قسط 2

ناول :- مل کے بھی ہم نہ ملے
ازقلم :- طوبی کرن

قسط نمبر 02:-

اگلی صبح اسے آمنہ کی آواز نے جگایا۔
*" اٹھ جاؤ ایشل نماز کو دیر ہو رہی ہے۔"*
آمنہ نے اس سے کہا۔
*"امم! اٹھتی ہوں دو منٹ۔"*
ایشل نے سستی سے کہہ کر کروٹ بدلی۔
*" کسی کو اتنا انتظار نہیں کرواتے ایشل اور وہ تو اللہ ہے۔"*
آمنہ نے کہا تو ایشل اٹھ کے بیٹھ گئی۔
*" کیا مطلب?"*

*" مطلب یہ میرجی بہن کہ جب کوئی آپ سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے اور آپ کو بہت کچھ دیتا ہے تو جب وہ آپ کو بلاتا ہے تو آپ اس کی بات سنتے ہیں نا?"*
آمنہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ کالج میں اسلامیات کی لیکچرار تھی اور سمجھانے میں ماہر تھی۔
*"جی۔"*
ایشل نے کہا ۔بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
*" اور اگر وہ آپ کو بلاتا رہے اور آپ اس کی بات نہ سنیں تو کیا وہ مائنڈ نہیں کرے گا?"*
*" آف کورس کرےگا بجو۔"*
ایشل نے کہا۔
*" تو اللہ ہمیں دن میں پانچ بار بلاتا ہے۔ اور ہمارے آنے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اپنے کاموں میں مگن ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو ایک بار آواز دیں اور وہ نہ سنے تو اگلی بار ہماری زبان نہیں ہاتھ چلتا ہے۔ اور وہ اللہ تو لگاتار پانچ بار بلاتا رہتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے? کوئی ہے جو میرا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے? اور ہم ..ہم بستر میں پڑے رہتے ہیں۔"*
آمنہ نے آہستہ آہستہ اسے سمجھایا۔ اور ایشل کا جسم کانپ سا گیا۔

*" اف اللہ کو تو میں بالکل پسند نہیں ہوں گی ناں بجو? وہ بلاتا رہتا ہے اور میں سوئی رہتی ہوں۔"*
*" تو ابھی کونسا دیر ہوئی ہے جاؤ اللہ کو راضی کرو۔"*

آمنہ نے اسے کہا تو وہ جلدی سے اٹھی اور باتھ روم میں بھاگ گئی۔ آمنہ مسکرا دی اور قرآن پاک لے کر امی کے کمرے میں چلی گئی جہاں وہ روز فجر کے بعد امی کو تلاوت سنایا کرتی تھی۔

---------☆☆☆☆☆

فجر کے بعد آمنہ نے ناشتہ بنایا ۔مگر ایشل کی بس آگئ اور اس کا ناشتہ ادھورا رہ گیا۔ وہ بیگ اٹھا کر بھاگی۔
*" کینٹین سے کچھ کھا لینا۔"*
امی نے آواز دی۔
*" اوکے امی!"*

*" مگر گند نہ کھانا۔"*
آمنہ بھی نصیحت کرنا نہ بھولی۔
*" اوکے بجو!"*
اس نے کہا اور باہر نکل گئی۔
------☆☆☆☆

یونیورسٹی کے بعد وہ بس سٹاپ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی جب اس کی نظر کچھ دور فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر پر پڑی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے کچھ بول رہا تھا اور ساتھ ہی اپنا سر ہلا رہا تھا۔ اس کے کپڑے بہت میلے تھے۔ ایشل کو اس سے کراہت ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد اس کے سامنے ایک کار آکر رکی۔ اس نے کار کو دیکھا۔

*" ہائے !!جناب آجائیں ڈراپ کر دوں"*
کار میں بیٹھے شخص نے کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا۔
*" نہیں آپ جائیں۔ میری بس آنے والی ہے۔"*
اس نے کہا۔
*" یار آجاؤ نا پلیز ۔"*
گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص نے کہا تو وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
*" بھائی آپ ایسے مت کیا کریں تائی کو پتہ چل گیا تو??"*
وہ ناراضگی سے بولی۔
*" ہاہا! امی کو کون بتائے گا ?اچھا سنو.."*
*"جی?"*
اس نے حماد کو دیکھا۔
*" آئی ایم سوری۔"*
*" آپ سوری کہہ کر تائی کی زبان کا اثر ذائل نہیں کر سکتے حماد بھائی۔! مجھے ان سے شدید نفرت ھے۔"*
*" میں جانتا ہوں ایشل! میں ان کو سمجھاتا ہوں مگر وہ سمجھتی ہی نہیں ہیں۔"*
حماد نے کار کا رخ گھر کی جانب کیا۔
*" آپ کی کیا حیثیت ہے اس گھر میں میں جانتی ہوں بھائی... اچھا چھوڑیں ان باتوں کو"*
ایشل نے حماد کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی تو بولی۔
*" یار ایشل مجھے بہت برا لگتا ہے جب تم اداس ہوتی ہو۔ اسی لئے آج تمہیں لینے آیا ہوں۔"*

