۲۹

جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا ﴿سورة النُّور ۱۱﴾ 

جو آپکو دکھ دیں، اُن پر صبر کیا جائے!
اُنکا مداوا خدا سے مانگا جائے، کے وہ رب سنتا ہے اور جب غموں کی اندھیری دنیا میں انسان گم ہوجائے تو وہ رب ہی روشنی بھی دیتا ہے!
بس انتظار اور صبر ضروری ہے!.

                               ...............

ہال خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا، سب ایسے اپنے سامنے کے منظر میں محو تھے کے کسی نے باہر ایک گاڑی کے رکنے کی آواز تک محسوس نا کی، باہر ایک شخص ۳۰ منٹ کی مسافت ۱۰ منٹ میں طے کر کے آیا تھا اس سے پہلے اُس نے کبھی اتنی لا پرواہی سے گاڑی نہیں چلائی تھی پر آج وہ ایک خوف میں تھا کے کہیں وہ اُسے ہمیشہ کے لیے نا کھو دے جسکی اہمیت اُس پر آج عیاں ہوئی تھی۔

وہ بے چینی میں سیٹ بیلٹ کھولتے ہوۓ دروازہ کھولنے لگا کے اتنے میں اُس کے ساتھ پسنجر سیٹ سے ایک لڑکی کی نسوانی آواز سنی۔

"محبت کرتے ہو اُس لڑکی سے؟" آواز سن کر وہ چونکا ضرور تھا پر خود پر قابو پاتے ہوئے اُس لڑکی کی طرف منہ کر کے بولا۔

"اس سوال سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جو ہماری بات ہوئی تھی اُسے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔"

"پورا کرونگی، کیوں کے میں احتشام سے ابھی بھی محبت کرتی ہوں، اتنی آسانی سے دستبردار نہیں ہونگی اور آج اپنی ہوئی بے عزتی کا بدلہ بھی تو لینا ہے!

پر بےچین تو اتنی میں بھی نہیں ہوں جتنے تم ہو۔" وہ لڑکی ہولے سے مسکراتے ہوئے بولی، پھر اپنا موبائل نکال کر گاڑی سے اُتری۔

وہ یہاں کیسے پہنچی تو اسکا جواب یہ تھا کہ اُسے ڈھونڈا گیا تھا، وہ آخری اُمید کے ساتھ جب احتشام کے گھر اُس سے بات کرنے گئی تھی تو وہاں سے اُسے بہت بے عزت کر کے نکالا گیا تھا۔

وہ بےحد غصے میں تھی!

جیسے ایک آگ اُس میں جل رہی تھی کے وہ کسی صورت اپنی بے عزتی نہیں بھولنے والی تھی، اور پھر محبت تو اُس سے احتشام نے بھی کی تھی نا؟

بے عزت خالی وہ ہی کیوں ہوئی تھی؟

احتشام کے گھر سے نکلتے ہوئے ہی ایک گاڑی اُسکے پاس آ کر رکی اور اُس میں بیٹھے شخص نے اُس سے بس اتنا کہا کے وہ اُسکی بے عزتی کا بدلا اُسے دلوا سکتا ہے۔

اس احتشام کی سچائی سب کے سامنے لا کر!

بس یہ سنتے ہی ہانیہ نے حامی بھر لی، وہ اُسکی مدد کرنے کو تیار ہوگئی۔ پر اُسکا فون جس میں بہت سے ٹیکسٹ اور تصویریں تھیں وہ اُسکے گھر رہ گیا تھا، اُسے لاتے ہوئے ہی کافی دیر لگ گئی تھی۔

ابھی وہ یہاں پہنچ چکے تھے، اندر ہال جس میں ہانیہ کی محبت تھی، اور وہ کسی صورت اُس سے دستبردار نہیں ہو سکتی تھی۔

وہ دونوں ہال کی طرف چل دیئے یہ جانے بغیر کے اندر جو ہو رہا تھا وہ تو اُنکو بھی چونکا کر رکھ دینے کے لیے کافی تھا۔

ہال میں موجود سب لوگوں کا مرکز اسٹیج پر لگا پروجیکٹر تھا۔

سنبھلنے والوں میں سے سب سے پہلی احتشام کی والدہ تھیں۔

"یہ سب کیا ہے؟
تم ان سب سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟"

