۸
خواب تو صرف مڈل کلاس دیکھتی ہے، منزلیں تو بڑے لوگوں کے لیے رکھ دی جاتیں ہیں۔ یہ اختیار بھی کے وہ خود سے چھوٹوں کے خواب مسل سکیں، اُن کے سپنے جسے وہ بہت سینچ سینچ کر رکھتے ہیں، اُنھیں پل میں چور کر دیں۔
سالار جب جب اپنے پروموشن کے بارے میں بات کرتا تھا اُسکی آنکھوں میں الگ روشنی، ایک الگ چمک آجاتی تھی۔ اور اب جب اُسکی پروموشن ہونے والی تھی، اُسے گرا دیا گیا تھا۔۔۔
سالار کو امی کی نظروں سے بچاتی وہ گھر لائ، گھر لا کے، اُس سے نظریں چُراتے ہوئے وہ اُسکی مرہم پٹی کرنے لگی۔ نظریں بس وہ نہیں چُرا رہی تھی، نظریں سالار بھی اُس سے نہیں ملا رہا تھا۔ دونوں شاید خود کو کوس رہے تھے۔ دونوں کے دل مرجھائے ہوئے تھے!
پھر ادینہ اپنے کمرے میں آگئی۔ اندر داخل ہوتے ہی اُسکی نظر سب سے پہلے شیشے سے جھانکتے اپنے خستہ حال وجود پر پڑی۔ وہ خود کو خود سے ہی انجان لگ رہی تھی، یہ روئی روئی سوجی آنکھیں، اور اُن میں بسی ویرانیت۔
وہ ایسی نہیں تھی، پھر کیوں آج اُسے اپنا آپ خود سے انجان لگ رہا تھا؟
اُسے اس ظالم دنیا میں مظلومیت کا شکار ہونے والوں کے جیسے نہیں بننا تھا۔ اُسے کھڑا ہونا تھا، اپنے لیے ناسہی تو اپنوں کے لیے۔
ہاں! ایک خوف اُسکے دل میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ پر مائرا کے بعد وہ کسی اور کو اب کھو نہیں سکتی تھی، اُسے خود ہی کچھ کرنا تھا تا کہ اس کے گھر والے مجبوری اور بےبسی کے ہاتھوں کچھ کر نا دیں۔ وہ یہ جنگ ایسے لڑنا چاہتی تھی کے سارا نام
بس اُسکا آئے، انکا نہیں جن کے لیے وہ جیتی ہے۔
اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ایک زخمی مُسکراہٹ اُسنے اَپنی اور مائرا کی تصویر پر ڈالی، اور پھر ابیحہ کو فون کر کے آخری چال چلنے کا کہہ دیا۔
جذبات کے فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں، پر وہ اب تیار تھی، کھونے کو جتنا کم ہو، اتنا ہی ہمت اُس میں زیادہ آجاتی ہے۔
وہ بہت کچھ کھو چکی تھی، چپ رہ کے اپنے ضمیر کا سکون کھو نہیں سکتی تھی، پر وہ ایک اضطراب میں تھی، جب کوئی معاف کرنے والا بدلہ لینے پر آتا ہے نا، سکون وہ کسی نہ کسی صورت کھوتا ہی ہے۔۔۔
"ادینہ!
