......

گیارہویں  قیسط

سرخ سادہ لباس
سیر پے ڈوپٹہ سلیقے سے اوڑھے ہوئے
اپنی اُسی صبر والی مسکان چہرے پے سزائے رابعہ  سادگی میں بھی بڑی حسین لگ رہی تھی

روہیل تھا تو بہت دلچسپ کردار سادگی پسند
سفید  کرتا  دولہے کی شان کو دوگنا کیے ہوئے تھا
اور وہ مزید رُعب بند لگ رہا تھا

اس موقہ پر شیفا بھی بےحد خوش تھی اور مطمئن بھی اُسی اپنے بھائی کے بکھرے وجود کو سمیٹتے اور الی کو محبت کا سہارا دینے کے لیے جیسی شکسیت کی تلاش تھی وہ میل چکی تھی

چند لوگو کے درمیان مولوی صاحب کی خیر و نیت کی تقریر کے ساتھ نکاح مکمل ہوا
قبول ہے کی مدھم سنک فضا میں گونجی اور ان دو دلو سے زیادہ خوش کسی اور کا دل ہوا تھا وہ تھا معصوم الی کا

رابعہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھی اسکے ارد گرد کافی عورتیں تھی الی بھی وہی رابعہ کے قریب موجود تھا شازیہ اور زہرا بیگم بھی مہمانوں سے فارغ ہوکر اس محفِل میں شامل ہوئے
اپنی ماں کو  قریب پاکر رابعہ فوراً کرسی سے اٹھی اور انکے گلے لگ کر رونے لگی آج زہرا بیگم بھی اُسی چپ ہونے کا کوئی حوالہ دینے سے رہی وہ خود بھی زار و قطار رو رہی تھی
شازیہ بھی اپنی بہن سے ملی اور دونوں کو بھی سنبھالا

" آپ میری فکر نہ کرے خلا ۔۔۔یہ میری بہنوں کی طرح ہے اگر آپ اس قدر روئیگی تو مجھے برا لگےگا ۔۔۔، ہم کوئی پرائے تو نہیں " شیفا رابعہ کے آنسو پونچتی ہوئی کہے رہی تھی

زہرا بیگم نے اپنا ہوش بحال کیا اور رابعہ کے سیر پے شفقت سے ہاتھ رکھا "  رابعہ کی آنکھیں بے باک ہوکر بہنے لگی
انکی تمام ہدایتوں پے رابعہ ہاں میں سیر ہلا رہی تھی اور ہر ایک بات اپنے دل کی کتاب میں مدِ پر لے رہی تھی انھونے اسکا ماتھا چُما ، عاکا ڈوپٹہ صحیح کرتے ہوئے اپنے جیگر پارے کی خود سے دور کیا

شازیہ بھی اپنی بہن سے ملی تھی نم آنکھیں لیے اُسنے بھی ہدایت دی تھی تبھی اسکا خیال اچانک الی کی طرف گیا جو رابعہ کا دوپٹے کا ایک کونا تھامے کھڑا تھا " اللہ نے پھر تمہیں اپنی دوستی کے قابل چونا ہے ۔۔۔یہ آسان نہیں ہونگی لیکن تم صبر اور برداشت سے کام لینا " رابعہ نے الی کی طرح دیکھا اور ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی تبھی شیفا نے اسکی طرف نقاب بڑھایا اور زہرا بیگم سے اجازت طلب کی

دھبرائے ہوئے انداز میں ۔۔نذرِ جھکائے ہوئے ۔۔۔اپنی امی اور بہن کی نصیحتوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ۔۔نم آنکھوں کے ساتھ ۔۔۔زہرا بیگم کی جان اب کیسی اور کے گھر کی شاں ہونے چلی تھی !
روحیل کی ہمسفر ۔۔۔ ہمدرد
اور الی کا خوشیوں کا آسمان!

