۳۳


اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے (سورہ ال عمران آیت ۱۳۹)

آزمائشیں آئینگی، انسان کو پرکھا جائیگا، پر کامیاب وہی ہونگے جو خدا کے لیے صبر کرینگے!
    
                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دِن رات میں بدل چکا تھا، جہاں آغا ولا میں سب اس نئی خبر سے حیرت میں مبتلا تھے وہیں ہدا کی خالہ کا آیان کو خود سے دور کرنے پر جی منہ میں آرہا تھا۔ اُنہوں نے اسکو جنم نہیں دیا تھا پر اُسکے پہلے قدم کے اٹھانے سے، اُسکے پہلے لفظ کے بولنے پر سب سے پہلے خوش ہونے والی وہ ہی تھیں!

وہ آیان کی ماں تھیں، خون سے نہیں پر دل سے انکا بھی آیان سے رشتہ تھا!

سچائی جاننے کے بعد سب نے اُنکا بہت شکریہ ادا کیا، گو کہ نہیں جانتے تھے کے صوفیہ خانم کے اس فیصلے کی وجہ کیا تھی۔۔۔

خاص طور سے آغا جان نے اُنھیں مکمل اجازت دی تھی کے وہ جب چاہیں آیان سے آ کر مل سکتی ہیں، اور آیان جب چاہے اُنکے پاس جا سکتا ہے۔ یہ تسلی اُنکو کچھ حد تک مطمئن کر گئی۔

سچ یہ بھی تو تھا نا کے آیان، آغا جان کا خون تھا، اُسکا اصل یہاں تھا اور اب وقت تھا کے اُسے اس کے اصل کے پاس چھوڑ دیا جائے۔

زیادہ تسلی اُنھیں ہدا کی وجہ سے بھی تھی، وہ اُن دونوں کی محبت سے واقف تھیں اس لیے وہ سوتے ہوئے آیان کو ڈھیر سارا پیار کر کے وہاں سے رات میں چلی گئیں۔

ہدا بھی اپنے کمرے میں آچکی تھی۔

وضو کر کے وہ جائے نماز پر بیٹھی، نماز پڑھنے لگی۔ یہ ایک واحد طریقہ تھا جس سے وہ اپنے منتشر ذہن کو سکون دے سکتی تھی۔

اسکے بعد وہ اُٹھی اور سونے چل دی۔ دِن بھر کی تھکن تھی سو نیند اُسے جلد ہی آگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

"اتنا اندھیرا؟" اندھیرے میں ڈوبی کوئی جگہ تھی، وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے پاس کی جگہ کا جائزہ لینے لگی، لیکن اسکے ہاتھوں سے کچھ بھی نہیں ٹکرایا۔ جیسے آس پاس بس خلا تھی۔

"یہ کونسی جگہ ہے!" وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی۔

وہ تو کبھی اپنے کمرے میں اندھیرا کر کے نہیں سوتی تھی، تو پھر آج یہ کیا ہورہا تھا۔ اتنا اندھیرا اُسنے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یہ اندھیرا ایسا تھا جو اُسکے اندر تک سرایت کرنا چاہ رہا تھا۔

وہ چلتی گئی، یہاں تک کہ ایک سخت چیز سے اُسکی ٹکر ہوئی۔ ہاتھوں سے ٹٹولنے پر پتہ لگا کے وہ کسی دیوار سے ٹکرائی ہے۔

"یہ کونسی دیوار ہے؟" وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی۔
پر بےحد وقت برباد کرنے پر بھی اُسے کوئی باہر جانے کا راستہ نا ملا۔ وہ دیوار کی الٹی سمت چلنے لگی، کچھ ہی دیر بعد وہ پھر سے ایک دیوار سے ٹکڑا گئی، اب وہ مضطرب ہو چکی تھی۔

وہ جہاں جاتی وہ خود کو کئی دیواروں میں قید پاتی!