*" پہلی بات یہ کہ میں اداس نہیں ہوں۔ اور آپ تو جانتے ہیں شادی میرے پلانز میں تھی ہی نہیں۔ یہ تو بس امی کی خاطر مان گئی۔ اور دوسری بات یہ کہ خبردار جو آج کے بعد میری یونیورسٹی کا رخ کیا۔ میں نے تائی جان کے ہاتھوں قتل نہیں ہونا۔"*
اس نے کہا تو حماد ہنس دیا۔
*" ہنستے رہا کریں اچھے لگتے ہیں۔"*
ایشل نے اس کے ڈمپل کو دیکھتے ہوئے کہا تو حماد کی ہنسی کو بریک لگی۔
*" زنیرہ بہت یاد آتی ہے نا آپ کو بھائی?"*
ایشل اور حماد کی بچپن سے ہی بہت دوستی تھی۔ اور دونوں ایک دوسرے کو ہر بات بتاتے تھے۔ ایشل نامحرم سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی مگر حماد کو وہ سگا بھائی سمجھتی تھی۔ اور یہاں آکر اس کو آمنہ بہت سمجھ آتی کہ سگے بھائی کے علاوہ کوئی بھائی نہیں ہوتا۔ اور حماد سے ملنا بھی ترک کرنا چاہیئے کیونکہ وہ بھی تو نامحرم ہے مگر ایشل اس سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ اور یہ بات بھی اسے حماد نے بتا دی تھی کہ وہ زنیرہ سے محبت کرتا ہے۔
*" ہر وقت آتی ہے۔"*
*" حالانکہ وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی۔"*
ایشل نے حیرت سے اسے دیکھا۔
*" میرا دل کہتا ہے کہ وہ مشکل میں ہے۔ وہ بھاگ نہیں سکتی تھی۔"
*" اس کو غائب ہوئے تین مہینے ہو چکے ہیں بھائی۔"*

*" پولیس اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔"*
*" کیا فائدہ ہوگا?"*
*" تم بس دعا کرو ایشل!"*
حماد نے کہا۔
*" کاش وہ مل جائے آپ کو۔ کیوں کہ میں آپ کو اداس نہیں دیکھ سکتی۔"*
*" آمین ۔مگر ایشل وہ تمہاری بڑی بہن ہے۔ اس کا نام تمیز سے لیا کرو۔"*
*" آئی ایم سوری بھائی میں اس انسان کا نام تمیز سے نہیں لے سکتی جس کی وجہ سے ہم سب کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔"*
*" اس کی کوئی مجبوری ہوگی۔"*
حماد نے جواز پیش کیا۔
*" ہاں ہو گئی مگر وہ بتا بھی تو سکتی تھی۔ گھر چھوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے? اور آپ جو اس کی محبت میں اندھے ہوئے جارہے ہیں کیا اس نے آپ کی قدر کی? بھائی بھول جائیں اسے۔ اور آگے بڑھیں۔ موو آن کرنے کی کوشش کریں زندگی ایسے نہیں گزرتی۔"*

*"میری بہن ابھی آپ کو عشق کا مرض لاحق نہیں ہوا۔ اس لیے ایسی باتیں کر رہی ہیں۔"*
حماد نے کہا تو وہ ہنسی۔
*" مجھے تو یہ مرض لاحق نہیں ہوسکتا کبھی بھی۔"*
*"چلو دیکھتے ہیں۔"*
حماد نے مسکرا کر کہا اور گھر کے سامنے گاڑی روکی۔
*" اندر آ جائیں اور چائے پی لیں۔ امی کو پتا ہونا چاہئے کہ میں آپ کے ساتھ آئی ہوں۔"*
*" اچھا چلو! مگر خدا کے لئے اپنے ہاتھ کی کڑوی چائے مت پلانا۔"*
حماد نے اس کے ساتھ گھر میں قدم رکھا۔
*"واہٹ?"*
*" ہاں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائےتمہیں "*
حماد نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دی۔
آمنہ نے انہیں اندر آتے دیکھا تو ان کی طرف آگئی۔

-----------☆☆☆☆

آج آمنہ کو کالج سے چھٹی تھی کیونکہ اس کی کلاس نہیں تھی۔ ایشل نے بھی چھٹی کر لی۔امی نائلہ کے گھر گئی تھیں۔ اس وقت ایشیا ٹی وی دیکھ رہی تھی اور آمنہ کچن میں برف کا گولا بنا رہی تھی۔
*" یہ لیں جناب۔"*
*" تھینک یو سو مچ بجو! آئی لو یو سو مچ!"*
ایشل نے اپنے پسندیدہ گولے کو پکڑتے ہوئے کہا۔ اتنی گرمی میں گولا کھانے سے اندر ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔
*" ابھی دیکھنا بجو! یہ اسے شوٹ کرنے والا ہے-"*
ایشل نے دلچسپی سے ٹی وی سکرین پر لگے ڈرامے کو دیکھ کر کہا۔
*" ہائے کیوں اتنی خوبصورت لڑکی کو مارے گا?"*
آمنہ نے پوچھا۔
*" کیونکہ یہ لڑکی اس کی ماں کی قاتل ہے۔"*
*" استغفار یہ کیسے ڈرامے دیکھتی رہتی ہو۔"*

