part 3
"وہ دیکھو شہزادہ آگیا۔۔۔" ابھی میں کیفیٹیریا میں داخل ہوا تھا کہ ایک دم ایان کی آواز آئی نا چاہتے ہوئے بھی میرے منہ پر مسکراہٹ آ گئی ۔
ایان نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگایا اور ساتھ ہی کمر پر مکا مارا "کبھی تو جلدی جلدی بھی آ جایا کر۔" اور یہ منہ پر بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں ۔"
ایان نے گھورتے ہوئے کہا
"یار بس کچھ نہیں صبح صبح اس مخلوق سے پالا پڑ جاتا ہے "میں بامشکل کہہ پایا ۔
"کونسی مخلوق سے یار تو ایسے میں دکھی ہونے کی کیا بات ہے اگر کوئی لڑکی اس طرح ہمیں تنگ کرتی تو خوشی سے مر ہی نہ جائیں۔۔۔۔ "
اب کی بار جواب ذیشان کی طرف سے آیا۔
جس پر مجھے ہنسی آئی پر ضبط کر گیا۔ پھر سب باتیں کرنے لگے اور میں غائب دماغی سے سب سن رہا تھا اور ابھی کا ہوا ٹکراؤ یاد کر رہا تھا۔ کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لڑکی میرے قریب ہے؟؟ نہیں مطلب میں اس کو جانتا ہوں ؟؟ایسا پہلی دفعہ ہو رہا تھا کیوں ۔۔؟؟
میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دم میری نظر سامنے والی ٹیبل پر گئی۔ اور پھر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا نظر ہی نہیں واپس آرہی تھی۔
' شاہ یار میں تجھ سے بات کررہا ہوں " ایان نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا۔
پر میں تو کہیں اور چلا گیا تھا کسی اور ہی دنیا میں ۔۔"شاہ یار کہاں ہو ادھر کیا دیکھ رہے ہو" ایک دم میں نے ہڑبڑا کر کر نظر پھیر لی ۔ یوں لگ رہا تھا گویا کسی نے چوری پکڑ لی تھی۔۔۔ اس لیے کبھی پہلے ایسا نہ ہوا تھا کہ میں نے کسی کو یوں سوچا نہ تھا۔ وہ کسی لڑکی کو دیکھنا یہ تو دور کی بات تھی میں یہ توہین سمجھتا تھا۔۔۔ ہاں مرد میں مردانگی ہونی چاہیے اور آپ میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا ۔۔۔
"شاہ کیا ہوا یار تم اس لڑکی کو کیوں دیکھ رہے تھے --" کیا کوئی ذیشان کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی میں غصے سے ٹیبل کو ٹھوکر مارتے ہوئے اٹھا ۔۔اور میں نے کافی کا کپ وہاں سے ہی ڈسٹ بن میں اچھال دیا۔ مجھے لگ رہا تھا اگر میں وہاں روکا تو شاید کچھ کر بیٹھوں گا ۔
میں غصے کو ضبط کرتا ہوا گاڑی میں بیٹھا دو جگہ ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔ اور اب جب میں گھر میں داخل ہوا تو میرا غصہ آسمان کو پہنچ گیا تھا۔ یہ دیکھ کر کے رمشا آئی ہوئی تھی ۔اس چڑیل کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ میں غصے سے لمبے ڈاگ بھرتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اور شاید وہ مجھے آواز دے رہی تھی ۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہیں میں نے غصہ ڈیکوریشن پیس پر نکالا سارا کمرہ کانچ سے بھر گیا تھا شاید اس سے مجھے تسکین ملتی۔۔ میں نے جوتے اتارے اور لیٹ گیا پتا نہیں کتنی دیر گزری تو مجھے احساس ہوا کہ یہ میری آنکھیں تو نم تھی یہ آنسو۔۔۔ کیا میں رو رہا تھا۔۔ نہیں میں رو نہیں سکتا تھا ۔۔میں تو مرد تھا پھر کیا ہوا کیوں ؟؟؟