ایک بار پھر سوچ لے، ویڈیو سے ہاشم انٹرپرائز کا امیج متاثر تو ہوگا، شاید کافی متاثر ہو۔ لیکن اُسکے ریکشن میں وہ کیا کیا کر سکتے ہیں اُس حد تک کیا تو نے سوچا ہے؟ کیا سب چیزوں کے لیے تو تیار ہے؟"
"نہیں۔
میں تیار نہیں ہوں، اگر اسکے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ ہوتا تو میں اُسے چوز کرتی، پر میرے پاس راستہ بس یہی ہے۔" پھر کچھ دیر رک کر وہ بولی۔
"مائرا کب ملے میں نہیں جانتی، پر میں سالار کی بھجی آنکھوں اور امی کے اُجڑے سکون کا بدلہ ایسے ہی لے سکتی ہوں۔ میں مائرا کو ڈھونڈنے کی آخری کوشش بس ایسے ہی کر سکتی ہوں۔ تو تم یہ نا پوچھو کے میں تیار ہوں یا نہیں، یہ سمجھ لو کہ بس میں مجبور ہوں۔"
"ٹھیک ہے۔ میں تیرے ساتھ تھی، ہوں اور رہونگی بھی۔ بس فکرمند نہیں ہونا۔" کچھ دیر بات کر کے اُسنے فون رکھ دیا۔
اندر کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا، اچھوں کی فطرت ایسی ہی ہوتی ہے، برے کے ساتھ برائی کرنا بھی اُنکے لیے آسان نہیں ہوتا۔
"کون ہو تم؟" شیشے میں خود کو دوبارہ دیکھتی وہ اجنبیت سے بولی۔
"یہ میں نہیں ہوں۔
نہیں ہوں میں!" آنسوؤں کی ایک لڑی اُسکی آنکھوں سے ٹوٹ پڑی۔
"میں آج کے بعد کسی بچے کو معاف کرنا کیسے سکھاونگی؟ میں جو فیصلہ کر چکی ہوں وہ مجھے بدل دیگا۔ پر میں مجبور ہوں، اس سے پہلے کے سالار کچھ کر بیٹھے، مجھے سارا الزام، سارا قصور اپنے سر لینا ہے۔"
اپنی ڈائری اٹھاتی وہ ہچکیوں سے رو دی، آج اُسنے کچھ نہیں لکھا، اور شاید آج کے بعد سے وہ کچھ لکھ سکتی ہی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا سچ۔"
ویڈیو، ایک گھنٹہ پہلے پوسٹ ہوئی تھی، کم و بیش ۲ لاکھ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے تھے۔ داؤد کی گرفت اپنے فون پر سخت ہوئی، اُسکے سامنے ایک ویڈیو چل رہی تھی، جس میں اُسکا بھائی، سکندر ایک لڑکی کو تنبیہ کر رہا تھا۔
ایسی تنبیہ جس میں عزت کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا۔
ایسی تنبیہ جو کوئی خیال میں بھی اپنی ہونے والی دلہن کو نا کرے۔
سچ یہ تھا!
سکندر ہی وجہ تھا، جان کے نا سہی پر انجانے میں اُس کی ہی وجہ سے مائرا خائف ہوگئی تھی۔
اتنی خائف کے اُن اپنوں کو بھی چھوڑ گئی جو اُسکے لیے اپنی جان بھی دے سکتے تھے۔
اور وہ لڑکی، اُسکی آنکھیں، اُنکی بے بسی، اُنکی نفرت، اُنکی سرد مہری!
داؤد کے ذہن میں نقش ہو چکی تھیں۔
شادی سے منع کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی پر اس سب کی وجہ سے ایک ہنستا کھیلتا گھر اُجڑ گیا تھا...
وہ یہ سب ایکسپیکٹ نہیں کر رہا تھا، وہ جتنا بھی برا سہی، کسی کے دکھ کی وجہ نہیں تھا۔ پھر اس بار یہ سب کیسے ہوتا گیا؟
اُسکا فون بجا جسے اُسنے اُٹھایا۔
"باس!
یہ جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس میں سکندر سر کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے، لوگ-- لوگ آپ اور آپکے گھر والوں کے بارے میں بہت خائف ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں کمپنی کا امیج بھی متاثر ہوا ہے۔
ہم نے ویڈیو بند کروانے کی کوشش کی پر ہمارے مخالفین ہر طرح سے ہماری کوشش ناکام کر رہے ہیں!"
وہ چپ رہا، کچھ نہیں بولا۔
اُسکے ساتھ بہت سے لوگوں کا رزق منسوب تھا، یہ سب ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ مسلسل ایک ذہنی اضطراب کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔
ایک زخمی مسکراہٹ اُسکے چہرے پر ٹھہری ہوئی تھی۔
وہ ہاشم انٹرپرائز کے سامنے اپنی مہران پارک کر کے اندر کا اضطراب محسوس کر رہی تھی۔ ویسا اضطراب جیسا وہ مائرا کی غیر موجودگی میں اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔
وہ مطمئن، خوش، یا ایک اضطراب میں تھی، وہ نہیں جانتی تھی۔ غیر ارادی طور سے اُسکے حلق سے ایک قہقہ نکلا جو اُسکی آنکھیں تر کر گیا۔
اتنے میں ہی اندر سے ایک اسٹاف کا بندہ باہر نکلا، جو اپنے ساتھ چلتے بندے سے بہت فکرمندی سے کچھ کہہ رہا تھا۔
"کمپنی کا اسٹاک گر رہا ہے!
