کو دیکھے گئی، جیسے وہ اُسکے الزامات میں دلچسپی لے ہی نہیں رہی تھی۔

"کتنی گری ہوئی حرکت ہے ہدا۔
علینہ نے کہا تھا نا کے غلطی ہوئی تھی صبح، پر تم نے بدلہ لے کر ہی چھوڑا!"
تائی بھی علینہ کی دیکھا دیکھی بول پڑیں۔

مجیب جو وہاں سے گزر رہا تھا اتفاقاً، سب کچھ سن چکا تھا۔ وہ رکا اور اُن سب کی طرف آ کر بولا۔

"ہدا ایسا نہیں کر سکتی، آپ اُس سے پوچھ رہی ہیں یا الزام لگا رہی ہیں؟"

"اس نے نہیں کیا تو کس نے کیا؟
تم جانتے ہی کیا ہو؟" وہ نخوت سے بولیں۔

"زیادہ نہیں جانتا پر علینہ سے پوچھ لیں، آجکل اُس سے بھی بہت غلطیاں ہو رہی ہیں۔
اور تم چلو آیان کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہے."

وہ مجیب کی بات سنتے ہی وہاں سے چلی گئی، پر آیان کے کمرے کی اور نہیں بلکہ ولا سے باہر کی طرف، مجیب اُسکے پیچھے ہی تھا پر اُسکے یہ کہنے پر کے وہ کچھ وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی، وہ آیان کے پاس اکیلا چلا گیا۔ اور وہ ولا سے باہر چل دی۔

باہر نکلتے ہی سٹریٹ کے آخر میں اُسے پارک نظر آیا، جہاں وہ اکثر جاتی تھی۔ وہ وہاں کی طرف چل دی۔ موسم تھوڑا خنکی والا تھا، اور اُمید کے برعکس پارک میں کوئی نہیں تھا۔ وہ دور پڑے ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔ اور اپنی سوچو کے ٹوٹے سلسلے میں پھر سے کھو گئی۔ وہ بےبس تھی، بےحد بےبس، وہ ویسے ہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند گئی۔

"انسان بےبس ہو سکتا ہے، پر خدا نہیں۔
اُسے محسوس کرو، وہ رب ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔"
اچانک سے ایک دھیمی اور نرم آواز اُسکی سماعت سے ٹکرائی۔ دیکھنے پر اُسے ایک عورت دوپٹے کے ہالے میں، روحانی چہرہ لیے نظر آئیں۔

اُسکی یادداشت کے مطابق تو پارک میں کوئی نہیں تھا۔
پھر وہ کب آ کے اُسکے پاس بیٹھ گئیں کے اُسے محسوس بھی نہیں ہوا؟

"کیا سوچ رہی ہو؟
اور اتنا کیوں سوچتی ہوں؟" وہ اُسے دیکھ کے مسکرا کے پوچھنے لگیں۔

"نہیں، میں سوچ رہی تھی کے آپ یہاں کب آئیں۔" ہدا دھیرے سے بولی۔

"جب تم اُلجھنوں میں اُلجھی ہوئی تھی، میں تب یہاں آئی تھی۔
اُلجھنین ساتھ ساتھ سلجھا لینی چاہیئے، ورنہ انسان پورا ہی اس جال میں پھنس جاتا ہے۔"

"سلجھاتی ہوں، پر کئی چیزیں کئی بار سمجھ نہیں آتیں!" وہ نہیں جانتی تھی کے کیوں، پر وہ اُنسے اپنے دِل کی بات کرنے لگی۔

"تو کیوں سمجھتی ہو؟
جیسے ایک پرائمری سکول کا بچہ ہائی سکول کی کتابیں نہیں سمجھ سکتا، ویسے ہی ہو سکتا ہے تمہاری الجھنیں اس وقت میں سمجھ آنے والی نا ہوں۔
پر ایک وقت آئیگا کے تم سب سمجھ جاؤ گی۔"

"پر کب!
میں بہت بےچین ہوتی جا رہی ہوں!" وہ دھیرے دھیرے نم ہوتی آنکھوں سے بولی۔

"بے چینی کو ختم کرنا ہے تو سب چھوڑ دو۔
اُس رب پر چھوڑ دو۔
وہ ہے نا؟
وہ تمہیں تمہاری سکت سے زیادہ نہیں آزمائے گا."

