۱۴


آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اور سب امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ ﴿۵﴾ رات کو دن میں داخل کرتا اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور وہ دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ {۶}
(سورہ الحدید ۵-۶)

راز!
ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے، اُس ذات کے آگے عیاں ہے، وہ سب جانتا ہے، تو بس جب تمہارے پاس لفظ نا بچیں تو اُسکے آگے جھک جایا کرو، اپنا دل جھکا دیا کرو، کیوں کے اور کوئی جانے نا۔ جانے، وہ رب سب جانتا ہے۔۔۔

..............

کھانا اُس نے کیسے ختم کیا وہ ہی جانتی تھی، وہ وہاں سے جلدی سے اُٹھ جانا چاہتی تھی، پر آج ڈائننگ ٹیبل سے شاید کسی کے اٹھنے کا دل ہی نہیں تھا، اسی دوران آغا جان اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر اپنی عادت کے مطابق چالیس قدم چلنے چلے گئے۔

اس سنت اور اس طرح کی کئی دیگر سنتوں پر وہ روز مرہ کی زندگی میں عمل کرتے تھے۔

اُنکے جاتے ہی ایک ایک کر کے سب ٹیبل سے اُٹھنے لگے، ہدا بھی اُٹھی اور اپنے کمرے میں جانے لگی کے تائی امی کی آواز پر اُسے رکنا پڑا۔

"ارے بچیوں برتن سمیٹنے میں میری مدد تو کردو۔"

"ہدا، اسماء چلو جلدی سے۔" وہ خود برتن اٹھاتے ہوئے بولیں۔

ہدا کے ہاتھ میں موجود گفٹ وہ دادو کی گود میں رکھ کر تائی امی کی مدد کرنے چلی گئی، کھانے کے بعد اُسنے سب کے لیے چائے بنائی اور پھر نفیس کے ہاتھوں باہر سب کو سرو کروا دی۔

کچن سے باہر جاتے ہیں مجیب کی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی۔

"چائے کس نے بنائی ہے؟"

نفیس نے چائے پیتے ہوئے کچن سے نکلتی ہدا کی طرف اشارہ کیا۔

"چائے اچھی بنائی ہے لڑکی۔"

چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ بولا۔

"میری بیٹی کے ہاتھ کی چائے میں کب سے مس کر رہا تھا۔" اعجاز صاحب بھی پیار سے بولے۔

اور کچھ ہو نا ہو، مجیب اور اعجاز صاحب کے آنے سے ایک نئی سی رونق آگئی تھی آغا ولا میں۔

اُسنے ایک چھپی نظر لاؤنج میں دوڑائی، دور بیٹھا محب بھی چائے پی رہا تھا، وہ بے اختیار سوچنے لگی کے آج جو ہوا کیا واقعی اس بات کی دلیل ہے کے محب کے دماغ میں جو شک و شبہات ہدا کے بارے میں ہیں وہ جھٹ رہے تھے؟

اپنی چائے اور اپنا گفٹ لیتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور احتیاط سے اپنے گفٹ کو گفٹ بیگ سے نکالا۔

کچھ دیر تو وہ چونکی، کیونکہ اُسے کوئی بریسلٹ یا پرفیوم نہیں دیا گیا تھا، بلکہ کچھ کتابیں تھیں۔

وہ کتابیں جو ہدا کو کافی پسند تھیں، پر اُسکے پاس اُنکی پیپر بکس نہیں تھیں، اُسنے ساری کتابیں دیکھیں، سب کی سب مولانا جلال اُد دین رومی سے منسوب کتابیں تھیں۔

(Masnavi)
(Let Silence Take You to the Core of Life)

وہ بہت خوش تھی، اسکی کتابوں سے رغبت کسی سے چھپی نہیں تھی پر اُسے یہ بات یاد ہوگی اسکی اُمید ہدا کو نہیں تھی۔

وہ ساری کتابیں الماری میں رکھنے لگی، پیچھے سے آتی ایک نسوانی آواز نے اُسے چونکا دیا۔

"تحفہ مل گیا تمہیں؟
خوش ہوگی نا تم تو؟"

