قسط 5

اس کی پراڈو آکے آفس کے باھر رکی اس کا غصہ اب بھی برقرار تھا پر آفس بھی تو جانا تھا اس نے ورنہ تو اس کا زرا بھی موڈ نہ تھا آفس جانے کا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس کے اندر گھس گیا اس کی چال میں ایک روب تھا ایک ٹھراو تھا اس کی مغرور ناک اور زیادہ کھڑی لگ رہی تھی وہ قدم قدم چلتا ہوا ہر ایک کو چیک بھی کر رہا تھا اور سب کو سلام کا جواب بھی دے رہا تھا..

زیشان صاحب آپ میری آفس میں آئیں... وہ یہ کھ تا اندر چلا گیا...
زیشان ایک کم عمر لڑکا تھا آبان شاہ سب کام اسی کو ہی کہتا تھا..

مے آئے کم ان... "زیشان دروازے پہ کہڑے ہوتے ہوئے بولا"

جی زیشان صاحب آجائیں... آبان شاہ کی نظریں ہنوز لیپ ٹاپ پہ تھی اس نے مصروف انداز میں کہا..

سر مسٹر رفیق آپ سے ملنا چاہتے ہیں کیا کل کی آپائنٹ منٹ دے دوں... اس نے بھیٹھ تے ہوئے کہا..

ہوں دے دو پر یہاں آفس میں نہیں کہیں باھر ریسٹورنٹ میں بکنگ کروا دو ہماری... آبان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا..

سر یہاں کیو نہیں..

کیو کی میں کل آفس نہیں آونگا اور ریسٹورنٹ میرے گھر کے قریب ہی پڑتا ہے اسی لیے وہاں سے میں سیدھا گھر چلا جاونگا.. آبان نے تفصیل سے بات بتائی..

اچھا اوکے سر جیسے آپ ٹھیک سمجھیں... وہ کہتا ہوا اس کو دوسری فائلس کا بتانے لگا..

🖤🖤🖤
"حنین حنین حنین رک جاو۔۔۔۔"
رمیشہ کب سے بھاگ دوڑ کر رہی تھی پر حنین مجال ہے جو کوئی کام ڈھنگ سے کردے۔
"پکڑ سکتی ہو تو پکڑ کے دکھاو۔۔" حنین نے بھاگتے ہوئے کہا۔
حنین اچانک کسی سے ٹکرا گئی اور فورا اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"اللہ میں گرگئی" حنین نے چیختے ہوئے کہا۔
وہ جو حنین کو یک ٹک دیکھ رہا تھا اسکے چیخنے پر چونک گیا
"دیکھو تم گری نہیں ہو۔ میں نے تم کو بچا لیا۔۔" حنین نے فورا اپنی انکھیں کھولی اور اپنا ہاتھ چھڑایا۔
"آپ۔۔۔ میں سمجھی آبان بھائی ہیں" حنین نے کنفیوز ہوتے ہوئے کہا۔
"نہیں نہیں۔۔ میں ہی تھا۔ ویسے تم اتنا کیوں بھاگ رہی ہو؟ دماغ کے دو پیج ڈھیلے ہیں کیا؟" اعزاز نے شرارت سے کہا۔
"ہاہ۔۔۔ آپ ایسے کیسے بول سکتے ہیں؟ توبہ ہے۔ ایک تو مجھ سے ٹکرا گئے اوپر سے بڑے پھنے خان بن رہے ہیں" حنین نے فورا اپنی پوزیشن میں آتے ہوئے کہا۔
"پھنے خان۔۔؟ یہ کیا ہوتا ہے۔؟" اعزاز نے نا سمجھی سے کہا۔
"ہاہاہاہا اپکو اسکا مطلب نہیں پتہ؟ بچپن سے باہر رہے ہیں کیا۔" حنین کی کھکھلاہٹ پورے گھر میں گونجی۔
اعزاز اسکی ہنسی میں کھو سا گیا۔

ایک تیری ہنسی پہ میں اپنی جان دے دوں
ایک تیری ہنسی پہ میں اپنے آپ کو بھول جاوں
ایک تیری ہنسی پہ میں اپنا آپ وار دوں
ایک تیری ہنسی پہ اپنی ساری خوشیاں
تیرے قدموں میں بچھادوں
بس ایک تیری ہنسی کے خاتر..

