....
بارہویں قیسط
" کیا ہوا ہے الی ؟ ۔۔، بابا کو نہیں بتاؤگے " روحیل نے اسے اپنی گود میں بیٹھتے ہوئے کہا لیکن اب بھی وہی حال الی اسکی گود سے اترکر دورجاکر بیٹھ گیا
" اچھا ٹھیک ہے مت بات کرو ۔۔۔لیکن اتنا تو بتا دو ہوا کیا ہے ، اپنی امی سے کیسا غصّہ بھلا ؟" سب لوگ اس کمرے میں اکٹھا تھے اور الی کی ناراضگی کی وجہ جاننے کے لیے پریشان تھے
" نہیں کرنی مجھے انسے بات " اُسنے رابعہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا " یہ مجھے چھوڑکر جا رہی ہے نہ ۔۔۔، اور ان سب لوگوں سے بھی بات نہیں کریگا یہ میری امی کو مُجھسے دور لے جا رہے ہیں " الی نے ایک ہی سانس میں بنا روکے اپنی ناراضگی کی وجہ بات ڈالی
اسکے یہ معصوم سے غصے کی وجہ جانکر سب ہنس پڑھے ۔۔۔ اور رابعہ نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا
" مجھے کوئی تمسے دور نہیں کر رہا ۔۔۔۔یہ رسم ہے میں جلد ہی واپس آجاوگی اور اگر تمہاری اسکول کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں تمہیں بھی ساتھ لے جاتی "
جتنی جلدی اسے غصّہ آیا تھا اتنی ہی جلدی سمجھ بھی آگیا ۔۔۔۔اور وہ مسکراتا ہوا سب سے ملا
زہرا بیگم کو اسکی رابعہ کے لیے محبّت دیکھکر بڑی خوشی ہوئ وہ موجود سب لوگ بھی اندونو کو دیکھکر بےحد خوش ہوئے ۔۔۔، روحیل بھی اب اطمینان میں تھا
کیسی کے لیے بھی اتنا آسان نہیں ہوتا کے وہ دوسرے کی اولاد کو اپنے وجود کا حصہ سمجھے ۔۔۔،
یہ تو صرف اللہ کے خاص دوست ہی کر سکتے ہیں اور انہی میں سے ایک رابعہ تھی
" اچھا بھی الی ختم ہوئی نہ اب تمہاری کہانی " شیفا کے کہتے ہی الی زور سے سیر کو خم دینے لگا ۔۔۔۔سابقے چہرے پے مسکان در آئی حسی اور شعر و گل کے ساتھ ایک بار دیر ماحول خوشنما ہوگیا
*************
" روک جاؤ یار ۔۔۔کہا بھائی جا رہی ہو " الی اسکی پیچھے دوڑتے ہوئے کہے رہا تھا
" دیکھیں نہ امی ۔۔۔ یہ رکھنے کا نام ہی نہیں لے رہی " رابعہ اور روحیل ایک ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے بچوں کی شرارتوں پے خوش ہو رہے تھے
" اچھا بیٹا اب دوڑکے دکھاؤ " الی نے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور شریر سے انداز میں کہا
وہ اپنے بھائی کو دیکھکر مسکرانے لگی
" بس کردو دونوں ۔۔۔ چلو چپ چپ بیٹھ جاؤ " رابعہ نے اُنہیں آواز دی " لو آگئے امی " الی بیٹھ گیا لیکن الیزہ وہی چکر کانٹے لگی
" بس کردو مار پڑےگی ورنہ " رابعہ نے اسے گھڑی دیتے ہوئے کہا تو وہ اپنے بھائی کی گود میں بیٹھ گئی اور الی اسی انتظار میں رہتا کے اسے کب اپنی بہن سے لاڈ جتانے کا موقع ملے
" آپ رہنے دی امی ۔۔۔۔میں اسے دیکھ لگا "
" ہم۔۔م۔۔م۔۔۔ یہ بھی صحیح ہے " رابعہ اور روحیل ہستی ہوئے کہنے لگے
الی کی جان بستی تھی اپنی بہن میں ۔۔، اسکا نام بھی اُسینے رکھا تھا ۔۔۔۔ " الیزه " اپنے نام سا
ایک لفظ ہے " محبّت " جو اگر ہوجائے تو بس ہو ہی جاتی ہے ۔۔۔۔ اسے اپنی امی سے ہوگئی تھی اور اب اپنی بہن سے
ایسی محبتے سچے ریشے اور سچی وفا کا درس ہوتی ہے جنکی لیے انہی دنیاوی ناموں کی ضرورت نہیں ہوتی
" سگا " یہ " سوتیلا "
ان کڑوے لقب کے معائنے ہی بدل کر رکھ دیئے تھے الی اور رابعہ نے جس سچائی اور خلوص سے بھری محبت رابعہ نے الی سے کی تھی بلکل ویسے ہی محبّت الی اليزہ سے کرتے تھا
مثالی محبّت!
