قسط 1
یہ منظر ہے کراچی کے روشنیوں کے شہر کے ایک محل نما گھر کا۔
وہ اپنے کپڑے پریس کررہی تھی اپنی ہی سوچوں میں کہیں گم تھی کوئی اسکے پیچھے آ کھڑا ہوگیا،اس نے مڑ کے دیکھا تو کوئی نہیں تھا اور۔پھر کسی کی آواز اس کی سمعاتوں سے ٹکرائ حورے(ہائے کتنا اچھا لگتا ہے اسکے منہ سے میرا نام)اس نے دل میں سوچا۔
پھر کہا "جی بھائی" تو آبان کا سارا موڈ اوف ہوگیا۔وہ ہشاش بشاش خوشگوار موڈ میں آیا تھا۔۔حورعین نے بھائی بول کے سارے موڈ کا بیڑا غرق کردیا (آبان شاہ نے دل میں سوچا)پھر بولا۔
"پھوپھو کہاں ہیں؟"آبان نے سختی سے کہا۔
"و۔۔وہ۔۔۔وہ۔"حورعین گھبرائی۔
"وہ اماں کے ساتھ بیٹھی ہیں۔"
"اچھا اوکے۔۔۔پھوپھو زمر کو کہو آبان بلا رہا ہے۔"
"جی بھائ!! میں ابھی بولتی ہوں۔"
'بیڑا غرق ہو تیرا حورے!"آبان بڑبڑا رہا تھا۔
"جی بھائ؟"حورعین بولی۔
"کچھ نہیں،تم گئی نہیں۔۔۔اور یہ بال کیوں کھولے ہیں تم نے ہاں!!!میں نے بولا ہے نا مجھے تمہارا بال کھولنا پسند نہیں۔"
"و۔۔وہ۔۔۔۔وہ بھائ! وہ کھل گئے ہیں میں ابھی باندھ دیتی ہوں۔"حورعین گھبرائی۔
"نہیں نہیں رہنے دو۔تم نے تو قسم اٹھا رکھی ہے کہ میں آبان کی کوئی بات نہیں مانوں گی۔"آبان نے طنز کیا تو حورعین نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔پھر وہ خود ہی پھوپھو زمر کے پاس چلا گیا۔
~~~~~~~~~~~~~~~
افتخار صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے. بڑے ناز سے پلے بڑھے.. شادی بھی اپنے والدین کی مرضی سے کی اور خدا نے انہیں بہت نوازا، انکی زندگی بہت ہی پر سکون تھی.
خدا نے ان کو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا. ان کے تین بیٹے ہاشم، قاسم اور محفوظ اور بیٹیاں زمر عیشا ۔سب اپنے اپنے گھروں میں خوش تھے. ہاشم صاحب كے تین بچے تھے، ابان اور دو بیٹیاں فائزہ اور رمشہ.
قاسم صاحب کی اکلوتی بیٹی حورعین. محفوظ صاحب کی دو بیٹیاں حنین اور اریبہ.
یہ سب اک خوبصورت گھر میں پیار محبت سے رہتے تھے.
~~~~~~~~~~~
وہ سیڑھیوں سے اُتَر رہی تھی تو کسی سے بے اختیار ٹکرا گئی اور گر گئی.
"اللہ! ہائے رے میری کمر."
"تم دیکھ کر نہیں چل سکتی؟" مقابل نے سختی سے کہا.
"کیا میں دیکھ کہ نہیں چل سکتی حنین آنکھین مٹکاتے ہوئے حیرانی کا بھرپور اظہار کیا چلو میں تو دیکھ کر نہیں چل سکتی، آپ تو دیکھ کر چل سکتے تھے نا کھڑوس بھائی. اللہ! میں مر گئی..." حنین اب باقائدہ سے واویلوں پر اتر آئی تھی. آبان نے کوفت سے اسے دیکھا وہ جانتا تھا اب اس کانچ کی گڑیا کا دکھ جانے کب ختم ہونے والا تھا
"اُف!! اب یہ ڈرامہ بند کرو اور ہٹو یہاں سے." ابان نے غصے سے کہا.
