۱۵

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ (زمین کی) مٹی کے نیچے ہے سب اسی کا ہے ﴿۶﴾  اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ تو چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے۔
(سورہ طٰه۶-۷)

مدد کرنے والا، سنبھالنے والا، صرف وہ رب ہی ہے، جو اپنے بندوں کی مدد وہاں سے کرتا ہے جہاں بندے کا گماں تک نہیں جاتا۔۔۔

                                    .........

کچھ ہی دیر بعد نفس کچن سے چائے لیکے باہر آیا۔
سب کو اُن کا کپ دینے کے بعد وہ بھی انہی کے ساتھ بیٹھ گیا اور چائے کا ایک گھونٹ بھرنے کے بعد بولا۔

دل کو بہلانے کے لیے کچھ تو چاہیے
چاہ نا سہی، تو چائے ہی سہی
مجیب نے نفس کا بھونڈا لہجہ سن کے قہقہ لگایا، جبکہ محب بھی مسکرا دیا۔
محب اس بات سے متفق تھا کے یہ چائے کافی اچھی بنائی گئی تھی۔ کچھ گپ شپ ہوئی جسکے بعد محب کمرے میں آرام کرنے چلا گیا۔

آیان بھی آ چکا تھا، اُس کے آنے کے بعد سب نے کھانا کھانا شروع کر دیا، ہدا خوش تھی، وہ آیان کو بھی اپنے ساتھ ساتھ کھانا کھلا رہی تھی، کمرے سے نکلتا محب ڈائننگ ٹیبل کو دور سے دیکھ کے کچھ پل کو رک گیا۔

جائے یا نا جائے، کھانا ہدانے بنایا تھا، یہ تو وہ جانتا تھا، پر۔۔۔
خیر وہ اُسکے ہاتھ کی بنی چائے پی چکا تھا، اب کھانا کھانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

وہ یہی سوچ رہا تھا کے مائرا نے اُسے دیکھ لیا۔

"آجائیں محب بھائی، ہم نے ابھی ابھی ہی شروع کیا ہے کھانا۔"

وہ اُسکی بات سن کر سب کو اپنی طرف متوجہ پا کر پھر ٹیبل پر چلا گیا، اور ایک خالی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔

اُسکی نظر آیان پر پڑی، آیان نے بھی اُسے دیکھا اور پھر پیاری سی مسکراہٹ اُسکے چہرے پر آ گئی، محب بھی مسکرا دیا، اور بولا۔

"کیسے ہو بڈی؟"

"آئی ایم فائن (میں ٹھیک ہوں)، یو؟(آپ؟)۔"

"ویل آئی ایم فائن ٹو،(میں بھی بلکل ٹھیک ہوں)۔"

پتہ نہیں کیوں پر اُسے یہ بچا بہت پیارا لگتا تھا، اُسے کبھی بچوں سے اتنا لگاؤ نہیں تھا پر آیان ایسا بچہ تھا جو پیار نا بھی مانگے تو اُس پر پیار آ جاتا تھا.

اتنے میں ہی عادل نے عدیل کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر سرگوشی میں پوچھا، ایسی سرگوشی جو کافی اونچی تھی اور سب نے باآسانی سن لی۔

"کیا ہوا تُجھے؟"

"محب بھائی کب سے آئے ہوئے ہیں اور اب تو مجیب بھائی بھی آ گئے۔" عدیل نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔

"ہاں تو؟" عادل نے پھر پوچھا۔

"پھر بھی اتنی بوریت ہے۔" اُسنے سپاٹ لہجے می جواب دیا۔

"ہمارا تمہاری بوریت سے کیا لینا دینا ہے لڑکے؟ کہنا کیا چاہتے ہو؟" مجیب اُسے دیکھتے ہوئے بولا۔

"ارے بھائی میرا مطلب سیر سپاٹے سے تھا، اب تو آپ لوگ بھی آ گئے ہیں، تو ہمیں کہیں گھومنے جانا چاہیے نا۔" عدیل مجیب کا لہجہ سن کے وضاحتی لہجے میں بولا۔