سوال چونکہ ہدا سے کیا گیا تھا تو جواب بھی اُسنے ہی دینا تھا۔

"آپ ان سے پوچھیں گی نہیں کے یہ سب کیا ہے؟
اس سب کی تفصیل بھی میں دوں؟" ہدا نے احتشام کی طرف دیکھتے ہوئے اُسکی امی سے کہا۔

"انہیں کہیں کے انہوں نے آپ کے خاندان کی عزت خراب کی ہے۔
یہ کہیں کے آپکا بیٹا پارسا نہیں ہے۔"
جذبات کی شدت سے ہدا کی آواز گھری ہوئی تھی۔

"یا آپ کے خاندان میں مردوں کی عزت کا کوئی معیار ہے ہی نہیں؟ یا یہ کے ثبوت اور گواہ بس عورت سے مانگے جاتے ہیں؟"

"تم۔۔۔" احتشام کی والدہ کا چہرہ خفت سے لال پڑ رہا تھا پر ہدا نے اُنھیں روک کر کہا۔

"کس سے سنا تھا آپ نے؟
کیا اُسنے آپکو کوئی ثبوت دیکھایا تھا کے میں با کردار نہیں ہوں؟
نہیں نا!
کیوں کے کوئی ثبوت تھا ہی نہیں، کیوں کے کوئی ثبوت ہو سکتا ہے نہیں ہے!
کیوں کے میں بےگناہ ہوں!"

اس بار وہ سب کی اُمید کے برعکس یہ ساری بات ہنس کر بول رہی تھی۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ جسنے اُسکا اندر راکھ کر دیا تھا۔۔۔

"پر یہ سب مجھے کئی دنوں سے کسی انجان نمبر سے بھیجا جا رہا تھا۔
میں چپ رہی، اس لیے نہیں کے میں ڈرتی تھی، بلکہ اس لیے کے آج نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے میں ان سے صرف ایک اور آخری بار اس کے متعلق پوچھنے والی تھی! یہ جو کہتے میں اُس پر یقین بھی کرتی کے خدا کے لکھے ہوئی نصیب پر میں راضی تھی۔"

"یہ سب جھوٹ ہے یہ تم نے اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے تیار کر رکھا تھا!
پر ہمیں سچائی پتہ لگ گئی، اور اب تم ہمیں رسوا کر رہی ہو!" احتشام کی امی چینختے ہوئے بولیں۔
پر اُنکی باتوں کے برعکس اب ہال میں سب اُن پر اور اُنکی تربیت پر طنز کر رہے تھے، سب کے لفظ سن کر وہ شرمندگی سے لال نیلی پڑ رہی تھیں۔
سب لوگوں کی توجہ کا مرکز اب وہ ماں بیٹا تھے۔

"چلو احتشام یہ لڑکی ہمارے خاندان کے لائق نہیں ہے۔"
ہدا چپ رہی، بس اسٹیج پر کھڑے احتشام کی اور گئی اور اُسکی آنکھوں میں ایک نظر دیکھے گئی، وہ بھی شرمندہ تھا آنکھیں جھکا گیا پر پھر ہدا کی اور دیکھ کر بولا.

"یہ سب کیا ہے ہدا!
میں تمہیں ایک موقع ضرور دیتا پر اس سب کے بعد!" جواب پر وہ ویسے ہی کھڑی رہی، بس اُسکی مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی، اُسے ایسے دیکھ کر دادو اور آغا جان کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔

"ہدا کو تمہارے کسی موقع کی ضرورت نہیں ہے۔"

اس بار نیچے کھڑے مہمانوں میں سے ایک آواز آئی، سب کے مڑ کر دیکھنے پر پتہ لگا کے آواز محب کی تھی۔

وہ چلتا ہوا اسٹیج پر آیا اور ہدا کو دیکھے گیا، اُسے ایسے دیکھ کے اُس کے دل میں درد کی ایک ٹیس اُٹھی، جانتا تھا کے وہ جتنی بھی مضبوط بن جائے اُسکی مسکراہٹ کے پیچھے اُسکا درد چھپا ہے، اور اس درد کی کہیں نا کہیں وہ بھی وجہ تھا۔

جانتا تھا کے اُسکی آنکھیں کتنی ہی خشک کیوں نا ہوں اُسکا دل رو رہا تھا اور وہ ظاہر بھی نہیں کر رہی تھی۔ پھر ایک نظر احتشام کو دیکھ کے بولا۔

"تمہاری اوقات نہیں ہے احتشام کے تم ہدا کے پاس  کھڑے بھی ہو سکو۔"