*************
جبتک نیک دل کا ساتھ نہ ملے یتیمی بھی ایک لا_دوا مرض ہے
چھوٹا الی اب بڑا ہوچکا تھا اور اليزه کا بہت خیال رکھتا تھا اس سب سے رابطہ اور روحیل کو بڑی خوشی محسوس ہوتی
شیفا کو بھی اپنے انتخاب پر فخر تھا
زہرا بیگم کو بھی اپنے فیصلے پر خوشی تھی
رابعہ نے بھی الی کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اور نہیں الی نے رابعہ کو سوتیلی ماں سمجھا
رابعہ کے دل سے ہر لمحہ اسکی شفقتوں اور محبتوں کے لیے دعائیں نکلتی
ایک ہی ذات کے دو پہلو سے کبھی وہ حیران رہے جاتی
ایک آصف تھا جو اپنی ماں کی مشکلات کو جانتے ہوئے بھی ایک عورت کی خاطر ماں کی نافرمانی کر بیٹھا تھا، جبکہ اسکا خون کا رشتا تھا تھا
اور ایک الی تھا جیسکا محض نام کا رشتا تھا جو پرورش سے جوڑا تھا اُسی محبّت کے خاطر وہ اپنی ماں سے بےپناہ وفا کر رہا تھا
اسے جب بھی اپنے بھائی کا گم ہوتا وہ الی کی وفا اور قدر یاد کرتی
زہرا بیگم بھی الی سے بہت متاثر تھی
ایک بیٹا آصف تھا
اور ایک الی
اللہ کے ہی دو بندے اتنی مختلف
مرد کے روپ میں ایک کردار انھونے آصف کا دیکھا تھا " بھیس ، لاپرواہ "
اور ایک الی کا " حسّاس ، وفادار "
****************
بہت خوبصورت تھا رابعہ کا چھوٹا سا جہاں ،
پہلے کی طرح یہاں بھی رابعہ نے عربی کے کلاسز شروع کیے تھے کافی بچوں کے وہ قرآن مکمل کروا چکی تھی اور کافی ایسے لوگو کے بھی جو دین سے بہت دور تھے
اب اسکی ساری دعائیں صبر سے پوری ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
صبر آدھا ایمان ہے قرآن کریم میں ۸۰ مقامات پر اسکا ذکر کیا گیا ہے اور اسکی خلاف ورزی سے منع کیا گیا ہے ، کہیں یہ فرمایا گیا ہے کے یہ جنّت میں داخل ہونے کا سبب ہے
لیکن صبر کرنے کے لیے صبر کا ہونا ضروری ہے
صبر کرنے میں اور صبر آنے میں بہت فرق ہے ، صبر کرتے کرتے انسان مضبوط ہوجاتا ہے اور صبر آتے آتے انسان خاموش ہوجاتا ہے
اور خاموشی مکمل صبر کا آغاز ہے
یہ سب باتے رابعہ نے اَپنی امی سے سیکھی تھی اور ان پر عمل بھی کیا تھا
خاموشی کو اپنا کر صبر کا دامن تھامے ہوئے رابعہ ہر مشکل سے لڑی تھی
یتیمی ، غربت ، فکاکشی ، رسوائی ، اور نہ جانے کیا کچھ
اُسنے صبر کیا تھا کیوكي زہرا بیگم نے اسے سکھایا تھا کے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اور یہ بھی کے ۔۔۔۔۔
اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ صبر کے راستے آسان ہونگے
مشکلوں سے لڑکر ہی منزل تک پہنچا جاتا ہے اور مومن کا اپنی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کا ہتھیار " صبر اور دعا ہے "
حضرت عمر فاروق فرماتے ہے " اگر تم پر سال بھر میں کو مشکل نہ آئے تو تم اپنے ایمان پر شق کرو "
بیشک آزمایا وہی جاتا ہے جو اللہ کو پسند ہو
۔۔۔۔۔۔۔
صبر و شکر سے ربیعہ کو اب ہر چیز حاصل تھی۔۔۔
ہر خوشی ، خوشحالی ، آبادی، محبّت ، وفا ہر نعمت اب اسکے حصے میں تھی
دولتِ صبر
بیشک صبر آسان نہیں ہے لیکن صبر سے آسانی ضرور ہے !
******اختتام******
صبر کریں شکر کریں ۔۔۔، دعا کریں دعا دے
طالبِ دعا 🙏
آفرین انور
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top