۳۰


 اور خدا پر بھروسہ رکھنا۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔ (سورہ الاحزاب ۳)

بھروسہ، اعتبار اور یقین صرف اور صرف خدا پر!
خالی لفظوں سے نہیں۔
بلکہ دل سے!
دل کی گہرائیوں سے!
یہ یقین رکھ کر کے خدا اس بھروسے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیگا!
 
                                  ...........

ہدا کا ذہن ماوف ہو چکا تھا۔
اُسے یہ بھی نا پتہ لگا کے کب آغا جان کا پرسنل ڈاکٹر ہال میں آیا اور کب آغا جان کا سرسری سا معائنہ کیا، بات خطرے کی نہیں تھی یہ تو وہ ڈاکٹر سمجھ چکا تھا پر اس سے پہلے کے وہ سب کو بتاتا آغا جان نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر زور سے کھانسی شروع کردی۔ وہ جو مطمئن تھا دوبارہ پریشان ہوگیا، اُسکی سمجھ میں پہلے تو نہیں آیا کے آغا کیوں کھانس رہے تھے پر آغا جان کی اور دیکھنے سے وہ ساری بات سمجھ گیا، اُنکی آنکھ کا اشارہ اس کی سمجھ میں آگیا کے وہ سب سے یہ کہے کے آغا جان واقعی ٹھیک حالت میں نہیں ہیں۔۔۔

"ڈاکٹر کیا ہوا بتائیں ہمیں!
کیا ہم ہسپتال لے جائیں آغا کو؟" یہ سوال کسی ایک نے نہیں بلکہ تقریباً سب نے ہی بیک وقت کیا تھا، عادل، عدیل، نفیس، محب! سب نے۔

"نہیں ہسپتال کی ضرورت نہیں!
پر آغا جان ٹھیک نہیں ہیں۔"

"کیا مطلب آپکا ڈاکٹر صاحب؟" عادل آگے بڑھ کر پوچھنے لگا۔

"آغا جان کو کیا ہوا ہے؟
اور وہ کیوں ٹھیک نہیں ہیں؟" ہدا کے ابو بھی بےحد فکر مند لہجے میں بولے۔

"انکو مینٹل اسٹریس ہے!
اور کچھ وقت تو انہیں پرسکون کیا جا سکتا ہے، پر بار بار جب یہ سوچیں گے انکی طبیعت بری طرح سے بگڑ جائیگی." بیچارہ ڈاکٹر سوچتے ہوئے بولا۔

"آغا جان کو ہسپتال لے جانا چاہیے ہمیں!" فراز صاحب فکر مندی سے بولے۔

"ہدا اور محب!
آغا جان کی حالت دیکھو!
اُنکی خوشی کا سوال ہے۔" مجیب معاملے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔

اتنے میں ہی فریحہ بیگم سنبھلی اور علینہ کی خوشیوں کا سوچتے ہوئے بول پڑیں۔

"یہ کوئی بچوں کا فیصلہ ہے؟
پاگل ہو تم مجیب کیا۔۔۔"

پھر کچھ دیر رک کر بولیں۔
"میری نظر میں تو تم ایک زیادہ اچھا آپشن ہو."

ہدا یک دم ہوش میں آئی، آجکا دِن اُسے جذباتی طور سے نڈھال کر گیا تھا۔ وہ خاموش ہی تھی کے اتنے میں علینہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی اوپر آئی اور اُسی کے پیچھے فریحہ بیگم بھی۔

"مجیب دوسری بات یہ کے محب کے لیے ہمارے بزرگوں نے علینہ کو سوچا ہوا ہے اور تم کب سے یہ اول فول بول رہے ہو!" فریحہ بیگم تیش میں آکر بولیں۔
۔
"ٹھیک ہے ہدا کے ساتھ برا ہوا ہے!
پر آغا ولا کے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں، محب کا ہی کیوں کہہ رہے ہو تم؟
ان سب میں محب کو مت شامل کرو!"
علینہ نخوت بھرے لہجے میں بولی۔