علینہ کو دیکھ کے وہ چپ سی ہو گئی۔

"ویسے کیا دیا محب نے؟"

"کتابیں ہیں۔" اُسنے جواب دیا۔

"آر یو سیریس؟" علینہ اپنی ہنسی دباتی بولی۔

"ہاں، پر کیوں؟" ہدا نا سمجھی سے علینہ کو دیکھنے لگی۔

"نہیں کچھ نہیں، مجھے لگا کچھ خاص ہوگا لیکن۔"

"میں بھی کیا کیا سوچ رہی تھی؟"علینہ نے دل ہی دل میں سوچا۔

"چلو تم آرام کرو میں جاتی ہوں۔"

"اچھا۔" ہدا نے مختصر جواب دیا، اُسے علینہ کی پسندیدگی کی پروا نہیں تھی، اُسے تو تحفہ بہت پسند آیا تھا اور یہ بات اُسکے لیے کافی تھی۔

...............

شاید صبح ہو گئی تھی، محب نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں، کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا،
اُسنے ٹیبل لیمپ پر سوئچ کی تلاش میں ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔

"سوئچ کہاں چلا گیا؟"

بہت تگ و دو کے بعد بھی جب اسے سوئچ نا ملا تو وہ اُٹھ کے بیٹھ گیا۔

آج اندھیرا کمرے میں بےحد زیادہ تھا، اُسے کچھ عجیب محسوس ہوا پھر وہ اٹھا، جلدی سے اٹھنے کی وجہ سے ذرا سا ڈگمگا گیا، فوراً سے خود کو سنبھالتے ہوۓ کھڑکی کی طرف کو جھکا، اور گرتے گرتے بچا۔

وہ اس اندھیرے کو ختم کرنا چاہتا تھا، کھڑکی پتہ نہیں کیوں اس بار اُسے کچھ دور محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ ہاتھ کی پوروں سے کھڑکی کا پردہ ٹکرایا، اُسنے یک دم اُس پردے کو پیچھے کیا۔

ایک تیز نکلتی روشنی اُسکی آنکھوں کو چندھیا گئیں۔ ایک دم سے روشنی آنکھوں پر پڑنے کی وجہ سے وہ لڑکھڑایا اور نیچے گر گیا۔

پھر سے اٹھا۔

ہاتھوں سے آنکھوں کو ڈھانپا کے روشنی میں دیکھ سکے۔

پر روشنی تیز تھی، دل میں بےبسی شدت سے جاگ اُٹھی۔ اُسنے ہمت کی اور پھر دیکھا!

کمرے کا اندھیرا اور باہر کی روشنی، اُسے ایسا لگا جیسے روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہو رہی تھی۔

اندھیرے میں اُسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور روشنی کی طرف وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔

آنکھوں کے دُکھنے پر وہ پیچھے کو ہو لیا، پردہ بند کرنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے پر دل میں ایک سوال کے اٹھنے پر اُس کے ہاتھ رک گئے۔

کیا روشنی کی طرف کا سفر بھی کیا کبھی آسان ہوتا ہے؟ اسکے لیے تو سہنا پڑتا ہے، جلنا پڑتا ہے!

اُسنے پھر سے باہر دیکھا، اس بار اُسکی آنکھیں اس روشنی کو سہنے کی کوشش کرنے لگیں۔

پھر اُس نے جو دیکھا وہ اُسے اندر تک لرزا گیا تھا۔

ایک بل کھاتی سڑک، اور اُس پر کھڑا ایک بچہ جسے شاید وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اُسکی طرف پیٹھ کیے چل رہا تھا۔

باہر ہوا بہت تیز چل رہی تھی، ماحول میں ایک عجیب سی وحشت چھائی ہوئی تھی۔ اتنے میں ہی ایک گاڑی بےحد تیزی سے آئی اور۔۔۔

اور پھر فضا میں محب کی چینخ گونجتی رہ گئی، وہ بچہ اُس گاڑی کے نیچے آگیا تھا، اُسکا خون۔۔ اُسکا خون سڑک پر پھیلنے لگا۔