میں باتھ روم میں چلا گیا منہ میں نے ٹھنڈے پانی سے دھویا ۔شاید اس طرح غصہ بھی اتر جاتا۔۔ پھر روم فریج کے پاس آیا اور کوک کا کین نکالا ساتھ چوکلیٹ بھی نکال لیں ۔میں بستر پر آگیا بہت حد تک میں غصہ ٹھنڈا کر چکا تھا۔ فون پر بیل بجنے لگیں ۔
ایان کا فون ہے پتا نہیں ان لوگوں نے کیا سمجھا ہو گا میں کچھ زیادہ ہی اوور ری ایکٹ کر گیا پر شاید اس لئے کہ یہ میرے بس میں نہیں تھا ۔۔
"ہیلو کہاں ہو تم شاہ کیا ہوا تم کیوں اتنے غصے میں آگئے تھے ایان کی آواز میں فیت ٹپک رہی تھی۔"
" پتہ نہیں آیان میں بہت ڈسٹرب ہوں یار اب میں کیا بتاؤں تو مجھے پاگل سمجھے گا ۔ چھوڑو یار" میں بمشکل اپنی آواز پر قابو پا سکا تھا ۔
"شاہ تمہیں آرام کی ضرورت ہے یار میں تم سے کچھ نہیں پوچھتا اور میں سمجھ سکتا ہوں جب تم ٹھیک ہو جاؤ تو پھر بتا دینا"
"اور ہاں ایان میں ایک ہفتے کے لیے نہیں آؤں ۔ میں ترکی جارہا ہوں" یہ ارادہ میں نے ابھی ابھی کیا تھا شاید میں پرسکون ماحول چاہتا تھا ۔ میں گھر سے دور جانا چاہتا تھا یا پھر حقیقت سے فرار چاہتا تھا۔ "ٹھیک ہے یار تم آرام کرو "میں نے فون بند کرکے ارجنٹ فلائٹ بک کرا ئی۔ مجھے صبح کی فلائٹ مل گیُ ویزا تو پہلے ہی تھا اب سب سے مشکل تھا ڈیڈ سے اجازت لینا ۔۔۔پھر باتھ لینے چلا گیا۔ کپڑے بدل کر میں ڈیڈ کے کمرے میں گیا ۔
"آگیا میرا شہزادہ کہاں تھے ماں باپ کو بھی ٹائم دے دیا کرو ۔۔"
ڈیڈ نے اٹھتے ہوئے کہا' وہ ڈیڈ میں کل ترکی جانے لگا ہوں ۔صبح کی فلائٹ ہے" میں نے اپنے لہجے کو بہت حد تک نرمل رکھتے ہوئے بولا ۔
"کیوں کیا ہوا شاہ زیب دو مہینے پہلے تو تم گئے تھے کیا مسئلہ ہے اس بار" ڈیڈ برہم ہوگئے تھے ۔
" ڈیڈ میں سکون چاہتا ہوں میں کچھ دن گھر سے باہر رہنا چاہتا ہوں میں تنگ آگیا ہوں ۔گھر آو روز وہ آئی ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی میں کہہ رہا ہوں مجھے وقت چاہیے۔۔ میں اتنی جلدی ایسا نہیں کرسکتا آپ سمجھیں ۔۔۔"
"شاہ زیب ایک بات بتاؤں۔۔۔ تمہیں دیکھ کر پتا ہے میں کیا سوچتا ہوں مجھے یقین ہے میرا بیٹا کبھی غلط نہیں کرے گا۔۔ پر میں ڈرتا ہوں یار تم کچھ زیادہ ہی باغی ہوگئے ہو۔۔ تم آپ مجھے بتا رہی ہوں جب فلائٹ بھی کراچکے ہو ۔ سیدھی طرح کہو تمہیں فلیٹ کی چابی چاہیے ۔"
ڈیڈ نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔میں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے محبت بہت کرتے ہیں۔ اور یہ ان کا ویک پوائنٹ تھا۔ اچھا ڈیڈ چابی دے دیں ۔ میں نے ڈیڈ کو کہا۔" یہ لو اور جاؤ"
ڈیڈ نے چابی الماری سے نکالتے ہوئے کہا ۔