"اپنا لہجہ درست کرو علینہ، ہدا کا باپ زندہ ہے ابھی، ایسے ہی کسی کے نام سے میں اپنی بیٹی کو نہیں باندھو گا۔ اپنے لفظوں پر آئندہ غور کرنا۔" ہدا کے بابا کی بات ختم ہوئی اور وہاں علینہ کے بابا نے علینہ کو غصے سے دیکھا تھا۔ واقعی فریحہ بیگم اور علینہ کا لہجہ ضرورت سے زیادہ ترش تھا۔

"پہلے ہسپتال لے جاتے ہیں آغا جان کو!" پاس کھڑی تحریم بولی۔

اسی اثناء میں محب نے تائی کی طرف دیکھا اور کہا۔

"مجھے نہیں یاد پڑتا کے کونسے بزرگوں نے میرا اور علینہ کا نام مجھ سے پوچھے بغیر جوڑا ہے."

پھر انکا جواب سنے بغیر ہدا سے پوچھا۔

"ہدا تم مجھ سے نکاح کروگی؟" آواز دھیمی تھی پر آغا جان کی بھی سماعت سے ٹکڑا گئی۔ اُنہوں نے جب ہدا کو سکتے میں دیکھا تو اپنا سینا پکڑ کے درد سے کراہنے لگے۔ پاس کھڑا ڈاکٹر جانتا تھا اس لیے فوراً سے اُنکا بلڈ پریشر چیک کرنے لگا.

"آغا جان!" سب کے سب اُنکی اور بڑھے۔

اسٹیج پر کھڑے سب کے سب پریشان ہو گئے تھے، یہاں تک کہ فریحہ بیگم بھی!

اب محب کی حد گزر گئی تھی، وہ اٹھا اور ہدا کا دوپٹے میں ڈھکا ہاتھ پکڑ کر اُسے بھی اُٹھایا، وہ لڑکھڑاتی ہوئی اُٹھی، پھر اُسے اپنے چاچو یعنی ہدا کے بابا کی طرف لے کر گیا، پھر بولا۔

"اگر امی ابو ہوتے تو یہ بات وہ آپ سے کرتے، پر آج میں خود آپ سے ہدا سے نکاح کی اجازت مانگ رہا ہوں! کیا آپ مجھے اجازت دینگے چاچو؟" سب کے سب لوگ جہاں محب کی بات سے حیران تھے وہیں علینہ کی کڑوی نظر محب اور ہدا کے ہاتھوں پر تھی، ہدا نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی پر محب کی گرفت کی سختی اور بڑھ گئی تھی۔

اتنے میں ہی ہدا نے اپنے سر پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا، دیکھنے پر اُسکے بابا نکلے جو آج کی پریشانی کے بعد بےحد دکھی لگ رہے تھے!

نم آنکھیں اور ڈھلے کندھے، وہ بھی کیا کرتے ہدا ایک ہی ایک تو اُنکی بیٹی تھی جو آج اس قیامت سے گزری تھی، وہ بس اب اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتے تھے اور جانتے تھے کے اُسکی خوشی کہاں تھی۔۔۔

"اجازت ہے تمہیں محب، میری بیٹی کی ذمے داری آج سے میں تمہیں دیتا ہوں..."