                                                                                *************

وہ اپنے عالیشان سے گھر کا معائنہ کرتے ہوئے دل ہی دل میں ربِّ رحیم کا شکر ادا کر رہی تھی ، سوچ رہی تھی کے اس گھر کا محض ایک کمرہ ہی ہمارے پورے گھر کے برابر ہے یہاں سب کچھ کتنا خوبصورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
محل تو نہیں تھا روحیل کا گھر لیکن شکر کی دولت سے نوازے ہوئے رابعہ کے گھر کے مقابلے میں بےحد خوبصورت اور وسیع تھا 
اور اسکی محبّت رابعہ کے تھک سے گئے وجود کے لیے ایک روشنی سی تھی ۔۔۔ اسکی برسوں کی آزمائشوں کی تھکان اب پرسکون راحت میں تبدیل ہونے لگی تھی

" رابی ؟" ۔۔۔۔۔۔۔
رابعہ انہی سوچو میں گم تھی کے روحیل کی آواز نے اسکا دھیان کھینچا وہ سیڑھیوں سے نیچے آرہا تھا رابعہ مسکراتے ہوئے اُس جانب دیکھنے لگی

" تم تو یہ آرام سے بیٹی ہو۔۔۔۔ساری تیاریاں مکمل ہوگئی؟"

" جی " رابعہ خوشی سے ہاں میں سیر ہلانے لگی

تبھی مہمانوں کا آغاز ہوا شیفا بھی وہ موجود تھی سب نے۔ گرمجوشی سے اُنکا استقبال کیا رابعہ فوراً اپنی امی کے گلے لگی انھونے نے بھی اسے خوب پیار کیا

" الی کہا ہے ؟" کچھ شانے بیت تے ہی زہرا بیگم نے سوال کیا ۔۔۔ روحیل جواب دینے ہی لگا تھا کے رابعہ کہنے لگی " وہ اوپر کھیل رہا ہے ، میں ابھی بولا لاتی ہو " اپنے ہونٹوں پے ہلکی سی مسکان سزائے وہ اوپر کی طرف بڑھ گئی

" الی ؟ الی ، کہا ہو "
الی نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ مح پھر لیا اور ہاتھ میں موجود کھلونے بھی پھینک دیے "
اسکا یہ اچناک غصہ اور بدلاؤ دیکھکر رابعہ ساکت رہے گی

" الی ۔۔۔۔ میری جان ، چلو نیچے نانی آئے ہیں تمہارے "
رابعہ بھی اسکے قریب بیٹھ گی
اُسنے ایک نظر رابعہ کی طرف دیکھا اور وہ سے دوڑتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
وہ حیران کن اُسی دیکھکر رہے گی ۔۔۔۔ وہ سے بےحد محبت کرتا تھا ایسا برتاؤ اُسنے کبھی نہیں کیا تھا لیکن آج ۔۔۔۔آج نجانے کیا ہوا  جو الی رابعہ سے یوں روٹھ گیا تھا
وہ پریشانی میں گم نیچے کی طرف آنے لگی تبھی روحیل اسے سیڑھیوں پے نظر آیا

" کیا ہوا رابی ؟ تم دونوں کہا رہے گئے تھے ؟

" جی وہ ۔۔۔الی ..."

" ہاں رابی ۔۔۔۔ کہا ہے الی " اُسنے ارد گرد نذرِ دوڑاتے ہوئے کہا

" مینے تو کچھ بھی نہیں کیا " رابعہ ہچکچاتے ہوئے کہنے لگی ۔ ۔۔۔اسے لگا روحیل اسے ناراض ہوجائےگا

" کیا ہوا ہے رابی ۔۔۔۔۔ گھبرا کیو رہی ہو " روحیل کے نرم انداز پر رابعہ نے سب اسے بیٹا دیا   ۔۔۔
وہ خود بھی حیران تھا کیونکہ الی اب اسے زیادہ رابعہ کے قریب تھا

" اچھا تم نیچے جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔ الی کا پوچھے تو کہے دینا میرے ساتھ ہے " اُسنے سمجھتے ہوئے کہا

" یہ سب کیا ہے رابعہ ؟ کیا الی تم سے بات نہیں کرتا ؟ وہ تو ہم سے بھی بات نہیں کر رہا سامنے تک نہیں آتا ۔۔۔۔ ایسا کیا ہوا ہے ؟
بہت کم وقت میں سارا مذرا زہرا بیگم کی سمجھ میں آگیا تھا
" کیا تم نے اسے اپنایا نہیں ؟" اس سوال پر رابعہ کے دل کو لگی تھی وہ چپ سی ہوگئی ۔۔۔نہ جانے الی کو کیا ہوا تھا ۔۔۔ وہ کیا کہتی الی کا جو رؤیا تھا وہ تو یہی ظاہر کرتا تھا ۔۔۔۔پھر اسکی صفائیاں کیا معائنہ رکھتی بھلا ۔

******** جاری ہے *********

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top