(کشف)

اعزاز کے دل نے بے اختیار پڑھا اور دلفریب مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔
"کیا ہوگیا ہے آپکو؟ مسکرا کیوں رہے ہیں۔۔۔میں نے تو آپکا مزاق اڑایا ہے" حنین نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔
اعزاز کی مسکراہٹ فورا سے سمٹی۔
"ہاں تو تم پاگل کی باتوں پر مسکراؤں نا تو کیا منہ بناؤں؟" اعزاز نے شرارت سے کہا۔
"کیا۔۔۔۔۔؟ آپ نے مجھے پاگل کہا۔ آپ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپکو۔" حنین نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
اعزاز نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اور بولا۔
" نہیں میں نے تم کو نہیں بولا میں تو اپنے آپکو بول رہا تھا" اعزاز نے یہ بول کر اسکا غصہ کم کرنا چاہا۔
"آپ۔۔اپ سے بات ہی نہیں کرنی میں نے۔" حنین غصے سے پیر پٹختی چلی گئی۔
پیچھے اعزاز مسکرا کر رہ گیا۔
🖤🖤🖤
"بھائی۔۔۔۔" وہ جو اپنے روم میں جا رہا تھا حنین کے بلانے پر پلٹا۔
"کیا ہوا۔۔؟" ابان نے سنجیدگی سے کہا۔
"میں کیا بول رہی تھی۔۔ کل حورین کی خالا آرہی ہے اپنے اس انگریز بیٹے کا رشتہ لینے تو آپ بات کرلیں نا اس کے آنے سے پہلے ہی پھوپھو سے اور چچا سے" حنین نے ڈرتے ہوئے کہا مبعادہ وہ شوٹ ہی کردے۔

"مطلب کس کا رشتہ لینے آرہی ہے" آبان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا..

"افف اللہ کیا ہوگا آپ کا اس گھر میں ہی رھ تے ہیں نا کب سے کچر پکر ہورہی ہے سارے گھر اور آپ موصوف کو کچھ پتہ ہی نہیں" حنین نے اس کی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے کہا..

"جو بات ہے سیدھے سے کہو ورنہ میں جارہا ہوں" آبان اکتا کر کہتا رکا.. جب دو منٹ بعد بھی حنین موں پھلا کہ رکھ موڑے دوسری طرف دیکھ رہی تھی تو آبان اس کے سر پے چپت ماڑی..

"اب چپ کیو ہوگئ ہو کچھ کہو بھی"

"آپ جارہے تھے نہ پھر جائیں کھڑے کیو ہیں" حنین نے موں پھلا کہ کہا..آبان نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور ایک گھڑی سانس ہوا کہ اوپر سپرد کی.. حنین مسکراہٹ دبا کہ کن آنکھیوں سے اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی..

"اچھا اچھا بتاتی ہوں غصہ نہ ہوں میرے پیارے بھائ حنین نے کھکھلا کہ کہا"

"وہ نہ حورعین کی خالا اس کا رشتہ لینے آرہی ہے تب تک آپ بات کر لیں نا چاچا سے کہیں دیر نہ ہوجائے" حنین سرگوشی سے بات بتائی..

"آبان نے حیرانی سے اسے دیکھا"

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں سچ کھ رہی ہوں حنین نے آبان کو گھور تا پاکر کہا"

"میں کیو کچھ بھی کروں" آبان کو ایک منٹ لگا تھا اپنے آپ کو سمبھالنے میں

"ارے ابھی بھی نہیں مانینگے کہ آپ کو حور اچھی لگ تی ہے بلکہ محبت کرتے ہیں اس سے" حنین نے گھور کر اس کو دیکھا.