"اللہ میں ڈرامے نہیں کررہی." پھر حنین نے دیکھا تو سامنے سے حورعین آرہی تھی.
"یار حورعین مجھے اٹھاؤ.. مجھے اِس کھڑوس بھائی نے گرا دیا." تو حورعین جلدی سے آئی اور اٹھایا.
"یہ کھڑوس کس کو بولا؟"
"میرا خیال ہے ابان بھائی آپ سے زیادہ اِس گھر میں کھڑوس بھائ کوئی نہیں ہے."
"اور آپکا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟"
"میں... میں تو بہت اچھی ہوں." ابھی ابان اسکے جواب میں کچھ کہتا، حورعین کی بات پے چُپ ہوگیا.
"بس کریں آپ دونوں. حنین بھائی بڑے ہے نا معافی مانگو."
"میں... میں کیوں بولوں سوری، انہوں نے مجھے گرایا، یہی بولیں سوری." پھر دیکھا تو ابان اسے غصے سے گھور رہا تھا.
"سوری بھائ! پر ساری غلطی میری نہیں تھی." حنین نے منمنا کہ کہا کیو کی ابان اب اسکو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا.
"سوری بھائ" حنین نے اتنی معصومیت سے کہا كہ آبان کی ہنسی نکل گئی.
"اٹس اوکے آگے سے خیال رہے" پِھر تینوں ہنس پڑے۔ تمھین پھپھو زمر بلا رہی تھی تمھارے ڈرامے دیکھ کہ بھول ہی گئ میں تو حورعین نے سر پر ہاتھ مارا
پھوپھو زمر حسین اور ذہین عورت تھیں۔۔۔حنین تو انہیں ہمیشہ کہتی تھی "پھوپھو آپکی باتیں تو لکھنی چاہیے" تو وہ ہنس پڑتی تھیں۔
آبان اور حورین تو انکے بہت ٹچ میں تھے۔ آبان تو انکو اپنے بیٹے سے بھی قریب تھا۔ آبان بھی ان سے بہت پیار کرتا تھا۔ آبان کو اپنی یہ پھوپھو بہت ہی عزیز تھیں۔
حورین بھی انکے بہت ٹچ میں تھی۔وہ تھیں ہی اتنی اچھی کہ انکی کمپنی میں کوئی بھی بور نہیں ہوتا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ حورین بھی بہت قریب ہوگئی پھوپھو زمر کے۔
🖤🖤🖤
"پھوپھو کیسی ہیں آپ؟ آج توہمارے پورشن میں بڑے بڑے لوگ آئے ہیں". حنین پھوپھو زمر کے گلے لگ گئی۔
"میں ٹھیک ہوں حنین۔ تم بتاؤ تم نے بھی اپنا مکھڑا نہیں دکھایا بہت دنوں سے آئی نہیں تم ہماری طرف؟" پھوپھو زمر نے مزاق سے کہا اور ہنس پڑیں۔
"ہاں پھوپھو! میری طبعیت سہی نہیں تھی نا،سر میں درد تھا بہت تو اسلیے۔"
"حنین کیا مجھے یہ بھی بتانا پڑے گا کہ میرے اور تمہارے گھر میں ایک دروازہ ہے ہم ساتھ میں رہتے ہیں" پھوپھو نے خفگی سے کہا۔
ابھی حنین جواب میں کچھ کہتی کہ آبان کی آواز سے رک گئی۔
"ارے پھوپھو! آپ بھی کس کے ساتھ سر کھپا رہی ہیں،اسکو ڈرامے کرنے سے فرصت ملے تو آئے نا آپکے پاس۔ کبھی پیر ٹوٹ گیا،کبھی سیڑھیوں سے گرگئی، آخر اسکے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔؟٫ آبان نے سنجیدگی سے کہا پر آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی۔
"بھائی آپ نا کریلے ہی رہنا،یہ کیا آپ کو مجھ سے دشمنی ہے، ہمممم؟" حنین منہ پھلا کے کہا اور پیر پٹختی چلی گئی۔