******
آج کا دن بہت بکواس تھا ۔صبح صبح اس ڈریگن سے ٹکراؤ پھر باتیں سنا اور کیفیٹیریا میں کیسے غصے سے گھور رہا تھا جیسے میں نے اس کا خون کیا بد تمیز تھا۔۔ مغرور یا شاید ویسے مجھے کیا جو بھی تھا۔۔ اور پھر جب گھر آئیں تو پھوپھو ہوئی تھی۔۔ یہ دیکھ کر میرا موڈ اور خراب ہوگیا۔۔ یہ کیوں آئی ہوئی تھی اب کیا تھا..۔
میں نفرت کرنے لگی تھی اپنے خاندان سے اور کیا تھا کسی سے شیئر بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔ اور ماما وہ دفعہ یہی کہتی تھی کہ معاف کردو پر میں نہیں کر سکتی تھی میرے دل میں ہر وہ لفظ ہر وہ بات تھی ۔ کچھ بھی نہیں بھولا پائی تھی۔۔۔۔میں کچھ کرنا چاہتی تھی شاید اس لیے کہ میں خاندان سے دور جانا چاہتی تھی ۔میں بہت دکھی تھی پر لوگوں کو لگتا تھا میں بہت مضبوط ہوں پر پتہ ہے کیا میں نہیں مضبوط تھی ۔۔۔میں روتی تھی پر اکیلے میں ہاں وہ ایک بندہ تھا جس کے سامنے میں رونا چاہتی تھی پر کون تھا شاید وہ میں خود نہیں جانتی تھی ۔۔
جب بھی کچھ ایسا ہوتا تھا تو میں بہت رو کر ایک ہی دعا مانگتی تھی ۔کہ وہ مجھے مجھے وہ کندہ مل جائے جس پر میں سر رکھ کر روں جس کے سامنے آنا نہ آئے ۔۔جو میرے آنسو صاف کرے پر طعنہ نہ دے ۔۔ہاں تھا وہ میرے خوابوں کا شہزادہ اور میں چاہتی تھی اسے میں جانتی ہوں اگر کوئی سن لے گا تو وہ حیران ہوگا ۔کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دیکھے انسان سے عشق میں گرفتار ہو جائے پر کچی عمر کے خواب تھے جو اذیت دیتے تھے جو ٹوٹ نہیں سکتے تھے۔ ہاں توڑے جاسکتے تھے ۔
*******
بالکونی میں کھڑا ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا ہر سو رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ ہر دفعہ ایسا منظر دیکھ کر پتا نہیں کیوں مجھے وہ یاد آجاتی تھی۔ اس دن بھی ایان مجھے کہہ رہا تھا "یار کبھی تجھے بھی پیار ہوگا پتا نہیں تو کیا کرے گا ۔"
اس وقت میں اس کو بتانا چاہتا تھا کہ میرے یار مجھے پیار ہو چکا ہے۔ پر میں کچھ بھی نہیں بتا پایا ۔شاید وجہ یہ تھی کہ ابھی خود اس کو دیکھنا چاہتا تھا کون ہے وہ کیوں مجھے ان دیکھے یہ محبت ہے میں نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور پانی کی جھیل پر چلا گیا۔ ننگے پاؤں وہاں میں نے چلنا شروع کردیا ہر دفعہ جب بھی میں ترکی آتا تھا ادھر ضرور آتا تھا سکون ملتا تھا ۔۔***
آج مجھے ایک ہفتہ ہو گیا ہے یونیورسٹی جاتے ہوئے میں نے عزم باندھا ہوا تھا اس کو نبھانا تھا ۔پر زندگی کے موڑ پر جب میں تنہا ہو جاتی تھی تو سہارے کی مدد مانگتی تھی۔۔ ہاں میں بھی کمزور تھی پر بات صرف یہ تھی کہ لوگ انسو دکھا کر ہمدردی لے لیتے تھے میں انسو چھپا کر مضبوط بن جاتی تھی۔۔
