صبر آدمی ہوتا تو بڑا مہربان آدمی ہوتا
چوتھیں کست
آزمائشوں میں صبر مشکلات میں دعا اور خوشیوں میں شکر کا شہار لیے دن مہینوں کی طرف اور مہینے سالوں کی طرف دوڑتے گئے ایسا کوئی لمحہ نا تھا جب وہ ما بیٹی رب کی حمد و ثنا سے غافل رہی
جو مشکل آپکو اللہ کے قریب کردی وہ رحمت ہوتی ہے
اب بن گئی تو رابعہ اللہ کی دوست مضبوط صابرین ۔
وہ اب ۱۵ سال کی ہوگئی تھی اور اللہ کے كرم سے شازیہ کی بھی شادی ہوگئی تھی ۔۔۔
زہرہ بیگم سوچتی کے اتنے سال جو انھونے آزمائش کاٹی ہے وہ اب ختم ہوگئی ہے اللہ نے انکے نصیب میں خوشیاں لکھ دی ہے ہر لمحہ حسبِ عادت وہ خدا کا شکر ادا کرتی ۔
اللہ کی رحمتوں کے سائے میں زندگی سکون سے گزرنے لگے تھی اور سابسے بڑا دلاشا یہ بھی تھا شاید کے رابعہ کا اکلوتا بھائی آصف اب کامیاب ہونے لگا تھا
انھونے دن رات محنت و مشقت کرکے آصف کو تعلیمِ آفتہ بنایا اپنی پریشانی اور بیٹیوں کے صبر کا اجر وہ آصف میں ڈھونڈتی تھی ۔
ظاہر ہے ایک لڑکا جو اپنی ما اور بہنوں کی تکلیفوں سے واقف تھا جو انھونے اُسکے کامیاب زندگی کے لیے اٹھائی تھی اسے اچھائی کی امید رکھنا واجب تھا ۔
بارگاہِ خداوندی میں انکی دعائے رنگ لائی تھی آصف کی بڑے شہر میں جوب لگ گئی تھی
کچھ عرصے جوب کرنے کے بعد وہ اب گھر آنے والا تھا
زہرہ بیگم کے چہرے کی چمک سے انکی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا ۔۔۔بیٹے کے آنے کی خوشی میں انھونے متھا بنوایا
گھر میں غوشنوما سا ماحول اور میٹھے کی بھینی خوشبو رابعہ کو بصرہ کر رہے تھی ۔۔
"امی کب آئیگی آصف بھائی مجھے میری چیزے دیکھنی ہے " رابعہ بار بار دروازے تک کے چکر کاٹتی اپنے بھائی کا انتظار کر رہی تھی
" صبر رکھو آتا ہی ہونگا " زہرہ بیگم بی ایک ٹک دروازے کو تک رہی تھی
" اہ آگئے آصف بھائی "ہاتھ میں بڑا سا بیگ لیے ایک روبدار نوجوان انک گھر میں داخل ہوا تھا
زہرہ بیگم کی آنکھیں خدا کے شکر سے بھر آئی اور زبان الحمدللہ کے ذکر سے لبریز ہوگئی
اب اُنسے محض ایک بیٹا ملنے نہیں آیا تھا بلکہ ایک تعلیمِ آفتا کامیاب بیٹا آیا تھا جسکے لیے جانے انھونے کتنے ہی احساسات قربان کئے تھے
" السلامُ علیکم امی " اُسنے ادبن جھک کر اُنھیں سلام کیا اور انکے گلے لگ گیا
اُسکے آنکھیں نم تھی اور ما کے آنسو سنبھالنے کو تیار نا تھے رابعہ ایک طرف کھڑی فقری نگاہوں سے اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی
"بس کریں امی اب آپکا بیٹا آپکے پاس ہے " آصف نے انکے آنسو صاف کیے "اللہ نے آپکی دعا قبول کی ہی "
" سیرف امی کی دعا؟ " رابعہ مح باسورے کہنے لگی
"ارے نہیں چھوٹی تیری تو اوّل ہے یار " اُسنے رابعہ کے سر پے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
" اور جن چیزوں کے لیے ہے نا وہ میں لے آیا ہو "
اُسکی بات پے زہرہ بیگم کا ایک کہکہ نکلا تھا
............********............