آبان نے اسکو جاتے دیکھا اور آکے پھوپھو زمر کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"کیوں تنگ کرتے ہو اسکو؟" پھوپھو نے بناوٹی خفگی سے کہا۔
"آپ نے دیکھا نہیں ہے؟ یہ کیا حرکتیں کرتی ہے۔۔۔مجھے غصہ بھی یہی حنین دلاتی ہے.اسکو دیکھتا ہوں تو پہلے تو یہی دعا کرتا ہوں 'اللہ تعالی خیر کرنا' کیونکہ یہ روز کوئی نا کوئی گڑبڑ کر دیتی ہے۔"
"افففف! تم بھی پیچھے لگے رہتے ہو اسکے." پھوپھو نے اکتا کے کہا۔
"ارے ہاں! میں تو بھول ہی گئی، کچھ دنوں میں محمد اعزاز آرہا ہے، اسکے پڑھائی ختم ہوگئی ہے نا۔" پھوپھو نے خوشی سے کہا۔
حنین جو کچن میں جا رہی تھی یہ بات سن کے وہیں ٹھٹک گئی۔
حنین کیا ہوا تم ایسے کیوں کھڑی ہو؟" وہ محمد اعزاز کے نام سے ٹھٹک گئی تھی حورین کی بات سے ہڑبڑا کے اس کو دیکھا"
"ہاں وہ کچھ نہیں، بس ایسی ہی۔"
"نہیں کوئی تو بات ہے، جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو." حورین نے تفتیشی لہجے میں کہا۔
"نہیں کچھ نہیں ہے، آبان جیجو سے لڑ کر آرہی ہوں" حنین نے شرارت سے کہا۔
حنین کی بات پر حورین کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اسکے دل میں آبان سے متعلق کوئی بھی فیلنگز ہو وہ کسی کو بھی محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔
"حنین! یہ کیا بدتمیزی ہے؟ بنا بات کے تم اسکو جیجو کیوں بولتی ہو؟ کسی نے سن لیا نا تو خوامخواہ باتیں بنیں گی، مجھے اچھا نہیں لگتا۔"
"سوری یار! تم تو سیریس ہی ہوگئیں۔"
"یہ اچھا ہے، پہلے غلطی کرو پھر سوری بول دو، اپنی زبان پر لگام دو ورنہ میں تم سے کبھی بات نہیں کرونگی۔" حورین نے غصہ سے کہا۔
حنین کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے حورین کو گلے لگا لیا اور بولی
"سوری پیاری کزن! میں تمہاری ناراضگی برداشت نہیں کرسکتی، پلیز مجھے معاف کردو، اب کبھی نہیں بولونگی میں پکا۔۔۔"
"اوکے اوکے! اب جاؤ تم، پھوپھو عائشہ بلارہی ہیں۔" حورین نے اکتا کر کہا۔
"اوکے! میں جاتی ہوں، اور پلیز کچھ کھانے کے لیے دے دو قسم سے چوہے پیٹ میں جمپ مار رہے ہیں بھوک سے پلیززز۔۔۔۔"
"اچھا اچھا وکے! میں میکرونی بناتی ہوں" حورین نے پانی پیتے ہوئے کہا۔
"تھینک یو! تم نا سب سے بیسٹ ہو۔"
"اب مسکے نا لگاؤ، جاؤ یہاں سے۔"
"ہاں ہاں جاتی ہوں" حنین نے منہ پھلا کے کہا۔ تو حورین نے شکر کا سانس لیا۔
حورین کے دل میں اگر کچھ بات ہو تو وہ کسی سے بھی شیئر نہیں کرتی تھی وہ اپنے معاملے میں بہت محتاط تھی۔ کیونکہ اسکو اپنی عزت سب سے پیاری تھی۔ وہ اپنے دل میں آبان کی محبت کو بچپن سے چھپائے ہوئے تھی اور کسی پر بھی آج تک ظاہر نہیں کی تھی۔