"ایسے لگتا ہے جیسے میں خود کے قابو میں نہیں رہ پا رہی، میں بہت مشکل سے خود کو روک رہی ہوں!
میں کیا کروں؟"
اُسنے بھیگی آنکھوں سے پھر پوچھا، جس پر وہ خاتون مسکرا گئیں اور بولیں۔

"خود کو قابو میں کرنے کے لیے خود کے اندر جھانکو۔ اپنے اُس ایمان کو ڈھونڈو جو تمہارے دل میں ہے۔ وہ ایمان ہی تمہاری مدد کریگا!"

اُنکی باتوں نے ہدا کے منتشر ذہن کو کافی حد تک پرسکون کردیا تھا۔ وہ اُنھیں دیکھے گئی اور بولی۔

"میں یہ سب کسی سے نہیں کہہ سکتی!
کیا آپ یہاں روز آتی ہیں؟ مجھے آپ سے بات کر کے کافی سکون ملا ہے۔"

"ملنا بھی مقدر کی بات ہے، خدا نے لکھا ہوا تو ہم دوبارہ بھی ضرور ملیں گے۔ نہیں تو یہ سب اُس سے کہہ دینا۔"

"کس سے؟" ہدا اُلجھتے ہوئے پوچھ پڑی۔

وہ ہدا کو مسکراتے ہوئی دیکھ کے بولیں۔

"اُس سے جو تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے.
اور وہ بس اللّٰہ ہے!"

یہ کہتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں اور ہدا بھی۔ کچھ دیر بعد وہ ہدا کو خود سے دور، پارک کے ایک کونے سے باہر نکلتی ہوئی دکھیں۔

اُن کی باتوں میں کچھ تو تھا، کوئی تاثیر تو تھی کے ہدا اب تک اپنی جگہ پر ہی کھڑی تھی۔

پھر کچھ دیر بعد ولا کی طرف چل دی، اس بار اُسکی آنکھیں جل نہیں بلکہ چمک رہی تھی۔
ایک اُمید بھرے اطمینان سے۔۔۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں جاتے ہی اُس نے لائٹ آن کی اور آگے جو دیکھا وہ دیکھ کے حیران ہوگئی۔ اُسکے بستر پر ایک بہت پیارا کنول کے پھولوں کا گلدستہ پڑا ہوا تھا۔

اُسنے اُسے اٹھایا اور اُسکے نیچے پڑے ہوئی کارڈ کو بھی جس پر لکھا تھا۔

"آئی ایم سوری ہدا محب۔" بس ایک سطر، اور وہ جانتی تھی کے یہ محب کا ہی کام تھا۔ وہ جانتی تھی کے محب ایسا ہی ہے، سیدھی اور سادی بات کرنے والا۔ اگر معافی بھی مانگے گا تو ایسے ہی ڈائریکٹ سی۔

پر اپنا نام دیکھ کے وہ ہنس گئی جس کے ساتھ محب نے جان کے اپنا نام لکھا تھا۔ اپنا حق بتانے کے لیے کے اب وہ اُسکا محض کزن نہیں بلکہ اُسکا ہمسفر بھی ہے۔

"ہنستے ہوئے اچھی لگتی ہو۔" وہ جو کمرے کے باہر اسکا رویہ دیکھنے کو کھڑا تھا، خود بھی مسکرا دیا۔

وہ جھنپ گئی اور گلدستہ بیڈ کے ساتھ پڑے ٹیبل پر رکھنے لگی۔

"آپ کب آئے؟" جواب کے برعکس وہ بھی سوال کر گئی۔

"میں یہیں تھا، تم نے بس دیکھا نہیں.
اب ہاتھ کیسا ہے؟ درد تو نہیں کر رہا؟"

"اب ٹھیک ہے کافی۔" وہ نرم لہجے میں بولی۔ اور محب کو لگا کے جیسے یہ جو لڑکی اب اُسکے سامنے کھڑی ہے، یہ ہی اصل ہدا ہے۔

"پر مجھ سے ایک غلطی ہوئی ہے۔
اور مجھے گلٹ بھی ہے۔"

"مجھے نظر انداز کرنے کے علاوہ بھی تم نے کوئی غلطی کی ہے؟" وہ ہدا کو تنگ کرتے ہوئے معصومیت سے بولا۔

"علینہ، علینہ کے کپڑے میں نے ہی،
میں نے ہی پھاڑے تھے۔۔۔" وہ نظریں جھکا کر بولی۔

"تم نے؟
تم یہ بھی کر سکتی ہو؟" محب ہنستے ہوئے بولا، جیسے اُسے یقین ہی نہیں آ رہا ہو کے ہدا بھی اتنی ہمت کر سکتی ہے.

