تیسری و آخری قسط
وہ ساکت چہرہ لئے وہی بیٹھی ہوئ تھی. اس کے ہونٹوں سے بہتا خون اب بھی اسی طرح بہہ رہا تھا لیکن اسے کسی چیز کا اب حوش نہیں رہا. زندگی کا یہ پہلا تھپڑ اس کے دل میں درد پیدا کررہا تھا. جب اس کے ذہن میں عبداللہ اور فاطمہ کا خیال آیا تو اس کے بے جان جسم میں حرکت ہوئ اذان نے کہی ساری بات امی ابا سے کہہ دی تو وہ کیا کریگی ایک قیامت ہی برپا ہوجاے گی اس خیال سے اس نے اپنے بہتے آنسو پوچھے اپنے کپڑوں کو سنبھالتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آئ. باہر اب بھی سب مہمان موجود تھے ذوالعرش کے کلاس فیلو دوسرے جانب ہونے کی وجہ سے اسے باہر آتے ہوئے دیکھ نہیں پائے.اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسوؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا اب اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا خوف دل پر اپنا قبضہ جما رہ تھا وہ دوڑتی ہوئی باہر آئ جہاں ڈرائیور گاڑی لئے اس کے انتظار میں کھڑا رہنے والا تھا. لیکن اس وقت کار وہاں موجود نہیں تھی یہ دیکھ ذوالعرش کے پسینے چھٹ گئے،
"یہ ڈرائیور..." اس کی آواز رونگ کی وجہ سے روندھ گئ تھی. یہاں وہاں نظریں گھما کر دیکھا کہی کار نہیں تھی. اس کی ہمت اب جواب دے رہی تھی وہ اسی روڑ پر بیٹھ گئ. ہاتھوں سے اپنا چہرا چھپائے زارو قطار روئے جارہی تھی. اس سنسان سڑک پر کوئ نہیں تھا جو اسے دیکھ سکے اس کی مدد ہی کردیں.
" اللّٰہ تعالیٰ پلیز" اس نے رونے کے دوران اللّٰہ کو پکارا. زندگی میں پہلی بار وہ اس طرح اللّٰہ سے مخاطب ہوئ تھی. وہ رحمٰن تو ہر بندے کی آواز سنتا ہے پھر ذوالعرش کی کسیی نا سنتا اللّٰہ نے اس کے لئے مددگار کی صورت میں ایک بندہ بھیج دیا.
ذوالعرش کی تھوڑی دوری پر ایک کار آکر روکی. اس نے دروازہ تیزی سے کھولا بلیک پینٹ گرے شرٹ بازوں تک آستین فولڈ کی ہوئ ڈھیلی ڈھالی ٹائ وہ دوڑتا ہوا ذوالعرش کے پاس آیا.
"عرشوں تم ٹھیک ہو؟" اس نے پریشانی میں اس کی جانب دیکھا جو اس وقت راستے پر اکیلی بیٹھی رو رہی تھی. اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ خود کی طرف کیا. ذوالعرش نے آنسوں سے بھرے آنکھیں عارفین کے چہرے پر جمائ تو پھر اس کی بچی ہوئی ہمت اب ختم ہوگئ. وہ فوراً اس سے لپٹ گئی اور بچوں کی طرح رونے لگی وہ فکر سے اس کے سر کو تھپک رہا تھا.
" کیا ہوا تمہیں عرشوں پلیز بتاؤ مجھے، تم اس وقت اس حالت میں کچھ تو کہوں تمھیں کیا ہوا ہے...یہاں دیکھو میری طرف" اس نے خود سے الگ کرکے اس کا چہرا اپنی طرف کیا،
"تم ٹھیک ہو؟ ایک لفظ ہی کہہ دو عرشوں کے مجھے تسلی ہوجائے اس طرح نہیں دیکھ سکتا میں تمھیں پلیز" وہ اس کے چہرے پر بکھرے بال صحیح کرنے لگا، "نہیں تم بالکل ٹھیک نہیں ہو چلو میرے ساتھ گھر" اس نے کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا اور ساتھ کار میں بیٹھایا، ذوالعرش خاموشی سے بس اسے دیکھ رہی تھی. کار میں اسے بیٹھا کر۔ عارفین ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا. پانی کی بوتل ذوالعرش کے ہونٹوں سے لگا کر اسے پلانے لگا. جلدی سے جیب سے رومال نکال کر اس کے ہونٹوں کے نیچے لگ خون صاف کرتے ہوئے عارفین بار بار اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر ڈر پریشانی ہر چیز تھی۔ عارفین نے کار سٹارٹ کردیں پورے رستے میں دونوں کے درمیان خاموشی تھی اسے ذوالعرش کی حالت سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن وہ اس وقت اس سے اب اور کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا. کار گھر کے باہر رکی.
...............................