"بابا!" ہدا اس سے آگے کچھ بول ہی نا سکی، اپنے بابا اور آغا جان کے درد اور غم سے جھکے کندھے اُسے بھی بےحد اذیت دے رہے تھے۔

اب اگر اس امر سے اُنھیں خوشی ملنی تھی تو وہ۔۔۔۔
پر یہ سب بہت جلدی میں ہو رہا تھا کے وہ سمجھ بھی نہیں پا رہی تھی...
اُسکا دل محب سے دور جانا چاہتا تھا، پر اُسکے پاس رہتے ہوئے ہی، وہ بہت جھنجھلا رہی تھی۔۔۔

اتنے میں ہی مجیب نکاح خواہ کو وہاں لایا جسنے نکاح پڑھوانا شروع کردیا۔

ہدا ایک ٹرانس میں تھی جو تب ہوش میں آئی جب اُس سے اُسکی مرضی کا پوچھا گیا۔

"کیا آپکو قبول ہے؟"

ہدا نے یہ سننے پر اپنے بابا کو دیکھا، جو مسکرا رہے تھے پھر آغا جان کو جنکی حالت اب قدرے سنبھل چکی تھی اور اُنکی آنکھیں نم تھیں!

اسی میں اُسکی نظر اپنے ہاتھ پر پڑی جو پہلی بار محب نے پکڑے تھے۔ ایک حفاظت، ایک گھیراؤ اُسے خود کے گرد محسوس ہوا تھا۔
پہلی بار اُسے وہاں سے چھاؤں ملی تھی جہاں سے وہ ہمیشہ دھوپ میں رہی تھی۔۔۔

بس اس کے بعد ایک ہی لفظ اُسکے لبوں سے نکلا۔

"قبول ہے!
قبول ہے!
قبول ہے!"

اسی طرح محب کے دل نے بھی اپنی رضامندی دی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہدا محب کی منکوحہ بن گئی۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسد، نفرت اور غُصہ، فریحہ بیگم اور علینہ کی آنکھوں سے برس رہا تھا۔ محب اور ہدا کا نکاح ہو چکا تھا۔

خوشی سے ہال کا ماحول ایک دم بدل چکا تھا، آغا جان کھلکھلا رہے تھے، دادو بھی ہدا کی خوشی کے لیے دعا گو تھیں۔

سب کی آنکہی خواہش جیسے پوری ہوگئی تھی۔

لڑکے بھنگڑا ڈال رہے تھے، سارے مہمان بھی اب فنکشن کو صحیح معنوں میں انجواۓ کر رہے تھے۔
دوسری اور تحریم اور ہدا کی خالہ نے دونوں کو اسٹیج پر بٹھایا، بعد میں محب کو مجیب نے جلدی سے گروم روم میں جا کر ایک شیروانی دی جو وہ جلدی سے پاس موجود بوتیک سے آن ہی آن میں خرید کر لایا تھا۔

سفید شیروانی جس پر تلے کا کام ہوا تھا، محب کو بعد میں اسٹیج پر لایا گیا، اُسکی وجاہت سے ایک پل کو سب اُسے دیکھے گئے پر اُسکی نظر اسٹیج پر گم سم سی بیٹھی لڑکی پر ٹکی ہوئی تھی۔

خیر اسٹیج پر آ کر وہ بیٹھا، اُن دونوں کا فوٹو شوٹ ہونے لگا اور اُدھر مہمانوں کے لیے کھانا کھول دیا گیا۔

جہاں سب کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے وہیں ہدا سخت خفت میں مبتلا تھی!

فوٹو بنواتے ہوئے وہ شازوناظر ہی ہنسی تھی، اوپر سے فوٹو بنوانے کے لیے پوز جو اُسے بتائے جا رہے تھے وہ اُسے مزید شرمندہ کر رہے تھے، ان سب چیزوں سے ایک شخص بہت محفوظ ہو رہا تھا، اُسکے چہرے پر ایک دھیمی سی ہنسی بھی چھائی ہوئی تھی۔

اور وہ محب تھا جو اُسکے ہاتھوں کی کپکپاہٹ بھی محسوس کر رہا تھا۔

فوٹو شوٹ ہونے کے بعد محب اُسکے ساتھ اسٹیج پر گیا اور پھر دونوں نے کھانا کھایا، ہدا نے برائے نام ہی کچھ نوالے لیے جبکہ محب نے ٹھیک ٹھاک سیر ہوکر کھایا، وہ صبح کا بھوکا تھا آخر!