یہ احساس بہت گھٹن زدہ اور وحشت ناک تھا۔

وہ ہر راستے کو خود پر تنگ اور بند پا رہی تھی۔ اندھیرا گزرتے وقت کے ساتھ گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا تھا۔

اُسکی ٹانگیں ٹوٹنے لگیں، جیسے ایک لمبی مسافت اُس نے طے کرلی تھی۔

اپنی ہمت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ کے وہ گھبرا گئی۔
وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھی۔ پر یہ سب کیا تھا؟

ایک خواب؟ یا حقیقت...
خواب تھا تو حقیقت سے زیادہ ہولناک کیوں تھا۔

وہ اب بھاگنے لگی، اُسکی ٹکر کئی دیواروں سے ہوئی، پر ہر دیوار ٹٹولنے پر بھی اُسے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا۔ وہ بھاگتی رہی، وہ کھوجتی رہی پر بے سود۔

اُسے ایسے لگا جیسے اُسکا سانس اکھڑنے لگ گیا ہے، جیسے اندھیرے نے اُس سے اُسکی سانس چھین لی ہے۔

وہ ہانپنے لگی، زمین پر اسی اثناء میں گر گئی اور اپنے گرد اپنی بازوں کو پھیلا کر سہم کر بیٹھ گئی۔
سانس لینے کی کوشش میں اُسکی حالت مزید بگڑ رہی تھی، اتنے میں ہی ایک نوکیلی آواز اُسکی سماعت سے ٹکرائی۔

وہ آواز کو سمجھ نہیں پا رہی تھی، پر آواز اُسکے قریب سے آرہی تھی۔ اُسکی آنکھیں کچھ دیر میں چندھیا سی گئیں تھیں، آہستہ آہستہ اُس نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ ویسے ہی اپنے بستر پر کمبل کے اندر لیٹی ہوئی تھی، اور جس آواز سے وہ اُٹھی تھی وہ اُسکا الارم تھا جو وہ تہجّد کے لیے لگاتی تھی۔

الارم بند کرکے اُسنے ایک گہرا سانس لیا۔ وہ ویسے ہی تھکی ہوئی تھی جیسے اپنے خواب میں تھکی ہوئی تھی۔ پسینے سے بھیگی ہوئی، پر پھر اپنا دوپٹہ اپنے گرد لپٹا دیکھ کے سوچنے لگی۔

"شاید نماز کے بعد میں ایسے ہی حجاب میں سو گئی، اس لیے سانس بند ہو رہا تھا۔" پر یہ صرف اُسکا خیال ہی تھا۔

اصل میں وہ اندر سے سہم چکی تھی.
اُسنے پہلے کبھی ایسی وحشت محسوس نہیں کی تھی!

خیر تہجّد پڑھنے کے بعد اُسنے سورہ رحمان کی تلاوت لگا دی اور وہ سنتے سنتے پھر سے سو گئی۔

فجر تک وہ سوئی رہی، پھر اُٹھ کے نماز پڑھ کر دعا مانگی اور ٹیرس پر چہل قدمی کرنے چلی گئی۔

سورج طلوع ہو رہا تھا، منظر بےحد حسین تھا، رات کی وحشت اس اُجالے کو دیکھ کے کافی حد تک مدھم پڑ چکی تھی۔ اُسنے چلتے چلتے سر سری سا نیچے دیکھا جہاں گیٹ کھولے کوئی باہر جا رہا تھا۔ اور وہ محب تھا جو ٹریک سوٹ میں نماز کے بعد اب جاگنگ کے لیے جا رہا تھا۔ وجیہہ تو وہ تھا ہی، پر ایسے اس پل میں وہ اور بھی وجیہہ لگ رہا تھا۔ خیر سر جھٹکتے ہوئے وہ آیان کے بارے میں سوچنے لگی۔

یہ سوچ کے آیان کمرے میں اکیلا ہوگا وہ محب کے کمرے میں آگئی۔ پر آیان بستر پر نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کے شاید وہ واش روم میں ہو وہ وہاں گئی، پر آیان وہاں بھی نہیں تھا۔

