قسط 6

تیز ہواؤں کا روخ اسی راستے پر تھا اس کے دل میں دھوکے کی کسک اتنی تھی اب اس سے وہ برداشت نہیں ہورہی تھی. وہ اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے گالوں پر آتے ہوئے آنسو بار بار صاف کررہی تھی. اس نے ارد گرد دیکھا اپنے آپ کو نارمل کرنا چاہا جو کافی مشکل تھا اس نے آواز دیں کر رکشہ روکی اور کالج پہنچ گئ. وہاں اس نے بہت مشکلوں سے خود کو نارمل کیا فورم دیں کر وہ باہر نکلنے لگی کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ گھبرا کر پیچھے پلٹی.
سامنے جانوی کو دیکھ کر چہرے کے تاثرات کو چھپائے. "تم بنا بتائے کالج آگئ میں نے کہا تھا نا کہ وہی ویٹ کرنا سوری مجھے لیٹ بھی ہوگیا تھا لیکن تمھیں اس طرح وہاں سے نہیں جانا چاہیے تھا میں کتنی ٹینشن میں آگئ تھی پتا ہے؟" جانوی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا.
"مجھے لگا تمھیں اور دیر ہوگی اس لئے اکیلے ہی کالج آگئ، سوری مجھے ایک کال کر دینی چاہیے تھی تمھیں" نعمت کے کہنے پر جانوی نے مسکرا کر اسکا ہاتھ چھوڑ دیا.
"اٹس اوکے یار...تم نے فورم فیل اپ کردیا؟" اس کے سول پر بس وہ سر ہلا سکی. " اوکے میں بھی سبمٹ کرکے آتی ہوں" جانوی کہہ کد چلی گئی. نعمت جو خود کو نارمل دیکھانے کی کوشش میں تھی اب چہرے کے تاثر پھر سے دل کا حال بیان کرنے لگے. اس کا گھر کا جانے کا دل نہیں کہہ رہا تھا وہ چلتی ہوئی کمپس میں آئ وہاں اور بھی سٹوڈنٹس بیٹھے تھے لیکن اسے تنہائی کی ضرورت محسوس ہوئ. وہ دور ایک بینچ کے پاس آکر بیٹھ گئ. جہاں اسے کوئ دیکھ نہیں سکتا تھا اس کے گالوں سے ایک آنسو نکلا لیکن اس بار اس نے اسے صاف نہیں کیا وہ زور زور سے رونا چاہتی تھی. اپنے دل کا درد باہر نکالنا چاہتی تھی. اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے وہ پھٹ پھٹ کر رونے لگی. وہ چاہ کر بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پارہی تھی اور نا ہی وہ روکنا چاہتی تھی. اس کے آنسوؤں کی روانی میں ٹھہراؤ تب آیا جب اس کے پیچھے سے کسی نے اسے پکارا اس نے اپنے ہاتھ چہرے پر سے ہٹائے. لیکن اس کی ہمت نہیں تھی کہ وہ پیچھے پلٹ کر اس شخص کو دیکھے. وہ پیچھے کھڑا اس کے پلٹنے کے انتظار میں کافی دیر وہی کھڑا رہا. ماحول میں ایک خاموشی تھی لیکن اس خاموشی میں سے سکون کوسو دور تھا.

*****************
راج چلتا ہوا اس کے سامنے آیا گھٹنوں کے بل اسکے آگے بیٹھ گیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا نعمت وہاں سے اٹھ گئ. اور تیز تیز چلتی ہوئ دوسری جانب چلی گئ راج اس کے پیچھے آیا.
"نعمت پلیز میری بات سنو بس ایک بار سن لو...نعمت میں" راج کہہ رہ تھا لیکن نعمت جو اس کے آگے کی پلٹ کر زوردار تھپڑ اس کے منہ پر رسید دیا. راج جہاں تھا وہا ہی کھڑے رہ گیا. نعمت کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا.
"نہیں سننا مجھے کچھ آج تو تم نے مجھے اپنے ہی نظروں سے گرا دیا راج. یقین کرنے لگی تھی تم پر  تمھاری ہر ایک ایک بات پر کیا کہنا چاہتے ہو اب ہاں.."نعمت کے آنسوؤں سے بھیگا چہرہ راج سے دیکھا نہیں گیا اس کی باتیں وہ تھپڑ اس کے دل پر لگا تھا وہ اپنی نظریں نیچے کیے اسے سن رہ تھا.