پھر احتشام کی طرف بڑھ کر بولا۔

"تمہاری اصلیت میں تو جانتا ہی تھا پر سب کے سامنے لاتے لاتے تھوڑی دیر ہوگئی مجھے۔
ابھی واپسی کے راستے پر ہی کوئی ملا مجھے جو تم سے ملنا چاہتا تھا۔

ہانیہ پلیز۔"

اسٹیج پر کھڑے کھڑے اُسنے بولا اور اتنے میں ہی ایک لڑکی مہمانوں کے بیچ سے ہوتے ہوئی اسٹیج پر آئی جسے دیکھ کر احتشام تو کیا اُسکی والدہ بھی حیرت میں اپنی جگہ ساکت ہوگئے۔
اُن تصویروں کی وجہ سے سب ہانیہ کو پہچان گئے، اور ہر طرف سے اُن لوگوں پر چے مگویاں شروع ہوگئیں۔

"احتشام کیا مجھے تمہیں اپنا انٹرو دینا پڑےگا؟"
ہانیہ طنزاً ہنس کے بولی۔
پھر مہمانوں کی اور مڑ کر بولی۔

"سوری ٹو سے، میں اور احتشام ایک دوسرے سے بہت فرینک... ام ہم محبت کرتے تھے پر احتشام کے بقول اُسکے والدین نے اُسے بہت مجبور کیا اُسے اور اُسے اس شادی کے لیے ماننا پڑا۔ آپ سب سے میں معافی مانگتی ہوں پر اب یہ شادی نہیں ہوگی۔" وہ ایک انداز سے بولی جس میں سرشاری تھی اور کھڑے سارے کے سارے مہمانوں میں اور  چے مگوئیاں شروع ہو گئیں

اتنے میں ہی ہدا کے بابا اسٹیج پر گئے اور بولے۔

"میری بیٹی پارسا ہے، آج جو بھی ہوا یا جسے بھی کوئی مسلہ ہے تو وہ کوشش کرے کے ہدا کے باپ سے بات کرے۔ آج جس نے بھی یہ سب کہا اس کی ساری غلط فہمیاں میں خود دور کرونگا۔" ایک گرجدار آواز جس نے سب مہمانوں کو یہاں تک کہ تائی کی طرف کے مہمانوں کو بھی اندر سے ہلا دیا۔

اور اسکے بعد جب آغا جان کی غصیلی نظر مہمانوں کی اور گئی اور پھر احتشام کی طرف تو سب مزید سہم گئے۔

"اللہ رحیم ہے، خیر کو خیر ہی دیتا ہے۔
اب اس سے پہلے کے میں آپ لوگوں کو مزید بے عزت کر کے نکالوں یہاں سے چلے جائیں۔"
اسکے بعد بچا ہی کیا تھا؟
وہ لوگ سر جھکائے ایک ایک کر کے نکل گئے اور وہاں کھڑی ہدا ساکت بت کی طرح کھڑی رہی۔

اتنے میں ہانیہ اُسکے پاس آئی اور اُسے گلے لگا لیا، ایسے وقت میں یہ بہت عجیب بات تھی ایک ہونے والی منکوحہ تھی تو ایک ماضی کی محبوبہ پر ہانیہ نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

"تم ایک بہت مضبوط لڑکی ہو ہدا!
میں نے تم سے آج بہت کچھ سیکھا ہے!
تم انمول ہو، احتشام تمہیں ڈیزرو نہیں کرتا تھا!"
پھر کچھ دیر رک کر وہ بولی۔

"تمہارا کزن جو مجھے یہاں لایا ہے، تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ اُسکی محبت کی سچائی مجھ جیسی لڑکی نے بھی محسوس کی ہے، بس یہ کہوں گی کے تم اُسے ایک موقع ضرور دینا!" ہدا کا دل ایک پل کو دھڑکنا بھول گیا، محبت اور اس سے۔

شاید یہ لڑکی اُنکی نفرت کی انتہا نہیں جانتی۔
پر آج کیوں وہ اُسکا نکاح رکوانا چاہتا تھا! کیا یہ سب محض اسلئے کے محب کو اُسکا خیال تھا؟

وہ بہت سوالوں میں تھی، پر آج جو کچھ ہوا تھا اُس کے بعد اُسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو گئی تھی!