ہمارے کچھ سپانسرز نے کال کر کے اپنے ایگریمنٹس بھی کینسل کردیئے ہیں، ایسے میں اس کمپنی کا کیا ہوگا؟
ہم سب کا کیا ہوگا؟"
"داؤد سر کچھ کر لینگے!
وہ ہم سب کا خیال رکھتے ہیں، ہم سب کو مشکل وقت میں اُنہوں نے جابز دیں!
میرا تو ایکسپرینس بھی نہیں تھا، تو آج ہم کیسے اس مشکل وقت میں برا سوچیں یا انکا ساتھ نا دیں!"
"ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔۔۔
ہماری سالوں کی محنت ہے، رایگاں نہیں جائیگی، اور میرا! میرا تو پروموشن بھی ہونے والا تھا۔ میں تو چاہ کے بھی کچھ برا نہیں سوچ سکتا۔۔۔"
اس سے آگے ادینہ نہیں سن سکی۔
اس نے ڈری ڈری نظروں سے اُن لوگوں کی اور دیکھا۔
اُسے، اُسے اُن دونوں میں ایک سالار دکھ رہا تھا، اُسکے خواب ٹوٹنے کا ڈر، ویسی ہی ایک بےبسی!
کیا سب اتنا برا ہوگیا تھا؟ کیا واقعی وہ بہت سے لوگوں کے خواب ٹوٹنے کی وجہ بننے جا رہی تھی؟
وہ مزید وہاں نہیں رک سکتی تھی، وہ خود پر قابو پاتے ہوئے اسٹیئرنگ کو گھمانے لگی، گاڑی کو تھوڑا پیچھے کرتے ہوئے اُسنے مین روڈ پر گاڑی ڈالی اور وہاں سے ایک طرح سے بھاگ گئی۔
کے اُسے سکون کی جگہ اب وحشت ہونے لگ گئی تھی۔
کچھ دور جاتے اُسنے گاڑی روکی، ریئر ویو سے خود کو دیکھا۔ ایک لمبی سانس لی اور اپنا فون چیک کرنے لگی۔
فون پر داؤد کا انٹرویو لائیو براڈکاسٹ ہو رہا تھا، وہ تھا تو وجیہہ انسان پر آج اُسکی وجاہت میں ایک فکر، ایک تھکن با آسانی دیکھی جا سکتی تھی۔
وہ بہت گہری سوچ میں کھویا ہوا لگ رہا تھا، پر اُسکی آنکھیں ویسی ہی سرد تھیں۔ ادینہ اُسے ہر رپورٹر کو جواب دیتے ہوئے دیکھے گئی۔ اُسکے لہجے میں ایک وقار تھا، ایک رعب تھا، جیسے وہ یہ سب ٹھیک کر سکتا تھا۔ اسی اثناء میں رپورٹر نے داؤد سے ایک سوال کیا۔
"یہ ویڈیو جو آج وائرل ہوئی کیا آپ جانتے یہ کس کا کام ہے؟
اور اس ویڈیو میں کتنی سچائی ہے؟"
"پرائیویٹ لائف اور پروفیشنل لائف میں ہر کسی کے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں ہماری کمپنی ہمیشہ سب کی امیدوں پر پوری اُتری ہے، تو اُسے اس سب میں گھسیٹنا ایک بہت ہی دقیانوسی بات ہوگی۔
اس بات میں کتنی سچائی ہے اُسکے متعلق بھی آپ سب کو آگاہ کیا جائیگا، اور رہی بات کے یہ ویڈیو کس نے لیک کی، تو اُسے میں جانتا ہوں۔۔" یہ کہہ کے داؤد نے کیمرے کی اور دیکھا، اور گاڑی میں بیٹھی
ادینہ کو ایسے لگا جیسے یہ نظریں اُسکی اور تھیں، جیسے وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
پر نا اُن آنکھوں میں کوئی گِلہ تھا یا تنبیہ۔۔۔
وہ آنکھیں خالی تھیں، اُن میں ایک عجیب سی ویرانیت تھی۔۔۔
"تو جس نے یہ سب کیا آپ اُسے کیا کچھ کہنا چاہتے ہیں؟" رپورٹر کے سوال کرنے پر ادینہ کا دل ایک پل کو منہ میں آیا۔ وہ کوئی دھمکی، یا کوئی تنبیہ سننے کی اُمید رکھ رہی تھی، پر اُسکی اُمید کے برعکس داؤد کچھ پل کو چپ رہا۔ پھر بولا۔
"میں اُسے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔"
اس کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا، ادینہ بھی تذبذب کا شکار ہوگئی، گاڑی کو دوبارہ سے سٹارٹ کرتے ہوئے اُس نے گھر جانے کا فیصلہ کیا، اُسکا دماغ بہت سی سوچوں میں بیوقت گھرا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاشم انٹرپرائز اس سب سے بے حد متاثر ہوا تو ہے
ادینہ!
