۷

تم تن تنہا صحرا میں ہو، دنوں کے پیاسے، راستے سے بھٹکے ہوئے، سوچو ایک تپتا سورج تمہارے سر پر ہو۔ پھر بھی، پھر بھی تم نے پُرامید رہنا ہے!

تم نے مایوس نہیں ہونا کے یہ کفر ہے۔

اور کفر مومن سے زردست نہیں ہو سکتا۔

سالار بھی اسی یقین کے ساتھ گزرتے دنوں میں خود پر قابو کر پایا تھا۔ اپنی بہن جیسی کزن، جسکا نام و نشان تک وہ ڈھونڈ نہیں پا رہے تھے، صبر کا امتحان ہی تو تھا نا۔۔۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اُسکی ساری ہمت، ساری طاقت جواب دے گئی تھی۔

وہ جس عذاب میں تھے اُسکے برعکس سکندر اور اُسکے گھر والے معمول کے مطابق زندگی کو انجوائے کر رہے تھے، آج صبح ہی سالار نے سکندر کا انٹرویو دیکھا تھا، جس میں وہ انتہائی ہشاش بشاش لگ رہا تھا۔

خود پر قابو کھوتے ہوئے سالار، سکندر کی کمپنی کے بلکل سامنے تک پہنچ چکا تھا۔ شاید وہ اس لمحے میں بھی صبر کر جاتا پر سکندر کو آفس سے ایک لڑکی کے ساتھ نکلتا دیکھ کے اُسکا پارا چڑھ گیا۔ اُس نے آؤ دیکھا نا تاؤ، سکندر کی اور قدم بڑھا دیئے۔

سکندر جو اس سب سے انجان ایک میٹنگ کے لیے اپنی اسٹاف کی ایک رپرسینٹیٹو کے ساتھ جا رہا تھا، اپنے اوپر ایک دم سے سالار کو جھپٹا دیکھ کے چونکا، لیکن تھوڑی دیر کرگیا، اپنے منہ پر ایک زور دار تھپڑ کو محسوس کیا۔ بروقت خود کو پھر سنبھالا اور سالار کے باقی واروں کو آسانی سے روکنے لگا۔

"What the Hell!"
اپنا پارا کھوتے ہوئے وہ سالار پر غرایا، کئی باڈی گارڈز اُس وقت تک سالار کو پکڑ چکے تھے۔ پر چونکہ یہ سب عین آفس کے سامنے ہوا تھا اسلئے کئی لوگوں نے سکندر کو تھپڑ پڑتا ہوا دیکھ لیا تھا۔
اُسکی بے عزتی کافی حد تک ہو چکی تھی۔

"تمہیں کیا لگتا ہے؟
تم نے جو بھی کیا اُسکے بعد تم آرام و سکون سے رہو گے؟
نہیں۔
تمہاری تذلیل ہوگی، اور ضرور ہوگی۔ جب تک مجھے میری بہن نہیں مل جاتی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا!" سالار کے جواباً غرانے پر سکندر چپ ہوگیا۔

اسکے بعد اُن گارڈز نے سالار کو کچھ دھکے دے کر وہاں سے چلتا کیا۔

پر سکندر کے چہرے کے سے اُسکا غُصہ صاف ظاہر تھا۔
کیا واقعی وہ مائرا کے گم ہونے کی وجہ تھا؟
کیا اس دن اُسکے کہے گئے لفظوں کی وجہ سے مائرا نے یہ سب کیا تھا؟

وہ بھی جھنجھلاتا جا رہا تھا، زیادہ نہیں تو وہ یہ ضرور جانتا تھا کے اُسنے مائرا نے نا پسندیدگی کی بھی تھی اگر لیکن نفرت نہیں۔

آج جو ہوا اُس سے اُسکی امیج خراب ہوئی تھی اور وہ اس بات پر خاموش بیٹھنے والا نہیں تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادینہ اس بات سے بےخبر کے اُس کے گھر پر ایک اور آزمائش آنے والی ہے، سب بچوں کے ساتھ مل کے وال آرٹ کر رہی تھی۔

وہ داؤد کا سامنا کسی صورت نہیں کرنا چاہتی تھی، داؤد نے اُسے اُسی کے طریقے سے ہرایا تھا، اور ہار کو تسلیم کرنے کے لیے بھی ایک ہمت چاہئے ہوتی تھی جو فلہال اُس میں نہیں تھی. وہ تو پہلے سے بہت کچھ جھیل رہی تھی، ایک نیا تمسخر اُسکی ذات کو بکھیر سکتا تھا۔