" تمھاری بات کو اہمیت دینے کی خاص وجہ وہ نام تھا جو تمھاری زبان پر اس وقت تھا، تمھاری زبان پر اللّٰہ کا نام میرے لئے کتنی بڑی بات تھی یہ تم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ تم نے تو بس دکھاوا کیا دھوکا دیا مجھے" نعمت نے چلاتے ہوئے کہا،
" نہیں نعمت پلیز میری بات سنو تم نے جو دیکھا وہ....." راج کی کہی بات نعمت نت پھر کاٹ دی،
"اور ہاں یہ...." نعمت نے اپنے بیگ کو کھولا اور وہی سرخ مرجھایا ہوا گلاب باہر نکالا راج کی نظریں اب تک بے یقینی سے کھولیں کہ کھولیں رہ گئ. وہ جان گیا تھا کہ یہ وہی گلاب ہے جو اس نے نعمت کو پروپوز کرنے کے وقت دیا تھا.
" یہ گلاب دیں کر اظہار کیا تھا نا تم نے اپنی محبت کا" نعمت نے وہی گلاب زور سے راج کے منہ پر پھیکا جسے دیکھ راج کی آنکھوں میں نمی آئ. وہ ایک قدم پیچھے ہوا. " اسی وقت تمھارے ایمان کے لئے دعا کی تھی میں نے راج مگر.....مگر....." نعمت کہتی ہوئ ایک ایک قدم پیچھے جانے لگی راج اس کے قدموں کو دیکھتا ہوا اس کے چہرے کو دیکھنے لگا.
(اس کا مطلب نعمت بھی مجھ سے.....) اسے اپنے دل میں کہی گئ بات پر یقین تھا لیکن جو حالات سامنے اب تھے اس کے دل میں خوف پیدا ہوا. وہ نعمت کو ایک ایک قدم پیچھے ہوتے دیکھتا رہ نا اب اس میں ہمت تھی نا وہ نعمت کو روک پایا. نعمت دوڑتی ہوئ وہاں سے چلی گئ. راج گھٹنوں کے بل بیٹھا اس مرجھائے ہوئے گلاب کو اپنے ہاتھوں میں لئے وہی بیٹھ گیا.
دور کھڑے دانیال نے اس واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جس پر یقین کرنا اس کے لئے ابھی مشکل ہورہا تھا.

*****************
"دانیال تم اب آرہے ہو نعمت اکیلے ہی چلی گئ کالج بیٹا کتنی دیر" سکینہ نور نے گھر میں آتے ہوئے دانیال سے کہا،
"ارے امی آپ مجھے کال کر لیتی میں آجاتا تھا" دانیال نے اپنا بیگ صوفے پر رکھا.
" چلو خیر ہے آجاے گی وہ" سکینہ نور ایک گلاس پانی اس کے پاس لے آئ جسے دانیال نے لیا اور پانی پیا. پی کر وہ فوراً اٹھ گیا.
" میں اسے لیں آتا ہوں امی" دانیال بنا سکینہ نور کی بات سنے ویسے ہی گھر سے باہر نکل گیا. کالج پہنچ کر اس نگ نعمت کو ڈھونڈا جب وہ کہی نظر نہیں آئ تو وہ کمپس چلا آیا.

***************
سرخ گلاب لئے راج اسی بینچ پر آکر بیٹھا جہاں تھوڑی دیر پہلے نعمت بیٹھی تھی. اس نے ایک ہاتھ میں گلاب لئے اور دوسرے ہاتھ کو پاس کی جگہ پر ہاتھ پھیرنے لگا جہاں اسے اب بھی نعمت کا وجود لگ رہا تھا اس کی آنکھوں میں اب بھی نمی تھی.
" میں کیسے بتاؤں تمھیں نعمت میں نے بہت کوشش کی وہاں سے نکلنے کی، تم نے مجھے پوجا کرتے ہوئے دیکھا لیکن میرے ہاتھ کتنے کانپ کر رہے تھے یہ تم نے نہیں دیکھا دوری پر چیزیں دیکھائ ضرور دیتی ہے لیکن اصل تو پاس آکر ہی معلوم پڑتا ہے. تم نے دور سے صرف مجھے دیکھا لیکن پاس آتی تو میرے ہاتھوں کی کپکپاہٹ بھی دیکھ پاتی......" راج کے کانوں میں دانیال کی کہی گئ بات آئ.
(ایک دفعہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ صدیقہ سے کہا، " آج میں تمھیں  ایک موقع دیتا ہوں مجھ سے جو تم پوچھنا چاہو پوچھو میں اس کا جواب ضرور دونگا" حضور کی اس بات پر بی بی عائشہ صدیقہ خوش ہوئ، لیکن اس وقت وہ کیا پوچھے یہ سمجھ نہیں آیا تو حضور سے عرض کیں، "یا رسول اللہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے ابا (حضرت ابوبکر صدیق) سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں حضور نے اجازت دیں دی.