اُسے چپ دیکھ کر اُسنے بھی اپنی ہنسی بند کی اور سیریس ہو کر بولا۔

"میری بیوی ایسی ہی ہونی چاہئے، جو نرم ہو، معاف کرنا جانتی ہو پر خود کے ساتھ غلط کرنے والوں سے ٹھیک ٹھاک بدلہ بھی لینا جانتی ہو۔"

"پھر اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپکا؟"

ہدا کا اشارہ اپنی طرف پا کر وہ مسکرا گیا اور بولا۔

"میں معافی مانگتا ہوں۔ پوری سچائی اور پورے دل سے۔"

"اچھا؟
اُمید کرتی ہوں کے دوبارہ آپکو معافی نا مانگنی پڑے۔" وہ بھی مسکراتے ہوئی معنی خیز لہجے میں بولی اور اپنے ہاتھوں میں کنول کے پھول دیکھنے لگی۔
وہ جو اُسنے سکون کھویا تھا، وہ اُس میں آہستہ آہستہ واپس آرہا تھا۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات ویسی ہی کالی تھی، اور وہ خواب کے زیرِ اثر۔
پر آج وہ اندھیرے سے ڈر نہیں رہی تھی، گو کے وحشت سے خائف تھی، پر چلتی گئی۔

آج اُسکے پیر بہت ٹھنڈے ہو رہے تھے، مانو رات کی خنکی اور ٹھنڈک اُسکے پیروں سے ہوتے ہوئے اُس میں سرایت حاصل کر رہی ہوں۔ وہ چلتی گئی، اس بات کی پروا کیے بغیر کے آج ضرورت سے زیادہ ٹھنڈ اُسے محسوس ہو رہی تھی۔

وہ چلتی گئی کے کسی نے زور سے اُسکا کندھا جھٹکایا۔ وہ سہم گئی، پر دوبارہ جھٹکنے پر جیسے وہ کسی خواب سے جاگی ہو۔ کوئی آواز اُسکے کانوں میں پڑی۔

"آپی، آپی کیا کر رہی ہیں یہاں؟"
تھوڑا ہوش میں آتے ہوئے اُسکی حساس بیدار ہونا شروع ہو گئیں۔ دھیرے دھیرے اُسنے آنکھیں کھولیں اور یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کے وہ ولا کے ٹیرس پر تھی۔

ننگے پاؤں، خنکی اور ٹھنڈ شاید ise وجہ سے اُسے لگ رہی تھی کے اس وقت رات کا تیسرا پہر جو چل رہا تھا۔
اتنے میں ہی اُسکی نظر آگے پڑی جہاں بلکل سرے پر آیان چل رہا تھا، ایک قدم کی بھی چوک اور اُسکا گرنا طے تھا۔

"آیان، آیان!" وہ سوئی جاگتی کیفیت میں بولی۔ تحریم جو پانی پینے اُٹھی تھی، ہدا کو اوپر جاتے دیکھتے اُس کے پیچھے پیچھے آگئی۔ نہیں جانتی تھی کے آیان بھی اُسکے ساتھ اوپر ہوگا۔

تحریم تیزی سے  آیان تک گئی اور اُسے پیچھے سے اٹھا کے ہدا کے پاس بھاگ کے آگئی۔

آیان سویا ہوا تھا، پر اُسکے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے بتا رہے تھے کے وہ بھی سوتے میں ایک عذاب میں مبتلا ہے۔

ہدا نے اُسے پکڑنا چاہا پر اُسی لمحے محب آیان کو کمرے میں نا پا کے، اُسے ڈھونڈتا ہوا چھت تک آچکا تھا۔

"کیا ہورہاہے یہاں؟"
اُسکی آواز سننے کی دیر تھی کے آیان اپنی نیند سے بیدار ہوا اور دل کو کاٹ دینے والی آواز میں رونے لگ پڑا۔ اُسکا رونا بےحد ازیت سے بھرا ہوا تھا۔ وہ محب کی طرف اشارہ کرنے لگا، محب نے اُسے جا کر فوراً اٹھا لیا اور اُسے تھپکانے لگا۔

