قسط 4
"کیا کام ہے بھائی؟" حنین نے پوچھا
"ایک کپ کافی بنا کے میرے روم میں بھیج دو" اعزاز کہہ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
"میں کیسے بناوں کافی؟ مجھے تو آتی ہی نہیں۔" حنین نے سوچا
"ارے ہاں! نیٹ پر سے دیکھتی ہوں." وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن کی طرف چل دی
پھر اس نے نیٹ سے کافی کہ ریسیپی دیکھی اور بنانے لگی اور بنا کے خود ہی اعزاز کے روم کی طرف بڑھ گئی
اس نے دروازہ ناک کیا
"آجائیے" اعزاز کی آواز آئی۔
اعزاز اسکو دیکھ کے اٹھ کھڑا ہوا۔
"ارے! تم کیوں لے کر آئیں؟کسی اور سے بول دیا ہوتا."
"ہاں! کوئی نظر نہیں آیا تو میں خود ہی لے آئی" حنین نے ڈرتے ہوئے کہا۔
حنین روم کے باہر ہی کھڑی تھی اعزاز نے آکر اس سے کافی لی تو وہ جلدی سے چلی گئی!
اعزاز نے جیسے ہی کافی پی اسکو کھانسی ہونا شروع ہوگئی تھی کیونکہ حنین بی بی نے اس میں چینی کی جگہ نمک ملایا تھا۔ اعزاز نے منہ بنا کے کافی کو دیکھا اور قہقہہ لگا کے ہنس پڑا۔
زمر جو اعزاز کے پاس ہی آرہی تھی اسکو ہنستا دیکھ کے وہیں رک گئیں
پھر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں!
"امی یہ دیکھیں کافی۔۔اسیشل حنین کے ہاتھ کی۔پی کر بتائیے کیسی ہے؟"
"اچھا کبھی بنائی تو نہین ہے اس نے۔ لاؤ دکھاؤ کیسی بنی ہے۔" زمر نے اسکے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے کہا۔
اعزاز انکو شرارت سے دیکھنے لگا۔
جیسے زمر نے سپ لیا انکو بھی کھانسی لگنا شروع ہوگئی اور غصے سے اعزاز کو گھورنے لگیں۔
"کیا ہوا؟ میں نے کیا کیا ہے؟ آپکی چہیتی نے ہی چینی کی جگہ نمک ڈال دیا ہے۔ بیچاری کو کچھ آتا جو نہیں۔"
پھوپھو بھی قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں اور بولیں۔
"اب ایسا بھی نا کہو۔ اسکو بہت کچھ آتا ہے پتہ نہیں یہ کافی ایسی کیوں بنائی ہے اس نے۔ آہستہ آہستہ سیکھ جائے گی"
"ہاہاہا پر نمک کون ڈالتا ہے کافی میں؟ میں تو اسکو ضرور بولونگا۔" اعزاز نے ہنستے ہوئے کہا۔
"پاگل نا بنو۔ تم بول کے پچھتاؤ گے۔ کیونکہ تم تو ایک بولوگے مگر آگے سے دس سننی پڑینگی۔" زمر نے ہنستے ہوئے کہا۔
"اچھا جی تو ایسی بات ہے" اعزاز نے معظوظ کن لہجے میں مسکرا کر کہا"
"ہان جی ایسی بات ہے پر ہمارے بیٹے کی چال ڈھال ٹھیک نہیں لگ رہی" زمر نے ذو معنی الفاظ میں کہا"
"تو ایسا ہی ہے چال بھی ٹھیک نہیں اور ڈھال بھی اعزاز نے ایک آنکھ دبائ"
اوہو جی تو ایسی بات ہے تو بتائیے بیٹا جی کیا ہوا ہے آپ کو کہیں کسی کو دل تو نہیں دے دیا.. زمر نے کا لہجا شرارت سے پڑ تھا" ایسی ہی تھی وہ اپنے بچوں سے دوستوں کی طرح رھنے والی ایسا لہجا اختیار کرتی تھی کہ ساری ینگ جنریشن سب باتیں اسی کو آکے بتادیتے کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکہ کر لیتے تھے زمر کسی کی بھی باتیں کسی سے شیعر نہیں کرتی تھی وہ بہت ہی ذھین تھی اتنا ذہین کوئ خاندان میں پیدا نہ ہوا تھا آج بھی جب وہ بولتی تو سب کے حوش اڑا دیتی تھی کہ کوئ عورت اتنی بھی ذھین ہوسکتی ہے وہ ہنستی بہت ہی کم تھی اور جب ہنستی تھی تو جیسے گھر میں بہار سی اتر آتی تھی"
ہاں دل تو دیا ہے میں نے کسی کو پر لڑکی نہیں ہے کوئ" اعزاز کی بات پہ زمر نے حیرانی سے اسے دیکھا ان کو شبہ ہوا کہ اعزاز پاگل ہوچکا ہے"