عارفین اسکا ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے آیا. ذوالعرش کو اپنے وجود کا بوجھ ہی اس قدر لگ رہا تھا اس کا بس چلت وہ اسی قدموں سے واپس چلی جاتی اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ سب کا سامنا کرے. عارفین نے دروازہ کھولا تو ہال میں عبداللہ صاحب فاطمہ بیگم ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے. ان کے قریب ہی سحر کھڑی تھی جو پریشانی سے ذوالعرش کی اس حالت کو دیکھ رہی تھی. جب وہ تھوڑا اندر آئے تو فاطمہ بیگم اٹھ کر اس کے پاس آئ اور زوردار طمانچہ اس کے گالوں پر دھر دیا یہ دوسرے تھپڑ نے اسے بکھیر کر رکھ دیا. وہ لڑکھڑاتے ہوئے گرنے لگی لیکن عارفین نے اسے سمبھال لیا۔
" کیا کرکے آئ ہو؟ ذرا تو خوف کر لیتی اللّٰہ کا، اپنے والدین کا سر شرم سے نیچا کردیا تونے ذوالعرش، اذان نے رشتہ توڑ دیا ہے تجھ سے اب یہ بھی دن دیکھانے باقی تھے" فاطمہ بیگم روتے ہوئے اس سے کہے جارہی تھی عارفین نے بیچ میں ان سے کچھ کہنا چاہا تو انھوں نے روک دیا،
"نہیں عارفین تم کچھ مت کہو" وہ پھر سے ذوالعرش کی جانب پلٹی بولنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ عبداللہ صاحب کی آواز پر روک گئے،
" بس کرو فاطمہ، سحر ذوالعرش کو اس کے کمرے میں لے کر جاؤ"عبداللہ صاحب کی بات پر سحر نے آگے بڑھ کر ذوالعرش کا ہاتھ تھاما، اور کمرے میں لیں گئ چلتے چلتے اس کے ذہن میں بس اپنے باپ کی خاموشی تھی، ان کے دل میں کیا کچھ نہیں ہوگا میں نے دکھ دیا ان کو شرمندہ کیا لیکن انھوں ایک لفظ ب ھی نہیں کہا مجھ سے کیوں آخر کیوں غصے سے ڈانٹ دیتے تھپڑ مار لیتے ان کی خاموشی سے اپنی نظر میں میں اور بھی گر گئ ابا سوچتے ہوئے سحر کے ساتھ اپنے کمرے آئ. سحر نے اسے بیڈ پر بیٹھا کر فرسٹ ایڈ بوکس لائ اور اس کے چہرے پر لگا خون صاف کرنے لگی وہ بس خاموشی سے اٹھنے لگی تو ذوالعرش نے اس کا ہاتھ پکڑا تو واپس اس کے ساتھ بیٹھ گئ. آنسو پھر اس کے رخسار پر بہنے لگے. سحر کیا تمھیں بھی لگتا ہے کہ میں ایسا کچھ کام کرکی آئ ہوں جس سے...." اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سحر نے کہا،
"میں نہیں جانتی ذوالعرش کہ اذان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے، وہ بہت غصے میں گھر آیا اور تایا اور تایا امی کے سامنے رشتے سے انکار کردیا، اور بنا کہے گھر سے چلا گیا میں نے بہت فون کئے لیکن وہ جواب نہیں دیں رہا، وہ میرا بھائ ہے ذوالعرش مجھے اس کی فکر ہے تم سے رشتے کا انکار کرتے ہوئے سب نے اس کا غصہ دیکھا لیکن بولتے وقت اس کی زبان کا لڑکھڑانا میں نے دیکھا تھا، تم میری بہن ہو اور میں یہی کہوں گی کہ مجھے پوری بات بتاؤ" سحر کے کہنے پر ذوالعرش نے سب بات بتائ اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی، سحر اس کے سر کو تھپک نے لگی.
"چپ ہو جاؤ ذوالعرش انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجاے گا" اس نے اسے تسلی دیں، " اب اٹھو اور کپڑیں بدل لو اور یہ کیوں ہوا یہ سوچنے سے بہتر ہے اس کی کیا وجہ ہے یہ ضرور سوچنا ذوالعرش اللّٰہ کی مصلحت کو جاننے کی کوشش کرو" جاتے جاتے سحر آخری بات پر اس کے آنسو تھمے.
جب سوچنا شروع کیا تو ناجانے کتنے گناہ سامنے آئے جسے ہم معمولی اور چھوٹی بات سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں اس کا انجام کتنا بڑا ہوسکتا ہے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کیں تھی میں نے اس نے اپنی سوچوں میں گناہوں کے علاوہ کچھ اور نہیں پایا، " اللّٰہ تعالیٰ مجھے معاف کر دو" ایک آنسو لڑھک کر گال پر آیا اس کی پوری رات اسی طرح گزرنے والی تھی.
.............................
سحر تہجد کی نماز ادا کرکے ذوالعرش کے کمرے میں چلی آئ اسے یقین تھ کہ وہ جاگ رہی ہوگی. اسے اسی طرح کے پاس بیٹھے دیکھ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئ.
