ما سے محبت مقدّر کا حصہ ہے
پانچویں قیسط
انکے گھر میں پچھلے کچھ دنوں سے کافی رونق لگی ہوئی تھی گھر کا چراغ جو گھر میں حاضر تھا
رابعہ بھی بہت خوش خوش رہنے لگی تھی اور زہرہ بیگم کی تو ہر دعا رنگ لائی تھی
ساری پریشانیاں حل ہوچکی تھی ہر چیز اب حاصل تھی اسکا جو جی چاہتا وہ خرید لاتی
ان دو سالوں میں ساری مشکلات راحت میں بدل گئی تھی پور سکون سا ماحول تھا ہر طرف
صبر نے اب جیسے انہیں سکون کے ہاتھوں سونپ دیا تھا ، اور وہ شکر کی راہ پی قیام کرنے کو تھے
پھر ایک دعوت کا آغاز ہوا کچھ حسرتوں کی تکمیل ہوئی
گلابی جوڑا پہنے ہلکی سے مسکان لبو پی سجائے شمیم چائے کی ٹرے ہاتھ میں اٹھائے بیٹھک میں داخل ہوئی بلکل پری کی طرح تھی وہ بےحد حسین ۔
سلام جواب کا تبادلہ ہوا اور وہ زہرہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئی رابعہ تو بس اسے دکھکے رھ گئی اسکا بس نہیں تھا کے وہ ابھی اسے اپنے گھر لے چلتی
شمیم تھی ہی اتنی خوبصورت
اُسکے ابّا کو شاید آصف کی سانولی رنگت پر اتراز تھا لیکن اسکی امی کو یہ بات پسند آئی تھی کے وہ بمبئی میں نوکری کرتا ہے اور اسکی اچھی خاصی پوسٹ تھی ۔
شمیم کے گھر والوں کی طرف سے ہا تھی اور جب آصف سے پوچھا گیا تو اُسنے یہ کہہ کر حامی بھردی کے جو امی کی مرضی ہونگی وہ اُسے قبول ہے ۔
زہرہ بیگم کو تو شمیم پہیلی نظر میں ہی بھا گئی تھی۔
رونکے اور بڑھ گئی حسی خوشی کے ساتھ آصف کی شادی ہوئی رابعہ کو خوشی اور زہرہ بیگم کو سکون ملا
اُنہونے میل کر رب کا شکر ادا کیا ۔۔۔
سب کچھ سوار گیا تھا ایک بار پھر زندگی میں خوشیوں کے رنگ سجنے لگے تھے
.............. ******................
آصف کی شادی کو محض دو ہفتے ہوئے تھی اور اُسے واپس بڑے شہر جانا تھا ۔۔۔۔۔۔
زہرہ بیگم ذِکر الٰہی میں مشغول تھی اور رابعہ انکے پاس بیٹھی پڑھائی کر رہی تھی اسے اچھے نمبر لانے تھی اسکا دسوی کا سال تھا
تبھی آصف اپنی بیوی کے ساتھ انکے قریب آکر بیٹھ گیا اور اُنسے چند ادھر اُدھر کی باتے کی اور کہنے لگا
" امی میں کل چلا جاؤنگا " زہرہ بیگم اُداس نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی اُسکے باتے سن رہی تھی
" ہاں میری جان کاش تم یہاں رہے پاتے لیکن کام ہے جانا تو طے ہے ، میں روک بھی نہیں سکتی آخر میری ہی خواہش تھی تم کچھ بڑا کرو "
" میں شمیم کو انکے امی گھر چھوڑ آؤ؟ " اُسنے گلا صاف کرتے ہوئے کہا
" ارے کل ہی تو یہ رسم سے واپس آئی ہے آج چھوڑ آؤگے تو انکے گھر والے کیا سوچیے "
" ٹھیک ہے پھر میں انہیں اپنے ساتھ لے جاؤنگا "
" ہاں آج نہیں تو کل اسے وہی رہنا ہے لیکن ابھی کیسے ابھی تو وہاں کوئی انتظام بھی نہیں ہونگی ، تم جاکر پہلے سارے انتظامات کر آؤ پھر اسے لے جانا " اُنہونے آصف کو سمجھنے کی کوشش کی