*" ہاہاہا بہت ہی کمزور دل ہیں آپ۔ ہائے مر گئی۔"*
ایشل نے سکرین پر دیکھتے ہوئے کہا تو اس کا گولا اس کے کپڑوں پر گر گیا۔
*"شٹ!"*
وہ پوری قوت سے چلائی تھی آمنہ ہنس رہی تھی۔
*" مضبوط بنایا کریں نا گولا "*
*" تو کیا تمہارے لئے گوند لگا کر گولا بناؤ?"*
ہنس ہنس کر آمنہ کا پیٹ درد کرنے لگا تھا۔ اور ایسے بھی ہنسنے لگی۔ ان کے نزدیک رشتوں کی بہت اہمیت تھی۔ کچھ وقت پہلے ان کی ہنسی میں زنیرہ کی ہنسی بھی شامل ہوتی تھی۔ مگر اب وہ کہاں تھی کسی کو نہیں پتا تھا۔
-------☆☆☆☆

اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے پلکوں پر کسی نے منوں وزن پھینک دیا ہو۔ اس نے گردن ہلانے کی کوشش کی تو ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے ہمت کرکے پوری آنکھیں کھولیں اور کھڑی ہوگئی۔ اس دوران اس کو کتنی تکلیف ہوئی تھی صرف وہی جانتی تھی۔
اس نے ایک نظر کمرے پر ڈالی جسے وہ پچھلے تین مہینوں سے دیکھ رہی تھی۔ اور اب تو اس کو کمرے کی ایک ایک چیز حفظ ہوگئی تھی۔ ایک طرف الماری تھی جس میں اس کے لئے بہت سے کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ الماری کے سامنے ایک ایل ای ڈی تھا مگر اس نے کبھی اس کو چلانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بیڈ کے سامنے صوفہ تھا اور فرش پر قالین بچھا ہوا تھا۔ بیڈ کی دوسری طرف میز تھا جس پر ایک ڈائری اور پین پڑا تھا۔ اسے یہاں رکھنے والا یقینا بہت نرم دل تھا جو اس کا اتنا دھیان رکھا جا رہا تھا۔ مگر وہ ان تین مہینوں میں زیادہ تر بیہوش ہی رہی تھی۔ ابھی بھی وہ نیم بیہوشی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔
ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا تو وہ آنسو پی کر رہ گئی۔
اس نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
*" کھولو! کھولو دروازہ! خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو-"*
اور یہ عین اسی وقت کی بات ہے جب ایشل اور آمنہ ہنس رہی تھیں۔ اور وہ... ان کی بہن.. اس قیدخانے میں رشتوں کو ترس رہی تھی۔
*" کھولو !پلیز مجھے باہر نکالو!"*
وہ روتے روتے دروازے کے پاس ڈھے سی گئی۔
اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی اور آسمان کو دیکھے اسے تین مہینے ہو گئے تھے۔
*" دروازہ کھولو!! مجھے باہر آنا ہے !!کوئی ہے??"*
اس کی آواز دھیمی ہو رہی تھی۔ پورا وجود بخار میں تپ رہا تھا۔
اتنے میں دروازہ کھل گیا اور وہ آدمی اس کے سامنے کھڑا تھا جسے وہ بہت اچھے سے جانتی تھی۔
*" کیا ہوگیا اس زنیرہ! خود کو تکلیف مت دو۔ تم میرا یقین کرو مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں۔ بس تم ہار مان لو تو میری جان! میں تمہیں چھوڑ دوں گا-"*
اس شخص نے آگے بڑھ کر اسے تھامنا چاہا مگر وہ پیچھے ہوگی۔
*" مجھے ایک بار یہاں سے نکل لینے دو پھر دیکھنا۔۔ میں تمہارا کیا حشر کروں گی ۔چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔"*
اس نے دھارتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دیا۔
*" مجھے تم سے شدید نفرت ھے۔"*
زنیرہ پھر سے چلائی تو آنے والا شخص سنجیدہ ہوگیا۔
*" مجھے بھی تم سے محبت نہیں ہے زنیرہ !تم میرے راستے کا کانٹا ہو۔ اور کانٹے کو ختم کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔"*

*" تم مجھے ختم کردوں کہ تو کل کو کوئی اور زنیرہ پیدا ہوگی تم دیکھنا حیدر! اللہ سب دیکھ رہا ہے۔"*
زنیرہ نے کہا تو حیدر نے غصے سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ حیرانگی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔ مگر وہ رکا ہی کب تھا۔ وہ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ جبکہ زنیرہ وہاں بیٹھی سسکتی رہی۔

---------☆☆☆☆☆
جاری ہے

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top