وہ پیچھے ہوا اور فرش پر گر گیا۔ اُس کے آگے مزید دیکھنا محب کے بس میں نہیں تھا۔

اُسکا دل درد سے بھر گیا تھا، جیسے اُسکے دل کا ایک حصہ اُس سے چھین لیا گیا ہو۔

اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکا۔۔۔

یہ بےبسی اُس کا درد بڑھا رہی تھی! اس بچے کے لیے محب کا دل کٹ رہا تھا، وہ اُسکا چہرہ تو نہیں دیکھ سکا لیکن یہ وہی بچا تھا جو محب کے خوابوں کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔

کھڑکی سے آتی روشنی مدھم ہونا شروع ہو گئی تھی، محب بیٹھے بیٹھے نم آنکھوں کے ساتھ اُس بچے کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔

محب کیوں اُسے بار بار دیکھ رہا تھا، آخر اُسکا محب سے رشتہ کیا تھا!
وہ خود کا ڈرنا برداشت کر لیتا تھا، یہ درد اُس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

اسی اثناء میں ایک آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی، آواز بڑھتی گئی، اُسنے آواز کی سمت کی طرف دیکھا پر وہاں اندھیرا تھا، آنکھوں پر بوجھ محسوس ہونے پر اُسنے اپنی آنکھیں بند کیں۔
پھر کھولیں، آواز اُسکے داہنی طرف سے آ رہی تھی۔

اد کھلی آنکھیں بتا رہی تھیں کے اس بار کمرہ روشن تھا اور یہ سب بھی ایک خواب تھا۔

ایک عجیب خواب۔۔۔

..............

کمرے سے نکلتی ہدا کل کے بارے میں سوچ رہی تھی، اُسنے محب کا شکریہ صحیح سے نہیں کیا تھا،
محب کے اُس ایک ایکشن سے ہدا کا موڈ اور دِن بہت اچھے ہوگئے تھے۔

آج اگر اُسکا سامنا محب سے ہوتا تو وہ ضرور اُس سے شکریہ کہے گی، یہی سوچتی وہ دادو جان سے ملنے چلی گئی جو بہت خوش لگ رہی تھیں۔

"السلام وعلیکم دادو، صبح بخیر۔"

"صبح بخیر میری جان۔" وہ اُسکا سر تھپتھپاتے ہوئے بولیں، دادو کے چہرے کی مسکراہٹ کتنی پیاری تھی نا، وہ بس اُنھیں دیکھے گئی۔

"کیا دیکھ رہی ہو؟"

"آپ کو، آپ کافی خوش لگ رہی ہیں، اور پیاری بھی۔"

"شریر ہو گئی ہو تم لڑکی۔ پر ہاں میں واقعی میں خوش ہوں، اپنے بچوں کو ہنستا بستا دیکھ کے کون خوش نا ہو؟" وہ بھی انکی بات سے متفق تھی۔

"اور ہاں تمہاری خالہ کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھیں کے آیان اور علیزے تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں۔"

"یاد تو مجھے بھی وہ دونوں آرہے ہیں۔"

"میں نے فاطمہ کو کہا کے دونوں کو کچھ دنوں یہاں بھیج دے، پر علیزے ماں کے بغیر سوتی ہی کب ہے۔ اسلئے میں نے آیان کو بلوا لیا ہے۔ وہ تم سے ویسے بھی بہت اٹیچڈ ہے۔"

"واقعی دادو؟" وہ خوشی سے بولی۔

"ارے ہاں ہاں."

" بہت پیارا بچہ ہے، اچھا ہے یہاں آ کر وہ بھی خوش ہوجائیگا۔"

"آجائیں دادو، کھانا لگ گیا ہے۔"

علینہ نے آ کر اُن دونوں کو بلایا۔

وہ دونوں باہر چلے گئے پھر سب کھانے میں مصروف ہو گئے.

کھانے کے بعد ہدا برتن سمیٹنے لگی، مجیب نے اپنا کھانا کھا کے اُس کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا.