"کہہ تو صحیح رہے ہو ویسے۔" مجیب تائید میں بولا۔

" اگر کہیں دور کا پلان کیا تو پھر تو کئی دن تیاریوں میں لگ جائیں گے، صرف یہ لڑکیاں ہی تین دن میں تیار ہوں گی۔" عادل سب لڑکیوں کو چڑانے والے انداز میں دیکھ کے بولا۔

"او بس بس اپنی فکر کرو بھائی، خود کو گھنٹہ گھنٹہ ہیر سٹائل نہیں بنتا۔"
اسماء نے دو بدو ہو کے جواب دیا۔

ہدا مسکرا دی، اور آیان نا سمجھی سے سب کو دیکھے گیا۔

"پھر ابھی ہم ایک کام کرتے ہیں کل کا پلان کر لیتے ہیں، صبح سے شام تک کا، سٹے (stay) والے سین سے دور رہتے ہیں۔" مجیب نے اپنی رائے دی۔

"پر جائیں کہاں؟"عدیل نے سوچتے ہوئے اوروں سے پوچھا۔

"پنڈی بوائز کا گھومنے کے لئے آخری آپشن کیا ہوتا ہے چھوٹے بھائی؟" عادل نے عدیل کا کندھا تھپتھپا کر پوچھا۔

"ام--مری؟" اُسنے سوچتے ہوئے کہا۔

"يس راجا جی." اور عادل کے جواب پر سب ہنس پڑے۔

مجیب کے مشورے سے سب نے اتفاق کیا اور یہ طے پایا کے کل صبح صبح ۸ بجے کے قریب سب لوگ مری کے لیے نکل پڑیں گے۔

گو کہ مری کئی دفعہ یہ لوگ جا چکے تھے، پر اس بار سب ساتھ جا رہے تھے، ایک عرصے بعد ایسا ہو رہا تھا جو سب بہت ایکسائٹڈ تھے۔

کھانے سے فارغ ہو کر سب آنے والے کل کی تیاری میں مصروف ہوگئے، سب کی خوشی اُنکے چہروں سے عیاں تھی۔

                              …........

"آنی، کل آپ مجھے بھی لے کے جائینگی کیا؟" آیان
ہدا کو دیکھتے ہوئے بولا۔

"آنی کا آنو، کیوں نہیں، تمہارے بغیر کیا میں جا سکتی ہوں؟" وہ اُسکے گال کھینچتے ہوئے بولی۔

وہ بھی خوش ہو گیا، پھر اُسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔

"آپ کل کیا پہنے گی آنی؟"

"سمجھ نہیں آرہا آیان، تم ہیلپ کر دو۔"

یہ کہنے کی دیر تھی کے آیان اٹھا اور اُسکی الماری کی طرف دوڑ پڑا۔

ایک ایک کپڑے کو دیکھنے لگ گیا، وہ اُسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور کل کے لیے آیان کی چیزیں نکالنے لگی۔

"یہ آنی، یہ والا۔" آیان اُسکی الماری سے ایک سفید رنگ کا کرتا اٹھا کر لایا جو تھا تو بہت سادہ سا پر
بہت گریسفل بھی تھا۔ لائٹ پنک لوک پرلز کا ہلکا سا کام، اور بازؤں کے کناروں پر لگی پنک موتیوں کی لیس آنکھوں کو بہت بھا رہی تھی، اُسنے یہ کرتا اب تک پہنا نہیں تھا، بس کل یہی پہن لونگی، پر دوپٹہ کیا لوں۔

پھر ایک دم سے اُسے مجیب کا دیا ہوا حجاب یاد آیا، اُسکا رنگ اور اسکا رنگ ایک ہی تھا، بس مطمئن ہوتی اُسنے تیاری مکمل کر لی اور آیان کے ساتھ کھیلنے لگی، کے اب کے دِن اُسکے لیے آسان ہوتے جارہے تھے!...

                             ...............