پھر اچانک سے اُسے کسی کے ہلکے ہلکے رونے کی آواز آئی۔ آواز کی اور بڑھ کے اُسنے دیکھا کے بستر کی پچھلی اور آیان دبک کر بیٹھا رو رہا ہے۔

"آیان، میری جان کیا ہوا؟
کیوں رو رہے ہو؟" وہ اُسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

"آنی، آنی مجھے سانس نہیں آ رہا تھا۔ محب، محب بھائی بھی کمرے میں نہیں تھے۔ میں آپکو بلا رہا تھا پر آپ بھی نہیں آرہی تھیں۔" وہ رونے کے بیچ میں بولا۔

"آیان، محب نماز پڑھنے گئے تھے نا، وہ کمرے میں نہیں تھے۔ اور دیکھو اب میں آگئی ہوں!"

"آنی، مجھے رات میں بہت ڈر لگ رہا تھا۔
مجھے بہت خوف آرہا تھا آنی!"

"آیان، اِدھر دیکھو میری طرف۔" وہ اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔

"آیان تو بہادر ہے نا! اور پھر اللہ جی تو ہمارے ساتھ، ہر وقت ہوتے ہیں۔۔۔؟"

"اللہ جی ہر وقت ہوتے ہیں آنی؟
رات میں بھی نا؟"

"ہر وقت، ہر جگہ پر وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اس لئے آیان نے اب بلکل نہیں ڈرنا۔" اُس نے اُسکے آنسو پونچے۔ ہدا کی بات سن کر آیان جیسے کچھ سوچنے لگ پڑا۔ پھر اُٹھ کر بیڈ پر آگیا۔ پورے دِن کے آرام کے بعد اب وہ کافی فرش محسوس کر رہا تھا۔

پھر اُن دونوں نے بہت سی باتیں کی، باہر جا کر ناشتا کیا۔ اس سب سے فارغ ہو کر ہدا اپنے کمرے میں واپس ہی آئی تھی کے ایک شدید درد کی ٹیس اُسکے سر میں اُٹھی۔ درد اتنا شدید تھا کے وہ لڑکھڑا سی گئی۔

خود کو سنبھالتے ہوئے وہ پاس پڑے بستر پر بیٹھ گئی۔
اُسے کچھ لمحے نارمل ہونے میں لگے، پھر وہ آہستہ سے اُٹھی اور الماری سے کپڑے نکالنے لگی۔ پر جو دیکھا وہ دیکھ کے چونک گئی۔

کچھ عرصہ پہلے مجیب نے اُسے جو حجاب دیا تھا وہ عین بیچ میں سے پھٹا ہوا تھا۔ اتنے برے طریقے سے کے جیسے کسی نے جان کے....

پر اُسکے کمرے میں تو کوئی نہیں آیا تھا!

"یا اللہ!
یہ سب کیا ہو رہا ہے!"

وہ بےبسی سے کہتی اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔
کل سے جو سب ہو رہا تھا وہ سب بہت عجیب تھا، اُس سب نے اُسے اندر تک وہموں میں گھیر لیا تھا۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محب جاگنگ کے بعد سیدھا ہدا کی خالہ کی طرف گیا تھا۔ وہ اُسکے آنے کا مقصد نہیں جانتی تھیں۔
وہ نہیں جانتی تھیں کے ہدا نے ابھی تک محب کو بتایا ہوگا بھی کے نہیں۔ اُنھیں اس کشمکش میں دیکھ کے محب اور بھی مضطرب ہورہا تھا۔

"خالہ، جو کچھ بھی ہوا میں اُسکی وجہ آپ سے نہیں جاننا چاہتا۔ میں بس آپکا شکریہ کرنا چاہتا ہوں کے آپ نے آیان کی تربیت کی، اُسے ماں بن کے پیار کیا۔"