"تم میرےمعاملے سے دور رہو تو ہی بہتر ہے میں اپنے معاملات کو خود ہی اچھے سے ہینڈل کرنا جانتا ہوں۔" آبان نے اسکو گھور کر کہا
"میں تو بس ویسے ہی بول رہی تھی کیونکہ اسکا کزن ہے تو کیا پتہ وہ اپ سے پہلے ہی بازی لے جائے۔ اور اپکو تو پتہ ہے اسکا کزن ہے بھی امریکن " حنین نے لاپرواہی سے کہا اور جانے کے لیے قدم بڑھائے۔ لیکن اسکے چہرے پے شرارت ناچ رہی تھی کیونکہ اب اسکا کام تو ہوگیا تھا تو رکنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔
آبان کو حنین کی بات پر صدمہ ہوا اور سوچنے لگا کہ مجھے پہلے ہی بات کرلینی چاہیے۔۔
🖤🖤🖤
"پھوپھو۔۔۔۔۔پھوپھو۔۔۔" آبان نے چیختے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔۔ آرہی ہوں دو منٹ۔" زمر نے کچن میں ہاتھ دھوتے ہوئے کہا۔
"ہاں اب بتاو۔۔ کیا ہوا۔۔!" زمر نے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا
"مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے اپ میرے کمرے میں چلیں۔۔"
"چلو۔۔۔"
"مجھے حورین سے شادی کرنی ہے اپ ابو سے بات کریں۔۔۔۔۔! مجھے صرف نکاح کرنا ہے۔۔! رخصتی پڑھائی کے بعد۔۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہہں نا میری بات۔۔۔"
زمر چونک کر رہ گئی "مطلب دعائیں یوں بھی اتنی جلدی قبول ہوتی ہیں۔۔۔؟"
"کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟" زمر نے خوشی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
"جی پھوپھو۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔اپ سمجھ رہی ہیں نا میری بات۔؟" ابان نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا!
"میں ابھی بات کرتی ہوں بھائی سے۔ کاش تمہاری ماں بھی ہوتی تو کتنا خوش ہوتی۔۔۔" زمر نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔ "پر کوئی بات نہیں، میں بھی تمہاری ماں جیسی ہی ہوں! تمہارے لیے سب کچھ میں کرونگی۔" زمر نے جں ابان کو اداس ہوتے ہوئے دیکھا تو فورا سے کہا۔
"ہممم۔ فلحال کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ حورین آ جائے آپکے پورشن میں تو اپ پہلے اس سے بات کر لیں پھر ابو سے بات کریے گا کیا پتہ حورین راضی ہی نا ہو۔" ابان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"چپ کرو!۔! حورین کیوں راضی نہیں ہوگی۔؟ ایسی باتیں نا نکالو منہ سے آئی سمجھ۔۔؟" پھوپھو نے ڈپٹتے ہوئے کہا۔
"سہی ہے۔۔۔" ابان نے کندھے اچکائے۔

**
آج سنڈے تھا اور لاونج میں تقریبن سب ہی موجود تھے تبھی ہی ہاشم صاحب کی آواز گونجی۔ زمر اور آبان تم دونوں میرے کمرے میں آو"
"کیا کوئی بمب پھٹنے والا ہے۔۔؟" حنین نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
"چپ" حورین نے اسے گھورا۔
وہ چپ ہوگئی اور سوچنے لگی کہ کچھ نا کچھ ضرور ہوا ہے۔
زمر اور آبان فورا اٹھ کر چلے گئے۔
سب پھر سے اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے۔ پر حنین بی بی کے دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی۔ وہ فورا اٹھی۔۔
"کیا ہوا۔۔!؟" اریبہ نے پوچھا
"کچھ نہیں۔۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اوکے" حنین نے اسے گھورا
تو وہ منہ بناتی چپ ہوگئی اور حنین آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگی۔
**