ہاں میں چاہتی تھی مان کا رشتہ محبت میں اعتبار کا رشتہ جس کے سامنے مجھے کوئی ڈر اور خوف نہ ہو میں تھک گئی تھی ۔۔پتہ نہیں کیوں ایسی سوچیں دماغ میں گردش کرنے لگتی تھی میں آنکھیں بند کرکے بیٹھ گی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فون کی بجی پہلے تو میں نےاگنور کیا میں اس ٹوٹی ہوئی حالت میں کسی کا فون اٹھانے کے قابل نہیں تھی۔۔ دس منٹ تک لگاتار یہ سلسلہ چلتا رہا آخر تنگ آکر میں نے فون اٹھا لیا وہاں پر ایک ہی نمبر سے پانچ میسج اور تین کال آئی ہوئی تھی میں نے پہلا میسج کھولا ۔۔
"اس لڑکی کے نام جو کسی کو آنکھوں میں بسائے ہوئے ہے ۔۔۔اس لڑکی کے نام جو سوگوار ہو کر بھی خوبصورت لگتی ہے۔۔ اس لڑکی کے نام جو اپنے خوابوں کا شہزادہ چاہتی ہے ۔۔جو اس کا انتظار کرتی ہے"
میں بالکل ڈھنگ ہوگئی تھی میرے رونگٹھے بھی کھڑے ہوگئے تھے یہ کیا بکواس تھی۔۔ کیا کوئی میرے خوابوں میں شامل ہو چکا تھا
میں نے اسی غصے میں اگلا میسج کھولا
"ہاں میں یہ جانتا ہو کہ تم یہ میسج پڑھ کر پریشان ہوگی۔۔ ہاں میں جانتا ہوں تم یہ پڑھ کر ڈر جاؤں گی۔۔۔ کہ کون تمہارے پاس خوابوں اور پاک خواہشات تک رسائی کرچکا ہے۔۔"
یہ کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہی تھی کون ہے یہ اور یہ کیسے جان گیا تھا ۔
"پریشان نہ ہوں مضبوط لڑکی تم خواب نہیں دیکھ رہی یہ حقیقت ہے ۔۔اور میں کون ہوں یہ سوال تو اپنے دل سے کرو کیونکہ تم بہتر جانتی ہو کہ کون ہو سکتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے پیچھے چھپے آنسو بھی دیکھ سکتا ہے۔۔ اور تمہارے کھوکھلے قہقکوں کے پیچھے چھپے دکھ کا بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔
اپنا خیال رکھنا اپنے لئے نہیں تو میرے لئے "
یہ تیسرا میسج تھا میں کانپ گئی تھی کون ہوسکتا ہے
" اور آج کے بعد تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ آئے جلدی تمہیں وہ کندھا مل جائے گا کھل کر رونا میں نہیں روکوں گا ۔"
یہ وہ میسج تھا جس کے بعد نہیں رکھتی تھی اگر یہ سب مذاق کیا تھا تو نہایت بکواس تھا اور اگر اصل تھا تو ۔۔۔
پھر نا چاہتے ہوئے بھی میں آخری میسج پڑھنے لگی "میں کوئی مذاق نہیں کر رہا یہ حقیقت ہے سوری آئندہ آپ کو تنگ نہیں کروں گا ۔۔
خوش رہیے"
یہ کیا تھا میں نے ایک دم وہ نمبر دیکھا نمبر کچھ عجیب سا تھا نائنٹی 90 کونسے ملک کا کوڈ تھا***
آج پیر کا دن تھا بہت بے دلی سے میں اٹھی دل کر رہا تھا کہ چھٹی کرلو پر ضروری کلاس تھی اس لئے جانا پڑا ۔
ہم کلاس لے کر کیفیٹیریا میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سامنے سے لڑکوں کا ایک گروپ آرہا تھا ۔او یہ تو وہی لڑکا ہے جو اس دن اس مغرور اور بدتمیز انسان کے ساتھ تھا اور یہ کیا یہ تو ہمارے ہی پاس آ رہا ہے ۔
میں نے نرمین کی طرف دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہی تھی ۔ہمارے پاس پہنچ کر اس نے کوئی چیز نرمین کو پکڑائ اور چلا گیا میں حیران اور پریشان نرمین کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اور اس نے وہ یو ایس پی اپنے بیگ میں ڈال دی۔