اسی طرح یہ دِن بھی گزر گیا جس نے محب اور
ہدا کی زندگی میں یہ خوبصورت بدلاؤ پیدا کیا تھا۔

                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہال سے واپسی اور واپسی سے اپنے کمرے تک آتے آتے وہ بہت تھک چکی تھی، کمرے میں آتے ہی اپنے زیور اُتارے اُسنے اور پھر چینج کرنے چلی گئی، وضو کیا اور پھر باہر آ کر نماز پڑھنے لگ گئی۔

ایک سادہ سا گرے رنگ کا سوٹ اُسنے پہنا ہوا تھا، حجاب کے ہالے میں اُسکا چہرہ بہت شفاف لگ رہا تھا اتنے میں ہی اُسکے کمرے کا دروازہ کھٹکٹا، وہ سلام پھیر کر اُٹھی اور دروازہ کھولا، سامنے محب کو دیکھ کر سٹپٹا سی گئی۔

جو بھی تھا اب کے سامنے میں اور پہلے کے سامنے میں بہت فرق تھا!

اُسنے ایک نظر ہدا کو دیکھا اور کمرے کے اندر جہاں جائے نماز بچھی ہوئی تھی پھر دوبارہ اُسے دیکھا جس کی نظریں نیچے جھکی ہوئی تھیں۔

"ہدا، آج جو ہوا اُسکا مجھے اور تمہیں اندازہ نہیں تھا پر میں ابھی یہاں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔"

وہ اُسے اُلجھی نظروں سے دیکھے گئی، وہ پھر اپنی بات مکمل کرنے کو بولا۔

"میں نے یہ رشتا پورے خلوص سے جوڑا ہے، بغیر کسی دباؤ میں آ کر! اور یہ کے میں ماضی کے بارے میں تم سے معافی مانگتا ہوں!"

وہ ہنوز چپ رہی، ایسے جیسے اُس سے لفظ چھین لیے گئے ہوں!  وہ اُسے جانتا تھا اس لیے اُسکی خاموشی کو بھی سمجھ گیا۔

"میں اس رشتے کو خلوص پر ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ تمہیں یہ دینا چاہتا ہوں جو میرے لیے بہت اہم ہے اسے میں آج سے تمہیں سونپنا چاہتا ہوں!" یہ کہہ کر اُس نے ایک انگھوٹی ہدا کی طرف بڑھا دی جس پر ایک بہت نازک اور حسین ہیرا جڑا ہوا تھا، وہ انگھوٹی سونے کی تھی اور ہدا جانتی تھی کے وہ انگھوٹی محب کے لیے کیوں بےحد اہم تھی!

وہ اُسکے بابا نے اُسکی ماما کو شادی والے دِن دی تھی، جو آخری دِن تک اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے نہیں اُتاری تھی!

وہ انگوٹھی اُنکی محبت کی نشانی تھی جو آج محب نے ہدا کو دی تھی!

"پر میں، میں اسے کیسے؟
"کیونکہ تم اسے مجھ سے زیادہ سنبھال کر رکھوگی۔ اور یہ کے میں اسے بس تمہیں دے سکتا ہوں۔"
پھر وہ ویسے ہی مسکراتے ہوئے چلا گیا اس سے پہلے کے ہدا اُسے کوئی اور جواب دیتی۔

واپس جاتے ہوئے محب ویسے ہی مسکرا رہا تھا، وہ بےحد سکون میں تھا جیسے اُسے اُسکی کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی تھی، راستے میں کھڑی علینہ پر اُسکی نظر اُسی وقت جا پڑی، اُسکی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں۔

"محب، ایسا کیوں کیا تم نے؟
"تم جانتے تھے کے میں تم سے محبت کرتی ہوں!
اور، اور تم تو اُس سے نفرت کرتے تھے نا!
پھر تم نے اُس سے کیوں کیا نکاح؟"

وہ علینہ کے ریکشن کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے چپ رہا!

