انکار
ماہین نماز پڑھ کر جیسے ہی اٹھی کسی نے اس کے کمرے کا ددوازہ زور سے کھولا
وہ کوئی نہیں بلکہ کیسر تھا
کیسر: ماہین یہ میں کیا سن رہا ہوں؟؟؟
ماہین: مجھے کیا پتا تم ہی بتا دو کیا سن کر آ رہے ہو😉۔
کیسر: آئی ایم سیرئس ماہین۔ خان بابا تمہاری انگیجمینٹ آدم کے ساتھ کس طرح کر رہے ہیں۔
ماہین: مجھے کچھ نہیں پتا کیسر اور انہوں نے مجھے بھی آج ہی بتایا ہے۔
کیسر: اور... اور تم مان گئیں؟
ماہی : پاگل ہو گئے ہو کیسر۔ میں کوئی نہیں مانی لیکن خان بابا کے سامنے کون بول سکتا ہے😭۔
کیسر: اب تم کیا کرو گی؟؟
ماہین: آدم سے بات۔۔۔۔
کیسر: ماہین میں ہر ہال میں تمہارے ساتھ ہوں۔
ماہین: مجھے پتا ہے کیسر، اچھا چلو اب موڈ ٹھیک کرو۔
کیسر: ٹھیک ہے، میں فریش ہو کر آتا ہوں میری جان۔
ماہین: اچھا میں تمہارے لیئے چائے بناتی ہوں۔
*****
ماہین کیسر کے لیے چائے بنا رہی تھی جب ایمن انٹی کچن میں آئیں اور ماہین سے ایک اور کپ چائے آدم کیلئے بنانے کا پوچھا ۔ اور ماہین کو لگا کے بہت اچھا وقت ہے آدم سے بات کرنے کیلئے۔ ہاں واقعی یہی وقت اچھا ہے
وہ کیسر کو چائے دے کر آئی تو اب آدم کو چائے دینا رہ گئی تھی
ماہین دل ہی دل میں اللہ سے خیر کی دعا کر رہی تھی
ماہین: یا اللہ ! آج اسکا موڈ اچھا ہو آمین۔۔۔
ماہین نے دروازہ بجایا مگر آدم نے دروازہ نہیں کھولا
ماہین نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا اور کلمہ پڑھ کر اندر داخل ہوئی کیونکہ وہ ہٹلر کا کمرہ تھا۔۔۔
آدم کے کمرے میں کوئی بھی چیز بکھری ہوئی نہیں ہوتی تھی۔ اور ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اسے اپنے کمرے میں کس کا بھی آنا سخت نا پسند تھا, ایمن آنٹی کا بھی نہیں۔
ماہین: عجیب انسان، خیر مچھے کیا؟ میں جس کام کیلئے آئی ہوں بس وہ کر لوں پھر مجھے کیا آدم سے
آدم گھر کا وہ بچہ تھا کہ اگر وہ کسی بات سے انکار کردے تو خان بابا یا گھر کا کوئی بھی فرد اس سے کوئی بھی سوال نہیں کرتا تھا
ماہین اپنی ہی سوچوں میں تھی کے پتا نہیں کب آدم باتھ دوم سے نکل کے اسکے سامنے آکے کھڑا ہوگیا اور ماہین کو آواز دینے لگا ۔
ہوش تب آیا جب آدم نے بہت پیا ر سے پانی سے بھرا ہوا گلاس اسکے سر پہ الٹ دیا
ماہین: کیا بدتمیزی ہے آدم؟😡
آدم نے اپنی مسکراہٹ دبائی: میں کب سے تمہے آواز دے رہا تھا ، تم پتا نہیں کون سی دنیا میں تھیں۔
ماہین نے دل میں سوچا: اللہ مجھے صبر دے ورنہ اج یہ آدم کا بچہ میرے ہاتھوں سے قتل ہو جائے گا۔
اسی وقت دماغ نے روکا: نہیں ماہین ، ٹھنڈی ہو جاؤ، تم یہاں بات کرنے آئی ہو حوسلہ رکھو۔
ماہین: تم سمجھتے کیا ہو خد کو ہاں؟
آدم: میں الحمداللہ خد کو ایک ہینڈسم بندہ سمجھتا ہوں۔😉
ماہین نے مسکراہٹ ببا کر کہا: ہینڈسم اور تم؟ مجھے لگتا ہے تمہارے کمرے مین شیشہ نہیں ہے۔
آدم: تم میرے کمرے میں کیا کرنے آئی ہو؟
ماہین: مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارے کمرے میں آنے کا وہ تو ایمن انٹی نےکہا تمھے چائے بنا کے دے دوں ، وہی دینے آئی ہوں۔
آدم: وہاں ٹیبل پہ دکھو چائے اور نکل جاؤ پھر میرے کمرے سے۔
ماہین: مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
آدم: کیسی بات؟
ماہین: میری بات پلیز آرام سے سنو ، دیکھو آدم تم جانتے ہو گے کہ خان بابا نے ہم دونو کی انگیجمنٹ تہ کر لی ہے اور مجھے پتا ہے تم بھی ان سب سے خوش نہیں ہو گے تو پلیز تم ایسا کیوں نہیں کرتے ہو کے تم اس انگیجمنٹ سے انکار کردو۔
