۱۱
"اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیںo "(سورہ بقرہ -۱۵۵)
آزمایش تو صبر کے ذریعے ہی کاٹی جاسکتی ہے۔ اس صبر میں کچھ یا بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ پر یہ آزمائشیں ہی تو رب پر یقین رکھنا سکھاتی ہیں، ایک انسان کو یہ بتاتی ہیں کہ وہ رب تھا بھی، وہ ہے بھی اور وہ ہی ہمیشہ رہنے والا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محب جذباتی انسان نہیں تھا، پر جذبات سے عاری بھی نہیں تھا۔ آج اُس نے جو کیا اُس پر اُسے کوئی گلٹ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے بچے کے جیسے تھا جو صرف توجہ کا طلبگار تھا۔ اپنے اوپر فورس کی گئی چیزوں سے چڑتا تھا، ہدا سے منسلک چڑ کی بھی کچھ یہی وجہ تھی۔
کمرے کے اندر آتے ہی وہ کیز رکھنے الماری کی اور چلا گیا۔ الماری کو کھولا پر پھر کچھ سوچتے ہوئے وہاں پڑی اپنے ماما اور بابا کی چیزیں نکال لیں۔ وہ حسرت سے اُن چیزوں کو دیکھ رہا تھا، جیسے ایک چھوٹا سا بچہ اپنے پرانے کھلونوں کو دیکھتا ہے۔
محب کی آنکھ میں بہت پیار، بہت حسرت اور کئی چھپے گلے بھی تھے۔
دروازے کے باہر سے آتی آواز سن کے اُسنے جلدی جلدی چیزیں الماری میں رکھ دیں پر کمرے میں آتی دادو سب دیکھ چکی تھیں، اُنکی آنکھیں بھی نم ہوگئیں تھیں، اس لیے اُنہوں نے محب سے آنکھیں نہیں ملائیں۔
بس اُس کے پریس ہوئے کپڑے رکھ کے بھاری دل کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئیں...
...............
"ہیلو،
کیسے ہو؟
بھول گئے نا آخر تم مجھے!
آئی مس یوں سو مچ محب۔
پاکستان جا کے تم تو بدل ہی گئے۔"
محب شاور لے کے نکلا ہی تھا کے اُس کو ایک نئے نمبر سے کال آئی، نمبر باہر کا تھا۔
"آپ کون؟" وہ حیرت سے بولا۔
"میں کون! میں تمہارا سہارا تھا، تم۔۔تم مجھے بھول گئے محب؟"
وہ کافی حیران ہوا، پھر کچھ وقت بعد اس بھونڈی زنانا آواز کو پہچان گیا جو اور کسی کی نہیں بلکہ حبیب کی تھی۔
"او بکواس نا کر۔" وہ ہنستے ہوئے بولا۔
"بےشرم، بےحیا انسان، تُجھے میری ذرا یاد نہیں آئی؟"
"میں اتنا بھی ویلا نہیں ہوں کے تُجھے بھی اب یاد کروں۔"
محب اُسے تپاتے ہوئے بولا۔
"ہاں بئی آپ بڑے لوگ، اب تو وی آئی پی بنے گھومتے ہونگے نا، اور تیرے کزنز بھی تیرے آگے پیچھے ہوتے ہونگے،بھئ ودیسی بابو جو ٹھہرا تو۔"
کزنز کے ذکر پر محب چپ ہوگیا، پھر کچھ دیر بعد بولا۔
"کیسا ہے تو؟"
"میں ٹھیک، بس تُجھے یاد کر رہا تھا، سوچا تنگ کر لوں تُجھے تھوڑا۔"
"کب آرہا ہے یہاں؟"محب نے اُس سے پوچھا۔
"یار بس جلد ہی، کچھ ہی وقت رہتا ہے میرا بھی اب۔"حبیب نے جواب دیا۔
"جب آئیگا مجھ سے ملنے آئی."
"ویسے محب، تیری واپسی کا کیا پلان ہے؟ تو آئیگا باہر واپس یا نہیں؟"
اس سوال کا جواب تو محب خود بھی نہیں جانتا تھا۔
ابھی کئی الجھنیں باقی تھیں جنہیں وہ جانا چاہتا تھا۔
"اگر اللہ نے لکھا ہوا تو آئینگے، ورنہ جو اُسکی مرضی۔"
محب کے جواب پر حبیب چپ ہوگیا۔
"چل ٹھیک ہے۔ لیکن میں جب بھی آیا تُجھ سے ملنے آجاؤنگا۔"
"ہاں تو آسانی سے جان تھوڑی چھوڑے گا۔" محب نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
پھر کافی دیر وہ لوگ بات کرتے رہے۔
رات کافی ہو گئی تھی، محب کب سوگیا اُسے پتہ ہی نہیں لگا۔
...........