۷ بجے سے پہلے آغا ولا میں مکمل سناٹا تھا پر ۷ بجے کے بعد ایک طوفان کی سی صورتِ حال تھی، تحریم، مائرا اور اسماء کل کی بات کا بدلہ لینے کے لیے بھرپور تیار تھیں، یہ بہن بھائیوں کی جنگ تھی۔
ایک بہن نے نفیس کو پانی سے جگایا تو دوسری نے مجیب کے کمرے میں سب فونز میں الارمز سیٹ کر کے بجائے۔

علینہ نے انتہائی ٹھنڈ کے باوجود عدیل کے کمرے کا اے سی چلا دیا، غرض یہ کے آغا ولا لڑکوں کی آوازوں اور چینخوں سے گونج پڑا۔

محب کو ان سب کی آوازوں نے ہی جگا دیا وہ ایک بند آنکھ اور ایک کھلی آنکھ لیے کمرے سے باہر آیا۔

کے اتنے میں ایک ٹھنڈے پانی کی بالٹی اُس پر انڈیلی گئی، اُسکی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئی تھیں اُسنے اپنے گنہگار کی طرف دیکھا جو اور کوئی نہیں بلکہ مجیب تھا۔

محب نے آؤ دیکھا نا تاؤ اُسکی طرف دوڑ لگا دی، وہ فاصلے پر تھا اس لیے تیزی سے سیڑھیوں پر پہنچ گیا محب بھی آن کی آن میں اُسکے پیچھے ہو لیا۔

"استغفراللہ یہ ہو کیا رہا ہے؟"

دادو اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئی بولیں۔
آوے کا آوا بکھرا ہوا تھا، سب چیزیں الٹی سیدھی ہو کے پڑی ہوئی تھیں۔
اتنے میں سیڑھیوں سے نیچے آتا مجیب گیلے ہاتھوں سے اُنکے دوپٹے کو پکڑ کر اُنکے پیچھے چھپ گیا۔

"آئے ہائے، گیلے ہاتھ، ہٹا ہٹا؟" وہ مجیب کے ہاتھوں کو ہلکے سے مارتے ہوئے بولیں۔

"نانو محب مار دیگا مجھے، بچا لیں مجھے پلیز۔"
وہ مصنوعی ڈر سے بولا۔

کچن میں کھڑی ہدا نے باہر کی طرف دیکھا، سیڑھیوں سے نیچے آتا بھیگا ہوا محب اُسکی ہنسی نکالنے کو کافی تھا.

اُسکی ہنسی سے دادو مجیب یہاں تک محب بھی اُسکی طرف دیکھنے لگے، اُسنے اَپنی ہنسی کا گلا اپنا ہاتھ منہ پر رکھ کر دبا دیا اور پھر اُسکے پیچھے اسماء مائرا کی ہنسی کی آوازیں ولا میں گونج اٹھیں۔

دادو نے بھی جب محب کی طرف دیکھا تو ہنس پڑیں، مجیب کے ہاتھ پر ہلکے سے مارا اور محب کے پاس جا کر اُسکا گیلا چہرہ اپنے دوپٹے سے صاف کرنے لگیں۔

"نوٹ فیئر نانو!" مجیب مصنوئی دکھی ہوتے ہوئے بولا۔

"یو جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔" محب اُسکی اور دانت پیستے ہوئے دیکھ کے بولا۔

"تم بچے بھی نا بہت شرارتی ہوگئے ہو۔

اور تم محب! ایسے ٹھنڈ لگ جائیگی تمہیں جاؤ چینج کر آؤ۔" دادو کے کہنے پر وہ جانے کے لیے مڑا پر اُس سے پہلے مجیب کو تنبیہہ کرتی نگاہ سے دیکھ کر گیا، اتنا تو طے تھا کے اُسنے اپنا بدلہ لینا تھا، اور مجیب مزاق مزاق میں ہی سہی پر اندر سے جھرجھری کھا گیا تھا۔

ناشتے سے فارغ ہوتے ہی سب تیار ہو گئے، دادو نے آیان کو تیار کر دیا اور ہدا بھی تیار ہو گئی، دونوں گاڑیاں تیار تھیں، کچھ سامان جو تھا اُسے گاڑیوں میں رکھا گیا اور ایک ایک کر کے سب باہر آنے لگے۔

"آیان، یہ جیکٹ پہن لو۔" ہدا کی آواز پر باہر کھڑا محب چونکا اور انجانے میں اُسکی طرف محب کی نظر چلی گئی۔

سفید رنگ کے کپڑے، اور سر پر حجاب۔ یہ سفید رنگ ایک الگ ہی پاکیزگی رکھتا تھا۔ پر یہ حجاب...