"تم ساری رات روتی رہی ہونا؟"
"جو بیٹی والدین کے آنکھوں میں آنسو کی وجہ بنے اس کے دل کو سکون نہیں ملتا سحر" وہ کہہ کر اس کے جانب موڑی، " میں کیا کروں سحر مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے، گھبراہٹ محسوس ہورہی ہے، میرے دل میں ایک بے چینی نے گھر کرلیا ہے میں نہیں بتا سکتی، لیکن جب سوچتی ہوں کہ اس سے بھی کہی گنا تکلیف تو امی ابا کو ہورہی ہوگی، میں ساری رات اس کمرے میں ٹہلتی رہی ہوں پر قرار نہیں آرہا پلیز سحر مجھے بتاؤ میں کیا کروں" ذوالعرش پھر رونے لگی، سحر نے اس کے بے بس چہرے کو دیکھا اسے اذان کی فون کول یاد آئ جو اس نے دیر رات کو کیا تھا.
" تم کہاں ہو اذان گھر آؤ جلدی" سحر نے۔ فکر سے کہا،
" اب گھر آکر کیا کروں سحر جسے دل نے خاص مقام دیا تھا وہ تو اس قابل ہی نہیں تھی، میں اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا، ویسے بھی میں بزنس کے لیے باہر تو جاتا ہی ہوں اب وہی رہا کروگا اور تمھارا اور عارفین کے نکاح کے بعد وہاں شفٹ ہوجاوگا" اذان نے دو ٹوک انداز میں کہا،
"لیکن اذان سنو ذوالعرش نے..."
" نہیں سحر اب اور نہیں تم اس بارے میں مجھ سے بات نا کرو تو بہتر ہے" اس نے بنا سحر کی بات سنے ٹھک سے فون بند کردیا.اب وہ ذوالعرش کے سامنے موجود تھی.
" جانتی ہو سحر میرے دل کی کیفیت اتنی حاوی ہورہی ہے مجھ پر کہ میرے دل میں موت کا خیال آرہا ہے" ذوالعرش کی بات پر سحر سا چہرہ ساکت ہوگیا،
"میں جانتی ہوں موت کی خواہش کرنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن دل بہت گھبراہٹ ہورہی ہے مجھ سے نہیں برداشت ہو رہی، دل کر رہا بس کہی بھاگ جاؤ، کچھ ایسا ہو کہ یہ وقت سے دور ہوجاو موت کا خی بار بار آرہا ہے سحر...."
" ذوالعرش..."عارفین نے چینخنے والے انداز میں کہا، ذوالعرش کے منہ سے موت کی بات سن کر اس کا ذہن بھک سے اڑ گیا، اس کی آواز پر دونوں پلٹے،
سحر نے ایک نظر اسے دیکھ کر اٹھ کر کمرے سے باہر آگئ.
"کیا کہا تم نے ابھی ہاں" وہ دھاڑا تھا ذوالعرش کو اپنی کہی بات پر پچھتاوا ہوا،
" تم کیا سمجھتی ہو تمھاری موت ہمیں سکون دی گی ایک مشکل وقت میں اتنی کمزور پڑ گئ تم، بولنے سے پہلے سوچ تو لیتی ذوالعرش کہ تم سے وابستہ لوگوں کا کیا ہوگا"
" خود سے وابستہ لوگوں کو تکلیف کے علاوہ کیا دیا ہے میں نے، عارفین" اب وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اس ے کہہ رہی تھی،
" امی ابا کے دک سے ناراضگی دور تو ہوجاے گی ںا میں نے انھیں شرندہ کیا میں اپنی ہی نظروں میں گر گئ ہوں." وہ پھر رونے لگی،
" دل میں محبت، نفرت، ناراضگی ہر جذبہ اللّٰہ ڈالتا ہے ذوالعرش.. جب تک اس کی چاہ نا ہو ہم چاہ بھی نہیں سکتے، تم اس سے معافی مانگوں وہ سب دلوں ک مالک ہے کی ناراضگی بھی وہی دور کریگا" اس نے آنسو پوچھتے ہوئے اس سے کہا، دور کہی فجر کی اذان ہونے لگی، عارفین نے سکت بیٹھی ذوالعرش کے سر پر دوپٹہ رکھا،
"فجر کا وقت ایک آغاز ہے نئے وقت کا نئ امید کا حضرتِ انسان کے لئے، چاہے جو مصیبت آئے زندگی میں اندھیرا چھا جائیں یہ وقت ختم ضرور ہوتا ہے، اندھیرا جب منہ موڈ کر چل دیتا ہے تو فجر کا وقت سورج کے ساتھ ایک نئ امید زندگی میں لاتا ہے. یک پیغام ہے بندوں کے لئے لوٹ آئے اپنے پروردگار کے پاس" عارفین نے کہتے ہوئے مسکرایا اور اٹھ کر فجر کی نماز کو چلا گیا لیکن ذوالعرش کے سماعتوں میں اب بھی اسی کی کہی گئ بات گنج رہی تھی. ذوالعرش اٹھ کر الماری کے پاس آئ اپنے کپڑے نکال کر واش میں چلی گئ.وضو کرکے مصلہ بچھایا اور رب کے حضور حاضر ہوئ. بے پنا آنسوں اس کی آنکھوں سے نکلے کتنی نعمتوں سے وہ نوازی گئ تھی لیکن اس نے کبھی قدر نہیں کیں. سجدے میں جاکر رونے لگی.یوں بھی رب کے آگے جھک کر رونگ میں جو سکون ہے اس کا کوئ بدل نہیں...