وہ علینہ کی باتوں سے سمجھ چکا تھا پر ہمیشہ اُس سے ایک فاصلے میں رہا تھا۔ خود اُس نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس سے علینہ کو اُمید ملتی۔

پھر یہ سب اُسے تنگ کر گیا۔ وہ آرام سے بولا۔

"میں نے کب کہا تھا کے میں اُس سے نفرت کرتا ہوں؟"

"پر تمہارے ہر رویے نے چینخ چینخ کر کہا تھا محب کے تم اُسے پسند نہیں کرتے۔"

"ٹھیک کہہ رہی ہو۔
تب میں اُسے پسند نہیں کرتا تھا پر نا پسند بھی نہیں کرتا تھا۔
جہاں تک بات تمہاری ہے تو میں نے تمہیں نا کبھی اُمید دی نا ہی کوئی اشارہ جس سے تمہاری حوصلہ افزائی ہوتی۔"

"پر محب، تم بھول گئے ہسپتال میں جو میں نے تمہیں..." اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی محب بولا۔

"چپ علینہ!
اس بار میں ہدا پر بھروسہ کرونگا، اپنی آنکھوں اور تمہاری باتوں سے زیادہ!"

وہ یہ کہتا چلا گیا، پیچھے کھڑی ہدا سب سن رہی تھی، یہ اعتبار بس اُسے چاہیے تھا، یہ اعتبار ہی اُسکے دل کو جینا سیکھا بھی سکتا تھا۔

پر وہیں علینہ حسد کی آگ میں جلنے لگی، ایسی آگ کے جس میں جل کر بس راکھ بچتی ہے اور کچھ نہیں!

                                 ............

نئی صبح ایک نئے اُجالے کی رمق لے کر آئی۔
آغا ولا دنوں بعد آج چہک رہا تھا۔ لڑکے جہاں کھانے کے لیے شوروغل مچا رہے تھے وہیں لڑکیاں باورچن کے ساتھ کھانا بناتے بناتے اُنھیں سنا رہیں تھیں۔

علینہ اب تک اپنے کمرے میں ہی تھی، کل جو ہوا اُسکے بعد اسماء مائرا نے اپنا رویہ ہدا کے ساتھ کافی حد تک بدل لیا تھا، رہی بات تحریم کی تو وہ بھی سب کی طرح اصل معنوں میں خوش تھی۔

کھانا لگاتے لگاتے مائرا عادل کی اور مڑ کر بولی۔

"آپ لوگ آج پہلی بار ناشتا کر رہے ہیں؟
مطلب اتنی فرمائشیں، کسی کو آلو کا پراٹھا چاہیے کسی کو خاکینہ! اور تو اور اس نفیس کو آملیٹ!" وہ جھلا کر بولی۔

"ارے، ہم لڑکے والے ہیں، تم ہماری بات ماننے کی عادت ڈال لو شاباش۔" جواب دینے والا عدیل تھا۔

"ہیں ہیں کیا مطلب تمہارا؟" باہر آتی اسماء پوچھ پڑی۔

"دیکھو آغا ولا کی پہلی شادی ہوگی، اور وہ بھی فیملی میں سے ہی، تو سب لڑکیاں ہدا کی، یعنی لڑکی والی کی طرف سے ہونگی اور ہم لڑکے محب کی طرف سے۔

اس طرح یہ شادی ذرا روایتی ہوجائیگی کیوں محب؟" عادل محب کو دیکھتے ہوئے بولا جو مسکرا رہا تھا۔

"ہائے، یہ کیا بات ہوئی بھلا، محب بھائی ویسے یہ سارے جو کام دے رہے ہیں وہ آپکی ہونے والی دلہن کر رہی ہے۔