'ایکسکیوز می محب!'
خود کو ڈانٹتے ہوئے وہ دھیان آگے پیچھے لگانے لگا، وہ کیوں سفید رنگ کو سراہ رہا تھا! یا اُس رنگ میں موجود کسی شخص کو...

پر حجاب کہیں دیکھا ہوا لگ رہا تھا، تھوڑا یاد کرنے پر اُسے یاد آگیا کے یہ حجاب تو مجیب نے ہدا کو دیا تھا۔

اُسنے اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیا، پر وہاں کھڑا مجیب اُسکی نظروں میں آ گیا۔

مجیب ہدا کی طرف جا رہا تھا، اسکو دیکھتے دیکھتے محب کے چہرے کا رخ پھر سے اُن ہدا کی طرف مڑ گیا۔

"ارے، اچھا لگ رہا ہے یہ۔"
مجیب ہدا کے حجاب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"تھینک یو بھائی۔" اُسنے آہستہ سے بولا۔

محب لاشعوری طور سے سب دیکھ رہا تھا۔

مجیب نے کوئی جواب نہیں دیا، اتنے میں ہی سب باہر آ چکے تھے، پھر گاڑیوں میں بیٹھے۔

مجیب جس گاڑی کو چلا رہا تھا اُس میں آگے نفیس اور پیچھے تحریم، مائرا اور ہدا تھیں۔

دوسری گاڑی میں محب اور عدیل آگے، پیچھے عادل، علینہ اور تحریم۔

اسکے بعد سفر شروع ہو گیا اور جلد ہی وہ لوگ مری کی حسین وادیوں میں پہنچ گئے، اس جگہ کا حسن ہی ایسا تھا، بندہ جتنی دفعہ بھی یہاں آ جائے وہ سیر نہیں ہوتا تھا۔

بل کھاتی سڑکیں اور آسمان پر تیرتے گہرے بادل۔

جلد ہی ان لوگوں نے ایک اموزیمنٹ پارک کی طرف رخ کیا اور وہاں پہنچنے پر گاڑیوں کو پارک کرنے کے بعد ٹکٹِس لینے شروع کر دیے۔

سب گاڑیوں سے باہر نکل چکے تھے، پارک کے اس دروازے کا ایک سرا سڑک سے ملتا تھا، جہاں پر سے وقتاً فوقتاً گاڑیاں تیزی سے چل رہی تھیں۔

آیان بھی سب کے ساتھ ہی تھا کے اچانک سے اُسے تھوڑا دور اپنی امی کی آواز آئی، اُسنے مڑ کے دیکھا تو آواز سڑک والی طرف سے آ رہی تھی۔

پر اُسکی ماما یہاں تھوڑی آسکتی تھیں، وہ پھر سے سب کے پاس کھڑا ہوگیا، آواز پھر سے آئی، جیسے اُسے اُسکی ماما مسلسل بلا رہی تھیں۔

اُسنے آگے پیچھے دیکھا تو اُسکے علاوہ کسی نے آواز کی طرف توجہ نہیں دی تھی، اُسنے  ہدا کو بتانے کے بارے میں سوچا پر وہ بھی اُسے آس نظر نا آئی!

شاید وہ تحریم کے ساتھ بیگز نکال رہی تھی۔

آیان ڈرتا تھوڑی تھا وہ تیسری بار آواز آنے پر سڑک کی طرف چل پڑا۔

آہستہ آہستہ قدموں نے اُسکا اور سڑک کا فاصلا
کافی کم کر دیا تھا۔

ٹیکٹس لے کے آتے ہوئی عدیل اور محب باتوں میں مصروف تھے کے اتنے میں محب کی نظر سڑک پر جاتے آیان پر پڑی۔

اُسکے قدم ساکت ہو گئے، چلتے لب رک گئے، یہ وہ کیا دیکھ رہا تھا؟

کیا یہ بھی خواب تھا؟
اُسکے ہاتھوں سے ٹکٹس گر پڑے!