بی بی عائشہ صدیقہ اپنے ابا کے پاس آئی اور ساری بات کہی تو حضرت ابوبکر صدیق نے کہا، " اللّٰہ اور حضور کے درمیان جو راز کی باتیں ہوئ ہے اس میں سے کوئ ایک بات وہ ہمیں بتائیں... لیکن تم وعدہ کرو کہ حضور جو بھی کہے وہ تم ہمیں اکر ضرور بتانا" بی بی عائشہ صدیقہ نے اپنے ابا اسے وعدہ کیا اور حضور کے پاس چلی آئ. بی بی عائشہ صدیقہ نے وہی بات کہی تو حضور نے مسکرا کر جواب دیا، " اللّٰہ نے فرمایا جس شخص نے کسی دوسرے شخص کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دیا اس کا ایک پیر قبر میں ہوگا اور دوسرا جنت میں" یہ بات سن کر بی بی عائشہ صدیقہ بہت خوش ہوئ اور وعدے کے مطابق اپنے ابا کے پاس آئ. جب حضور کی کہی ہوئ بات آپ نے کہا تو حضرت ابوبکر صدیق رونے لگے. ابا کو اس طرح دیکھ بی بی عائشہ صدیقہ پریشان ہوئ فرمایا، " ابا آپ رو کیوں رہے ہیں یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے نا" بیٹی کی بات پر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا،
" بیٹی تم نے پوری بات پر غور نہیں کیا تصویر کا دوسرا روخ بھی دیکھو، جس شخص نے کسی دوسرے شخص کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا اس کا ایک پیر قبر میں ہوگا اور دوسرا پیر جنت میں... تو سوچو جس نے کسی شخص کا دل توڑا اس پر کتنا بڑا عزاب ہوگا......")
"مجھ سے یہ گناہ ہوگیا نعمت میں نے تمھارا دل توڑ دیا..." وہ اب بھی اسی حالت میں بیٹھا تھا. کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک کر پلٹا تو سامنے دانیال کو دیکھ کر پہلے حیران ہوا پھر اس نے شرم سے اپنی نظریں جھکا لیں، دانیال اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اس کے چہرے کو دیکھتا رہا جس پر کہی تاثرات نقش تھے. وہ غور سے اس کے چہرہ دیکھ رہا تھا.
" میں نے تم سے ایک بات چھپائی ہے دانیال..جس لڑکی کے لئے میں اسلام کو اپنا رہا تھا وہ تمھاری بہن نعمت ہے میں نے یہ بات اس لئے نہیں بتائ کہ کہی تم غلط نا سمجھو اس نے اپنے آپ کو لیمیٹ میں ہی رکھا ہے اظہار میں نے کیا لیکن آج اسی کا دل توڑ دیا....." راج نے ساری باتیں بتائ دانیال خاموشی سے اس کھ باتیں سنتا رہا.
"ب تم بتاؤ میں کیا کروں میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا دانیال میں جانتا ہوں یہ بہت مشکل ہے اگر تمھیں میں تھوڑا بھی غلط لگتا ہوں تو کہہ دو میں آج کے بعد اس سے نہیں ملوں گا آخر وہ تمھاری بہن ہے تم جو کہوگے میں وہ کروں گا. راج کی باتیں سن کر دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ آئ.
" ہاں وہ میری بہن ہے لیکن تم بھی میرے دوست ہو. میں اس لڑکی سے ملنا چاہتا تھا جسکے لئے تم یہ کر رہے ہو مجھے خوشی ہے کہ وہ لڑکی میری بہن ہے، یہ سب اللّٰہ کی مصلحت ہے راج اب یہ تمھیں طے کرنا ہے کہ سب نعمت کے لئے کروگے یا اللّٰہ کے لئے"
"میں اللّٰہ کو راضی کرنا چاہتا ہوں" راج نے فوراً کہا،
"اللّٰہ جس سے محبت کرتا ہے نا اسے علم دین سکھانے میں لگا دیتا ہے اور جسے نا پسند کرتا ہے اسے دنیا کے پیچھے لگا دیتا ہے
اتنا آسان نہیں ہے راضی کرنا پہلے اس کی مخلوق کو راضی کرو معاف کرنے کی صفت پیدا کرو خود میں اسکی مخلوق پر رحم کرو محبت بانٹو علم سکھاؤ پھر اس پر عمل کرو
پھر شریعت سکھو پھر طریقت پھر معرفت پھر حقیقت سمجھ آتی ہے" دانیال کی بات پر راج نے ایک نظر اسے دیکھا پھر دونوں سامنے دیکھنے لگے.