آیان اتنا شدید ڈرا ہوا تھا کے اُسکی زبان سے محض سسکیاں ہی نکل رہی تھیں۔

"کیا ہوا ہے یہاں؟" محب نے تحریم کو دیکھتے ہوئے بولا۔

"وہ، وہ میں پانی پینے اُٹھی تھی تو میں نے ہدا آپی کو چھت پر جاتے دیکھا، میں نے اُنھیں آواز دی پر وہ شاید سن نہیں سکی تھیں۔ میں اُنکے پیچھے آئی تو وہ آیان کی طرف جا رہی تھیں، میں نے انہیں آواز دی، شاید آپا نیند میں چل رہی تھیں۔ پھر ایک دم سے انہوں نے آیان کی اور اشارہ کیا جو کسی بھی لمحے نیچے گر سکتا تھا، میں نے اُسے وقت رہتے اٹھا لیا، یہاں لے آئی اور اتنے میں ہی آپ آگئے!"

محب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے تحریم کیا کہہ رہی تھی۔ ہدا تو کبھی ایسے نیند میں نہیں چلی تھی، تو یہ سب کیا تھا؟

"آیان کو تم میرے کمرے سے لے کر یہاں آئی تھی؟"
محب ہدا کی اور دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھنے لگا۔

"نہیں، مجھے نہیں پتہ.."
اس سے پہلے کے وہ جواب دیتی محب پھر سے بولا۔

"تو تم یہاں آیان کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟
تم دونوں ٹیرس پر ایک ساتھ ہو۔ آیان کے خوابوں کے متعلق جانتے ہوئے بھی تم نے یہاں تک اُسے کیوں آنے دیا؟
اور اب تم یہ کہہ رہی ہو کے تم نہیں جانتی تم یہاں کیسے آئی؟"

"میں نہیں جانتی، میں تو سو رہی تھی۔"
وہ ویسے ہی نا سمجھ لہجے میں بولی۔ اور آیان کی طرف بڑھتے ہوئی اُسے اٹھانا ہی چاہا کے محب نے آیان والا رخ موڑ لیا اور بولا۔

"میں نے تمہیں وقت دیا، نہیں پوچھا کے کیوں تمہاری امی نے آیان کو اپنی بہن کو دیا تھا۔ نہیں کیا کوئی بھی سوال!
سب نے کہا کہ اُنہوں نے آیان کی ذمےداری سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ میں نے نہیں مانا!
پر آج جو میں دیکھ رہا ہوں وہ کیا ہے؟
کیا ہے یہ سب؟" ہدا کو پہلے تو سمجھ نا آیا پر محب کی باتیں اُسے مکمل جگا گئیں۔

"ذمےداری سے بچنے کے لیے؟
کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
میری امی کو آپ کیا جانتے نہیں تھے!
آیان کو خالہ کو دینا مجبوری تھی، کیونکہ تائی چاہتی تھیں! آپ یہ سب کیسے ..." اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتی محب نے وحشت زدہ آیان کو دیکھتے ہوئے سخت آواز میں بولا۔

"تو ابھی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
اور رات کے تین بجے آیان کیوں ہے یہاں؟
اگر آج تحریم نا آتی تو!
تو۔۔۔ کیا ہے یہ سب ہدا؟"

"آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں؟
میں کیا آیان کو نقصان پہنچا سکتی ہوں؟" اُس سے زیادہ یہ سوال ہدا نے خود سے کیا تھا۔ وہ یہ بات سن کر چپ ہوگیا۔ پھر کچھ دیر بعد بولا۔

"میں بس یہ جانتا ہوں کے آج اگر تحریم وقت پر نا آتی، تو آیان چھت سے نیچے گر سکتا تھا!
ورنہ اس سب کی کوئی وجہ مجھے دے دو، کچھ بتا دو کے تم رات کے تین بجے یہاں کیا کر رہی ہو۔ اور آیان یہاں کیسے آیا؟"

وہ چپ رہی، کیا آج بھی اُسے ثبوت دینا تھا؟
کیا آج پھر وہ شک کے دائرے میں تھی؟

وہ کل تک تو خود کے لئے گواہی دے دیتی، پر آج۔۔۔

آج تو وہ خود سے بھی انجان تھی؟
وہ تھک رہی تھی، اُسکے اندر نا چاہتے ہوئے بھی بےبسی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک ایسی بےبسی جو اُسکا وجود راکھ کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rani_dream_faith ✨
The story is about to end, well this is the longest chapter so far🌺 ✨
Read n give ur feedbacks.

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top