یہ سب وہ دیکھ چکا تھا، ایک بچے کا سڑک پر جانا، بچے کی پشت کا اسکی طرف ہونا۔

اور، اور وہ بچہ، وہ بچہ ایسا ہی تھا، ہو بہو، اُس بچے کی پشت اور آیان کی پشت ایک جیسی تھی، بلکل ایک جیسی!

تو کیا محب کے خوابوں میں آنے والا بچہ آیان تھا؟

اور اب جو وہ دیکھ رہا تھا، کیا ویسا ہونے ولا تھا جیسے ہو چکا تھا؟

اُسنے آؤ دیکھا نا تاؤ آیان کی طرف بھاگنے لگ پڑا،
آیان اس سے دور سڑک کے قریب تھا۔

اُسنے اور تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا!

ہدا کی نظر اُس پر پڑی، صرف اُسکی ہی نہیں سب اُس کی طرف دیکھنے لگے، جس جانب وہ جا رہا تھا جب ہدا نے دیکھا تو وہ بھی گھبرا گئی۔

"آیان، کہاں جا رہے ہو؟ یہاں آو۔"
وہ حلق کے بل چلائی۔

پر سڑک تو خالی تھی، تو اتنی فکر کی بات نہیں تھی، باقی سب کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کے محب ایسے کیوں بھاگ رہا ہے۔ خود ہدا بھی پریشان تھی۔

جیسے ہی وہ آیان کے قریب سڑک کے کنارے پہنچا، ایک تیز رفتار لڑکھڑاتی ہوئی گاڑی منظر پر ظاہر ہوئی۔

ہدا کے منہ سے بیختیار چینخ نکل پڑی، اب سب پریشان ہو گئے تھے۔

محب آخر کار اُس تک پہنچا، اُسنے آیان کو فوراً گود میں اُٹھایا پر اتنے میں گاڑی اُنکے بےحد قریب آگئی تھی، اُسنے فوراً پیچھے کو چھلانگ لگا دی، گاڑی اُنکے بلکل قریب سے ہوتے ہوئی آگے درخت سے جا ٹکرائی، سب بھاگ کر اُنکے پاس پہنچ گئے تھے۔

آیان، محب کے ساتھ زور سے گلے لگا ہوا تھا، محب کا ہاتھ چھلانگ لگانے کی وجہ سے کافی زخمی ہو گیا تھا، علینہ فوراً آگے ہوئی اور آیان پر چلاتے ہوئے بولی۔

"پاگل ہو تم؟ سڑک پر کیوں جا رہے تھے؟ دیکھو تمہاری وجہ سے..." پر اس سے پہلے کے وہ اپنی بات پوری کرتی محب کی آواز نے اُسکی بات کاٹ دی۔

"علینہ، بس!
بچہ ہے یہ، ڈرا ہوا ہے، اور تم اسے ڈانٹ رہی ہو۔"
اُسے تو لگا تھا محب آیان پر ناراض ہوگا، یا غصے میں ہوگا پر محب تو، وہ تو بےحد بےحد مطمئن لگ رہا تھا۔ وہ مسلسل آیان کا سر تھپتھپا رہا تھا۔ اُسنے آیان کو ابھی تک گلے سے لگایا ہوا تھا۔

اُسکا چہرہ اُسکے مطمئن ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

محب کے خواب میں جو بےبسی اُسنے محسوس کی تھی وہ اب نہیں تھی، اُسنے آیان کو بچا لیا تھا!

اُسنے احتیاط سے آیان ہدا کے پاس بٹھایا، جو فوراً اُسکے زخموں کی مرہم پٹی کرنے لگی۔ خود وہ عدیل نفیس کے ساتھ اُس گاڑی کی طرف چل پڑا.

                            ................

Rani_dream_faith✨
How's the chapter?

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top