یہ سب اُسے کچن میں جھونک رہیں ہیں اور آپ بیٹھے آلو کے پراٹھے کھا رہے ہیں!" اس بار تحریم بولی جو ذرا شرارت کرنے کی خاطر باہر کو آئی تھی۔
محب کے چلتے ہاتھ رک گئے، اُس بیچارے نے تو کچھ نہیں کیا تھا وہ تو معصوموں کی طرح کھانا کھا رہا تھا۔۔۔

"محب کیا تم پارٹی چینج کرنے کا سوچ رہے ہو؟" مجیب دکھی لہجے میں محب سے پوچھتے ہوئے سب کی طرف دیکھنے لگا۔

"ام، نہیں میں پارٹی چینج نہیں کرتا میں دونوں پارٹیز میں ہیلپ کردیتا ہوں۔ اُس کے ساتھ مل کے آج چلو میں تم لوگوں کو سرو کرتا ہوں۔" وہ نہایت عام لہجے میں بول کر ٹیبل سے اٹھا اور کچن کی اور بڑھا ہی تھا کے اپنے پیچھے سے سب کے ہنسنے اور چہکنے کی آوازیں سن کر مسکرا دیا.

آج وہ نہیں جانتا تھا کے آغا جان اور دادو اُن دونوں کی خوشیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

کچن کے اندر کھڑی ہدا بری طرح سٹپٹا گئی، چونکہ کچن میں کوئی نہیں تھا تو محب آرام سے اندر آیا اور اُسکے پاس کھڑے ہو کر انڈا آملٹ کرنے لگا اور سرسری لہجے میں اُس سے پوچھا۔

"تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے؟"

وہ جو باورچن کے آنے کا انتظار کر رہی تھی اس سوال پر چونکی، پھر بولی۔

"بھنڈی۔" اور وہ جو ہدا کو ڈنر پر لے کر جانے کا سوچ رہا تھا اُسکی پسند جان کر حیران ہو گیا۔

"نئی مطلب سبزی کے علاوہ۔"

"کچھ بھی، پر پاستا وغیرہ زیادہ پسند ہیں۔" وہ اُسی عام لہجے میں بولی۔

محب کو ہنوز اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ پھر سے بولی۔

"بریانی، بریانی بھی اچھی لگتی ہے۔" اس پر محب نے مسکراتے ہوئے سر کو ہلایا۔

پھر ہدا نے اُس سے پوچھا۔

"آپکو؟
آپکو کیا پسند ہے؟"

"سادہ سا بندہ ہوں، تم جو بھی بنا کر دوگی کھا لونگا۔" خیر سیدھا سیدھا جواب سن کر وہ پھر سے نروس ہوگئی۔

اور وہ انڈا فرائی کرتا مسکراتا رہا۔

خوش وہ بھی تھی، اُسکا دل سکون میں تھا! آج اُسنے بس آخری کام کرنا تھا اور وہ کام آیان کی سچائی سامنے لانا تھی.

اُسنے خالہ کو آج شام میں بلا لیا تھا، آج یہ بوجھ بھی اُسنے اتارنا تھا۔ اتنے میں ہی محب کی آواز اُسنے سنی۔

"یہ بن گیا آملیٹ، تمہیں پسند ہے نا؟" پھر سے اُسنے  سوال کیا۔

ہدا نے ہاں میں سر ہلایا، باورچن آچکی تھی، باقی چیزیں وہ باہر لے جانے لگیں اور محب ہدا کے ساتھ باہر آگیا۔

غیر متوقع طور سے باہر خاموشی تھی، سب آرام سے ناشتا کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ولا میں آیا ہو۔

اتنے میں ہی ایک آواز ولا میں گونجی۔

"محب!
میں تم سے اور آپ سب سے معزرت کرنا چاہتی ہوں۔" آواز کسی اور کی نہیں بلکہ مشعل کی تھی، احتشام کی بہن کی۔۔۔

                               .............

Rani_dream_faith✨🌸❤️

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top