"محب! آیان ہمیشہ میرا بیٹا رہیگا۔۔۔
میں جانتی ہوں کے سچ جاننےکا حق تم پورا رکھتے ہو۔ پر اگر تمہیں ہدا نے کچھ نہیں بتایا تو اسکا مطلب وہ کسی وعدے کی قید میں ہے۔۔۔
میں تمہیں یہی نصیحت کرونگی کے اُس کے کہنے کا انتظار کرنا۔
اگر ہدا نے تمہیں نہیں بتایا تو کوئی وجہ ہوگی۔ تم اُسے تھوڑا وقت دو، وہ خود تمہیں سب بتائے گی، یقین رکھو۔"

وہ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہہ سکا، لیکن وہ اس لڑکی پر یقین کرتا تھا جبھی اُسنے خالہ سے خود کچھ نہیں پوچھا۔

کچھ دیر وہ وہاں بیٹھا پھر اٹھ کر وہاں سے چل دیا، اور کچھ دیر بعد واپس ولا آگیا۔

اندر آ ہی رہا تھا کے لان سے کسی کی باتوں کی آواز اُسے آی۔

"ارے مائرا، ضروری ہے کے ہدا سب کچھ سچ ہی کہے گی؟"

"تم کیا کہنا چاہتی ہو علینہ؟"

"دیکھو، صوفیہ چاچی تو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
ورنہ ہم انہی سے سب سچ سن لیتے نا! اب اگر تم تھوڑا سوچو کے کیوں ہدا یا اُسکی خالہ ہمیں سچ نہیں بتا رہیں تو ہو سکتا ہے یہ معاملہ ہدا، فاریہ چاچی اور اُسکی خالہ سے ہی منسلک ہو؟"

"مطلب!"

"تمہیں اب میں کیسے سمجھاؤں! بس یہ سمجھ لو کہ آیان کو سب سے چھپا کے رکھنا فاریہ چاچی کا ہی اگر پلان ہو؟

دیکھو یہ تو ہم سب جانتے ہیں کے فاریہ چاچی اور صوفیہ چاچی گہری دوستیں تھیں، اور ہمیشہ صوفیہ چاچی کو فاریہ چاچی کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ بھی سننا پڑتی تھی! تھیں تو وہ بھی انسان ہی نا کب تک برداشت کر سکتی تھیں وہ؟

ہو سکتا کے فاریہ چاچی نے صوفیہ چاچی کی وفات پر سوچا ہو کے آیان کو اگر ولا لے کر گئیں تو ساری ذمےداری اُن پر آجائیگی، اور اس سب سے بچنے کے لیے اُنہوں نے آیان کی ذمےداری اپنی بہن کو دے دی، اور ایسے آیان نامی پتہ ہمیشہ کے لیے آغا ولا سے کاٹ ہی دیا؟"

"علینہ!
فاریہ چاچی ایسی نہیں تھیں! تم زیادہ ہی سوچ رہی ہو۔" مائرا کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا سو وہ بولی۔

"کون کیسا ہے کون کیسا نہیں، وہ ظاہر تھوڑی کرتا ہے؟ چاچی نے اگر ایسا نہیں کیا ہے تو خود سوچو ہدا بتاتے ہوئے اتنا ہچکچا کیوں رہی ہے؟"

علینہ جو باہر سے آتے محب کو دیکھ چکی تھی، موقعے پر چوکا لگاتے ہوئے بولی۔

محب کی آنکھیں سرخ پڑ چکی تھیں، ضبط کی کسی انتہا پر تھا شاید وہ۔

وہ پوچھنا چاہتا تھا کے سچ کیا ہے۔ وہ حق رکھتا تھا نا!
پھر اُس سے سب چھپا کیوں رہے تھے؟

"تمہیں میں کیا کہوں!
یہاں تو محب بھی شروع میں چاچی فاریہ کے گھر سے خائف رہتا تھا، تب اُسکی آنکھوں پر ہدا کی پسند کی پٹی جو نہیں پڑی ہوئی تھی۔