نہیں نہیں میں پاگل نہیں ہوا بس اپنا بزنس اسٹارٹ کرلیا ہے"اعزاز نے زمر کو دیکھ کہ خوشی سے کہا"
ماشااللہ خوش رہو تم اور ایسے ہی اور بھی آگے جاو زمر نے اس کے سر پہ بوسا دیا وہ بی اختیار خوش ہوں اٹھی تھی"
جی بس اب دعا کریں کہ میں جو کرنا چاھ رہا ہوں وہ سھی سے ہوجائے کوئ اونچ نیچ نہ ہو"
"انشااللہ ایسا ہی ہوگا میری دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں" زمر نے خوشی سے کہا"
ویسے اعزاز صاحب آپکا شادی وادی کا ارادہ نہیں کوئ" زمر کی بات پہ اعزاز نے چونک کر زمر کو دیکھا اور ایک دلکش سا تبسم اس کے ہونٹوں پہ بکھرا"
اللہ مطلب لڑکی بھی دیکھ لی ہے" زمر نے مسنوئ خفگی سے کہا"
"نہ نہ نہیں پتہ نہیں... اعزاز جلدی سے کھ کر باتھ روم میں گھس گیا وہ جانتا تھا وہ زمر سے کچھ نہیں چھپا سکتا تھا پر اس بار یہ بات ان کی لاڈلی چہیتی پہ تھی مبعادہ وہ قتل ہی نہ کر ڈالیں اسے"
'زمر نے گھور کر باتھ روم کے دروازے کو دیکھا اور پیر پٹک تی چلی گئ''
🖤🖤🖤
"یار تم کیوں جا رہی ہو؟ نا جاؤ نا ویسے بھی کوئی فائدہ تو ملے گا نہیں تم کو خوامخواہ جا رہی ہو۔" حنین نے کوئی دسویں دفعہ یہ فقرہ کہا تھا۔
"کتنی دفعہ کہوں تم کو۔ خالہ آرہی ہیں لندن سے تو مجھے جانا ہوگا۔" حور نے بیگ پیک کرتے ہوئے کہا۔
آج حورین اپنے ننھیال جا رہی تھی اسکی خالہ آرہی تھیں 10 سال بعد تو وہ ان سے ملنے جا رہی تھی حیدرآباد۔ حنین کا سارا دن موڈ خراب تھا۔
اتنے میں پھوپھو زمر اگئیں۔
"کیا ہوا ہے حنین؟ تم نے اپنا منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟"
"یار پھوپھو اپ روکیں نا اسکو یہ اپنے ننھیال جا رہی ہے وہ بھی تین دن کے لیے یہ اچھی بات تو نہیں ہے نا۔۔۔" حنین نے اپنا دکھڑا رویا۔
"کیا کر سکتے ہیں اسکی خالہ آرہی ہیں نا اس لیے جا رہی ہے پاگل نا بنو۔" پھوپھو نے چڑتے ہوئے کہا۔
کیونکہ وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ حورین تین دنوں کے لیے نا جائے ایک دن میں واپس اجائے۔پر وہ چپ تھیں وہ اسکو کہہ نہیں سکتی تھیں۔
حنین منہ بنا کے حور کے کمرے سے ہی نکل گئی۔ اور اپنے روم کہ طرف بڑھ گئی تبھی ہی اچانک سے آبان سے ٹکرا گئی۔
"افففف! آپکو مجھ سے ہی ٹکرانا ہوتا ہے؟ کوئی اور نہیں ملتا اپکو؟" حنین نے غصے سے کہا۔ کچھ حور کا بھی غصہ تھا اس وقت اسلیے کچھ زیادہ ہی تلخ انداز اختیار کرگئی۔
"ایکزیکٹلی! میں بھی تم سے یہی سوال پوچھنے والا تھا کہ تمہیں بھی میں ہی ملتا پوں ٹکرانے کے لیے؟٫" ابان نے اسکو گھورتے ہوئے کہا۔
حنین نے خلاف معمول کچھ بھی نہیں کہا اور جانے لگی۔
"اسے کیا ہوا ہے؟"ابان بڑبڑایا۔
"سنو! حنین۔۔۔؟" آبان نے اسکو پکارا۔
تو وہ وہیں رک گئی۔
"اب کیا ہوا ہے؟" حنین نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔ ابان کو اس پر غصہ تو آیا مگر پی گیا کیونکہ اسکو بات جو پوچھنی تھی۔ حنین جو اس سے لڑتے لڑتے تھکتی نہیں تھی آج کچھ بھی کہے بغیر جا رہی تھی۔ ابان کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
"تمہارے منہ پر 12 کیوں بج رہے ہیں؟" ابان نے سنجیدگی سے کہا
"کیونکہ میرا موڈ خراب ہے اسی لیے بارہ بھی بج سکتے ہیں اور 1 بھی" حنین نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