******************
اپنے ٹوٹے دل کو پھر سے سمبھالنا نعمت کے لئے دشوار ہورہا تھا اس کے لئے وہ جگہ اب گھبراہٹ کی وجہ بن رہی تھی اس نےا پنے والدین سے اپنی نانی کے گھر جانے کا کہا دانیال اس بات کی وجہ جانتا تھا لیکن وہ خاموش تھا مسٹر کاظم اور سکینہ نور نے کوئ سوال نہیں کیا دانیال نے بھی ہاں کہہ دیا اور دوسرے ہی دن نعمت دانیال کے ساتھ اپنی نانی کے یہاں چلی گئ. گھر میں ایک خاموشی چھا گئ. دانیال نے اس سے اس وقت کچھ نہیں پوچھا وہ بس اسے وقت دینا چاہتا تھا.....

*****************
کالج سے گھر تک کا راستہ طے کرنا راج کے لئے بہت مشکل تھا اس نے بہت مشکلوں سے اپنا راستہ طہ کیا. وہ گھر ایا تو سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھا تو اسی وقت نیتا کمرے میں آئ.
"تم وہاں سے چلے کیوں آئے، سب پریشان ہو رہے تھے تم بھی نا" نیتا کمرے کی بکھری چیزوں کو سمیٹنے لگی اور کہہ رہی تھی لیکن راج کو کچھ سنائ نہیں دیں رہا تھا. وہ اب بھی اسی طرح بیٹھا ایک ہی جانب دیکھ رہا تھا.
" Raaj are you alright???"
نیتا نے پاس آکر کہا، " نو موم، آئے ایم نوٹ" راج نے بنا تاثر کے کہا، " مجھے موم بہت پین ہو رہا ہے" اس کے کہنے پر نیتا نے فکر سے اس کی طرف دیکھا، "کیا ہوا بیٹا.....کہاں پین ہو رہا ہے؟؟؟" نیتا کے پوچھنے پر راج نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دل کی طرف کیا. "یہاں" راج کی بات سن کر نیتا پریشان ہوئ راج پہلی بار اس طرح بات کر رہا تھا.
"دیکھو بیٹا دل میں کوئ بات ہے تو بتاؤ مجھے تم اچھا فیل کروگے" ماں کے کہنے پر راج کی آنکھوں سے پھر آنسو نکلے وہ جانتا تھا جو وہ کہے گا اس کے بعد ماں اچھا فیل نہیں کریگی.
"بولو بیٹا" نیتا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا،
" بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم" نیتا کو لگا اسے سننے میں کچھ غلطی ہوئ. " راج" اس نے مشکل سے اس کا نام پکارا،
" شروع اللّٰہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے" راج اب بنا کوئ جواب دیئے نہتا کے سامنے کہہ رہا تھا،
"سب تعریفیں اللّٰہ کے لئے جو دو جہانوں کا مالک ہے"...راج کی انکھ سے پھر ایک آنسو نکلا جو اللّٰہ کے ذکر پر اللّٰہ کی محبت پر ہر مومن کی آنکھ سے نکلتا ہے. نیت نے سمجھاتے ہوئے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا، "یہ تم کیا کہہ رہے ہو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم ریسٹ کرو راج دیکھو یہ....."
"نہایت مہربان بہت رحم کرنے والا ہے"
"راج چوپ ہو جاؤ...." نیتا کی فکر اب غصے میں تبدیل ہو رہی تھی
"روز جزا کا مالک ہے" راج نے اپنے ہونٹوں پر مالک ک ذکر کیا.......
"ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھی سے ہی مدد چاہتے ہیں" یہ سن کر نیتا سمبھل نا پائ اور زوردار تھپڑ راج کے گالوں پر دیا.."just stop it raaj"
نیتا نے چلاتے ہوئے کہا لیکن وہ اپنے بیٹے کو اپنی طرف راغب نہیں کر پائ. وہ غصے سے باہر چلی گئ.
"ہمیں سیدھا راستہ دیکھا"
ہواؤں میں ایک سکون اتر رہا تھا راج کمرے میں تنہا بیٹھا ایک جانب دیکھ رہا تھا لبوں پر الفاظ اب بھی تھے.
"ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا"
"ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا نا ان کا جو گمراہ ہوئے" راج نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے. یہ لمحہ اس کی زندگی کا وہ لمحہ تھا جس میں اس نے ایک سکون کچھ اطمینان کر دینے والی فیلینگ کو محسوس کیا وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں.
(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top