۱۰
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف(آسانی) کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا."
(سورہ نساء:۲۸)
اللہ انسان کے لیے آسانی چاہتا ہے پر انسان اپنے لیے خود مشکلیں کھڑی کر لیتا ہے. کبھی لاحاصل کی پیچھے بھاگ کے تو کبھی حاصل کی ناقدری کر کے۔۔۔
.......
شام پھر رات میں ڈھلی۔ ہدا انتظار میں ہی تھی کے اتنے میں گھر کے باہر گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
"چلیں خالہ میں جاتی ہوں۔" وہ خالہ سے ملتے ہوئے بولی۔
"بچے سو رہے ہیں، میرا پیار دینا انہیں، اور آیان کا بہت خیال رکھیے گا۔"
"دوبارہ جلدی آنا ہدا۔" وہ پیار سے کہتی ہوئی بولیں۔
"جی خالہ، جلدی آؤنگی۔" وہ بھی مسکرا کر بولی۔
پھر گھر سے باہر نکلی، اندھیرے کے بڑھنے کے باعث یہ دیکھ نا سکی کے ڈرائیونگ سیٹ پر کون ہے۔
پیچھے کا دروازہ کھول کر وہ بس بیٹھ گئی۔
گاڑی سٹارٹ ہوئی، آہستہ سے گھر کے پاس سے گزر گئی۔ پھر اُسنے جب معمول سے زیادہ گاڑی کی سپیڈ بڑھتی دیکھی تو تھوڑا گھبرا گئی۔
"چاچا گاڑی تھوڑی آہستہ چلائیں۔" وہ دیکھے بغیر بولی، پر جب ہنوز سپیڈ بڑھتی رہی تو اُسنے ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھا، جہاں چاچا نہیں بلکہ محب تھا۔
اُسنے ہدا کی آواز کو سنا ان سنا کردیا۔
"آپ؟" وہ حیرانی سے بولی۔
"آپ مجھے لینے..."
"آغا جان چاہتے تھے، خیر تمہیں تو کافی خوشی ہو رہی ہوگی ہیں نا؟" وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
"مجھے خوشی پر کیوں؟" وہ سوالاً بولی۔
یہ سننے پر ایک طنزاً مسکراہٹ اُسکے لبوں کو چھو گئی۔
"کیوں کہ مجھے آپکا ڈرائیور بنا کے بھیجا گیا ہے اسلئے۔" وہ طنزاً بولا۔
"مجھے اس بارے میں نہیں پتہ تھا!" وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
"اُمید تو مجھے بھی نہیں تھی، پر آغا جان کا حکم تھا۔"
"آپ منع کر دیتے، یا ڈرائیور کو بھیج دیتے۔" وہ پھر سے دھیمے لہجے میں بولی۔
"مجھے اُنہوں نے کیوں کہا اور ڈرائیور کو کیوں نہیں یہ میں نہیں جانتا، بس مجھے اُنہوں نے آپ کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔"
طنز سے بھرا لہجہ ایک پل کو اُسے ساکت کرگیا۔
ہدا کو ایسے آپ کہنا۔
وہ اُس سے پوچھنا چاہتی تھی کے چھ سالوں بعد بھی کیوں وہ غلط گمان ہی رکھتا ہے اسکے بارے میں۔
پر اُسے صبر کرنا آتا تھا، وہ چپ کر کے بیٹھی رہی اور محب کی بات کا اُسنے کوئی جواب نہیں دیا۔
محب نے کچھ دور جا کر گاڑی مارکیٹ کے پاس روک دی اور بغیر کچھ کہے گاڑی سے نکل گیا، ایک گھڑیوں والی برانڈڈ شاپ میں وہ چلا گیا تھا۔
ہدا اندر بیٹھی رہی، اُسے ابھی بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیوں آغا جان نے محب کو اُسے لینے کے لیے بھیجا تھا۔
خیر وقت گزرتا گیا، اور وقت کے ساتھ ساتھ ہدا کی بےچینی بھی۔ رات کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔
منٹ گزرے یہاں تک کہ ایک گھنٹہ گزر چکا۔
اُسنے کھڑکی کے باہر آس پاس دیکھا پر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اُسکی فکر بڑھ رہی تھی، آیان کے ساتھ پہلے ہونے والا واقعہ اور اب آس پاس لوگوں کی اُس پر پڑنے والی عجیب نظریں۔
یہ نظریں اُسے خائف کر رہی تھیں۔ ہدا گزرتے وقت کے ساتھ مزید پریشان ہوتی جا رہی تھی، اُسکے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں صاف دکھ رہی تھیں۔