"اور یہ آپکا موڈ خراب کیوں ہے؟"
"کیونکہ حورین اپنے ننھیال جا رہی ہے میں اسکے بغیر بور ہو جاتی ہوں۔ اب تین دن کیسے رہونگی میں اسکے بغیر؟" حنین نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
ابان کو اسکے جواب پر غصہ آگیا
"کیوں جا رہی ہے ننھیال؟۔" ابان نے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"اسکی خالہ آرہی ہیں نا لندن سے تو اسلیے" اس نے ابان کا چہرہ دیکھے بغیر کہا جو اپنا غصہ کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
"خالہ آرہی ہیں تو اس میں حورین کا کیا کام؟ چاچی جا رہی ہیں کافی ہے۔"
"بھائی وہ اسکی خالہ ہیں۔ وہ جاسکتی ہے میں تو اسلیے اداس ہوں کیونکہ میں اسکے بغیر بور ہوجاتی ہوں۔ آپکو کیوں اتنا غصہ آرہا ہے؟ آپ بھی اسکے بغیر بور ہونگے یا آپکو اسکا جانا اچھا نہیں لگ رہا؟۔"حنین نے آنکھوں میں شرارت لیے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔
"شٹ اپ! تم کچھ زیادہ ہی نہیں بول رہی ہو؟ جاؤ اپنے کمرے میں۔ میرا سر نا کھاؤ." ابان اسکے سوال پر گھبرا گیا فورا سے سنبھل کر کہا۔
"ایسا کر کے آپ جواب دینے سے بچ نہیں جائینگے اوکے نا۔۔۔! ایک دن تو میں اپسے ضرور اگلوا لونگی۔" حنین نے اٹل لہجے میں کہا۔
"اوپر کا حصہ شاید تمہارا خالی ہے اس لیے ہی تو پاگلوں والی باتیں کرتی ہو۔"
"حنین جلدی میرے روم میں آؤ ایک بات بتانی ہے تم کو" حنین نے حورین کو دیکھا جو اسکی ہی طرف آرہی تھی اسکی بات پر اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اسکے کمرے میں چلی گئی۔
پیچھے ابان غصے سے کڑھ کے رہ گیا۔
**
یہ اداسی کا سماں یہ عجیب سی بی چینی
میرے رگو پے میں سرایت سی کر گئ
تم کو سوچ تے سوچ تے تو جیسے ایک عمر سی
گزر گئ ہے یہ دل ہے کی بی چینی سے دھرکتا
رھ تا ہے ایک تم ہی ہو اس کمخت دل کی بی چینی کو قرار دینے والی آجاو تم کہیں سے
کہ یہ دل ہے بی قرار سا کہ شام ہے اداس سی
(کشف)
وہ تحریر کر رہا تھا اپنے دل کا حال ے دل آج اس کو جاتے ہوئے دو دن بیت گئے تھے اور وہ اس کی یادوں کے سائے میں بھیٹھا اس کی راہیں تک رہا تھا کیسی محبت تھی نا اس کی جب وہ سامنے ہوتی تھی تو ہر وقت روک ٹوک کرتا رھ تا تھا کی یہ نہ کرو وہ نہ کرو ہر بات کا غصہ ہمیشہ حور پے ہی نکل تا تھا اور وہ چپ چاپ سن لیتی تھی یہاں تک کے آبان شاہ بول کہ چپ ہوجاتا پر وہ صرف سن تی ہی رھ تی" آبان شاہ کو شدت سے اس کی یاد تڑپانے لگی" وہ ریلنگ چیئر سے اٹھا اور سائیڈ والی ٹیبل سے سگریٹ نکالی اور اس کے کش لینے لگا وہ سگریٹ تب پیتا تھا جب اس کو ضرورت ہوتی تھی اور آج اس کو سگریٹ کی اشد ضرورت محسوس ہوئی تھی وہ ایک کے باد دو جانے اس طرح سے کتنے سگریٹ اس نے پھونک ڈالے تھے آنکھوں میں ہی رات کٹی تھی اور صبح ہوگئ تھی سورج اپنے اب و تاب سے چمک رہا تھا پنچھیوں کی چھچاھٹیں سارے منظر پے چھائ ہوئ تھی اور وہ وہی بی خبر سا چھت کو گھور رہا تھا تب ہی دروازے کی کھٹ کھٹ نے اس کو چونکا دیا اور وہ ہڑبڑا کہ اٹھا اور پورے کمرے پہ نظر دوارئ جہاں جلے ہوئے سگریٹ کہ علاوہ کچھ نہ تھا.. دروازہ مسلسل بج رہا تھا" کہیں زمر پھپھو نہ ہوں وہ دیکھ لینگی تو کیا سوچینگے میرے بارے میں" آبان پریشانی سے بڑبڑایا" دروازہ مسلسل بج رہا تھا..
