ایک اور جھلک
چاروں طرف اندھیری رات نے پر پھیلا رکھے تھے چاند اور ستاروں سے سجا یہ آسمان اپنے حسن میں آج بھی مکمل تھا آج بھی یہ دعائی آنکھیں تھکی مانند واپس آ جاتیں تھیں اور ہمیشہ انہیں یونہی تھکا مانند واپس آنا تھا یا شاید ان آنکھوں میں سجے کچھ خواب پورے ہو ہی جائیں پر کون جانے وہ دن کب آنا تھا۔۔۔آنا تھا بھی یا نہیں۔۔۔کسی کو نہیں پتا تھا۔۔۔
اسے یہاں کھڑے وقت کا علم ہی نہیں ہوا تھا اور اسے ہمیشہ ہی وقت کا علم نہیں ہوا کرتا تھا وہ نیلے آسمان کی اس چادر کے نیچے اس سے گفتگو میں جانے کب تک مزید کھڑا رہ سکتا تھا۔۔۔۔جانے کب تک وہ یوں ہی ان آنکھوں میں امید کے جگنو جلائے رکھ سکتا تھا۔
ٹیرس کے چبوترے پر کتاب کے صفحات ہوا سے اڑتے فضا میں خوبصورت سی دھن پیدا کر رہے تھے۔ اس نے اڑتے صفحات پر اپنا ہاتھ رکھا تو ایک صاف صفحہ اس کا منتظر تھا اس نے اپنی سفید رنگ کی شرٹ کی فرنٹ پوکٹ سے پین نکالتے کاغذ کے اوپر چلایا تھا۔
تحریر مکمل ہو چکی۔۔۔اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر واپس آسمان پر ڈالی۔۔۔کمرے کے اندر سے آتی فون کی آواز نے اسے جیسے اپنی طرف بلایا تھا اس نے یونہی کتاب کو ٹیرس پر رکھی چھوٹی سی ٹیبل پر رکھا اور اندر چل دیا۔
کبھی اس نگر تجھے دیکھنا، کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈھنا
کبھی رات بھر تجھے سوچنا،کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈھنا
مجھے جا بجا تیری جستجو،تجھے ڈھونڈھتا ہوں میں کو بہ کو
کہاں کھل سکا تیرے روبرو مرا اس قدر تجھے ڈھونڈھنا
میرا خواب تھا کہ خیال تھا وہ عروج تھا کہ زوال تھا
کبھی عرش پر تجھے ڈھونڈھنا،کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈھنا
یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے،تیرا شہر قریہء غیر ہے
یہاں سہل بھی تو نہیں کوئی مرا بے خبر تجھے ڈھونڈھنا
تیری یاد آئی تو رو دیا،جو تو مل گیا تجھے کھو دیا
میرے سلسلے بھی عجیب ہیں تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈھنا
یہ میری غزل کا کمال ہے کہ تیری نظر کا جمال ہے
تجھے شعر شعر میں سوچنا،سرِبام و در تجھے ڈھونڈھنا
(تابش کمال)
ایک بار پھر ہوا سے کتاب کے پّنے اڑتے چلے گئے تھے اس تحریر کو کئی پیچھے چھوڑے ہوا ان الفاظ کو قید کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی کہ الفاظ تو وہ قید ہوتے ہیں جو ادا ہوئے ہوں اور وہ باتیں وہ الفاظ جو ادا نہ کئے جائیں یا تو انہیں دل میں رکھا جاتا ہے یا پھر کتاب کے حسین پّنوں پر۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top