اُن کے کئی پروجیکٹس میں دوسری کمپنیز نے اُنھیں سپانسر کرنے سے منع کردیا ہے۔"
یہ سن کے ادینہ کے ذہن میں صبح باتیں کرنے والے لڑکوں کا خیال گزرا۔
اس سے پہلے وہ کسی سوچ میں گم ہو جاتی، اُسنے اَپنا سر جھٹکتے ہوئے بات کا رخ پھیر دیا۔
اس سب کی وجہ سے تمہاری جاب پر کوئی خطرہ تو نہیں آیا نا؟" ادینہ کے سوال پر ابیحہ، جو کافی سیریس تھی، بولی۔
"اگر سچ کہوں تو مجھے دن میں آفس بلایا تھا، مجھے پتہ لگا کے سب جانتے ہیں کے یہ ویڈیو یہاں سے میری وجہ سے میڈیا تک پہنچی، مجھے تو کہا تھا کے مجھے نوکری سے شاید یہ لوگ نکال دیں لیکن، کسی نے اُسکے بعد کچھ نہیں کہا۔"
"مطلب؟
شاید اُنھیں پتہ ہی نا لگا ہو؟" ادینہ کے سوال کرنے پر ابیحہ فوراً سے جواب دینے لگی۔
"نہیں، پتہ لگ گیا ہے، پر دوسری طرف سے فلحال میری کمپلین نہیں ہوئی، مختصراً یہ کے داؤد نے میرے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔
یہ بہت تعجب کی بات ہے، پر یہ سچ ہے۔۔۔"
ابیحہ کا جواب ادینہ کو چپ کروا گیا۔
اُسنے کچھ دیر بعد فون رکھا۔
پر اُسکے دل نے ایک بار پھر سے خود سے پوچھا کے آیا جو وہ کے رہی ہے کیا وہ ٹھیک ہے؟
کیا واقعی داؤد اور اُسکے گھر والے قصور وار ہیں؟...
اتنے میں ہی اُسکا فون بجا، پر اُسکے سیل پر کوئی نمبر لکھا نہیں آرہا تھا بس،
'Hidden Number'
لکھا آرہا تھا، ادینہ کانپ گئی، کیا یہ داؤد کی کال تھی!
وہ فیصلہ ہی نا کر سکی کی اتنے میں کال کٹ گئی۔
دو منٹ ہی گذرے تھے کے اُسکا فون پھر سے بجا۔
اب کی بار بھی وہ ساکت ہوئی آنکھوں سے فون کو دیکھے جا رہی تھی۔
پر کب تک؟
وہ بھاگ نہیں سکتی تھی، اسلئے اُسنے فون اٹھایا۔
"کون؟" وہ ہولے سے بولی۔
"ادینہ!
ادینہ میں مائرا..." ایک جانی پہچانی آواز، جسے سننے کو وہ دنوں سے ترس رہی تھی ایک دم سے سن کے وہ ساکت ہوگئی۔
"ادینہ۔۔۔
میری آواز آرہی ہے نا؟"
"مائرا!
تم تم کہاں ہو مائرا!
تم ٹھیک ہو نا۔۔۔" ادینہ کی انتہائی فکرمند آواز سن کے وہ بولی۔
"میں ٹھیک ہوں ادینہ۔
تم، تم کیسی ہو؟
امی، بھائ، کیسے ہیں سب؟" ادینہ جو مائرا کے لیے بےحد پریشان تھی وہ مائرا کے لہجے میں کوئی ڈر یا خوف محسوس نہیں کر پا رہی تھی،
یہ سب ہو کیا رہا تھا؟ آخر مائرا گئی تو گئی کہاں تھی؟
"مائرا!
سب ٹھیک نہیں ہیں، تم کہاں چلی گئی تھی ہاں!
ہم سب پل پل کتنا مر مر کے جیے ہیں!
تم مجھے بتاؤ تم کہاں ہو، میں آؤنگی تمہیں لینے،
بتاؤ مجھے داؤد اور سکندر نے تمہیں کہاں رکھا ہوا ہے؟" ادینہ کی روتی آواز سن کر مائرا کا سر ایک پل کو چکرا گیا۔
"ادینہ میں بلکل ٹھیک ہوں!