سر کے ساتھ دل جھکے سجدے کی یہ کیفیت ہو،
بے شک سجدے تیرے آگے ہو روح میں ٹھنڈک ہو،
دل ہمارا روشن ہوجاے...جو تیری ایک نظر کرم ہو..
...........................
آج اس واقعات کو ایک ہفتہ ہوگیا تھا سب کا مزاج اس کے ساتھ پہلے جیسا ہی تھا. سب سے زیادہ شرمندگی اسے جب ہوئ جب دوسرے ہی دن عبداللہ صاحب نے اسے بیٹی کہہ کے پکارا وہ ہمیشہ اس طرح ہی کہتے لیکن اس کے دل کی کیفیت ہی کچھ اور تھی.اذان اب بہت کم گھر میں رہتا تھا اس دن کے بعد سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا.سحر نے اسے بتایا کہ اس کی ایک کلیگ نے اسے پروپوز بھی کیا تھا جسے اس نے تم سے بدگمان ہونے کے بعد ہاں کہہ دیا.ماحول اور گھر دونوں میں خاموشی پھیلی تھی.لیکن اب سب ایک دوسرے سے کم ہی مخاطب ہوتے تھے.
وہ جھٹکے سے اپنے بستر سے اٹھی. اس کا پورا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا وہ خواب کچھ عجیب تھا ہاتھ میں کلہاڑی وی بھی پانی کے بچاؤ سے یہ خواب اسے کچھ دنوں سے آرہا تھا لیکن مطلب اسے آج سمجھا.
بعض دفعہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے ہم کیا کر رہے ہے، کوئ مشکل کے وقت کیسے اپنا بچاؤ کریں گے، دنیاوی چیزوں کو اپنے اندر آنے نہیں دیں گے. لیکن جب دنیاوی خوبصورتی سے ہمارا سامنا ہوت ہے تو ہم اسی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو دھوکے میں رکھتے ہے کہ ہم نے اپنا بچاؤ کیا ہوا ہے اس کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے پانی کے بہاؤ کو کلہاڑی سے روکنا، اپنے آپ کو دھوکے میں رکھ کر اسی پانی کے بہاؤ میں بہہ جانا.....
اس نے اپنے ذہن میں اپنے عملوں کو یاد کیا تو جانا کہ اس نے بھی اپنے آپ کو کھو دیا تھا لیکن اللّٰہ جسے تھامے وہ سمبھل ہی جاتا ہے. اس نے مسکرا کر آسمان کھ جانب دیکھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر آگئ.
...............................
"ناعم القلب کا مطلب کیا ہے عارفین؟" ذوالعرش نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا دونوں گھر کے آگے موجود باغیچے میں بیٹھے تھے.
"نرم دل soft heart" عارفین نے بنا اس کی طرف دیکھے جواب دیا.
"اچھا" ذوالعرش بھی اب سامنے دیکھنے لگی.
" ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا شخص ضرور ہوتا ہے جس کے پاس ناعم القلب ہو وہ اس کے ہر رشتے سے افضل ہوتا ہے" عارفین نے ایک نظر ذوالعرش کو دیکھا بے ساختہ دونوں کی نظریں ملیں بس ایک لمحہ آکر گزرا لیکن ایک سکون تھا جو ان دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور کہی نا کہی دل میں محسوس بھی ہوا عارفین نے فوراََ سامنے دیکھنے لگا لیکن ذوالعرش اب بھی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی. "اور میری زندگی میں وہ شخص تم ہو عارفین". وہ بس سوچ کر رہ گئ اور کہا تو بس اتنا ہی،
" تم اب مجھے عرشو کیوں نہیں کہتے جیسے بچپن میں کہتے تھے" اس کی بات سن کر عارفین نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اسکے گال میں ڈیمپل آیا جو ذوالعرش کو بہت اچھا لگا تھا،
"اب بچپن بھی تو نہیں رہا نا؟"
" ہاں پھر بھی تم کہتے تھے تو مجھے اچھا لگتا تھا" ذوالعرش نے معسوم سا چہرہ بنایا،
"اب سے کہوں گا" عارفین نے پھر سے سامنے دیکھا اب دونوں کے درمیان کوئ بات نہیں ہوئ ایک خاموشی ان کے درمیان آئ لیکن دونوں پھر بھی ساتھ بیٹھے تھے.