برخوردار! کیا تم حورین کو خوشیاں دے سکو گے جسکی وہ مستحق ہے؟" ہاشم صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
"ہاں۔ میں اسکو ساری خوشیاں دونگا۔ آپ بس چچا سے بات کریے۔" آبان نے جلدی سے کہا۔
"میں آج ہی قاسم سے بات کرتا ہوں۔۔وہ مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ اتنا تو میں بھی جانتا ہوں۔" ہاشم صاحب نے سوچتے ہوئے کہا۔
"تھینک یو بابا۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔" آبان خوشی سے انکے گلے لگ گیا۔
زمر کی بھ آنکھیں نم ہوگئیں وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی انکا خواب جو پورا ہورہا تھا۔
"حنین آجاؤ۔۔۔" ہاشم صاحب نے آخرکار اسکو آواز دے کر بلایا۔
آبان جو خوشی سے ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا چونک اٹھا۔ اور سوچنے لگا حنین کہاں سے اگئی۔۔؟
زمر کا حال بھی ابان سے کم نہیں تھا۔
حنین جو ساری بات سن کے حورین کو خوشخبری دینے والی تھی کانپ اٹھی کہ انکو کیسے پتہ میں باہر ہوں۔۔۔
وہ آہستہ سے دروازہ کھول کے اندر ائی۔ زمر اور ابان ہکابکا رہ گئے۔
"وہ چچا میں نے کچھ نہیں سنا قسم سے۔۔۔" حنین نے جلدی سے کہا اور زبان دانتوں میں دبا ڈالی۔
"تم یہاں بھی باز نہیں آئی؟ اگر تم نے اس معاملے کی کسی کو بھی بھنک پڑنے دی نا تو میں تم کو جان سے مار دونگا۔" ابان نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے کہا۔
"چپ۔۔! یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا۔۔؟" ہاشم صاحب نے ابان کو ڈانٹا تو وہ چپ ہوگیا۔
"حنین آو میرے پاس۔" ہاشم نے اسکو نرمی سے بلایا۔
"چچا میں کسی کو نہیں بتاونگی پکا۔۔۔اپکے سفید بالوں کی قسم۔۔۔" حنین نے جلدی سے کہا۔
زمر کا بے اختیار قہقہہ نکلا ۔ ابان بھی نیچے منہ کیے ہنسنے لگا ہاشم اسکو گھور رہے تھے۔
"سوری۔۔۔" حنین کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا تو کان پکڑے۔
"بیٹا میں جانتا ہوں اپ حورین سے بہت فری ہو لیکن اپ اسکو ابھی یہ نا بتانا اسکی اماں اس سے یہ بات کرینگی۔ ٹھیک ہے؟" ہاشم نے نرمی سے اسکو کہا۔
"اوکے چچا!! آئی لو یو" حنین نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
"اور چچا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔" اس نے ابان کو دیکھتے ہوئے کہا!
"بولو بیٹا"
"اپ اپنے چہیتے بیٹے کو سمجھائیے۔ میں جب بھی حورین کو کوئی کام بولتی ہوں انکے مرچیں کیوں لگ جاتی ہیں۔۔؟ ابھی ایسا کر رہے ہیں تو شادی کے بعد تو شکل بھی دیکھنے نہیں دینگے۔۔" حنین نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
"برخوردار؟ کیا یہ سہی کہہ رہی ہے؟" ہاشم نے ابان کو گھورا۔
"وہ بابا۔۔ یہ سارے دن حوریے سے اس قدر کام لیتی ہے۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا حورین سے کوئی اتنے کام کروائے۔۔" آبان نے منہ بنا کر کہا۔
ہاشم مسکرا اٹھے۔
حنین بھی دم میں خوش ہونے لگی کی حورین کو اچھا ہمسفر ملنے والا ہے پر بظاہر اس نے منہ بنایا۔
"حنین۔۔۔۔" تبھی ہی حنین کی امی کی آواز ائی۔
"امی بلا رہی ہیں میں آکے بتاتی ہوں اپکو تو۔۔۔" حنین نے ابان کو گھور کر کہا اور بھاگ گئی۔
سب ہنس کر رہ گئے۔
یا اللہ حور اور آبان کا نصیب اچھا کرنا سب خیر و عافیت سے ہوجائے.. زمر نے دل سے دعا کی پر زمر کو کون بتاتا کہ شاید آج ان کی دعا قبول نہیں ہوئی تھی کیو کہ قسمت میں تو شاید کچھ اور ہی لکھا..
کیو کہ عموماً جو ہم سوچ تے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ بہتر سے بہترین ہوتا ہے کیو کہ ہم اس پاک زات کے بندے ہیں جو اپنے ہر بندے کے لیے بہتر سے بہترین سوچتا ہے..
***
**
اسلام علیکم میرے پیارے ریڈرس کیسے ہیں آپ سب امید کرتی ہوں خیریت سے ہونگے میں بھی الحمد اللہ بلکل ٹھیک ہوں سب سے پہلے قسط تاخیر دینے کے لیے معضرت کیو کی میں ان دنوں بہت ہی دکھی تھی کیو کی میرا انسٹا ہیک ہوچکا ہے سارے فالورس چلے گئے اب نیو آئیڈی بنائی ہے پر لکھنے کا بلکل بھی دل نہیں کر رہا تھا پر کچھ ریڈرس جو وٹ پیڈ پہ ہیں ان کے لیے مجھے قسط لکھنی پڑی اس کے لیے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں.. اور ایک بات کمینٹ میں بتائیں کہ آپ کو یہ قسط کیسی لگی کیا ہونے والا ہے آگے کیا آبان اور حور کی شادی ہو پائے گی یا ہوگا کچھ دوسرا کمینٹ میں اپنی رائے کا اظہار کریں امید کرتی ہوں آپ کو یہ قسط پسند آئے گی..

Stay connect on my insta page
Kashaf_writes110

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top