صبر آدھا ایمان ہے !


تیسری قسط

" امی آپ کیو سارے پیسے آصف کے لیے بھجوا دیتی ہے کچھ اپنا اور ہمارا بھی خیال کر لیا کریں " شازیہ روٹھ کر کہنے لگی
"آپ اتنی محنت کرکے یہ پیسے کماتی ہے اور سارے آصف کے لیے بھجوا دیتی ہے "

" نہیں بیٹا ما کا دل ہے میرے پاس ، سبكا خیال ہے مجھے ، لیکن ابھی تمہارے بھئی کے امتحان شروع ہونے کو ہے اسلئے زیادہ پیسے بھجوانے پڑ گئے "
زہرہ بیگم سمجھداری سے اسے مخاطب ہوئی تھی
"اور تم فقر کیو کرتی ہو اللہ بہت بڑا ہے "

" جب آصف بھائی آئیگی نا تو میں بہت ساری چیزے منگاونگی اُنسے " رابعہ جو کابسے خاموش بیٹھی تھی اچانک  کہنے لگی

"ہاں بیٹا منگوا لینا " انھونے ہستی ہوئے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئے

رابعہ سوالانا نظروں سے اپنی بازی کو دیکھ رہی تھی
"کیا ہوا ہے رابعہ اب تمہیں ؟"

" نہیں کچھ نہیں ، لیکن امی جو رات میں بتا رہے تھے ' صبر ' وہ کہا رہتا ہے ؟"

"اُفف اللہ ۔۔۔۔اتنا تفصیل سے تو بتائیے نا امی نے پھر بھی سمجھ نہیں آیا " شازیہ نے بیکھتیار اپنے سیر کو تھام لیا

" میں چھوٹی  ہو نا ابھی اسلئے "

" خیر اب اتنی بھی چھوٹی نہیں ہو "

"صبر بھلے تمہیں سمجھ نا آئے آئے لیکن پیارے آقا ﷺ کی باتے تو تمہیں سمجھ آت ہے نا " زہرہ بیگم جو کبس اُن دونوں کی گفتگو سن رہی تھی رابعہ سے کہنے لگی

"ہاں " رابعہ نے زور سے گردن کو خم دیا
وہ خوشنصیب بچے جنہیں بچپن سے ہی اللہ اور اُسکے رسول ﷺ کی پہچان کرا دی جاتی ہے رابعہ انہیں میں سے ایک تھی ۔
اُسکا ایک مضبوط قدم صبر کی طرف بڑھا تھا

                                                              .......*******........*******"

"صبر رکھو  رابعہ " شازیہ نے دبی سے آواز میں کہا
رابعہ ایک طرف کھڑی کبسی اُسے اشارہ  کئی جا رہی تھی

" لیکن بیٹا تم اُسے سمجھاؤ نا ، ہمارے حالات اسے نہیں ہے اور پھر تمنے بھی تو نہیں پڑھا ہے نا " زہرہ بیگم نے شازیہ کو سمجھتے ہوئے کہا جو کبس رابعہ کے لیے سفارش کر رہی تھی

" ہماری بات اور ہے امی لیکن اُسکے بڑی خواہش ہے اور ہم کمسکم اُسے اتنا تو پڑھا ہی سکتے ہے نا کے وہ پڑھنا لکھنا سیکھ جائے "

" ٹھیک ہے  لیکن سنو رابعہ کیسی بھی چیز کے لیے ضد نہیں کروگی تم "

" بلکل بھی نہیں " رابعہ دوڑتی ہوئی اپنی امی کے گلے لگ گئی

" ہاں نا اب کیو کروگی تم ضد۔۔۔مجھے جو شکار بنایا ہے " شازیہ اُسے گھورتے ہوئے کہنے لگی
رابعہ کی تو خوشی کی انتہا نہ تھی اُسے پڑھنا تھا اور اُسکا ے خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا
اُسکا داخلہ کروا دیا گیا تھا ساتھ آٹھ سالہ رابعہ اب اسکول جانے والی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****...........*******........