منظر کا ایک دلکش نظارہ
ہماری آنکھوں میں ایسے اترا
اس کی وجہ تمھارا ساتھ ہے
ورنا ہم میں کہاں یہ بات ہے
............................
وہ اپنے دل کی کیفیت سمجھنے سب قاصر تھی. جب بھی عارفین کے خیال سے دل میں سکون آتا تو سحر کا چہرہ سامنے آجاتا، وہ کیسے اس لڑکی کو دھوکا دیں سکتی تھی جس نے اس وقت بھی مجھ پر بھروسہ کیا تھا جب میں خود اپنے آپ سے ناراض ہوچکی تھی. اسی کشمکش میں اس نے اپنے آپ کو محدود کردیا تھا.گھر میں زیادہ وقت بتاتی نماز ادا کرتی قرآن کی تلاوت کرتی.
کتاب اللہ دیں کر گئے آپ ہمارے ہاتھ،
تلاوت تو کیں پر دل میں جگہ نہ دیں،
دے ہداہت ہمیں، آقا ہم سے بھول ہوئ......
دل میں ذکر اسی کا ہونا تھا جو عطا کیا ہمیں،
آنکھیں بند کیں تو زمانے کی راہ تھام لیں،
دے ہداہت ہمیں، آقا ہم سے بھول ہوئی....
(از ثانیہ قاضی)
.......................
"
اب اگر تم بنا بتائے کہی گئی نا تو میں کبھی تم سے بات نہیں کرونگا" ذوالعرش جو خاموشی کو تلاش کرتی ہوئ گھر کے پچھلے حصے میں آبیٹھی تھی عارفین کے اس طرح اچانک آجانے پر بری طرح سے چونکی، عارفین اس کے ہاتھ کو پکڑ کر غصے میں اس سے کہہ رہا تھا لیکن ذوالعرش کی نظر اس کے ہاتھ پر تھی جو عارفین نگ مظبوطی سے پکڑ رکھا تھا.
" اب نیچے کیا دیکھ رہی ہو؟ یہاں مجھے دیکھو اور جواب دو" اس نے ذوالعرش کے چہرے کو اوپر کیا.
"تمھیں ہی تو دیکھنے سے خود کو روک رہی ہوں" ذوالعرش نے سوچا،
"کیوں اس طرح یہاں آکر بیٹھی ہو، وہاں اندر ممانی اور سحر تمھیں ڈھونڈ رہے ہے، چلو اب اندر" عارفین کی زبان سے سحر کا نام سن کر ہی ناجانے ذوالعرش کو کیا ہوا اس نے اپنا ہاتھ دیکھا جو اب بھی عارفین نے پکڑا ہوا تھا، اس نے اپنے ہاتھ پر سے عارفین کی پکڑ کو چھوڑا لیا. عارفین کو احساس ہوا کہ وہ بھی زیادہ بے تکلف ہوگیا تو وہ فوراً اٹھ کرجانے لگا تو وہ بھی اس نے پیچھے پیچھے چلنے لگی.
" مجھے اچھا لگتا ہے تمھارے پیچھے یوں چلنا"اس کے دل کی گہرائیوں سے آواز آئ بھی لیکن سحر کا خیال آتے ہی اس نے خیال کو جھٹک دیا.
..........................
سحر ابھی ابھی مدرسے سے لوٹی تھی. تھکان کی وجہ سے وہ ہال میں ہی اپنا عبایا اتار کر صوفے پر آنکھ بند کئے بیٹھ گئ.
دروازے کو کھول کر ایک شخص چلتا ہوا ہال میں آیا. کسی کی آہٹ پر سحر نے آنکھیں کھول دی پلٹ کر دیکھا تو ایک خوبرو نوجوان بڑی آنکھیں چہرے پر ہلکی داڑھی کرتا شلوار پہنے اس کے سامنے کھڑا تھا. سحر نے گھبرا کر اپنا دوپٹہ سر پر لیا. تو اسی دوران اس نوجوان نے بھی وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے نظریں نیچے کرکے چہرہ دوسرے جانب پھیر لیا.