آدم: انکار مگر کیوں؟
ماہین: کیا مطاب کیوں؟ تم میری بات نہیں سمجھ رہے ہو ہم دونوں کی انگیجمنٹ تہہ ہو گئی ہے اور اتنے سکون سے مجھ سے پوچھ رہے ہو کیوں؟ واقئی۔
آدم: دیکھو ماہین میں اس میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، خان بابا کبھی بھی میری بات نہیں مانیں گے تم جانتی ہو ان کو وہ کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔
ماہین: تم بات کرو گے تو وہ ضرور مانجائینگے۔
آدم: مجھے معاف کردو ماہین لیکن میں خان بابا سے یہ بات نہیں کروں گا۔
ماہین: مگر کیوں؟ تم میری اور اپنی دونو کی زندگی تباہ کر رہے ہو، تم جانتے ہو ہم دونو ایک ساتھ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتے۔
آدم: جانتا ہوں ماہین سب کچھ جانتا ہوں لیکن میں مجبور ہوں۔
ماہین: تو تم یہ انگیجمنٹ کر رہے ہو؟
آدم: مجھے معاف کردو۔
ماہین: مجھے تمہاری معافی نہیں چائیے آدم، اور تم ایک بات یاد رکھنا میں تمھے کبھی بھی معاف نہیں کروں گی تم اپنی مجبوری کی خاطر میری زندگی اور میرا مستقبل سب تباہ کر رہے ہو۔
آدم: ماہین اللہ پر یقین رکھو کچھ بھی ہو سکتا ہے اب تم جاؤ یہاں سے، کسی نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا کہینگے۔
ماہین: بھاڑ میں جاؤ تم آدم۔
آدم کے کمرے کے باہر ہی دانیال کھڑا تھا اور شاید وہ سب سن چکا تھک اور ماہین کو آدم کے کمرے سے روتا ہوا نکلتے بھی دیکھ چکا تھا۔
ماہین اپنے کمرے میں آکے پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع ہو گئی۔
ماہین: خان بابا میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کر رہے ہیں اور آدم کی ایسی کیا مجبوری ہے جو وہ انکار نہیں کر رہا؟ سب ایکٹنگ ہے خان بابا کی نظروں میں اچھا بننے کی لیکن آدم خان یوسف زئی میں بھی ماہین خان یوسف زئی ہوں، میں بھی اتنی جلدی ہار تسلیم کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، جو بھی ہے میں بھی معلوم کروا کر رہوں گی کہ تم کیوں خان بابا کج بات مان رہے ہو، خیر آدم نے کبھی بھی میری طرف داری نہیں کی اسکول کے دور میں جب اسکول والے ہم سب اسٹوڈنٹس کو ٹرپ پر لے کر جاتے تھے میں آدم کے پاس ہی جاتی تھی کیونکہ گھر میں سب اس کی بات مانتے ہیں اور خان بابا بھی لیکن مجال ہے جو اس لڑکے نے میری کبھی بھی مدد کی ہو کیونکہ بقول اسکے لڑکیاں اسکول پڑھنے کیلئے جاتیں ہیں ٹرپ کیلئے نہیں، یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ اور جناب خود کبھی کہاں اور کبھی کہاں جافا ہے اپنے دوستوں کے ساتھ۔
آج ایک بات تہہ ہو گئی ہے آدم کہ تم نے مجھے صاف صاف انکار کر دیا ہے لیکن کوئی بات نہیں مجھے اللہ پہ یقین ہے اور اس سب میں ضرور اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی۔
آدھے گھنٹے رونے کے بعد جب ماہین بہتر ہوئی تو گھڑی 09:40 بجا دہی تھی۔
بھوک تو لگ نہیں رہی تھی تو اسنے کھانا بھی نہیں کھایا اور بہت دیر بھی ہونے کی وجہ سے جلدی سے وضو کر کے اس نے عشاہ کی نماز ادا کی اور سونے لیٹ گئی کیونکہ صبح ہوسپیٹل بھی جانا تھا ۔
بس اللہ! کچھ غلظ نہ ہو۔
پر کون جانتا تھا کے کل اسکے ساتھ کیا ہونا تھا۔
*****
(جاری ہے )
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top