" رابعہ روک جاؤ ذرا چھوٹی تو بنالینے دو صحیح سے "
كسیکا دیا ہوا پرانا یونیفارم ، خستہ حالت بستا ، کچھ پرانی کاپس اور پین لیے وه اپنی چاہت کی اور بڑھنے کو بیتاب تھی صبر سے یہ راستہ طے کرنے پر آمادہ۔

" جلدی کرے نا باجی میری سہیلیاں کھڑی ہے باہر"

" کیا کہا تمنے سہیلیاں ۔۔۔۔واہ ۔۔۔ذرا بتانا پسند کروگی پہیلی ہی دن یہ سہیلیاں کہسے آگئی "

" اسمیں حسنِ والی کیا بات ہے ۔۔۔عمریں باجی ہے میری سہیلی "
اُسنے غصے میں اپنی چھوٹی شازیہ کے ہاتھ سے کھینچی لی
عمریں رابعہ کے پڑوس میں رہتی تھی

" اچھا اچھا خدا حافظ " شازیہ نے دروازے میں کھڑے ہوئے اُسے الوداع کیا اور خوشی اور فکرمندی کے میلے جھولے احساس کے ساتھ اُسنے رب سے آسانی کی دعا کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔*******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھوپ کی شدت سے راستے کی مٹی تیزی سے گرم ہو رہی تھی وہ دوڑتے ہوئے وقفے وقفے سے اپنے پاؤں ٹھنڈے کر رہی تھی اس تپتی دھوپ میں چٹخی دیتی گرمی اور وہ نگّے پاؤں دوڑتی  کیسی پیڈ کی چھاؤں میں روک جاتی

" روکو مت رابعہ سیدھے اسکول پھوچو ہم وہی ملینگے " عمریں نے پیچھے سے اواز دیتے ہوئی کہا

" عمریں باجی یہاں آئے دیکھیں تو سہی " وہ دھوپ میں کھڑی پیچھے پکارنے پکارنے لگی
وہ گرم مٹی پے پیر جمعے کھڑی تھی

" کیا ہوا رابعہ ؟ کیو کھڑی ہوگئی یہاں " وہ دوڑتی ہوئی اُسکے پاس آئی اور گرم مٹی پے اُسکے پیر دیکھکر فکر سے کہنے لگی

رابعہ کی خوشی کا ٹھکانہ نا تھا وہ ایک خوشگوار سی مسکراہٹ لیے ہوئے تھی

"گرمی ہے رابعہ ہٹاؤ پیر "

" ارے دیکھیں نا کیسینی بلکل میرے ناپ کی  ہی چاپل پہنی ہوئی ہے شاید ۔۔، کتنی اچھی لگ رہی ہے نا" مٹی پے اُمٹے چپل کے نشان پر پیر رکھکے وہ اسکو تصوّر کر رہی تھی تپتی مٹی کا خیال اُسے ہوا ہے نہیں

" میںنے کہا ہٹو يحاسے " عمریں نے اُسکا ہاتھ پکڑکر ایک طرف کیا

"ہاں نا ٹھیک ہے چلے ہم اسکول میں ملتے ہیں " رابعہ اپنی ہی سوچو میں غم مسکرکے کہنے لگی
عمریں اُسکے چہرے سے اُسکے دل کا دور سمجھ سکتی تھی تکلیف کی بات تو تھی کے اُسے شدید آسان چیز حاصل نہ تھی غربت ہوتی ہی ایسی ہے!

معصوم سی رابعہ ابتک اس بات سے انجان تھی کے اللہ نے اُسے آزمائش کے لیے چوں لیا تھا
اُسے اب صبر کو ساتھ لیے آگے بڑھنا تھا جنت کے خزانوں کی تلاش میں

اُسے پریشانیوں سے کبھی کوئی گلہ نہ تھا وہ ہمیشہ اپنی امی کی طرح اللہ کی مصلحت کو سمجھنے کی کوشش کرتی
خودکو حاصل صبر کی گیبی طاقت سے لیلما وہ خوش رہتی ہمیشہ خوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top