" معاف کرنا مجھے اندازہ ہوتا کہ یہاں کوئ اور بھی موجود ہوگا تو اس طرح اچانک اندر نہیں آتا،معزرت چاہتا ہوں" سحر نے دوپٹے کی اوٹ سے اس شخص کو دیکھا جو اب بھی دوسری جانب دیکھ رہا تھا. سحر کو اس کی یہ بات اچھی لگی، چہرے کے نقوش کچھ یوں ظاہر ہورہے تھے کہ وہ جواب کے انتظار میں روکا ہو،
"کوئی بات نہیں" سحر نے بھی جواب دیں کر اندر کی جانب جانے لگی لیکن تب ہی عارفین بھی دروازے سے آتے ہوئے اسے آواز دیں،
"سحر دو گلاس پانی لیں کر آؤ" سامان صوفے پر رکھتے ہوئے وہ کینے لگا،
" جی" سحر کہہ کر جانے لگی تو فاطمہ بیگم ہال میں چلی آئ پھر سے عارفین نے کہنا شروع کیا،
"ممانی اس سے ملو، یہ ہے اسد، میرے کزن کا دوست ہے، کالج کے وقت میں ہم ساتھ ہوا کرتے تھے پھر ہم بھی دوست بن گئے آج بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی تو میں اسے گھر لے آیا"
"اسلام علیکم" اسد کی آواز پر سحر نے اپنے قدم کی رفتار کو دھیرے کیا. فاطمہ بیگم نے بھی خوب سلامتی بھیجی اس پر اب عارفین صوفے پر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی اسد بھی. سحر اندر چلی آئ،کافی دیر تک ان کی باتوں کی آواز آتی رہی وہ اپنے کمرے میں آگئ.
...........................
عارفین نے جب کہا کہ اسد کا رشتہ سحر کے لئے تو عبداللہ صاحب فاطمہ بیگم اور خدیجہ بیگم اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے. ان تینوں کے لیے یہ بات نا قابلِ اعتراف تھی. " آپ سب اس طرح مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں،اسد بہت اچھا لڑکا ہے اس نے خود سحر کو پسند کیا ہے"
"لیکن بیٹا یم نے تو سحر اور تمھارا رشتہ....." خدیجہ بیگم کی بات کو عارفین نے کاٹ دیں،
"امی وھ مجھ بھی اچھا لڑکا ہے اور بہت دیندار بھی سحر کے لیے ایسے ہی ساتھی کی ضروت ہیں ہمیں وہ بہت اچھا ہے امی آپ بڑوں نے فیصلہ کیا تھا سب نے خاموشی سف مانا لیکن اب میں اس سے بھی بہتر راستہ بتا رہا ہوں نا سحر بہت خوش رہے گی اسد کے ساتھ" عارفین کہہ کر صوفے پر بیٹھ گیا،
" پتا نہیں کس کی نظر لگ گئ ہمارے گھر کو پہلے اذان نے رشتے سے انکار کیا اور اپنے کلیگ کا ساتھ منظور کردیا، اب تم سحر کے لئے رشتہ لائے ہو، مجھے بہت فکر ہوتی ہے آپا آخر اب میری ذوالعرش کا کیا ہوگا" فاطمہ بیگم فکر مندی سے خدیجہ سے کہہ رہی تھی.
" اس کے لئے بھی ہم بہتر لڑکا ڈھونڈ لیں گے فاطمہ تم فکر مت کرو"
" اس کی کوئ ضرورت نہیں ہے امی" عارفین نے دو ٹوک انداز میں کہہ کر اٹھ کھڑ ہوا،
" کیا مطلب؟" سب نے حیران نظروں سے اسے دیکھا
" کیونکہ میں ذوالعرش سے نکاح کرنا چاہتا ہوں.
اس گھر میں خوشیاں ایک ساتھ آئے گی امی، اذان جسے پسند کرتا ہے آپ سب اس میں خوشی خوشی راضی ہو جائے اور سحر کے لئے اسد کو ہاں کہہ دیں اسی دن میں ذوالعرش سے نکاح کروں گا" عارفین کہہ کر چلا گیا اور تینوں حیرت میں پڑگئے.
........................
جب ذوالعرش کو یہ بات پتا چلی تو وہ سب سے پہلے سحر کے پاس آئ، اسے فکر اس بات کی تھی کہ وہ اسے غلط نا سمجھے..
" سحر مجھے اس بارے میں بالکل پتا نہیں تھا یہ سب کیسے اچانک..."ذوالعرش نے اور بھی کچھ کہنا چاہا تو سحر نے روک دیا،
" نہیں مجھے پتا تھا، جانتی ہو جب گھر کے بڑوں نے ہمارا رشتہ طے کیا تھا تو میں نے جب عارفین کی طرف دیکھا وہ تمھاری طرف دیکھ رہا تھا، کیا نہیں تھا اس کے چہرے پرکسی عزیز کے دور ہونے کا غم، پریشانی، بے چینی اور وہ جس طرح تم پر نظریں رکھے ہوا تھا میں جان گئ تھی کہ اس کے دل میں کس کا خیال ہے. مجھے اللّٰہ پر یقین تھا کہ وہ سب بہتر کریگا تم بالکل فکر مت کرو میں خوش ہوں.
سحر کی بات پر ذوالعرش لاجواب ہوگئ. وہ کیا کیا سوچ کر اس کے پاس آئ تھی کہ کتنی وضاحتیں دی گی اسے وہ ناراض ہوگی مجھ سے لیکن اس اللّٰہ کی بندی نے رب کی رضا میں خود کو پہلے ہی راضی کرلیا تھا. اسے دکھ بس اس بات کا زیادہ تھا کہ اس کے ساتھ کے باوجود بھی وہ غلط راہوں پر نکل گئ.
