اللہ انہیں آزماتا ہے جنہیں وہ اپنے قریب لانا چاہتا ہے
پہلی قسط
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اسے دنیا میں آئے محض تین مہینے ہوئے تھے جب اسک بابا کا انتقال ہوگیا
اسکی امی زہرہ بیگم جو کی سید گھرانے سے تھی اور سید گھرانے میں ہی انکا نکاح ہوا تھا
کہتے ہے سید اللہ کو بڑے عاجز ہوتے ہیں ۔۔اور جو اللہ کو عاجز ہوا اُسکا امتحان بھی طے ہی ۔
" امتحان ہر اس بندے کو دینا طے ہے جو ربِ کعبہ سے محبت کرتا ہوں اور جو اسکو پسند آجائے ،
اور آزمائش کی گھڑی میں کبھی بھی کفرانا ذہنیت سے یہ نہیں سوچا جاتا کے میں ہی کیو ۔۔۔کیا ہمارے لیے یہ کافی نہیں کے ہمراہ رب ہمیں پسند کرتا ہے "
حالانکہ شادی کے بعد انکے حالات اتنے پختا نہیں تھے لیکن زہرہ بیگم عزتدار اور نیک صالح بیٹی، اپنے بڑوں کی خوشی میں ہی خوش ،
یہی صلاحیتیں رابعہ کو اپنی امی سے وراثت میں ملی تھی ۔
زہرہ بیگم کا تعلق کافی امیر گھرانے سے تھا لیکی شوہر سے بچھڑنے کا غم اُنھیں دنیا میں سبسے غریب کر گیا تھا
" آخر شوہر اپنی بیوی کا سرمایا جو ہوتا ہے "
مسٹر سید اپنے پیچھے ایک چھوٹا سا مکان اور تین بچے چھوڑ گئے تھے، جو زہرہ بیگم کے لیے انکی دنیا اور دولت تھے وہ بڑے ہی صبر سے انکی ما - باپ دونوں بنی ۔
رابعہ کے مامو نے بھی ہر ممکن مدد کی جو بن سکا وہ اپنی بہن اور انکے بچوں کے لیے کیا ۔
لیکن کچھ گھریلو وجوہات کی وجہ سے وہ انکی اتنی مدد نہیں کر پاتے جتنی وہ چاہتے ۔
اور پھر اب اگر کچھ رہتا تو محض اتنا
مشکل حالات اکیلی بصحارا عورت اور صبر کا ساتھ ۔
اللہُ اکبر
( اللہ بہت بڑا ہے )
رابعہ کو محض اب ممتا کا ہی سہارا تھا اس سمجھ آتی اسے پہلے ہی باپ کا سایہ اسک سیر سے آٹھ چکا تھا ،
زہرہ بیگم نے بڑے ہی سلکھے سے اپنی دونوں بیٹیاں اور ایک بیٹے کی پرورش کی تھی ، خاص طور پر اپنی دونوں بیٹیوں کی دین کی تعلیم انکی اوّل ترین ترجیح تھی ۔
اُنکا ماننا تھا کہ
" لڑکی جبتک دل سے دین میں دلچسپی نہیں لیتی تب تک وہ اپنی عزت اور آبرو کی قیمت نہیں جان سکتی، کے کیس قدر وہ عزت سے نوازی ہوئی ہے اور اپنی ذات اور آبرو کیس قدر اسک لیے اہم ہے "
انھونے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو یہی سکھایا تھا
" عورت کی سّبسے بڑی" عبادت " اپنی عزت کی " حفاظت" کرنا ہے "
یہ قرب زہرہ بیگم ہی جاں سکتی تھی کے ایک تنہا عورت کا بنا کسی سہارے اپنے بچوں کو پالنا کتنا مشکل ترین تھا
( قولِ حضرت علی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ) ہے کہ " دشمنوں کے درمیان ایسی رہی جیسے ایک زبان بتیس دانتوں کے درمیان رہتی ہے ، ملتی سبس ہے لیکن دبتی کسی سے نہیں "
بس اسی طرح زہرہ بیگم خودکو اپنے بچوں کی ڈھال بنائے ہوئے تھی ، یہ ظلم معاشرہ بھی بعض وقت کسی دشمن سے کم نہیں ہوتا جنکے طاقتور سہارے ہوتے ہے یو تو اُنھیں بھی ہلکان کرنے سے باز نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top