اب یہ سب وہ محسوس نہیں کر رہا، پر سوچو اگر یہ سب سچ ہوا تو پھر اُن دونوں کے رشتے کا کیا بنے گا؟"

اس سے زیادہ وہ سن نہیں سکتا تھا اس لیے ولا کے اندر چلا گیا۔ اندر جاتے ہی آیان اور ہدا کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر اُسے لان میں سنی ساری باتیں یاد آگئیں۔ وہ بے خیالی میں اُن دونوں کے پاس گیا اور آیان کو اٹھا کے  جانے ہی والا تھا کے ہدا بول پڑی۔

"آپ آیان کو کیوں لے کے جا رہے ہیں؟"

"تم آیان کے ساتھ بہت وقت گزار چکی ہو، تھک گئی ہوگی۔ میں آگیا ہوں، کچھ دیر میں اسکے ساتھ کھیلوں گا۔" اُسکا لہجہ عام تھا پر ہدا کو اُسکا ایسا بولنا عجیب سا لگا۔ ایسے کبھی وہ آیان کو اُس سے دور لے کے نہیں گیا تھا تو آج کیوں؟

ہدا کو ایسے محسوس ہوا جیسے محب نے اُسکی تذلیل کی ہو حالانکہ ایسا نہیں تھا۔

وہ محسوس کر رہی تھی کے صبح سے اُسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت غصّہ آرہا تھا!

کیوں، وہ بلکل نہیں جانتی تھی! وہ خود پریشان تھی۔

کوئی جواب نا پا کر وہ آیان کو کمرے میں لے گیا۔

ہدا وہیں بیٹھی رہی، کافی وقت گزر گیا پر وہ اپنی جگہ سے نا ہلی۔

یہ تو وہ جانتی تھی کے  محب اُس سے ناراض ہے۔ اور یہ سب شاید اسی لیے اُسنے کیا ہے۔ اور ناراضگی بنتی بھی تھی پر وہ کرتی بھی تو کیا کرتی؟

انجانے میں ہی اُسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ٹوٹ کر گرنا شروع ہوگئی۔ وہ ایسے روتی نہیں تھی پر آج صبح سے ایسی تھی جیسے خود کے قابو میں تھی ہی نہیں۔ اور اس وقت یہ نکلتے آنسو بھی اُسکے شکوے تھے جو وہ زبان سے کر نہیں سکتی تھی۔

کمرے سے باہر، پانی لینے کے لیے آتا محب اُسے دیکھ کر رک گیا۔ اُسکے آنسو بھی اُس سے چھپے نا رہ سکے، اُسے ندامت ہوئی کے ایسے آیان کو اُسے لے کر نہیں جانا چاہیے تھا پر شاید وہ بے خیالی میں آیان کیلئے بہت حساس ہو کر ایسا کر رہا تھا!

"وجہ دے دو مجھے ہدا،
مجھے بتا دو کے یہ سب جو ہوا اسکی وجہ کیا تھی؟"
وہ اُسکے پاس آیا اور آہستہ سے بولا، جو اُس نے بھی سن لیا۔

'نہیں کہہ سکتی، ابھی نہیں. پر کچھ وقت آپ مجھ پر یقین کرلیں۔' یہ جواب اُسنے نہیں بلکہ اُسکی نم آنکھوں نے دیا تھا۔
وہ تو بس خاموش تھی۔ خاموشی سے محب کو دیکھے گئی۔ آنسو ویسے ہی بہتے گئے.

اور محب اُسکی خاموشی سے اور مضطرب ہوگیا، وہ واقعی اس لڑکی کی آنکھوں میں کوئی دکھ نہیں دیکھ سکتا تھا، کیوں وہ دونوں ہمیشہ حالتوں کی ضد میں ایک دوسرے کے مجرم بن جاتے تھے؟

کیوں وہ محبت کہیں دور کھڑی بس اُنہیں دیکھتی رہ جاتی تھی؟

وہ مزید اُسکی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتا تھا، وہ بس اپنا سچ جاننا چاہتا تھا! وہ غلط نہیں تھا۔۔۔

وہ ہلکے سے ہدا کو شانو سے جھنجھوڑ کے بولا۔

"ایسے چپ نہیں ہو سکتی تم ہدا۔۔۔
اس سچ کو جاننا میرا حق ہے۔
تم کہو تو سہی، تم جو کہو گی میں اُس پر اعتبار کرونگا۔ پر یوں مجھ سے کچھ نا چھپاؤ!"