نہ پردہ کیا نہ کیں غیروں سے حیا و زینت،
کاش چادر تھام لیتے آپ کی شہزادی کیں،
دیے ہداہت ہمیں، آقا ہم سے بھول ہوئی
.(از ثانیہ قاضی)
............................
باہر بہت تیز بارش ہورہی تھی کھڑکی کے پٹ کھولے ہوئے تھے جو اس زوردار چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے آواز کر رہے تھے کمرے میں ہلکی روشنی میں ذوالعرش اپنے بیڈ پر بیٹھی تھیں بال بکھرے ہوئے دوپٹہ کندھے پر رکھا ہوا آنکھوں میں آنسو تھے جو اس کے دل کی حالت کو بیان کررہے تھے نظریں کھڑی کے باہر آسمان کو تک رہی تھی اپنے ہی خیالوں میں گم. دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئ لیکن وہ اب بھی اسی طرح بیٹھی تھی عارفین دروازے میں کھڑا اس کی پشت کو دیکھ رہ تھا اس کے لئے طے کرنا مشکل تھا کہ وہ اندر اس کے پاس جائے یا لوٹ جائے. آخر اس نے قدم بڑھائے وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا ذوالعرش جان چکی تھی ہاں وہ اس کی چاپ کو پہچانتی تھیں. عارفین اس کے پاس گھٹنوں کے بل آکر بیٹھ گیا وہ بس ذوالعرش کو دیکھے جارہا تھا جس کے چہرے پر کتنے ہی تاثرات تھے عارفین کو اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر تکلیف ہوئ وہ چاہ کر بھی ہاتھ آگے نہیں بڑھا پایا. ایک جانی پہچانی سی خاموشی ان کے درمیان میں آئ. آواز صرف باہر چلنے والی بارش کی نہیں تھی ان کے درمیان خاموشی میں بھی ایک شور تھا کہی باتیں تھی جو اب ان کے درمیان باقی تھی.
"آپ مجھ سے نکاح کے لئے انکار کردیں" ذوالعرش کی انکھ سے ایک آنسو اس کے گالوں پر بہا،
ذوالعرش کی ایک بات نے عارفین کو ہلا کر رکھ دیا وہ بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا لیکن زبان سے کچھ کہا نہیں کیونکہ وہ جانتا تھا اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی.اب کی بار ذوالعرش نے عارفین کی طرف دیکھا،
" عارفین آپ کو مجھ سے بھی بہتر ساتھی ملنا چاہیے" اب وہ رونے لگی تھی. عارفین سے رہا نہیں گیا اس نے ذوالعرش کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور ایک ہاتھ سے آنسوؤں کو صاف کئے.
"تم سے بہتر بھی کوئ ہوسکتا ہے میرے لئے؟" اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا،
"میں بہت بری ہوں بہت بری آپ کے قابل نہیں"وہ اب اپنا دل اس کے سامنے کھول رہی تھی.
"میں نے تم سے محبت کیں ہے ذوالعرش تو اب تمھارا اچھا بھی میرا اور تمھارا برا بھی میرا" اس کے چہرے پر اب بھی سکون قائم تھا. مگر ذوالعرش کی دل کی کیفیت وہ ہی جانتی تھی عارفین کی زبان سے محبت کا اقرار اس کے لئے خوشیوں سے بھرا پیغام تھا. اس کی نظریں نیچے جھک گئ لیکن عارفین اب بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے پہلی بار اسے دیکھ رہا ہو،
" میں نہیں جانتا تمھاری اس بات کے پیچھے کیا وجہ ہے لیکن اللّٰہ نے اگر ہمارا ساتھ لکھا ہے تو ہم دونوں کے دل کو رضامند بھی وہی کریگا. میں اپنی محبت کی کوئی وضاحت نہیں دونگا ذوالعرش میرے جذبات اللّٰہ تمھارے دل تک ضرور پہنچائیں گا" اس نے مسکراتے ہوئے اس کے گال کو چھوا اور اٹھ کر کمرے سے باہر آگیا ذوالعرش اس کی پشت کو دیکھتی رہی نظریں پھر کھڑکی کے باہر تھی.
"اللّٰہ تعالیٰ پلیز میری مدد کریں میرا ماضی گناہوں میں آراستہ ہے میں نے اپنا دامن دنیاوی خوبصورتی سے بھرنا چاہا لیکن اب وہی شئے نے میرے دامن کو آلودہ کردیا ہے. اللّٰہ تو ہر بات سے واقف ہے اس شخص کا ساتھ میری زندگی میں جو ہر لحاظ میں مجھ سے بہتر ہے میری مدد کر مولا"
باہر اب سب خاموش تھا ذوالعرش نے آنکھیں موند لیں عارفین کی باتیں اب بھی اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھی.
گناہوں میں مبتلا اس قدر رہے کہ اپنا آپ بھی بھلا دیا تو نے سنبھالا اس طرح کے نیک شخص کا ساتھ مقدر میں لکھ دیا
......................