"کون ہے اپنی آواز کو حتی المکاں نارمل رکھ تے ہوئے اس نے پوچھا ایک تو پوری رات نیند نہیں کی تھی اور اوپر سے گلا بھی خشک سا ہورہا تھا"
پر جواب نادرد اس نے اکتا کر تھوڑا سا دروازہ کھولا اور اور پھر جیسے وہی جامد ہوگیا اور جیسے وہ خوشی سے جی اٹھا...
"وہ وہ یہ پھپھو نے دیا ہے آپ کا ناشتہ حورعین نے جلدی سے کہا اور ٹرے اس کی طرف بڑھائ" وہ آبان کی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی فورن سے پہلے وہ یہاں سے بھاگ نا چاہتی تھی"
تم کب آئی کس وقت آئی کس کے ساتھ آئی ہو" آبان نے یکے بات دیگر سوالات کی بوچھاڑ شروع کر ڈالی"
میں صبح کو آئی ہوں تقریبن ایک گھنٹا پہلے اور ماموں چھوڑ گئے ہیں مجھے" حورعین تحمل سے جواب دیا'"
اچھا دیٹس ویری گڈ چلو آئو کمرا آکے صاف کرو میرا تم تو جانتی ہو مجھے کسی اور کی سفائ پسند نہیں زمر پھپھو کے علاوہ پر تم آ گئ ہو تو تم بھی بُرا کام نہیں کرتی ہوگی" آبان نے مسکرا کر کہا"
کیا م م میں" حور نے حیرانی اس اپنی طرف اشارہ کیا"
تمھارے علاوہ یہاں کوئ ہے کیا جو میں اسے بولونگا آبان نے سوالیاں نظروں سے اسے دیکھا...
جہ جی میں ہوں یہاں حنین آپ مجھے بھی بول سکتے ہیں" وہ پتہ نہیں کہاں سے آٹپکی تھی"
"حور نے گھور کہ اسے دیکھا جب کہ آبان کا دل چاہا وہ سر دیوار پے دے ماڑے"
کیا ہے اب ایسے کیو دونوں گھور رہے ہو کب سے جودھا اکبر کا سین لگا ہوا ہے یار اور تو اور اس بیچاری کو ماسیوں والے کام بھی سونپ دیے وہ بھی اتنے فلمی اسٹائل میں واہ بھئ واہ آپ کو تو داد دینی پڑے گی'" حنین نے تالیاں بجا کر (بقول حنین کے) دونوں کو آئینہ دیکھا نا چاہا'"
"حورعین نے بی اختیار جانے کے پر تولے اب یہ آگے پتہ نہیں کیا کرنے والی تھی اسی لیے اس نے وہاں سے کھسک نے میں ہی عافیت سمجھی"
آبان نے بیبسی سے اس کی پشت دیکھی کتنی باتیں کرنا چاہتا تھا وہ اس سے پر یہ شیطان جو آگئ تھی بیچ میں"
ارے یار کوئ نہیں چلی گئ تو کیا ہوا وہ آآ بھی سکتی ہے اب تو یہی ہے وہ دیکھ تے رھیے گا آرام اور آسائش سے'" حنین نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور شرارتی مسکراہٹ اس کے اوپر اچھال تی بھاگ گئ"
آبان شاہ بی اختیار مسکرا اٹھا اور ایک خوبصورت سی دھن اس کی زباں پر رکساں تھی اب تو وہ یہی رہے گی نا" حنین کی باتوں سے وہ انتہا کا خوش ہوا تھا"
**
اس نے بلیو شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کا کوٹ اور سیاہ رنگ کی پینٹ پہنی ہوئ تھی بزنس جو اس نے بہت خوشی سے اسٹارٹ کیا تھا اس کا آج پہلا دن تھا وہ خوشی سے تیار ہورہا تھا خوبصورت سی گھڑی اس کی کلائی میں بہت ہی جچ رہی تھی اس نے ایک نظر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور مسکراتا ہوا کمرے نکل گیا....