"ہدا؟"

"جی۔"وہ اُسکی طرف دیکھ کر بولی۔

"چائے اچھی نہیں بنی آج۔" وہ اُداس شکل بناتے ہوئے بولا۔

"چائے میں نے نہیں بنائی۔" وہ دھیمے سے بولی۔

"تبھی تو، تم نے کیوں نہیں بنائی؟
پلیز بئی چائے کے بارے میں نو کمپرومائز، کل سے چائے تم نے بنانی ہے، اور نا بھی پیئیں تو میرے لیے تو چائے تم ہی بنانا۔"

کام بہت بڑا نہیں تھا پر جس طریقے سے مجیب نے کہا تھا اُس سے ہدا تھوڑی سی نروس ہوگئی تھی، اُسنے آس پاس دیکھا اور اُسکی نظر محب کی اور تب اُٹھی۔

محب اپنا ٹوسٹ اٹھاتے ہوئے مجیب کی طرف دیکھنے لگا جو ٹیبل سے اُٹھ رہا تھا، پر دیکھ ہدا کی طرف رہا تھا، جیسے اُسکے جواب کا انتظار کر رہا ہو.

نظر ہدا کی طرف پڑی، جو بھوکلای سی لگ رہی تھی۔ پھر اُسکا جواب محب کے کانوں میں پڑا۔

"جی بھائی، ضرور۔"

یہ کہتی وہ تیزی سے برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔

کاموں سے فارغ ہو کر اُسنے آیان کے آنے کے لیے تیاری شروع کر دی وہ جانتی تھی آیان کو کھانے میں بریانی بہت پسند ہے، وہ سمیرا آنی، جو اُنکی بچپن سے دیکھ بھال کرتی تھیں، اُنکے ساتھ مل کر دن کے لیے بریانی بنانے لگی۔

سب کچھ تقریباً تیار تھا، وہ ہاتھ صاف کرتی باہر نکلی کے باہر سے آتے محب کو دیکھ کر فوراً رک گئی۔

وہ بھی دروازے پر پہنچ کر اُسے دیکھ کر رک گیا۔

بہت ہمت کر کے ہدا نے پوچھا۔

"آپکو کچھ چاہئے؟"

وہ چونکا، چونکا بنتا بھی تھا، ایسے ہدا اُس سے کب پوچھتی تھی؟

"نہیں۔" مختصر جواب دے کر وہ کچن میں جانے لگا کے ہدانے فوراً شکریہ ادا کرنے والے لفظ کہہ دیے جو وہ صبح سے سوچ کے بیٹھی ہوئی تھی۔

"تھینکس فور دا گفٹ۔ (تحفے کے لیے شکریہ)"

اس سے پہلے کے وہ وہاں سے جاتی محب بولا۔

"وہ صرف دادو اور آغا جان کی خوشی کے لیے تھا" وہ سرد لہجے میں بولا۔

یہ بات ہدا کو چپ کرا گئی۔ وہ جو چیزوں کو نارمل ہوتا دیکھ کے رب کا شکر ادا کر رہی تھی، اس بات سے بلکل چپ ہوگئی۔

یہ سب صرف دادو اور آغا جان کے لیے تھا!

یہ سب واقعی اُن کے لیے تھا، اور وہ کتنی خوش ہو رہی تھی۔

وہ کسی جواب کا منتظر کھڑا رہا، پر وہ خاموش رہی، اور ہلکا سا سر ہلایا جیسے اُسکی بات سمجھ گئی ہو اور آگے بڑھی پر اس سے پہلے کے جاتی تحریم نے آ کر اُسے بتایا کے مجیب بھائی نے خاص ہدا کو چائے بنانے کا کہا ہے۔

وہ دوبارہ کچن کی طرف مڑ گئی، محب جو دروازے پر تحریم کی آواز سن کر رک گیا تھا، ہدا کو واپس آتے دیکھ کے بولا۔

"یاد آیا، میں۔ میں وہ چائے کے لیے آیا تھا، اگر بنا رہی ہو تو میرے لیے بھی بھیج دینا۔"
یہ کہتا وہ وہاں سے چلا گیا اور ہدا اُسے دیکھے گئی؟

وہ اس سے کب سے چائے بنوانے لگ گیا تھا؟
اس بات پر ہدا چونک گئی، اور اُسکا چونکنا بنتا بھی تھا.

.............

Rani_dream_faith✨
Feedbacks will be appreciated :')

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top