جنکے حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ اپنے حالات سنبھال لیتے ہے


ساتویں قسط

" میرا بیٹا ہو تم "
وہ اپنے کام میں مصروف تھی زہرہ بیگم وہاں آئی اُنہونے اُسکے سیر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے کہا

"میں بیٹی ہی ٹھیک ہو امی مجھے بیٹا نا بنائیں آپ " یہ سنکر انکی آنکھیں نم ہوگئی اُنہونے بڑے پیار سے اسکا متھا چُما
"ہاں بیٹی ہو تم میری پیاری بیٹی اللہ تمہارے دامن  میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائی ڈالے "
"امین"

اللہ پے کامل یقین کے ساتھ اُنہونے ہر مشکل مرحلے کا سامنا کیا ہر لمحہ صبر سے کام لیا اور ہر وقت صبر کی طلب کی ۔

سب کہتے ہے کے لڑکیاں لڑکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔سہی کہتے ہے اُسکے بھائی جیسے لڑکوں کا مقابلہ کوئی کرنا بھی نہیں چاہیگا اُسنے افسردہ ہوکر سوچا تھا
ضروری نہیں کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر ہے کچھ کر سکتی ہے جنکے  حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ اپنے حالات سنبھال لیتے ہے کسی بھی وقت کیسے بھی وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رابعہ نے جوانی میں ایک شہرت کمائی تھی لوگ اُسے زہرہ بیگم کا بیٹا کہنے لگے تھی اُسے یہ سنکر بلکل بھی فخر محسوس نہیں ہوتا تھا اُسے تکلیف ہوتی تھی وہ اُنہیں جواب نہیں دیتی لیکن سوال خدا سے کیا کرتی کے اب بھی بیٹا ہی عمدہٰ کیو؟

                                                                  ********************

رابعہ اور اُسکے امی کا دل اب آصف کی یادوں سے غافل ہو چکا  تھا یہ اللہ کی طرف سے انکی مدد تھی
بڑی خوشی سے وہ اپنے کام کیا کرتی خوش رہتی لیکن جب بھی اُسکے سامنے آصف کا نام لیا جاتا وہ اُداس ہوجاتی اُسے تکلیف ہوا کرتی تھی۔۔۔
وہ اپنے بھائی کی لاڈلی بہت تھی
اُسے اپنے بھائی سے محبت بہت تھی
لیکن جب سے اُسنے اپنی ما کے وجود میں بےبسی دیکھی تھی تبسے اُسّے نفرت کرنے لگی تھی
بے انتہا نفرت۔
       
" سنو رابعہ ذرا یہاں آؤ میرے پاس " زہرہ بیگم نے اسے پکارا تو وہ اپنے ہاتھ میں لیا کام چھوڑکر فوراً انکے طرف گئی اور جاکر انکی گود میں سیر رکھکر لیٹ گئی

" میں جو کہے رہی ہو نا اطمینان سے سنو " زہرہ بیگم اُسکے بالو میں ہاتھ پھیرتے کہنے لگی

" ہم م م "

" بس بچا کتنا کام کرتی ہو آج رہنے دو یہ سلائی " اُنہونے گلا صاف کرتے ہوئے کہا

" کیوں امی ، کل یہ سارے کپڑے دینے ہے مجھے " اُسنے حیرانگی سے کہا

" رابعہ دوپہر میں کچھ مہمان آنے والے ہے اور ۔۔۔۔۔۔ " رابعہ نے جھٹ سے انکی گود سے سیر اٹھایا اور انکی بات کنٹتے ہوئے کہنے لگی " مہمان؟؟؟ کوئی ضرورت نہیں امی اور کتنے لوگوں سے آپ اپنی غربت کا مذاق اُڑوانہ چاہتی ہے بس بہت ہوا اب میں آپکو کیسی کے سامنے بےبس نہیں ہونے دینگے "

" میری جان یو معاملے اللہ کی طرف سے ہوتے ہے ہم انکار نہیں کر سکتے "

" رہنے دے امی ، اللہ کب چاہتا ہے کے اُسکے بندے خود ایک دوسرے کو رسوا کرے ، وہ کب چاہتا ہے کے جن باتوں پے اُسنے  منہ فرمایا اُسکے بندے وہ ہی کانوں توڑے "  رابعہ کی آواز نرم لیکن لہجہ خاصہ سخت تھا
میرے رب بلکل یہ نہیں چاہتا امی کے ایک معمولی سے لفظ ' جہیز ' کو لوگ خوش اخلاقی اور دینداری پے ترجیح دے ۔۔۔۔اُسنے کب فرمایا کے دیں لین سے کسی کی اوقات کا فیصلہ کیا جائے "

زہرہ بیگم خاموش تھی اُنہیں  ربیعہ سے ایسے ہی جواب کی تواقو تھی  اور یہی وجہ تھی جو وہ بات کرنے سے کترا رہی تھی
ابتک کتنے ہی رشتے آئے تھی اُسکے لیے لیکن بس اس بنا پر انکار کرگئے کے۔۔۔۔ باپ بھی نہیں ہے بھائی بھی نہیں ہے انکے لیے تو خود اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہوتا ہونگا وہ ہمارے باراتیو کو کیا  خلائینگے ہمیں کیا خاک جہیز دینگے