"اپنا منہ تو بند کرلو" نرمین نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا
نرمین یہ کون تھا ۔میں نے نرمین سے پوچھا
" یار تمہیں بتایا تو تھا کہ میرا کزن ہے ہمارا بچپن سے نکاح ہوا ہے "نرمین نے قریب ہوتے ہوئے بتایا ۔
"ویسے بہت کوئی تم کمینی ہو پہلے کیوں نہیں بتایا کہ یہ وہ ہے۔۔" میں نے برہم ہوتے ہوئے پوچھا یار "ایسے ہی تم نے پوچھا ہی اب ہے "۔نرمین نے وضاحت دی۔
"ویسے ایک بات بتاؤں اس کے ساتھ کون لڑکا ہوتا تھا"
نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکلا
" تم شاہ کا تو نہیں پوچھ رہی"نرمین نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا پتا نہیں نام تو نہیں پتہ پر مغرور وہ بہت ہے عجیب سے بندہ ہے تم جانتی ہو اس کو ۔۔
"شاہ کو کون نہیں جانتا یار وہ بہت مشہور ہے ہر لڑکی مرتی ہے اس پر۔۔۔ پر یار وہ بندہ کسی کو لفٹ نہیں کراتا اس کا اور ایان کا دس سال کا ساتھ ہے یہ اسکول کے دوست ہیں۔ ۔ اور شاید بہت قریب ہیں آجکل شاہد ترکی گیا ہوا ہے نرمین نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا
"ہاں اسی لئے اتنا مغرور ہے اور زیادہ ہی خوش فہم بھی یہ لڑکیوں کا قصور ہے پاگل ہوتی ہیں۔۔" نرمین نے مجھے گھورا۔ ۔ اب ہر کوئی تمہاری طرح تو نہیں ہوتا نا نہ کوئی احساسات ہے تمہارے نا خواہشات تم تو رہنے ہی دو۔۔ پتہ نہیں وہ کونسا دن ہوگا جب میں سنوں گی کہ تم بھی محبت کرنے لگیں نرمین نے بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔
میں ایک دم چپ ہوگئی ہاں تھی میرے دل میں خواہشات احساسات پر شاید میں۔۔ بھی محبت کرتی تھی پر کوئی نہیں جان سکا تھا کہ کوئی میرے خوابوں میں شامل ہوچکا ہے مجھے کل کا میسج یاد آیا تھا
"حیا !!کیا ہوا یار تم کیوں چپ ہو گئی ہو "
بس ویسے ہی چلو لائبریری چلتے ہیں
۔******
میں ہوٹل میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا سامنے سے آتی لڑکی کو میں دیکھ کر ٹھٹھک گیاتھا ۔ کیا مصیبت تھی ایک اور پاگل ۔۔
وہ لڑکی دور سے ہی مسکراتی ہوئی آ رہی تھی اور قریب آ کر ذرا جھک کر میری آنکھوں میں دیکھا اور پھر مرحبا بولی ۔۔۔میں خاموش رہا تھوڑی دیر بعد انگریزی میں بات کرنے لگی ۔۔
"شا تم آگئے ہو یار کیا خیریت تھی بزنس کی وجہ سے آنا ہوا کیا ۔۔"
وہ کرسی پر میرے مدمقابل بیٹھ گئی میرا غصہ آسمان پر پہنچ گیا ۔۔
"کیا مسئلہ ہے تمہارا میں کھیلا بیٹھنا چاہتا ہوں میں نے غصے سے کافی کا کپ میں اس پر پٹخا "
"او سوری آئی کین فیل فور یو "
(Oh Sorry I Can Feel For You )
یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی ۔
"شٹ اپ نو وان کین فیل فور می اکسپٹ ہر "
(Shut Up No One Can Feel For Me Accept )
وہ ایک دم دوبارہ جھکی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔
"اوہو ہواز شی "
(Oh who is she)