پتہ نہیں حنین کو کیسے پتہ چل گیا تھا، شاید وہ پھوپھو زمر کی صحبت میں بہت ذہین ہوگئی تھی تبھی تو وہ اسکو چڑا رہی تھی۔
پر حورین کو کبھی پتہ نہیں چلتا کہ حنین کے دل میں کیا ہے؟ وہ کیا چاہتی ہے؟ انفیکٹ کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کیونکہ وہ سارا دن کوئی نا کوئی گڑبڑ کرتی تھی یا پھر آبان سے لڑتی رہتی تھی،اسکو غصہ دلانا تو اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
🖤🖤🖤
حورین میکرونی بنا رہی تھی کسی کی نظروں کی تپش سے چونک پڑی، پیچھے مڑ کے دیکھا تو دشمن جان کو تکتے پا کر وہیں ٹھٹک گئی اور بولی
"آپکو کوئی کام ہے بھائی؟"
وہ جو اسکو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا چونک پڑا۔
"ہاں مجھے پانی پلا دو" آبان نے سنجیدگی سے کہا۔
"جی بھائی! یہ لیں۔" حورین نے اسکو پانی دیا۔ وہ گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔
"کیا بنا رہی ہو؟"
"وہ حنین نے بولا کچھ کھانے کے لیے بنا دو، تو میں میکرونی بنا رہی تھی" حورین نے کام کرتے ہوئے جواب دیا۔
"کیوں وہ خود نہیں بنا سکتی؟ اسکے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں کیا جو وہ خود کوئی کام نہیں سکتی؟ بھوک اسکو لگی ہے اور کھانا تم بناؤ گی۔ ایسے تو وہ کھا کھا کے موٹی ہوجائے گی۔" آبان نے غصے سے کہا۔
وہ جو غور سے اسکی بات سن رہی تھی اتنی تقریر پر چکرا کے رہ گئی۔
"ہاں بھائی! وہ اسکو میرے ہاتھ کی چیزہں اچھی لگتی ہیں نا تو اسلیے۔"
حورین جانتی تھی کہ وہ دوسرے الفاظوں میں اسکی فکر کر رہا ہے تو اسی لیے اس نے تحمل سے جواب دیا۔
"تم میری ہر بات کاٹ دیتی ہو۔ مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟" آبان نے غصے سے کہا
"وہ،وہ بھائی! میں تو بس ایک بات کر رہی تھی۔" وہ گھبرا گئی۔
ابھی آبان کچھ کہتا کہ حورین کی امی آگئیں۔ حورین فورا اپنے کام میں جت گئی۔
"کیا ہوا بیٹا کچھ چاہیے تھا؟" حورین کی امی نے پیار سے پوچھا۔
نہیں چاچی! پانی چاہیے تھا وہ میں نے پی لیا اب جا رہا ہوں میں، میری ویسے بھی کسی کو کوئی بات پسند ہی نہیں ہے۔" وہ غصے سے حورین کو گھورتے ہوئے کچن سے نکل گیا۔
"ارے! اسے کیا ہوا ہے؟ شاید پھر کسی نے اسکو کچھ بول دیا ہے! اففف یہ لڑکا! مجال ہے جو کبھی اس لڑکے کو دوسروں کی طرح ہنستا مسکراتا دیکھا ہو۔" حورین کی ماں نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔
حورین بس سوچتی رہ گئی کہ "اب کیا ہوگا؟ سہی کہتی ہے حنین بھی کھڑوس ہے بہت پر ہے بہت سویٹ"۔ حورین اپنی ہی سوچ پر ہنس پڑی۔
"کیا ہوا؟ کیوں ہنس رہی ہو؟" حورین کی امی نے تفتیش سے پوچھا۔
کچھ نہیں اماں! وہ حنین ہے نا اسکی بات پر ہنسی آگئی۔" حورین نے گھبرا کر کہا۔
"اچھا."