ذوالعرش ٹیرس پر بیٹھی تھی کہ عارفین اس کے پاس آیا. ذوالعرش اب بھی سامنے ہی دیکھ رہی تھی لیکن عارفین کی نظریں ذوالعرش پر ٹکی ہوئ تھی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا،
" اس طرح مت دیکھو عارفین کہ میرے لئے یہاں بیٹھنا مشکل ہو جائے"ذوالعرش کی بات سن کر عارفین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئ.
"مشکل میں مجھے ڈالا ہوا ہے تم نے اور خود معصوم بن کر مجھ سے مخاطب ہورہی ہو" اس کی بات پر ذوالعرش نے اس کی جانب دیکھا، عارفین کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ ذوالعرش کا چہرا دیکھتے ہی مدھم پڑ گئ.
" میں اچھی نہیں ہوں"
" بہتر تو میں بھی نہیں" اس کی بات پر عارفین کے چہرے پر پھر مسکراہٹ آگئ.
"جسے اپنے ماضی کے گناہ یاد ہو وہ خوش قسمت ہے ذوالعرش کیوں کہ ان کے پاس پچھتاوا ہے خوف ہوتا ہے دل میں جو انھیں گناہوں سے دور رکھتا ہے، فکر تو زیادہ اسے ہونی چاہیے جس کا ماضی صاف ستھرا ہو کہ کہی وہ تکبر میں مبتلا ہو کر سب گنوا نا دیں" عارفین کی بات پر ذوالعرش لاجواب ہوگئ. اس نے اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں. اسے اطمینان کی ایک مسکراہٹ اپنے چہرے پر محسوس ہوئ عارفین یہ دیکھ کر کھل اٹھا،
" اس مسکراہٹ کو میں تھماری ہاں سمجھوں؟"
ذوالعرش نے شرما کر پلکوں کو نیچے کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا. عارفین کی خوشی کی انتہا نا رہی........
وہ نیچے آئ تو سامنے سے اذان آیا اسے دیکھ ذوالعرش دوسری جانب جنے لگی تو اذان کی آواز پر رکی،
" میں معافی مانگنا چاہتا ہوں تم سے ذوالعرش، سحر نے مجھے بتایا سب جس وقت مجھے تمھارا ساتھ دینا چاہیے تھا اس وقت میں نے اپنے غصے کو ترجیح دیں. تمھاری آمد پر میں نے اللّٰہ کا شکر تو کی تھا لیکن قدر نہیں کیں کہی نا کہی تکبر بھی آیا اس لئے اللّٰہ نے تمہیں مجھ سے دور کردیا، i am really sorry zularsh"
" نہیں اذان میں تم سے ناراض نہیں ہوں.بلکہ مجھے شکریہ کہنا ہے تمھیں اللّٰہ نے تمھارے ذریعے ہی مجھے نئ راہ دیکھائ اب کسی سے کوئ شکایت نہیں...یہ تو اللہ کی مصلحت تھی. مجھے لگتا ہے میں جان گئ لیکن ہر بار اس مالک کی مدد اور رحمت پر دل میں نیا سکون آجاتا ہے.. تم بھی اپنا اور زوہا کا خیال رکھو."وہ کہہ کر پلٹ گئ اذان نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا..
..........................
گھر میں خوشیوں کا ماحول تھا. فضا بھی ان تین جوڑوں کو خیر مبارک کہہ رہی تھیں.
اذان اور زوہا ساتھ ساتھ کھڑے سب سے خوشی خوشی مبارکباد وصول کر رہے تھے.
کچھ دوری پر اسد اپنے سبھی کزنز کا سحر سے انٹرویوز کرا رہا تھا. سحر مسکراتے ہوئے سب سے مل رہی تھی.
ان سب میں اپنی بگ پناہ محت دل میں چھپائے عارفین اور ذوالعرش ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے. فاطمہ بیگم اور عبداللہ صاحب پیار سے دونوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ بیٹے کے چہرے پر اتنی خوشی دیکھ خدیجہ بیگم کی انکھیں نم ہوگئے بے اختیار انھیں رضا یاد آئے.
عارفین کی نظریں ذوالعرش کے چہرے پر ہی ٹکی ہوئ تھی جو دولھن کے روپ میں شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی، عارفین کے لئے اسکے چہرے سے نظر ہٹانا مشکل ہورہا تھا.
"زندگی بھر کا ساتھ مبارک ہو عرشوں"عارفین نے مسکرا کر اس کی طرف جھوکتے ہوئے کہا،
"تمہیں بھی خیر مبارک ہو"ذوالعرش نے بھی اپنی پلکیں نیچے کر لیں تو عارفین ہسنے لگا. فضا اب عارفین اور ذوالعرش کو مہکتی ہوئ زندگی کی آمد سے استقبال کر رہی تھی....!!!!!
ختم شدہ
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top