بچوں کو دوسری میم کے حوالے کر کے وہ کچھ دیر فون سکرول کرتی کرتی باہر نکلی تھی کے اپنی ماما کے نمبر سے کال آتی دیکھ کے چونکی۔
ابھی اُسنے فون اٹھایا ہی تھا کے اُسکی امی نے اُسے عجلت میں گھر آنے کو کہا۔ وہ وجہ پوچھتی ہی رہی پر وہ مسلسل اُسے آنے کا کہتی رہیں۔

وہ اپنا بیگ سمیٹتے ہوئے باہر نکلی اور برق رفتاری سے گاڑی چلاتی ہوئی گھر کو پہنچ گئی۔

گھر پر منظر بہت سرد اور خاموش تھا، اُسکی امی بس بھیگی آنکھوں سے ادینہ کو آتے دیکھے گئیں اور اُسکے آتے ہی جیسے دل کھول کے رونے لگ پڑیں۔

"امی!
ہوا کیا ہے؟"

"تمہارے بھائی کے باس کی کال آئی تھی۔
اس۔۔ اُسے جاب سے فائر کردیا ہے۔"

"پر کیوں؟
ایسے اچانک سے کیوں امی، بھائی کا تو پروموشن ہونے والا تھا نا!"

"تمہارے بھائی نے سکندر کو اُسکے آفس کے سامنے جا کے تھپڑ مارا ہے!
میری سنتے ہی کب ہو تم لوگ؟
کہا تھا اُن سے دور رہو! کہا تھا نا!
ایک کو تو کھو دیا ہے میں نے اب تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ کیوں میری آزمائش لے رہے ہو؟"

"امی! آپ پریشان نا ہوں۔
میں دیکھتی ہوں، میں بھائی سے بات کرتی ہوں."
وہ اُنھیں دلاسہ دیتی اُٹھی اور پھر کمرے میں جاتے ہی سالار کا نمبر ملا دیا۔

فون مسلسل بجتا گیا، پھر کوئی چوتھی پانچویں بار جا کے ریسیو ہوا۔

"سالار! کہاں ہو تم.
گھر میں تمہارے باس کی کال آئی تھی کہہ رہے تھے کے تمہیں اُنہوں نے فائر کر دیا ہے، اس سب کی وجہ کیا ہے؟
اور تم ہو کہاں؟"
ادینہ بولتی گئی، پر کوئی جواب اُسے نہیں ملا۔ پھر کچھ دیر بعد دوسری اور سے آواز آئی۔

"میم یہ پولیس اسٹیشن ہے۔
آپکا بھائی حوالات میں ہے، آپ یہاں اُنکے سلسلے میں آسکتی ہیں تو آجائیں۔"
ادینہ کا دماغ جیسے ماؤف ہونے کو آیا تھا۔ وہ بہت فکر مند ہو چکی تھی، یہ سب تو وہ کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
بہت دھیان سے وہ امی کو پتہ لگے بغیر گھر سے نکلی اور پولیس اسٹیشن کی اور چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس اسٹیشن داخل ہوتے اُس نے سب سے پہلے اُسے دیکھا جسے وہ آج پورا دن دیکھنے سے گریزاں تھی۔ اُسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کے سالار نے ان لوگوں کے خلاف کچھ کیا ہوگا۔

وہ اندر آئی، پر پولیس اُسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے داؤد کو بریفنگ دینا شروع ہوگئی۔

"کیس ہو چکا ہے۔
یا دو سال قید ہوگئی اس لڑکے کو یا پھر جرمانہ۔
اگر یہ لڑکا معافی نہیں مانگتا تو یہ دونوں سزائیں بھی اسے ہو سکتی ہیں."

ادینہ کا دل مُٹھی میں آگیا۔ وہ تھوڑی ہمت کر کے ہی بول پائی۔

"میرے بھائی نے کیا کیا ہے سر؟" وہ جو پہلے ادینہ کو نظرانداز کر رہا تھا، اُسکے پوچھنے پر ایک ناگوار لہجے میں بولا۔

"بی بی آپکے بھائ پر
'Defamation'
کا کیس ہوا ہے۔ مشہور بزنس مین سکندر صاحب پر اُنہوں نے 'public violence' کیا اس لیے فوری ایکشن لے کے ہمیں اُنھیں حوالات میں بند کرنا پڑنا۔"

"public violence!"
ادینہ خود سے بولی، پھر تھوڑی دیر بعد رک کے پوچھنے لگی۔

"انسپکٹر صاحب، سالار سے اگر غلطی ہوئی ہے تو وہ معافی مانگے گا۔ آپ مجھے جرمانے کے بارے میں بتا دیں۔ میں رقم لے آؤنگی۔"