ہدا اسکے لیا تیار نہیں تھی، پر محب کو ایسے دیکھ کر اُس کو اپنا آپ غصے کی لپیٹ میں جلتا ہوا محسوس ہوا، وہ غصّہ ہونا نہیں چاہتی تھی، وہ محب کی مجبوری سمجھتی تھی۔۔۔

اس لیے کچھ اور کرنے کی بجائے وہ محب کے ہاتھ جھٹکتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔

محب اُسے جاتا دیکھے گیا۔
غصّہ کم ہونے پر اسکو اپنا رویہ انتہائی نازیبا لگا!
یہ احساس کے ہدا شاید اُسکے رویے سے ڈر گئی تھی اُسے مزید شرمندہ کر گیا!

وہ اپنا ہاتھ دیوار پر زور سے مارتے ہوئے خود کو ملامت کرنے لگا۔۔۔

وہ اُسے کسی صورت ڈرانا نہیں چاہتا تھا، اور جب کل اُس نے ہدا کو وقت دینے کا فیصلہ کیا تھا تو کیوں آج علینہ کی باتوں سے وہ ایسے متاثر ہوا تھا؟

کیوں وہ علینہ کی باتوں کو لاشعوری طور سے سچ سمجھ رہا تھا؟

وہ ایسے ریکٹ بلکل نہیں کرنا چاہیے تھا پھر کیوں؟

باہر وہ شرمندہ کھڑا تھا اور اندر کمرے میں جاتے ہی ہدا نے اپنا سر پکڑ لیا، اُسکی ٹیسیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اگر وہ کچھ لمحے بھی باہر رہتی تو وہ کچھ اور نا سہی محب کو تھپڑ ضرور مار جاتی، اور ایسا اُسکے ذہن میں خیال آیا بھی تھا!
اُسکا ہاتھ اُٹھتے اُٹھتے رہا تھا، پر وہ ایسا کسی صورت نہیں کر سکتی تھی۔

یہ اُسے کیا ہوتا جارہا تھا؟ کیوں وہ ایک غصے کی آگ میں جل رہی تھی؟ غُصہ تو شیطان کی طرف سے آتا تھا نا!

اس سب کے وجہ سے وہ بےحد بےچین ہو چکی تھی، وہ اپنے خیالات پر دسترس حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔

وہ اپنا غُصہ بہت مشکل سے سہہ رہی تھی، اُسکے ساتھ کچھ تو گڑبڑ ہو رہی تھی، جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی!

پر وہ خاموشی سے سہہ رہی تھی، اس بات سے بےخبر کے اُس پر جو عملیات کروائے گئے تھے وہ محض شیطانی نہیں بلکہ سفلي تھے۔ کالے جادو کی سب سے گھناؤنی شکل!

وہ اُٹھی اور وضو کرنے چلی گئی، کے نماز پڑھ کر ہی اُسکی حالت کچھ بہتر ہوتی تھی، اور وہ جائے نماز پر ہی خود کو ایک محفوظ حصار میں محسوس کرتی تھی۔۔۔

جو جو وہ محسوس کر رہی تھی وہ بہت عجیب و غریب تھا، پر وہ جانتی تھی کے جو بھی اُسکے ساتھ ہورہاہے اُسے خدا جلد ٹھیک کردینگے۔

اور یہ شاید اُسکا ایمان ہی تھا جو اُسے سہنے کے طاقت دے رہا تھا۔۔۔

                               ۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith✨
Thanks for 2k reads, This Earliest Update is for all of you. :D

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top