پھر ڈیڑھ گھنٹہ گزرا، یہاں تک کہ دو گھنٹے اُسے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے گزر گئے۔
پر وہ وہیں بیٹھی رہی، اُسنے کسی کو کال نہیں کی، شاید وہ بھی محب کی حد دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ آج جاننا چاہتی تھی کے آخر محب کس حد تک اُسے ازیت دے سکتا ہے۔
اس نے وقت دیکھا تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
ہدا فکرمند تھی، وہ جگہ کوئی بہت اچھی جگہ نہیں تھی، اُسنے آس پاس سے کئی لوگوں کو بار بار گزرتے بھی دیکھا تھا۔ وہ بچی نہیں تھی، ان عجیب نظروں کے معنی وہ جانتی تھی، ایک پل کو تو اُسکی روح بھی کانپ گئی۔
اُسنے جلدی سے سارے دروازوں کو لاک کیا اور تسبیحات پڑھنے لگی۔ اُسکا صبر جواب دے رہا تھا، اُسے اب وہاں بیٹھے بیٹھے تین گھنٹے گزر چکے تھے۔
رات کے نو بج گئے، اُسکے پاس محب کا نمبر بھی نہیں تھا، پر اگر ہوتا بھی تو اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ اُسے کال کر سکتی۔
اب وہ بلکل تھک چکی تھی، اُسے کچھ سمجھ نا آیا کے وہ کیا کرے اور اسی پل اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔
وہ اللہ سے دعا کرنے لگی کے یہ کھیل ختم ہوجائے، کچھ وہ محب کے متعلق فکر مند بھی تھی، کہیں اُسے کسی مصیبت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑ گیا تھا؟
اس چیز سے انجان کے وہ مسلسل کسی کی نظر کے حصار میں تھی۔ اُسکی فکر اُسکے آنسو اور اُسکا جھنجھلاتے ہوئے آس پاس دیکھنا محب کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہ سکا تھا۔
محب کی آنکھیں ہدا کے دعا میں اُٹھے ہاتھوں پر تھی۔ وہ اسکی بےچینی سے آگاہ تھا، یہ اُسکی طرف سے ایک چھوٹی سی سزا ہی تھی۔ جیسے وہ بےبس کر دیا جاتا تھا آج اُسنے ویسے ہی ہدا کو بےبسی کا ذائقہ چکھایا تھا۔
ویسے وہ ہدا کو نظر انداز ہی کرتا لیکن آغا جان کا آج کا رویہ اُسکے بہت سارے زخم اُدھیڑ گیا تھا۔
کچھ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کے ہدا گھر پر دادو یا آغا جن کو کال کرے گی یا نہیں، اور آج دادو اور آغا جان سب جان کے کیسے ریکٹ کرینگے۔
پر اس کھیل کو اُسنے ختم کیا، گاڑی کی طرف بڑھا اور پھر گاڑی کا لاک بٹن دبا کر کھولے گیا، ہدا نے اُسکی طرف دیکھا۔
اُسکی نظروں میں شکایت بھری ہوئی تھی، پر اُسکے لب ساکت تھے۔
مجھے
آغا ولا پہنچنے میں انہیں بس ۱۰ منٹ لگے۔
اندر جاتے ہی پریشان کھڑی دادو اُنکے پاس آئیں۔
"اتنی دیر ہوگئی بیٹا؟
خیر سے آئے ہو نا تم دونوں۔"
وہ محب اور محب کے پیچھے سے آتی ہدا کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
"جی دادو، بس مجھے راستے میں کچھ چیزیں لینے کے لیے رکنا پڑا تھا۔"۔ محب بہت فریش آواز میں اور بہت عام سے لہجے میں بولا۔
علینہ سب دیکھ رہی تھی، پیچھے سے آتی ہدا بھی خاموش تھی، اُسنے ایک سرد نظر اُس پر ڈالی اور پھر ایک محب پر.
"طبیعت کیسی ہے اب؟" علینہ کے محب سے پوچھنے پر ہدا نے غور سے محب کو دیکھا۔ اُسکے کانوں کی لوئیں لال تھیں، لہجہ تو فرش تھا پر اُسکا چہرہ واقعی اُترا ہوا تھا۔
'محب بیمار ہیں؟' ہدا سوچ میں کھو سی گئی۔
دادو نے ہدا کی طرف دیکھا اور اُسکی کھوئی ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ تشویش میں پڑ گئیں.