"داؤد سر آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں." وہ انسپکٹر ہر سوں داؤد کو مطمئن کرنا چاہتا تھا۔
اسلئے اُسنے یہ فیصلہ داؤد کے ذمے لگانا چاہا لیکن اُسے ہنوز چپ دیکھ کے وہ بولا۔

"۱ لاکھ کم و بیش جرمانہ بنتا ہے۔ یہ بھی آپکی قسمت ہے کے داؤد صاحب کچھ نہیں بولے ورنہ ۔۔۔"

ادینہ جس نے داؤد کی اور دیکھا نہیں تھا، لیکن جانتی تھی کے اگر دیکھا تو اپنے اندر رکھی نفرت کو وہ قابو نہیں کر سکے گی۔

ایک تھپڑ کے عوض اُسے کیا کیا نہیں چکانا پڑ رہا تھا۔

وہ صبر کرتے ہوئے اُٹھی اور اسٹیشن سے باہر نکل گئی۔ مائرا کی شادی کے سبب اُنکی بچی کچھ سوینگز خرچ ہو چکی تھیں۔ ہاں مائرا کا کچھ زیور پڑا ہوا تھا لیکن وہ مائرا کا تھا اور اس میں سے کچھ بھی ادینہ استعمال نہیں کر سکتی تھی۔

اچانک اُسکی نظر اپنے ہاتھ میں بندھے ایک نازک سے بریسلٹ پر پڑی، جسکے بیچ و بیچ ایک ننھا سا کنول کا پھول تراشا گیا تھا۔ یہ اُسکے بابا نے اُسکے بچپن میں اُسکے لیے بنوایا تھا، اُسے یہ دل سے تو بہت قریب تھا پر سالار سے آگے نہیں۔

وہ جیولری شاپ پر گئی اور اپنے بریسلٹ کو، جو ۱.۵ تولے کا تھا، اُسے بیچ دیا۔
جو رقم اُسے ملی اُس میں سے اُس نے ۱ لاکھ علیحدہ کیا اور باقی اپنے پرس میں رکھ دیئے۔ ایک آخری نظر اپنے بریسلٹ پر ڈالتی ہوئی وہ دکان سے باہر نکلی۔ اپنی خالی کلائی کو دیکھ کے ایک طنزیہ ہنسی ہنس دی۔

جب جان کا ڈر ہو نا، تو جان سے پیاری چیزیں کھونی پڑتی ہیں!

وہ بھاری قدموں کے ساتھ واپس اسٹیشن پہنچی اور بیل کی رقم ادا کرنے لگی۔ اُس کے لیے داؤد کی شخصیت اب ایک ڈر بن چکا تھا۔ اُس شخص کے لیے ایک بے آسرا گھرانے کی روزی چھیننا پھر یہ جرمانہ، یہ سب کرنا کتنا معمولی تھا نا۔

کیا کوئی اتنا سنگ دل ہو سکتا ہے؟

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داؤد، جسے دیکھ کے کوئی نہیں جان سکتا تھا کے اُسکے دماغ میں کیا چل رہا ہے، وہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ ہوتا دیکھ رہا تھا۔

بات اُسکی ذات کی ہوتی تو وہ سہہ بھی جاتا، پر اُسکے اپنے اُسکے لیے اُس سے بھی زیادہ اہم تھے۔

وہ سالار کو بس ایک طرح سے تنبیہ کرنا چاہتا تھا کے جو آج اُس نے کیا وہ آئندہ نا کرے۔ وہ چاہتا تو دو سال کی قید میں سالار کو رکھوا سکتا تھا۔ لیکن انسپکٹر کے پوچھنے پر نا جانے کیوں وہ چپ رہا۔

اس نے غیر ارادی طور سے محسوس بھی کیا کے
ادینہ نے اس سے کوئی زبان درازی یا بحث نہیں کی، خلافِ توقع وہ بہت سہمی ہوئی تھی۔

کیا وہ اس سب سے خائف ہو گئی تھی؟

اتنے میں ہی اُسکا فون بج پڑا، سکندر کا نام دیکھتے ہی اُس نے فون اٹھا لیا۔

"بھائ آپ کہاں ہیں؟"

"میں پولیس اسٹیشن ہوں، تم بتاؤ آج جو ہوا کیا وہ میڈیا میں لیک تو نہیں ہوا؟"

"پولیس اسٹیشن میں، پر کیوں؟
اور آپ کو یہ سب کس نے بتایا." سکندر کی آواز میں تھوڑی فکر تھی۔

