صبر ہی تواققول ہے !

دسوی کیسط

" میں ظاہر ٹٹول سکتی ہو باطن کی سمجھ نہیں رکھتی ۔۔۔بیشک تو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے میری مدد فرما ۔۔ اللہ تعالیٰ مُجھسے میری بیٹی حق میں بہتر فیصلہ کروالے "  انھونے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرا اور جائیناماز کو تیے کرنے کے لیے اٹھی

"یہ میں کیا سن رہی ہو زہرا ؟" نعیمہ خلا نے آتے ساتھ ہی کہا ۔۔۔۔انکی آواز قدرے اونچی تھی کے رسائی سمیٹتے رابعہ بھی باہر کی طرف متوجہ ہوگئی

" ارے نعیمہ آپا ۔۔پہلے بیٹھ تو جائے "

" مجھے تمہاری کچھ سمجھ نہیں آتی ، اب یہ کیا کرنے جا رہی ہو تم"

" کیا کیا مینے بتائے تو "

" بنو مت زہرا ۔۔۔۔۔کیو اپنی بیٹی پے ظلم کر رہی ہو ، کیو تم اسکی شادی ایک طلاق یافتہ سے کر رہی ہو، جیسکا ایک بیٹا بھی ہی  "

" اپنے غلط سونا ہے نعیمہ آپا, روہیل طلاق یہ یافتہ نہیں ہے اسکی  بیوی کا انتقال ہو چکا ہے۔۔۔۔اور الی بہت پیارا بچہ ہے  " اپنی ماں کے مح سے یہ الفاظ سنکے مانو  رابطہ کے پیرو تلے سے زمین ہی چین  گئی ہو وہ پتھر کا مجسمہ سے ہو گئی

"  ہوش کرو زہرا  ۔۔۔کیو ایک صابرین عورت سے ظلم ماں بن رہی ہو"

" کیسا ظلم کیس ہوش کی بات کر رہی ہے آپ، کیا آپ شریعتوں کو بھول گئی ؟ زہرا بیگم نے قدرے دھیمے انداز میں کہا
" ہمیں نئے زمانے کی نئی سوچ کے مطابق نہیں سوچنا بلکہ ہماری سوچ کو نبی کریم ﷺ کے زمانے کی سوچ سے جوڑنا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر جس چیز کا مقدر میں  جین حالتوں میں اور جس وقت حاصل ہونا لکھا ہے وہ اُسی وقت حاصل ہونگی ، ہم نہ جلدی کے مالک ہے نہ تاخیر کے " رابعہ ساری باتیں خاموشی سے سن رہی تھی وہ سمجھنے سی قاصر تھی کے مزید انکی باتیں سونے یہ چلی جائے

" شادی ، رزق ، موت اور تقدیر یہ سب لوحِ محفوظ میں رب پہلے سے ہی لکھ چکا ہے " رابعہ وہاں سے ہٹ جانے کو پلٹی ہی تھی کے اسکے پیر تھم گئے اسکی سوچے تھم گئی اور وہ خاموشی سے اپنی امی کے کہے الفاظ دہرانے لگی

" دیکھیں نعیمہ آپا ہم سب واقف ہے شریعتوں سے کے جب ایسا موڈ آجیے تو تسلیم کرنے میں ہی خیر ہے " نعیمہ خلا نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے آپ کو آگے کچھ بھی کہنے سی قاصر تھی
                                                         
" دیکھیں میں جانتی ہو رابعہ آپکو بھی بہت پیاری ہے اسلئے آپکو بیٹا رہی ہو لڑکا بہت اچھا ہے سرکاری افسر ہے اور بڑا ہی سمجھدار ہے ۔۔۔۔انلوگو نے جہیز وغیرہ سے صاف منہ کیا ہے انکی بہن نے بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انہیں صرف رابعہ چاہیے۔۔۔۔۔، بتائے اب کیا اس اچھائی کیا ہے کوئی مقابلہ ؟ نعیمہ آپا یہ سُنکر پرسکون ہوگئی

" بس اب آصف کو دینی ہے یہ خوش خبر۔۔بہت خوش ہوجائےگا "

" اب بھول بھی جاؤ اس نافرمان کو ۔۔۔اللہ نے ایسا کرم کیا ہے تمہیں اب بھی اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے "    نعیمہ خلا  مح سکڑتے ہوئے کہنے لگی

" وہ لاکھ بھول جائے ۔۔۔۔میں نہیں بھول سکتی ، ماں ہو نہ ۔۔۔۔۔
بس دعا ہے اللہ سے کے جبتک میں زندہ ہو آصف پر کوئی آنچ نہ آئے، کانٹا بھی نہ چوبے اُسی  " انکی آواز گہرائی سے اُبھری تھی 
انکے اس آخری جملہ سے سب واقف تھے انکی آواز میں چھپے درد سے بھی تڑپ سے بھی اور نہ چاہتے ہوئے نکلنے والی آہ سے بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  وہ اپنے وجود میں خاموشی لیے آسمان کی جانب سولانا نذرِ اٹھائے ہوئے تھی ، ذہین میں زونجی عجیب کشمکش کو ٹھیراو دینے کی کوشش کر رہی تھی تبھی زہرا بیگم وہ آئی اور انھونے اُسی اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا رابعہ انکی گود میں سیر رکھ کر لیٹ گئی ۔۔۔۔

" بیٹا مینے کچھ بات کرنی ہے تمسے " زہرا بیگم نے اسکی سیر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

" جی امی کہے نہ " 

انسے کچھ کہا تو نہیں جا رہا تھا لیکن اپنی تربیت پے اور اپنی بیٹی کی فرمابرداری پر یقین رکھتے ہوئے انھونے بات کی شروعات کی " الی یاد ہے تمہیں "

" جی امی بہت پیارا بچہ تھا بےحد معصوم "

" وہ۔۔۔۔۔۔" انکے الفاظ لڑکڑا رہے تھے اور رابعہ کو یہ ہرگز پسند نہیں تھا کہ اسکی امی اسے بات کرتے ہوئے اتنا سوچے

" امی آپ جو کہنا چاہتی ہے میں جانتی ہو۔۔۔۔جیسا آپ صحیح سمجھے۔۔۔۔ رب جو بھی فیصلہ میرے حق میں کرے مجھے منظور ہے "  انکی گود سے سیر اٹھاتے ہوئے اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لےکر کہنے لگی
یہ تھا صابرین رابعہ کا جواب ۔۔ لڑکے کو بنا دیکھیں ، بنا جانے ۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کے اسکا پانچ سالہ بیٹا ہے ۔۔۔ایسا صرف صبر والے ہی کر سکتے ہے

" جو بھی ہونگا بہتر ہی ہونگا مجھے اللہ پے پورا یقین ہے "  اُسنے ایک خاموش سی  صبر والی مسکان  لیے  حامی بھرلی

                                                                                    
.......جاری ہے........

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top