"میں چاہتی ہوں کے آپ محب سے بات کریں۔" دادو نے آغا جان سے کہا۔
"کیا بات بیگم؟"
"یہ کے وہ ماضی کو بھول جائے اب۔ ہر گلے کو دل سے نکال دے، میں اُسکی دادی ہوں، وہ جتنا ظاہر کر لے کے وہ خوش ہے اور اُسے فرق نہیں پڑتا، سچ تو یہ ہے کے ابھی بھی وہ خوش نہیں ہے۔
ابھی بھی اُسکے اندر بہت گلے اور شکایتیں ہیں۔"
میں نہیں جانتی پر میں اُسے ایسے نہیں دیکھ سکتی! آپ اُس سے بات کریں، اُسے سمجھائیں، کوشش کریں کے یہ ساری بدگمانیاں اُسکے دل سے ختم ہوں!" وہ نم آنکھیں اور بھیگی آواز سے بولیں۔
خود آغا جان بھی ایک گہری سوچ میں گم تھے۔
اُنکے اور محب کے بیچ واقعی ایک خلا سا آگیا تھا، جو دکھتا نہیں تھا پر محسوس ضرور ہوتا تھا۔
دروازے کے اُس پار کھڑی ہدا، آغا جان کی دوائی لاتے ہوئے سب سن چکی تھی۔
وہ جان گئی تھی کے محب کے اندر کی الجھنیں وقت کے ساتھ ختم نہیں بلکہ اور بڑھ گئی ہیں۔ آج جو بھی ہوا یا آج سے پہلے، محب نے ہدا کی ذات کو جیسے جیسے بکھیرا وہ اسے سب سمجھا دینے کے لیے کافی تھا۔
وہ جانتی تھی کے انسان خطا کا پتلا ہے، اور انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ وہ محب کو مکمل قصور وار نہیں کہتی تھی۔ پر اُسکا قصور تھا بھی تو کیا؟ زیادہ سے زیادہ وہ خود پر بیتی ازیت ہی سہہ سکتی تھی، اسلئے چپ ہوجایا کرتی تھی۔
ایک سچ جو اُسکے کہیں بہت اندر دفن تھا وہ یہ تھا کہ وہ محب کے دکھ میں دکھی ہوجاتی تھی، ان چھ سالوں میں جو جو محب نے سہا وہ کچھ حد تک ہدا کو بھی متاثر کر کے گیا تھا۔
وہ فرشتہ صفت نہیں بلکہ ایک انسان تھی، پر اُس نے دل کو اتنا تو مضبوط کر ہی لیا تھا کے اگر محب بس اپنے الفاظ کی سنگینی ہی جان لیتا، یہ اقرار ہی کرلیتا کے اُسنے چھ سالوں پہلے ہدا کے متعلق جو کہا وہ جذبات کے زیرِ اثر کہا تو شاید وہ محب کو دل سے معاف کردینے کے لئے تیار تھی۔
.................
ایسی خنکی کے روح بھی کانپ جائے، پتہ نہیں یہاں اتنی ٹھنڈ کیوں تھی، ٹھنڈ وہ بھی ایسی کے جسم کو جما کر رکھ دے۔
رات تھی یا رات ہونے والی تھی کہنا مشکل تھا، پر آج پھر سے محب اُسی جگہ پر تھا۔
ایسی جگہ جہاں سے کسی راستے کو ڈھونڈنا ممکن نہیں تھا۔ پر آج اُسنے فیصلہ کیا کے وہ کوئی آواز نہیں نکالے گا، کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔۔۔
وہ بس آہستہ آہستہ چلتا گیا۔
وہ جیسے جیسے آگے جا رہا تھا دھند ویسے ویسے ہی بڑھ رہی تھی۔
اُسے ایسا لگا جیسے اُسکے پیچھے کوئی موجود تھا، وہ ضبط کرتے ہوئے پیچھے مڑا پر وہاں کچھ نہیں تھا سوائے دھند کے۔۔۔
وہ اور آگے بڑھا، کے شاید کوئی راستہ اُسے مل جائے۔ پر اس بار پیچھے سے آنے والی آواز قدرے اونچی تھی۔
وہ درخت کی اوٹ میں بیٹھ گیا، اُسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، خوف تھا، پر خوف سے زیادہ بےبسی تھی۔
سوکھے پتے جب اُسکے پیروں کے نیچے آتے تو اُس منجمد خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوتا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے پتوں کو دور کرنے لگ جاتا۔ چاہتا تھا کے کوئی بھی آواز ایسی پیدا نا ہو جس سے وہ چیز جاگے۔
اُسی لمحے ایک ہلکی پر نوکیلی سی آواز اُسکی سماعت سے ٹکرائی۔
پل بھر کو اُسکا دل جیسے رکنے لگا تھا، پر غور کرنے پر اُسے محسوس ہوا کہ آواز اُس چیز کی نہیں بلکہ، بلکہ ایک چھوٹے بچے کے رونے کی ہے...