***
پھپھو گھر میں کوئ فنکشن رکھیں نا بور ہورہی ہوں" حنین نے ادسی سے کہا" لاونج میں صبح صبح ہی سب آکے بھیٹھ تے تھے صبح کو گھر میں بہت ہی ہل چل مچی ہوتی تھی کسی کو آفس جانا ہوتا تو کسی کو یونی تو کسی کالج حورعین اور اسجد یونی جاتے تھی جب کہ اریبہ اور ارج کالج (ارج اور اسجد بھی صبح کا ناشتہ یہیں آکے کر تے تھے اور ساتھ میں جاتے تھے سب ) جب کے حنین نے پڑھائ انٹر کے بعد چھوڑ رکھی تھی بقول حنین کے کونسا میں نے جھنڈا لگانا ہے آبان شاہ نے اپنی پڑھائ پوری کر لی تھی اور اب کچھ آبائ زمینے تھی اور کچھ بزنس تھا دونوں ساتھ میں سمبھال رہا تھا وہ گھر کا بڑا بیٹا تھا سارا کچھ نہیں تو بہت کچھ اس کے کندھوں پہ تھا... اعزاز کو باھر پرھنے کا شوک تھا تو بہت ہی پہلے وہ گھر کے بڑوں کی اجازت سے باھر پرھنے چلا گیا تھا.... اور اب جب واپس آیا تھا تو اپنا بزنس سیٹ کر رہا تھا جو کہ اس نے دبئ میں سیٹ کر رکھا تھا....
چپ کرو ابھی تو اعزاز آیا ہے اور اتنا بڑا تو فنکشن ہوا تھا اب بھی تم بور ہورہی ہو... حنین کی امی نے اس کو ڈپٹا...
ہان ہان تمھاری ماں بلکل ٹھیک کھ رہی ہے ضرورت نہیں کوئ فنکشن کی زمر نے حنین کی امی کا بھرپور ساتھ دیا...
اتنے میں اعزاز نک سک سا تیار ہوتا نیچے اترا اور زمر کی طرف بڑھا...
زمر نے والہانا انداز میں اس کے سر پہ بوسا دیا..
آہم بڑے فٹ فاٹ لگ رہے ہیں کہیں واپس تو نہیں جارہے... حنین بس ایک پل کو ٹھٹکی تھی اور پھر شروع ہوگئ تھی...
اللہ نہ کرے جو واپس جائے بہت پڑھ لیا اس نے... اب یہی کرے جو بھی کرنا ہے اس نے اور تم زیادہ سر نہ کھاو... حنین کی امی نے خفگی سے کہا...
اعزاز نے مسکرا کر اس کو دیکھا اور رات والی کافی اس کے زہن میں آئی ایک شرارتی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا...
حنین رات کافی بہت اچھی بنائ تھی ویری نائیس کہاں سے سیکھی تم نے اتنی اچھی کافی بنانا... اعزاز نے اپنی بھرپور ایکٹنگ جاری رکھی..
جب کے حنین نے خوشی سے "تینکیو" کہا...
ویسے تم نے جواب نہیں دیا کہاں سے سیکھی.. اعزاز نے زمر کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر اپنی مسکراہٹ ہونٹوں تلے دبا کہ کہا...
انٹر نیٹ سے... حنین نے مسکرا کہ جواب دیا... آج تو خوشی کا کوئ ٹھکانا ہی نہ تھا اس کا...
اچھاااا اعزاز نے اچھا کو لمبا کھینچا اور پھر وہ اپنی ہنسی روک نہ سکا بی اختیار قہقا لگا کہ ہنس پڑا....
سب لوگوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جب کہ زمر نے ایک جپیٹ اس کے پیٹھ پہ رسید کی...
حنین نے نا سمجھی سے پہلے اعزاز اور پھر زمر کو دیکھا...
کیا ہوا ہے ایسے کیو ہنس رہے ہیں... ارج نے کہا...