اتنے میں ہی کچھ مہمان ایسے بھی تھے جو جانے والے تھے پر ابھی تک ہولے ہولے ہی سہی اُسکے کردار پر باتیں کر رہے تھے۔

جو اور کسی نے تو نا سنی پر آغا جان نے سن لیں!

شاید کچھ اُنکی عمر ایسی تھی کے اُنکا وجود بھی اس صدمے کو سہہ نا سکا، اور وہ چکرا کر گرنے ہی لگے تھے کے اُنھیں محب نے فوراً پکڑ لیا۔

اور پاس پڑی کرسی پر بٹھا دیا۔

"آغا جان!
آغا جان آپ ٹھیک ہیں!"
ایک دم سے نفیس، عدیل، عادل، مجیب، محب، سب آغا جان کے آگے آکر کھڑے ہوگئے۔

"آغا جان، آغا جان!" اُن سب کو پیچھے دھکیلتی ہدا آگے دوڑ کر آئی اور اُنکے پیروں میں بیٹھ کر بولی۔

"آغا جان!"
اُسکی آواز سنتے ہی اپنی بند  ہوتی آنکھیں آغا جان نے کھولیں اور اُس سے کہا۔

"ہدا، مجھے معاف کر دینا!" وہ اُنکی بات پر تڑپ اُٹھی، دادو بھی آغا جان کی حالت دیکھ کر بری طرح فکر مند ہوگئیں تھیں پر فریحہ بیگم اُنھیں جلدی سے بیٹھا کر تسلی دینے لگیں۔

ہدا کے بابا نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کو فون لگا دیا جو کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچنے والا تھا۔

"اٹھیں ہم ہسپتال جائینگے!" ہدا روتے ہوئے بولی۔

"ارے نہیں، میں ٹھیک ہوں۔
تمہارا دادا کمزور نہیں ہے پر!
پر آج جو ہوا اُس سے میں تمہیں بچا نہیں سکا!
میں تمہاری ماں کو کیا منہ دکھاونگا ؟"

"آغا جان، آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اپنے اپنے نصیب کا سب سہتے ہیں!
مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے!"

اتنے میں ہی پیچھے کھڑے مجیب نے محب کو زور سے چٹکی کاٹی، یہ سب اُمید کے بہت برعکس تھا، وہ عجیب نظروں سے مجیب کو دیکھنے لگا.

"کیا ہے؟"

"تم پاگل ہو۔" مجیب دانت پیستے ہوئے بولا۔

"کیا مطلب؟"

"محب اب نہیں کہو گے تو کب کہو گے؟" مجیب نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

"کیا کہنا ہے مجھے؟" وہ واقعی بہت اُلجھ گیا تھا، آغا جان کی اس حالت میں وہ کیا کہہ سکتا تھا کسی کو بھلا؟

اُدھر مجیب جو پہلے دِن سے محب کے جذبات سے واقف تھا جھنجھلا سا گیا!

یہ سچ تھا کے وہ خود بھی ہدا کو پسند کرتا تھا پر جب جب وہ اُس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا محب کسی نا کسی طرح سے اُسے زیر کر دیتا تھا اور آج جب مجیب مہمانوں میں کھڑا سب کے طنز سن رہا تھا تب محب ہی ہدا کے لیے گواہ ڈھونڈ رہا تھا!

محب نہیں جانتا تھا پر جب جب وہ ہدا کو دیکھتا تھا اُسکی آنکھوں میں ایک چمک آتی تھی گو کے کچھ ہی پل کے لیے پر مجیب کے لیے وہ پل کافی ہوتے تھے!

تو آخر کار مجیب کی پسند کے آگے محب کی محبت جیت گئی تھی، آج مجیب اُداس نہیں خوش تھا کے اُسکی سب سے پیاری کزن اُس احتشام جیسے بندے سے بچ گئی تھی، اور اس میں محب کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔

خیر اب جب کے وہ جانتا تھا محب محبت میں ہے، وہ بھی ہدا کی محبت میں پر بس وہ ایک پاگل انسان ہے جسے موقعے پر چوکا لگانا نہیں آتا تھا، تو اُسے ایک اچھے بھائی کی حیثیت سے محب کی مدد کرنی تھی اور بہترین وقت ابھی کا تھا۔

" محب!" وہ اُسے پیچھے لے کے جا کر بولا۔

"تم آغا جان سے جا کر معافی مانگو گے۔ کہو گے کے تم آج اور ابھی ہدا سے نکاح کرو گے۔ اُنکی وہ خواہش آج سب کے سامنے پوری کروگے۔" محب جو بہت دھیان سے سب سن رہا تھا ایک دم چونکا۔

"ابھی؟
ابھی وقت نہیں ہے مجیب!
آغا جان...