ایک بہت چھوٹے بچے کی۔۔۔
وہ اٹھا، اور اُس آواز کا پیچھا کرنے لگا۔ اُسکے دل میں اب ڈر کم ہوتا جا رہا تھا، پر ہوا کی خنکی ہنوز بڑھ رہی تھی۔
آہستہ آہستہ اُسکے پیچھے سے آتی سرسراہٹ بھی اب بڑھنے لگی۔ وہ قدم تیز تیز چلانے لگا۔۔۔
کچھ آگے جا کے دیکھا تو ایک بہت پرانے درخت کی اوٹ میں ایک کپڑے میں کوئی بچہ لپٹا ہوا تھا جو بےتحاشا رو رہا تھا۔
وہ بچہ بہت درد میں لگ رہا تھا۔
محب اُسکے پاس گیا اور اُس پر پڑی چادر ہٹا کے اُس کا چہرہ دیکھا۔
اُس بچے کا چہرہ ایسا تھا کے جیسے کوئی پھول ہو۔ وہ بچہ بہت پیارا تھا پر بہت ازیت میں رو رہا تھا۔۔۔
محب نے جیسے ہی اُس بچے کو اٹھانے کے لیے ہاتھ اُٹھائے، اتنے میں ہی ایک زور دار دھکا اُسے لگا اور وہ اُس بچے سے کافی دور جا گرا۔
کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھیں، اُس بچے کا رونا درد کی انتہا پر پہنچ چکا تھا، محب نے ہمت کی، نم ہوتی آنکھوں کو کھولا اور پھر سے بچے کے پاس گیا، اُسکی چادر کو ہاتھ لگایا، اور اس سے پہلے کچھ اور ہوتا اُسنے چادر اٹھا لی...
پر، اب وہاں کوئی بچہ نہیں تھا، محب کے ہاتھوں میں بس چادر ہی آئی تھی۔ اتنے میں اُسکے دائیں طرف سے بچے کے رونے کی آواز آئی، محب نے آیت ال کرسی پڑھنا شروع کر دی۔
پھر ہمت کی، اپنی آنکھیں کھولیں اور دائیں طرف دیکھا، وہی بچہ بغیر چادر کے لیٹا ہوا تھا، بہت بیچینی سے رو رہا تھا۔
محب کا دل تڑپ اٹھا، پتہ نہیں کیوں، پر وہ اُس بچے کو روتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس بچے کے رونے سے محب کا دل دکھ رہا تھا۔
محب پھر سے اٹھا، اُسکے پاس جانے لگا، پر اس بار کا لگنے والا دھکا بہت برا تھا، محب کی آنکھیں چندھیا گئیں، اٹھنے کی سکت اُس میں اب نہیں تھی۔
وہ وہیں لیٹے لیٹے روتے ہوئے چینخ پڑا۔
"اس بچے کو چھوڑ دو،
اس معصوم کو چھوڑ دو!"
خاموشی ہنوز برقرار رہی، بس اُس بچے کے سسکنے کی آواز ہی وقتاً فوقتاً وہ سن رہا تھا۔
اُسکے آنسو بھی اب روانی سے بہہ رہے تھے، وہ ایک لمبا چوڑا شخص بھی کیسے بےبسی سے رو رہا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کے یہ سب کیوں ہورہا تھا، وہ کیوں ایسے تڑپ کر رو رہا تھا؟ بس وہ اُس بچے کو اٹھانا چاہتا تھا، اُسے پیار کرنا چاہتا تھا، اُسے یہاں سے لے کے دور جانا چاہتا تھا.
اسی اثنا میں کمرے کے باہر سے گزرتی ہدا کے قدم ساکت ہوگئے۔
رات کی خاموشی میں کسی کے ہلکے ہلکے سسکنے کی آواز وہ آسانی سے سن سکتی تھی، اور یہ کس کی آواز تھی وہ جانتی تھی، پر یہ سب كس وجہ سے تھا؟
دادو تو ابھی آغا جان کو محب سے بات کرنے کا کہہ رہی تھیں نا، آغا جان آئے بھی تھے، پر پھر جب اُنہوں نے دیکھا کہ محب سو رہا ہے تو وہ چلے گئے تھے۔
کیا سوتے میں ایسے سسکنا ع۔ام بات تھی؟ یا نیند میں ہونے والے کسی واقع سے اندر موجود شخص ایسے۔۔۔
اس بات کو سوچتے ہوئے ہی ہدا کے ذہن میں پھر سے آیان کا خیال آیا تھا۔
جو آیان کے ساتھ ہو رہا تھا کیا وہ ہی سب انکے ساتھ بھی!
پر کیوں؟
وہ بہت اُلجھ گئی، آیان اور محب۔ آخر ان دونوں کے ساتھ ہی کیوں؟
یہ سب محض اتفاق تھا یا کوئی کڑی ایسی تھی جو ان دونوں کو جوڑے رکھے ہوئے تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith✨
keep supporting ✨
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top