محب گھر سے ۴ بجے نکل گیا تھا، ہسپتال کے بعد اُسنے ہدا کو پک کرنا تھا، ابھی رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔
کہیں محب نے پھر سے ہدا سے تلخ کلامی تو نہیں کی تھی؟ وہ دل ہی دل میں خود سے سوال کرنے لگیں۔
"ہدا، خالہ کیسی ہیں؟" اُنہوں نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی، وہ اُسے اُسکے رویے سے پڑھ لیتی تھیں پر یہ بات ہدا بھی جانتی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کے دادو پریشان ہوں اس لیے اُس نے سوچ سمجھ کر جواب دیا۔
"وہ بلکل ٹھیک ہیں، آپکا پوچھ بھی رہیں تھیں، کہہ رہی تھی کے رات کے آٹھ بجے جانے سے بہتر میں ایک اور دِن رک جاتی، پر میں نے انہیں جلد آنے کا کہہ کر منع کر دیا۔"
اُسکے جواب میں چھپے جواب سے دادی مطمئن ہوگئیں۔ یعنی محب ہدا کو دیر سے اُسکی خالہ کی طرف سے لینے گیا تھا، یہ سن کے اُنکے دل کو تھوڑی بہت تسلی ہو گئی۔
"ٹھیک کیا، چلو ہاتھ منہ دھو آؤ، کھانے پر میں انتظار کر رہی ہوں۔" وہ یہ کہہ کے چلی گئیں۔
پاس کھڑا محب اُسے آنکھ کے کنارے سے دیکھ رہا تھا۔
اُسنے جھوٹ کیوں بولا تھا؟
یہ کہہ دیتی کے ۳ گھنٹے وہ گاڑی میں اکیلی بیٹھی رہی تھی، پر اُسنے جھوٹ کیوں کہا، وہ محب کو آسانی سے ڈانٹ سنوا سکتی تھی. اور اُسے سنوانی ہی چاہیے تھی۔ وہ کیوں اُسکی ذات پر احسان کرتی تھی؟
اُسے مزید غُصہ آیا، اُس کو ایسا لگا جیسے آج پھر ہدا نے جھوٹ بول کر اُس پر برتری حاصل کرلی ہو.
ہدا بہت تھک چکی تھی اسلئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی، جب کمرے کے سامنے پہنچی تو پیچھے سے جانے مانے قدموں کی چاپ سنی۔
"جھوٹ کیوں کہا تم نے؟" محب کی آواز اُسکی سماعت سے ٹکرائی۔
"دادو کیلئے۔
وہ پریشان ہو جاتیں۔" اس بار وہ بھی نپے تلے لہجے میں بولی۔
"کیا یہ ایک احسان تھا مجھ پر؟" محب نے طنزاً پوچھا۔
"نہیں احسان تو آپ نے کیا ہے مجھے لینے آ کر، اسلیے آپکا شکریہ." ہدا نرم اور دھیمے لہجے میں بولی۔
اُسکے لہجے میں طنز کی رمق بھی نہیں تھی، محب دو پل کو شرمندہ سا ہوا۔ اس کے بعد بغیر کچھ کہے وہ دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں جاتے ہی اپنے پلنگ پر وہ بیٹھ گئی۔ وہ خود کو بہت خالی خالی محسوس کر رہی تھی۔ اُس انسان کی نفرتوں کا مرکز رہ رہ کے تھک گئی تھی جسکے لیے آج تک وہ نفرت جیسا جذبہ خود میں لا
نہیں سکی تھی۔
اُسنے اپنا بیگ اٹھایا اور الماری کی طرف رکھنے کی غرض سے گئی، الماری کھولتے ہی اُسے ایک میرون رنگ کا ڈبہ دکھا، جسے وہ آج نہیں دیکھنا چاہتی تھی، لیکن جس میں ماضی کی کچھ یادیں قید تھیں۔
لاشعوری طور سے اُسنے وہ ڈبا کھولا جس میں بہت سے پینز، کچھ پیپرز اور بٹنز تھے۔
اُن میں سے ایک بٹن اٹھاتے ہوئے وہ ایک ٹرانس میں چلی گئی۔ اُسے یاد تھا کے کیسے ایک بار ہدا کے بیگ کے سٹریپ کا دھاگہ محب کے بٹن سے اُلجھ گیا تھا، پر اُس دھاگے کو نکالنے کے بجائے محب نے بٹن ہی نکال دیا تھا، اور اس گرے ہوئے بٹن کو ہدا نے پتہ نہیں کیا سوچتے ہوئے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
وہ عجیب نہیں بننا چاہتی تھی اُسے ہدا ہی رہنا تھا اسلئے اس نے ڈبا بند کر کے سب سے پیچھے دھکیل دیا یہاں تک کہ وہ نظروں سے بھی اوجھل ہوگیا تھا۔ پر وہ یادیں اوجھل نا ہوئیں ہو اُسکی ازیت کا باعث تھیں۔۔۔
Rani_dream_faith✨
Be ready the next chapter will be scary....
This chap is specially updated for ChristaBel515 and Anjumdaniya
keep supporting ✨❤️
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top