اور میں تم سب کی قصور وار ہوں، میں مانتی ہوں!
شاید میں ہمیشہ اس گلٹ میں رہونگی کے میں نے تھوڑی جلدبازی کر دی پر۔۔۔
پر یہ فیصلہ کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا!"
"کیا فیصلہ!
یہ سب کیا کہہ رہی ہو تم؟"
"ادینہ۔۔۔
وہی فیصلہ جو میں نے امی کو بتایا تھا۔
جو میں اُن کے منہ پر کہہ نہیں سکتی تھی!"
"کیا نہیں کہہ سکتی تھی، تم کھل کے بتاؤ مائرا، اور تم ہو کہاں پر!"
"ادینہ۔۔
سکندر مجھے پسند نہیں کرتا تھا، اُسنے اس شادی سے صاف انکار کردیا تھا۔
میں امی سے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہہ چکی تھی پر امی کی خوشی دیکھ کے میں ڈر جاتی تھی، چپ ہو جاتی تھی۔
امی میری چپ کو سمجھ نہ سکی اور اُنھیں لگا جیسے میں راضی ہوں۔
پھر، پھر شادی کے دن، نکاح سے پہلے میں نے سکندر کا اُترا چہرہ اور رویہ دیکھا۔
میری شادی سے زیادہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کے جیسے سب کسی ماتم پر آئے ہوئے ہوں!
میں ایسے رشتے میں کیسے بندھ جاتی ادینہ!
میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا!" بات ختم کرتے کرتے مائرا کی آواز بھیگ گئی تھی۔
"تو تمہارے غائب ہونے میں سکندر یا داؤد کا ہاتھ نہیں ہے!" ادینہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، ایک کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔ اُسکی آنکھوں سے بہتے آنسو اب تھم گئے تھے۔
"نہیں!
وہ مجھے کیوں غائب کرواتے ادینہ، میں تو۔۔میں تو۔"
"تو کہاں ہو تم!
اور اتنے دن ہم سے رابطہ کیوں نہیں کیا۔۔۔"
ادینہ نے اس سے نم اور غصیلی آواز میں پوچھا جس پر اُسکی سسکی نکل پڑی۔
"تمہیں یاد ہے میرے نکاح والے دن میرا رزلٹ آنا تھا، سکندر کے رشتے سے پہلے میں نے بھی ایک خواب دیکھا تھا!"
ادینہ کی آنکھیں کھل گئیں، جیسے ایک کڑی سے دوسری کڑی مل رہی ہو۔
"تمہارا ISSB کلیئر ہوگیا تھا؟
کیا تمھاری شورٹ کورس میں سلیکشن ہوگئی تھی مائرا؟"
"ہاں!
اُسی دن مجھے پتہ لگا تھا، میرا ماسٹرز کرنے کے بعد سے سارا فوکس اسی چیز پر تھا، لیکن سکندر کے رشتے کے بعد امی نے مجھ سے بہت پیار اور مان سے یہ وعدہ مانگا تھا کے ایک بار میں انکا فیصلہ مانونگی!
پر میں بہت کھوکلی نکلی ادینہ۔۔۔
جب اُس لڑکے کے لہجے میں ہتک دیکھی، تو دل کیا سب چھوڑ کے کہیں چلی جاؤں!
میں پیار نہیں مانگ رہی تھی، بس عزت!
پر وہاں عزت نہیں میں نے خود کو ایک بوجھ سمجھا...
اور تم جانتی ہو نہ کے میں مرتی مر جاؤں پر کسی پر بوجھ نہیں بن سکتی۔
پر دیکھو میں نے ہی امی کو سب سے زیادہ دکھ دے دیا۔۔۔"
میں بہت بری ہوں نا ادینہ!
میری وجہ سے سب اتنا پریشان ہوگئے!"
"تم نے بتایا کیوں نہیں مائرا!
تم نے کیوں دیر کردی!
تم نہیں جانتی پر تمہاری اس دیر نے مجھ سے ایک گناہ کروا دیا ہے! مجھے ساری زندگی کا پچھتاوا دے دیا ہے۔۔۔" ادینہ کی بھیگی آواز سن کے مائرا اور بھی شرمندہ ہوگئی، اُسکی جھکی نظریں اور بھی جھک گئیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith🌸
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top