" میںنے کر لیے ہے سارے انتظام " اُسنے نذرِ چراتے ہوئے کہا
زہرہ بیگم کا دل بہت گھبرا رہا تھا انکے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے موتی تیزی سے گرنے لگے تھے رابعہ نے اپنی کتاب ایک طرف رکھ دی تھی ایسا بھی کچھ غلط نہیں تھا آصف کا مطالبہ لیکن نا جانے کیوں اُنکا دل گھبرا رہا تھا
رابعہ خاموش تھی اپنی امی پے نذرِ جمعے ہوئے تھی اُسے کیا خبر تھی کے ہر اچھے بری کا اثر اسکی زندگی پے ہونا تھا
اُنہونے پھر صبر کا دامن تھاما اور اُنہیں اجازت دے دی
آصف اور شمیم کی ساری تیاریاں پہلے ہی مکمل تھی اپنا سارا سامان انھونے ایسے پیک کیا تھا جیسے وہ کبھی واپس نہیں آئےگی
" بھائی آپ واپس کب آئےگی " رابعہ نے مسکراتے ہوئے سوال کیا
" جب آفیس سے تھوڑا فروغ ہوا نا تب اور پھر تم لوگوں کو اپنے ساتھ لے جاؤگا "
" کیا سچ میں ؟" اسکی خوشی کی کوئی حد نا تھی بمبئی کا نام وہ ایسے سونا کرتی تھی جیسے سات سمندر پار کی کوئی نگری ہو
وہیں زہرہ بیگم کا ذہن نا جانے کتنے ہی خدشات سے بھر آیا تھا لاکھ کوششوں کے باوجود وہ اپنی سوچ کو خاموش نہیں کر رہی تھی
اُسے لمحے آصف اور شمیم انکے پاس آئے اُنسے رکساتی لی
اُنہونے اپنے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کو رابعہ کے پاس دیا آصف کو نظر بھرکے دیکھا کچھ تھا انکی نظر میں شاید کوئی قیمتی شع چھین چنے کا خوف شاید کچھ کھو جانے کا خوف
وہ باہر کی اور بڑھ رہا تھا تو انکی آنکھوں کے سامنے سے ساری یادے گھوڑے کی تیز رفتار سي دوڑ رہی تھی
اسکی شفقت بھاری ہر بات
اسکا لہجہ
اسکا لاڈ
اپنی دی ہوئی تربیت
اور اللہ کو دیا ہوا کڑا امتحان سب کچھ ایک جھماکے سے آنکھوں کے پردے سے گزرا تھا
رابعہ ان سب میں شامل نہیں تھی نا پہلے نا اب اسکا بلکل بھی اہم کردار نہیں تھا نا پہلے نا اب
لیکن یہ راز اُس پے کھولنا باقی تھا
کے ہم کس کی زندگی میں بھلے ہی اہم کردار نا نبھا رہے ہو لیکن اثرانداز ہم ہوتے ہے ہماری زندگی ہوتی ہے ۔
" امی کہا خوگی آپ؟" رابعہ نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
" میرے لیے پانی لے آؤ "
" جی امی "
زہرہ بیگم کو اپنی تربیت پے پورا بھروسہ تھا لیکن آصف نے جو جلدبازی دکھائی تھی وہ اُنہیں خٹک رہی تھی اور پھر اُسکے آنکھیں وہ کس سے آنکھیں چورا رہا تھا ایک ما سے نہیں شاید وہ انکی اور انکی بیٹی کی ذمےداری سے آنکھیں چورا رہا تھا کتنا کچھ کہے گی تھی اُسکے آنکھیں کتنا کچھ ۔
کبھی وہ سوچتی کے شاید وہ غلط ہے تو کبھی وہ دعا کرتی کے کاش وہ غلط ہے ثابت ہو کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہی غلط، پوشیدہ ظاہر رابعہ ان سب سے گافل اپنی امی کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top