" یہ زمانے کی ریت ہے بیٹی ، کیسکو سارے زمانے کی نعمتیں میسر ہو اور کیسکو دو وقت کھانا تک مشکل سے حاصل ہو جہیز تو دینا ہی ہوتا ہے ۔۔۔ما باپ بےبس ہوجاتے ہیں اور یہ قدم اٹھانا ہی پڑھتا ہے آخر بیٹیوں کو ساری عمر تو اپنے گھر نہیں رکھ سکتے نا ، انکی رکستی تو تے ہے " زہرہ بیگم نے اسے سمجھوتہ پرآمادہ کرنا چاہا تھا

" اگر فقیروں کے ہاتھوں رخصت کرنا ہے تو نہ کرے امی میںنے نہیں جانا ایسے لوگو کے یہاں جو اورو سے مانگنے میں اپنی شان سمجھتے ہو " اُسکے آنکھوں میں نمی در آئی تھی

اُسنے بچپن سے کیا کچھ نہیں سہ تھا ۔۔۔۔ بچپن کیسا اُسکے دنیا میں آمد کو  محض تین مہینے ہوئے تھے کے اُسکے سیر سے باپ کا سایہ چھین گیا وہ تو جان بھی نہ پائی کے باپ کیا ہستی ہے سارا بچپن اُسنے باپ کی شفقت کے بغیر گزا ما کی پریشانیوں کو تکلفی کو اذیتوں کو محسوس کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔جب سمجھدار ہوئی تو بھائی کی بپانه محبت لاڈ دلار سے دل کو بحال کرنے لگی لیکن جس لمحے لگا کے سب بہتر ہوا پریشانیاں مصیبت ختم ہوگئی اُسکے اگلے ہی لمحے سب بکھر گیا سب کچھ۔۔۔۔۔
لڑکپن کی تکلیفِ اتنی محسوس نہیں ہوئی جتنی جوانی میں ایک سمجھدار ربیعہ نے  محسوس کی ۔۔۔ زندگی  پھر سے کہیں سال پیچھے چلی گئی جہاں سب کچھ بکھر ہوا تھا خواب تباہ ہوگئی تھی جہاں بہت کڑی آزمائش دی تھی پھر ویسے ہی آزمائش نے دستک دی ساری خوشیاں لے اُڑی سارا سکون تحس نحس کر دیا ساری راحتِ بیچینیوں میں تبدیل ہوگئی
پچھلے سارے طوفانوں سے بچ نکلنے کے بعد ایک بار پھر اُسکے زندگی کی کشتی گوتے کھانے لگی  ایک بار پھر اللہ نے اسے پسند فرمایا اور اُسنے خوشی سے قبول کر کیا
آزمائش میں صبر سے بنے رہنا اُسنے سیکھ لیا تھا اور وہ اب یہی کر رہی تھی

"میری جان کیا تمہیں مجھپے یقین نہیں ہے، کیا تمہیں اپنی دعاؤں پر بھی یقین نہیں ہے " زہرہ بیگم اُسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کہنے لگی

" استغفراللہ، ایسا نہیں ہے امی ، مجھے اپنی ہر دعا پے یقین ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہی کے اللہ میرے بڑھو سے میرے لیے بہتر فیصلہ کروائینگا

" تو جب اللہ نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایا دیا ہے ، اچھے مردوں کے لیے اچھی عورتیں ہے اور اچھی عورتوں کے لئے اچھے مرد ۔ ۔۔۔۔پھر اتنے سارے سوال اتنے وسوسے کیو ؟" زہرہ بیگم نے ناراضگی سے کہا

" مجھے ایسے لوگو سے چڑھ آتی ہے جو شادی کے نام پر اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے سہارا ، گھر کے ضروریاتی سامان مانگنے نکلتے ہے ایسے لوگو کو خدا کا خوف نہیں ہوتا امی مجھے ڈر لگتا ہے ایسے لوگو سے۔۔۔۔بار بار ایسے کمزرف لوگو کے سامنے آپ میرا صبر نا آزمایا کرے " اُسکی آواز میں سارے جہاں کی تھکان تھی ...ربیعہ کی شادی کی عمر ہوچکی تھی مگر جہیز کی حیثیت نا رکھنے کی وجہ  اُسکے شادی میں رکاوٹ آرہی تھی اکثر رشتے اسیں بات پر ٹوٹ جاتے۔۔۔اُسکے ان اذیتوں کو اسکی ما بخوبی سمجھ سکتی تھی لیکن وہ ما تھی اُنہیں یہ فرض ادا کرنا تھا اُسکے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی ۔

" اللہ بہتر کرے " اُنہونے ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی
زہرہ بیگم نے آج کے لیے اُسکے بات مان لی تھی لیکن معاشرے کی حقیقت سے واقف تھی وہ جانتی تھی کے لوگ  طرح طرح کی باتے بنائیگے اُنہیں اور انکی بیٹی کو تنقید کریگ یہی خوف اُنہیں ہر وقت ستائے جاتا تھا ۔۔وہ ہمیشہ رب سے آسانی کی دعا کرتی اور اس امتحان کے ختم ہوجانے کی بھی

لیکن ربیعہ ان ساری فقروں سے لاپرواہ تھی جب بندہ اپنی ساری فقر اپنا سارا غم اللہ کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ بفکر ہوجاتا ہے ۔۔۔۔اُسے کیسی کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوكي اسکا غرور اللہ ربل عزت کی ذات ہوتی ہے
جنکا غرور  رب کی ذات ہو اُنہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے کبھی ہارنے نہیں دیگا
...............جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top