اچھا ارج بہنا کافی میں نمک ڈلتا ہے یہ چینی... اعزاز نے بمشکل اپنی ہنسی روک کہ کہا...
زاہری ہے چینی...
ہاہاہا پھر حنین بییبی آپ نے تو نمک ڈال دیا تھا رات کو... اعزاز نے ہنس کہ کہا...
زمر نے بی اختیار اپنا ماتھا پیٹا... حنین نے نروس ہو کہ باقی سب کو دیکھا جو کہ مسکراہٹ روکنے کی ناکام کوشش کر ہے تھے... زمر نے بیبسی سے حنین کو دیکھا...
ہان ہان ہنس لیں ہنس لیں میں تو ہوں ہی بڑی پھر کیو کہتے ہیں کہ کافی بنا کہ آو مجھے کچھ نہیں آتا نا بنانا پھر کہیں بھی نہ مجھے... حنین نے بی اختیار چیخ کے کہا اس کے گالوں سے لڑیوں کی صورت آنسو تیزی سے بھ رہے تھے وہ بی اختیار پلٹی اور سیڑھیاں چڑھ گئ... بُڑا ہوا کہ بی اختیار آبان شاہ سے جا ٹکڑائی..
آبان نے پہلے تو اس پہ غصہ کرنا چاہا پر اس کا سرخ چہڑہ دیکھ کہ ٹھٹک گیا...
کیا ہوا ہے رو کیو رہی ہو... آبان نے پریشانی سے کہا..
وہ وہ سب مجھ پہ ہنس تے ہیں... حنین نے ہچکیوں کے درمیاں کہا...
کون ہنستا ہے میری بہن پہ پاگل ہیں سب چپ کرو شاباش... آبان اور حنین کی چاہے کتنی بھی نہ بن تی ہو پر آبان نے حنین کو ہمیشہ اپنی بہن مانا تھا حنین بھی بڑی بڑی باتوں کے مشورے سب آبان شاہ سے لیتی تھی اس کا کوئ بھائ نہ تھا اور ہمیشہ آبان کو ہی بھائ مانتی تھی...
نہیں میں ہوں ہی بڑی... حنین کھ تے ہوئے اس کی ایک بھی سنے بغیر روم میں چلی گئ....
آبان بی اختیار نیچے کو چل پڑا... حنین کو کس نے رلایا ہے... وہ لاونج میں آکے بی اختیار دھڑا...
سب نے پریشانی سے اسے دیکھا... شاہ کیا ہوگیا ہے صرف مزاک کیا تھا اعزاز نے اسی وجہ سے رو کہ گئ ہے ابھی ٹھیک ہوجائے گی تم تو جانتے ہو نہ وہ رو دیتی ہے... زمر نے اس کو رلیکس کرنا چاہا...
خبردار جو یہاں سے کسی نے بھی حنین سے کوئ ایسا مزاک کیا ہو جو کہ اس کو رلا دے سب سمجھ جائے میں سب کو بول رہا ہوں.... آبان نے سب کو گھور کہ کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باھر نکل گیا...
حورعین نے اس کی پشت کو دیکھا... اس کے دل میں ایک الگ ہی ہلچل مچ چکی تھی... کیا وہ حنین سے... نہیں نہیں میں بھی کیا سوچے جارہی ہوں... حورعین نے اپنے آپ کو کوسا...
جب کہ اعزاز کہ دل میں کچھ اور ہی ہل چل مچ گئ تھی....
اب یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا کہ تقدیر ان چاروں کو کہاں لیکے جاتی ہے....
***
اسلام علیکم کیسے ہیں سب امید کرتی ہو خیریت سے ہونگے الحمداللہ میں بھی ٹھیک ہوں تو جناب کیسی لگی اپ سب کو یہ قسط اپنی رائے کا اظہار کریں قسط تاخیر دینے کے لیے معضرت انشااللہ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں قسط جلدی دوں.. اور ایک بات کمینٹ میں اپنی رائے کا اظہار کریں کمینٹ کا مطلب nice good excellent یہ نہیں ہوتا کمینٹ کا مطلب ہوتا ہے آپ مجھے یہ بتائ کہ آپ کو یہ قسط کیسی لگی کونسا سین آپکو اچھا لگا کونسا برا کونسا کردار آپ کو اچھا لگ رہا ہے کونسا برا آپ کی منفی مثبت رائے میرے لیے بی حد اہم ہے...
شکریہ...
Stay connect on my insta page
Kashafwrites110
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top