وہی کہہ کر مسکرائی
"نہیں مجھے نہیں پتا لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ وہ میرے دل میں اور میں اس کو دھوکا نہیں دے سکتا اس لیے پلیز مجھے چھوڑ دو ۔۔"
یہ سن کر وہ مسکرائی اور پھر دوبارہ میری آنکھوں میں جھانکا ۔ہاں میں جانتا تھا اس کو وہ درد مل ہی گیا اس کو میری آنکھوں میں چھپے غم اور دکھ نظر آگئے ۔۔۔
"یہ پیار تمہیں تباہ کردے گا یہ کچھ بھی نہیں ہے سوائے درد کے بھول جاؤں اسے ۔۔"
(This love will ruin you, it is nothing except pain..forget her)
یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے چلی گئی۔
******
رات کو میں لیٹا ہوا تھا بار بار مجھے وہ ملاقات یاد آجاتی تھی وہ نصیحت تھی یا تنبیہہ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔
ہاں چاہتا تو میں کوئی ایسی لڑکی جس کی عزت نفس ہر چیز سے بڑھ کر ہو ۔۔جو محبت تو کرے پر اپنا اپنا گوا نہ دے بلکہ آنا اور خوددار بھی ہو۔۔ ہاں چاہیے تھی مجھے پاک محبت جس میں ہوس نہ ہو بلکہ روح کا رشتہ ہو جو ان کہی بات سمجھ جائے اور یہ صرف وہی ہوسکتی تھی۔۔ ہاں صرف وہی یہ احساس اور کیسے کسی کو نصیب ہو سکتا تھا
پھر ایک دم میرے ذہین میں ایک تصویر گومی دکھ سمائے ہوئے اک معصوم سی صورت۔۔ ایک لڑکی کی۔۔ وفادار لڑکی کی صورت۔۔۔
*****
ایک ہفتہ کیسے گزرا پتہ ہی نہ چلا اور گھر میں واپس آ گیا تھا آج مجھے یونیورسٹی جانا تھا عجیب سی بے تابی تھی ۔۔
میں صبح صبح تیار ہوگیا تھا اور حیرت تو مجھے خود تب ہوئی تھی جب میں آٹھ بجے گھر سے نکلا تھا۔۔۔ میں وہ بندہ تھا جو کبھی گیارہ سے پہلے گھر سے یونیورسٹی کے لیے نہیں نکلتا تھا ہمیشہ لیٹ آتا تھا کلاس میں ایک شان کے ساتھ ۔۔۔۔
(ہاں وہ ایسا ہی تھا جہاں سے گزرتا تھا دل لوٹ لیتا تھا اور ہاں اس کی بات میں غرور تھا۔۔ وہ واقعی شاہ تھا جب چلتا تھا تو یوں لگتا تھا کوئی فاتحہ ہو غصے کا بہت تیز تھا ۔۔جب بھی کسی کا ٹکراو ہوجاتا تھا یوں لگتا تھا پتھر سے ٹکرایا ہے ۔۔ لیکن کوئی تھا جو اس پتھر سے ٹکراتا تھا۔۔ ہاں اس کے دل میں تھا کوئی کبھی وہ جھٹک نہیں سکا تھا شاید وہ اس کے آگے ہار گیا تھا )
میں کیسے ہو میں داخل ہوا 8:20 ہو رہے تھے ۔ جیسے ہی میں اندر آیا سب مجھے دیکھنے لگے تھے شاید اس لیے کہ دو سال سے کبھی میں جلدی نہیں آیا تھا میں وہاں بیٹھ گیا میں جانتا تھا کہ سب دوستوں کا گروپ میرا ویٹ کر رہا ہے سب مجھے دیکھ چکے تھے پر میں خاموشی سے ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔شاید سوالوں سے بچنے کے لیے یا پھر شاید تنہائی کے لیے ۔۔۔
"او ابے کمینے مل تو لے کب آیا ہے تو "
ایان نے کمر پر مکا مارتے ہوئے کہا
"یہاں کیوں بیٹھ گیا ہے وہاں سب کے ساتھ آ نا"
ایان نے مجھے اٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا
"کیا تو ٹھیک ہے زیادہ تھکا ہوا تو نہیں تھا "ایان نے پھر ایک اور سوال داغا