حورین اپنے اپکو کوستی جلدی سے کام میں جت گئی۔
🖤🖤🖤
وہ جو اپنے ناولز لے کے حورین کے پاس جا رہی تھی آبان کو دیکھ کے منہ پھلا کے واپس جانے لیے قدم بڑھاگئی کیونکہ آبان کمرے سے نکل رہا تھا۔ حورین کے برابر میں اسی کی ماں کا کمرہ تھا وہاں سے آبان نکل رہا تھا۔
"کہاں جا رہی ہو؟" ابان نے سنجیدگی سے کہا
"وہ میں اپنے کمرے میں۔" حنین نے خلاف توقع مسکرا کر کہا
"اچھا! میں سمجھا حورین کے پاس جا رہی ہو،کیونکہ تمہیں تو ہر وقت بھوک لگی رہتی ہے نا،تمہیں تو دوسروں کے کھانے بہت پسند ہیں۔" آبان نے آنکھوں میں شرارت لیے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔
"اب میں حورین کو کچھ بول بھی نہیں سکتی؟ آپ ہوتے کون ہیں مجھے کہنے والے۔ آپ تو کڑوے کریلے ہیں۔ آپ کھانا نہیں کھاتے اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی نا کھاوں۔۔۔ یہ حکم وغیرہ نا اپنی بیوی پر چلائی گا میرے پر نہیں، ارے ہاں بلکہ چلا ہی رہے ہیں، بال نا کھولو، یہ نا کرو وہ نا کرو، تو بس اس سے ہی خوش ہو لیں زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں" حنین نے غصے سے کہا
"اور ہاں! ایک ایڈوائس دوں؟" حنین نے شرارت سے کہا
"چپ!تم سمجھتی کیا ہو اپنے اپکو۔ میں نے صرف ایک بات کہی ہے اتنی لمبی تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شاید تم بھول گئی ہو کہ میں تم سے بڑا ہوں۔ تم کیسے بدتمیزی سے بات کر رہی ہو مجھ سے میں چاچا کو بتا دوں تو یہیں تمہیں شوٹ کر دیں."ابان نے غصے سے کہا۔
حنین تصور میں اپنے اپکو درگت بنتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئی اور فورا سےمعذرت کرنے لگی۔
"سوری بھائی! اب نہیں بولونگی۔ پلیز معاف کردیں۔"
آبان ہنوز اسکو غصے سے گھور رہا تھا
"ارے واہ! اپ تو بہت اچھے ہیں۔ اتنی جلدی معاف بھی کر دیا۔" آبان جو اسے غصے سے اور بھی کچھ کہنے والا تھا اسکی بات پر منہ کھولے اسکو دیکھ رہا تھا۔
"ارے میں تو بھول ہی گئی اپکو ایک ایڈوائس دینی تھی نا۔ دوں؟" حنین نے فورا سر پر ہاتھ رکھا۔
"نہیں، نہیں چاہیے تم پاگل کی ایڈوائس،اب اتنے بھی برے دن نہیں آئے میرے." آبان نے خفگی سے کہا۔
"ارے! آپکے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں پلیز بولنے دیجیے نا۔" حنین نے معصومیت سے کہا
"بکو" آبان نے اکتا کر کہا۔
"ہنہہ! کڑوے کریلے،بات کرنے کی تمیز نہیں ہے"حنین بڑبڑائی۔
"پھوٹ بھی چکو،"
"ہاں میں کہہ رہی تھی، آپ شادی کر لیں نا"حنین نے رازداری سے کہا
"واٹ؟؟؟؟" ابان کا منہ غصے سےسرخ ہوگیا۔
"ہاں نا! شادی نہیں تو منگنی تو کر ہی سکتے ہیں۔ آپ بھی خوش ہوجائینگے۔ کہیں توبات کروں میں حورین سے۔؟" حنین فر فر بول رہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے اسکے آواز دی
"حنین۔۔۔۔۔۔۔"
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top