.....

نووی قیسط

" رابعہ تم تیار ہوگئی بیٹا ؟" زہرا بیگم نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا

" جی امی " وہ سیر پر دوپٹہ لیتے ہوئے مڑی۔۔۔۔تیار کیا ہونا تھا سير پے دوپٹہ لینے بھر سے ہی ساری تیاریاں مقمّل لگتی ہے

"ماشاءاللہ،،میری پیاری بیٹی " زہرا بیگم نے اسکی بالائے لیتے ہوئے کہا

                                                                              **************

"السلام علیکم" داخل ہوتے ہی مہمانوں نے سلام کیا وہ مہمان زہرا بیگم کے دور کے رشتےدار تھے
ایک خوبرو نوجوان ، ایک شادی شدہ لڑکی اور انکے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا جسکی عمر تقریباً ۵-۶ سال تھی

"وعلیکم السلام" زہرا بیگم  نے بڑی گرم جوشی سے اُنکا استقبال کیا "
آئے بیٹھے اور سب خیریت سے شیفا ؟ " اُس لڑکی سے انونہے سوال کیا

"جی خلا شکر ہے اللہ کا " شفا نے مسکراتے ہوئے کہا

                                                                                  ************

رابعہ کیچن میں چائے ناشتے کا انتظام کر رہی تھی  ۔۔ ایسے تو وہ روزآنہ اپنے سلائی کے کام کے ساتھ ساتھ اپنی امی کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی کیچن کا کام اسے آسان لگتا تھا ۔۔لیکن آج نہ جانے کیا ہوا تھا اُسے سارے کام مشکل لگ رہے تھے
  اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا ،  زورو سے دھڑک رہا تھا ۔۔اُسے اسکی دھڑکنیں سنائی پڑھ رہی تھی
عجیب سی کیفیت تھی آج اسکی
اس قدر پہلے اُسنے کبھی محسوس نہیں کیا تھا
اُدھر سہن سے کچھ حسی گپو کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔۔

" یہ میرا بھائی ہے راحیل "  شیفا نے مسکراتے ہوئے اس نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا 

" جی مجھے یاد ہے "  کچھ سال پہلے کا واقع زہرا بیگم کے ذہن میں تازہ ہوا تھا

" اور میرا نام علی ہے " اُس چھوٹے بچّے کی آنکھوں میں ڈھیروں معصومیت تھی اور اسکے وجود کو جیسے کسی کی بےپناہ توّجہ اور محبت کی تلاش تھی ۔۔۔زہرا بیگم نے اسکی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا " بہت پیارا نام ہے "
علی اپنی چمکتی آنکھوں سے اُنہیں دیکھکر مسکرانے لگا تبھی راحیل نے اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا ۔۔۔۔  جیسے بہت لاڈ آیا ہو اُسپی

" خلا راحیل کے بارے میں تو آپکو پتہ ہے نہ " شیفا نے بڑی سنجیدگی سے سوال کیا

" ہم م , جانتی ہو بیٹا " زہرا بیگم نے ہمیشہ اللہ کی مصلحت کو سمجھنے کی اور اُسپے صبر اور شکر کرنے کی کوشش کی تھی اس بار بھی سب کچھ سوچ سمجھ کر ہی اُنہونے شیفا کو گھر آنے کی اجازت دی تھی ۔۔۔۔ہر بار کی طرح اس بار بھی  سب کچھ اللہ کی رضا پے چھوڑ دیا تھا
اسکی رضا میں راضی رہنے میں ہی ہماری بھلائی ہے ۔۔۔
ہم جو کچھ سوچلے جو کچھ کرلے نتیجہ وہی ہونگا جو وہ چاھےگا  اُسکی مرضی کے خلاف نہ انسان جا سکا تھا نہ جا سکتا ہے نہ جا سکے گا ۔۔۔۔
ہماری بھلائی اسی میں ہے کے ہم سبکچ اسکے سپرد کردے ۔

اس بار اُنہونے بہت بڑا فیصلہ کیا تھا بہت الگ جسکی خبر رابعہ کو بھی نہ تھی
بہت سی رکاوٹیں بہت سے اختلافات کے باوجود انھونے ے فیصلہ کر ہی لیا تھا ۔۔۔  جیسکا حامی اللہ تھا وہ ہی پاک ذات جس نے  اُنہیں ہر مشکل گھڑی میں سنبھالا تھا

" میں رابعہ کو لے آتی ہو " وہ خودکو سوچو سے بحال کرتے ہوئے کہنے لگی

۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسلام علیکم " جھکی نگاہوں کے ساتھ وہ سہن میں داخل ہوئی
سادہ سا لباس پہنے ، بلکل سدکی کے ساتھ سیر پے دوپٹہ لیے وہ اپنا کردار سزائے ہوئے تھی

"وعلیکم السلام" شیفا اور الی نے بڑی خوشی سے اسکا استقبال کیا
زہرا بیگم نے اُسے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دی شیفا کی نظرِ ہر طرح سے رابطہ کا جائزہ لے رہی تھی
اتنا سادہ مجاز ،
سلیقے سے سیر ڈھاکہ ہوا ،
دوپٹے کے ساز کے ساتھ ،
ظاہر میں اتنی سادگی ایسی لڑکیاں بہت کم ہوتی ہے ۔۔۔۔اسکے دل نے کہا تھا
اس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھتی الی رابعہ کے پاس آکر پوچھنے لگا " آپکا نام کیا ہے؟"

اسکی نظر اُس ننھی سی آواز کی طرف اٹھی ، اُسنے الی کو دیکھا تو وہ اسکی معصومیت پر فدا ہوگئی اُسنے مسکراتے ہوئے مدھم سی آواز میں کہا " رابعہ

" میرا نام الی ہے " رابعہ پھر مسکرائے اور  بس  پھر شیفا نے کچھ پوچھا ہی نہیں اسے رابعہ کے ظاہر سے اسکے کردار کا اندازہ ہوگیا تھا ، اور ادب اور لہجے سے اسکے باتیں کا ۔

۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top