"یار کل رات آیا اور ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں یہاں اس لیے بیٹھا ہوں کہ وہ اس گھورتے ہیں جیسے میں قاتل ہوں۔۔"
میں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا
"لگتا ہے تو رات ساری جاگتا رہا ہے ۔۔اور ہاں صرف ایک لڑکیوں کا گروپ ہے۔۔ اور وہ تجھے پیار سے لائن مار رہی ہیں چل تو بھی آنکھ مار دے خوش ہو جائیں گی بیچاری ۔۔"ایان نے ہنستے ہوئے کہا
"ہاں کہیں واقعی آنکھیں ہی نا مار دو میں "
میں بڑبڑایا
"کیا بول رہا ہے اونچا بول یار "ایان نے قریب ہوتے ہوئے کہا ۔
"اٹھ چل تیرے کام کی بات نہیں ہے "میں اٹھ کر دوسرے ٹیبل پر آگیا
میں کسی کا انتظار کر رہا تھا شاید ۔۔۔۔
کلاس لے کر جب ہم باہر نکلے تو آیا میرے پاس آکر کچھ کہنے لگا ۔۔
"یار ایک منٹ میرے ساتھ نرمین سے ایک کام ہے تو بھی میرے ساتھ آ ویسے بھی اسکی دوست تیرے بارے میں پوچھ رہی تھی نرمین نے بتایا تھا ۔۔۔"
ایان بولے جا رہا تھا اور میں اس بات پر اٹک گیا تھا کہ وہ میرے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔
"کیا پوچھا تھا اس نے " میری آواز کسی کھائی سے لگا تھا آ رہی ہے ۔۔
"ابھی پہنچ جائیں گے تو پوچھ لینا ۔۔۔"
آیا نہ ٹیبل کے آگے رک گیا ۔
نرمین اور ہاں وہ تھی اس کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی سوگوار سی ۔۔
"اہم میں یہاں بیٹھ جاؤ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ۔۔"
ایان نے معصوم بنتے ہوئے اس سے پوچھا ۔
اور نرمین ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرانے لگیں ۔
ایان بڑے مزے سے نرمین کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
"نرمین تم اسے تو ویسے ہی جانتی ہوں اپنی دوست کا بھی تعارف کرا دو "
ایان نے ہنستے ہوئے مجھے دیکھا ابھی میں اسی کشمکش میں تھا کہ بیٹھو یا نہ بیٹھو ۔۔
"شاہ اپ بیٹھ جائیں "نرمین نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
اور میں کرسی کو تھوڑا سا کھسکا کر بیٹھ گیا جیسے ہی میں بیٹھا گویا اس کو 240 ووٹ کا کرنٹ لگا ۔
"حیا بیٹھ جاؤ یار یہ شاہ زیب میرحیدر ہے تم کر پوچھ رہی تھی نہ۔۔ اپنا بزنس خود ابھی سے کر رہا ہے ۔۔"
میں اس معصوم سی لڑکی کو دیکھنے لگا جو فورن وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی ۔
"نرمین مجھے لائبریری جانا ہے "
اس نے بہانہ بنایا تھا وہاں سے بھاگنے کا ۔
ہاں میں جانتا تھا وہ میری وجہ سے ایسے کررہی ہے یا پھر اس سب لڑکوں سے یوں ہی بھاگتی تھی ۔۔۔
میں دور تک اس لڑکی کو دیکھتا رہا کچھ تھا جس نے مجھے ٹھٹکنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
**********-----------* *************-------
Please give feedback..next episode is going to come soon..
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top