پر ایک منٹ تم یہ سب کیوں کہہ رہے ہو؟" وہ بھی جانتا تھا کے مجیب ہدا کو پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب وہ کیوں کہہ رہا تھا؟

" وقت نہیں ہے محب، میں تمہیں بس ایک موقع دے رہا ہوں!
اگر ابھی جا کر تم نے آغا جان سے نا کہا تو میں کہہ دونگا۔ اور میرے خلاف تمہیں کوئی گواہ بھی نہیں ملے گا۔"
بس یہ سننے کی دیر تھی کے محب نے مٹھیاں بھینچ لیں۔

"مجیب!
ڈونٹ ایور تھنک اباؤٹ دیٹ!
(ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں)۔"

"آئی ول نوٹ تھنک بٹ ول ایکٹ!
(میں سوچوں گا نہیں کروں گا!)"

تو یہ دھمکی تھی، پر اب بس محب نے بھی آج اپنی محبت مان لی تھی۔

اب وہ محبت سے چاہ کے بھی بھاگ نہیں سکتا تھا کے یہ محبت تو اُسکے دل کی گہرای سے نکلی تھی وہ بھاگتا بھی تو کیسے بھاگتا؟

آغا جان کے پاس جاتے ہی اُسنے مجیب کی آواز سنی۔

"آغا جان آپ فکر نا کریں!
آپکی رضا یہی تھی نا کے آج ہدا کا نکاح ہو؟
آج ہی ہوگا اُسکا نکاح، آپ خود دیکھیں گے آغا جان۔"
مجیب کی بات ایک اور دھماکا تھی ہدا کے لیے۔
اُسکا دل سہم گیا، اگر مجیب نے کہہ دیا کہ وہ
ہدا سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو سب نے مان جانا تھا...

"مجیب یہ کیا کہہ رہے ہو!
میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں ہے! جو اُسے کسی کے بھی ساتھ زبردستی باندھ دیا جائے۔" ایک نم آواز ہدا کے کانوں میں پڑی جو اُسکے بابا کی تھی۔
پر آغا جان نے نا جانے کیا سوچتے ہوئی کہا۔

"کہنے دو اسے۔"

"آغا جان! ہدا آج کے دِن آئندہ کبھی اُداس نہیں ہوا کریگی اور آپ اُسے خود اپنی آنکھوں سے خوش بھی دیکھیں گے؛"

"کون کرے گا نکاح ہدا سے، تم؟" آغا جان کی نظریں خود پر پا کے مجیب نے محب کی اور دیکھا جو اب بلکل سامنے آچکا تھا۔

اور پھر اُس کی آواز ہال میں گونج اٹھی۔

"میں کرونگا ہدا سے نکاح۔"
یہ پانچ لفظ اُسنے کہے، ایسے جیسے یہ کوئی عام بات تھی، پر اس بات سے کسی کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔ وہ تو دل پر تالے لگا چکی تھی، پھر آج یہ کیوں؟

اُسے کسی کی محبت احسان میں نہیں چاہیے تھی۔

اسٹیج پر کھڑے سب کے سب آج تیسری دفعہ سکتے میں چلے گئے تھے، آج کا دن واقعی انہونیوں کا تھا!

کیسے ہدا سے نفرت کا دعویٰ کرنے والا آج اُسکے آگے اُس سے نکاح کرنے کی بات کر رہا تھا؟

کیا یہ سچ تھا یا ایک جھل؟

پھر محب کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ
ہدا کے برابر، آغا جان کے قدموں میں بیٹھ کر اُنکے پیر پکڑ کر، ہدا کی اور دیکھتے ہوئے بولا۔

"مجھے ایک موقع دیں اپنی غلطی سدھارنے کا، بس ایک۔ بس ایک موقع کے میں وہ اعتبار جیت سکوں جو میں کھو چکا ہوں!" کہہ وہ آغا جان کو رہا تھا پر نظریں ہدا کی لال آنکھوں پر ٹھہریں ہوئیں تھیں!

جیسے وہ یہ سب اُسی سے کہہ رہا تھا...

اعتبار کے بارے میں...
ایک آخری موقع کے بارے میں...

                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith🌸✨

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top