حسی اور خوشی سے آج زہرہ بیگم کا گھر سزا ہوا تھا اس ماحول میں شازیہ کی چوٹی سے بیٹی کی حسی اور چار چاند لگا رہی تھی جہاں گھر میں سارے افراد حسی گپو میں گم تھے وہیں زہرہ بیگم اپنے سارے حوسو سے بیگانہ سیرف اپنے بیٹے کو ہے دیکھتی رہی تھی ۔۔۔۔
وہ اپنے بیٹے سے اتنا عرصہ دور رہی تھی
ایک ما کی کیفیت سیرف خدا ہی جان سکتا تھا ۔
آصف انکی گود میں سیر رکھ کے لیٹ گیا مانو ساری سکون اُسے ملا تھا اور یہ خوشنمائی ایسے ہی چلتی گئی ہر سو بس سکون ہی سکون تھا راحت ہے راحت
..............**********...........
آج ناشتے کا خاصہ احتمام کئی گیا تھا پڑوس کے نعیمہ خلا بھی آصف سے ملنے آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔
" اللہ حافظ " رابعہ اپنا بستا اٹھائے سب سے مخاطب ہوئی
سب نے ایک ساتھ اُسے جواب دیا اور وہ اسکول کے لیے روانہ ہوگئی
" نعیمہ آپا میں سوچ رہی ہو کے اب آصف کے لیے بھی لڑکی دیخلو "
آصف وہ سے اٹھکر چلا گیا تھا
" میری مانو تو ابھی اس خیال کو ترق کردو ، ابھی تو کام لگا ہے اسکا جلدبازی تو نا کرو پہلے رابعہ کی شادی کرنا پھر اُسکی " نعیمہ خلا نے سنجیدگی سے کہا تھا
" رابعہ تو ابھی چھوٹی ہے اور میں چاہتی ہو پہلے بہو آئے پھر اسے بده کرو ویسے بھی شازیہ کے جانے کے بعد گھر خالی سا ہوگیا ہے " اُنکا بس نہیں تھا کے وہ ابھی اپنے بیٹے کے سیر پے صحرا سجدے
" اتنی مشکل عرصے کے بعد تمہارا بیٹا تمہارے ساتھ ہے اور تم" اُنہونے ناگواری سے کہا
" مرنے کے ڈر سے جینا تو نہیں چھوڑ سکتے نا " زہرہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا " مجھے اپنے بیٹے پے اور اپنی تربیت پے پورا بھروسہ ہے "
" خیر جو تم بہتر سمجھو " انھونے اک گھیرا ساس ہوا کے سپردکیا
............********.............
" میں بات کرو؟" رابعہ کا مح حیرت سے کھولا تھا
زہرہ بیگم نے اپنی خواہش کا اظہار رابعہ کے سامنے کیا اور اسے کہا کے وہ آصف سے بات کریں
" ہاں تمہیں ہی کہہ رہی ہو "
" لیکن امی "
" معلوم تو پڑھے وه کیا چاہتا ہے "
" ٹھیک ہے " اُسنے آصف سے بات کی تو آصف کو کچھ خاصہ پسند نہیں آیا اُسنے ناگواری سے ٹالنا چاہا
" یہ کیا بات ہوئی بیٹا میں بھی یہی چاہتی ہو کے اب تمہاری شادی ہوجائے " زہرہ بیگم نے بھی اُسکے ہمراہ اپنی خواہش کا اظہار کیا
" آخر اتنی جلدی کیا ہے امی ، اتنی محنت سے اپنے میری کامیابی کا بیج بویا ہے اور اب جب وہ پھل دینے کو ہے تو آپ کو کسی اور کے حوالے کرنا چاہتی ہے "
" میں حصےدار بنانا چاہحتی "
" مجھے کسی پر بھی ھروسا نہیں "
"بری بات ۔۔۔، یہ کوئی وجہ نہیں ہوئی ، اور آپ تو کہتے ہیں جو امی کی مرضی وہ آپکی مرضی" رابعہ نے اپنی حسی کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا
" بس بیٹا کیا تمہیں ہمارے لیے اپنی محبت اتنی کمزور لگتی ہے " زہرہ بیگم نے اُسکے سير پی ہاتھ پھیرا
" ٹھیک ہے امی جیسے آپ چاہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top