"بڑا بھائی ہوں تو تمہارا، تم نہیں بتاؤ گے تو کیا مجھے پتہ نہیں لگے گا؟" داؤد کی آواز سننے کے بعد سکندر کچھ دیر چپ ہوگیا۔

"سوری بھائ میں چھپانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
لیکن میں نے معاملہ اپنے طریقے سے  ہینڈل کرلیا تھا۔ آپ فکرمند نا ہوں۔"

"کیا مطلب؟
تم نے کیا ہینڈل کیا؟" داؤد کی فکرمندی دیکھتے ہوئے سکندر نے ایک لمبی سانس بھری، اور پھر بولا۔

"سالار کے باس بابا کے پرانے دوست تھے، اُنسے کہہ کے سالار کو جاب سے نکلوا دیا ہے۔
یہ اُسکے لیے سبق ہوگا، تا کے آئندہ یہ سب کرنے سے وہ باز رہے۔" سکندر کا جواب سن کے داؤد ایک پل کو چپ ہوگیا۔ اُس نے اس حد تک جانے کا سوچا نہیں تھا، پر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

"پر آپ پولیس اسٹیشن کیوں ہیں؟" سکندر کے پوچھنے پر داؤد چپ رہا، کچھ ہی لمحوں میں سکندر خود بول پڑا۔

"کیا آپ سالار کے سلسلے میں وہاں ہیں؟"

"ہم" داؤد کے مختصر جواب سے سکندر کو بھی احساس ہوا کے بھلے وہ ٹھیک ہوں، اس بار وہ دونوں تھوڑا آگے چلے گئے تھے۔

"اس کی ضرورت نہیں ہے بھائی۔
سالار پر اگر آپ نے کوئی کیس لیا ہے تو اُسے واپس لے لیں۔"

اس سے پہلے داؤد کچھ بولتا، تھانے دار کی آواز اُسکے اور فون پر موجود سکندر کے کانوں سے ٹکرائی۔

"داؤد صاحب یہ ایک لاکھ کا جرمانہ اور یہ بیل پیپرز۔ سالار نامی لڑکے نے اگر آگے ایسا کچھ کیا تو آپ بس ایک کال کیجئے گا نبٹ ہم خود لینگے۔"
سکندر نے یہ سنتے ہی فون کٹنے کی آواز سنی۔ اور کچھ دیر کو وہ ایک گہری سوچ میں چلا گیا۔

ایک لڑکی کا بےبس چہرے اُسکی آنکھوں کے سامنے سے گزرا۔
وہ ہی لڑکی جو اُس کی محرم ہونے جا رہی تھی پر وہ مسلسل اُسے یہ جتاتا تھا کے یہ رشتا اُسکے لیے کس قدر بےوقعت اور بےمعنی حیثیت رکھتا تھا۔

وہ سنگدل نہیں تھا پر خود پر جبر اُسے برداشت نہیں تھا، وہ کسی قیمت میں بھی ایک زبردستی کے رشتے میں بندھنا نہیں چاہتا تھا۔

پھر ایک دن وہ لڑکی خود ہی چپ چاپ غائب ہوگئی، اُسے شروع میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا، پر گزرتے وقت کے ساتھ وہ ایک انجانے گلٹ میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا۔

پھر جو آج ہوا؟ وہ تنگ ہوتے ہوئے اپنا فون ٹیبل پر رکھ کے اٹھا اور کمرے کی کھڑکی کی اور بڑھ گیا کے اُسکا سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سالار کو سیل سے باہر آتا دیکھ ادینہ اُسکی اور گئی، سالار کو چلنے میں تھوڑی دکت ہو رہی تھی، اُسکا سوجا ہوا گال اس بات کا گواہ تھا کے کسی نے اُسے شاید مارا تھا۔ گو کے اُسکی حالت ناساز نہیں تھی پر وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔

وہ جانتی تھی یہ سب کسی پولیس والے کا کرا دھرتا ہوگا۔ شاید داؤد جیسے بڑے آدمی کو متاثر کرنے کی ایک کوشش تھی۔ دن کے آخر میں ادینہ ایک بہن بھی تھی جو اپنے بھائ کو اس حال میں دیکھ کے لرز گئی تھی۔

اُسنے اپنی انگلیوں سے سالار کے گال کو ہلکے سے چھوا اور اس سے پوچھا۔

"زیادہ درد ہو رہا ہے؟"
اپنی بہن کی نم آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُس نے مسکرانے کی کوشش کی، پر درد میں تو وہ تھا، جسم سے زیادہ شاید دل میں اُسکے درد ہورہا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں، گھر جاتے ہیں ماما پریشان ہورہی ہونگی۔" وہ ادینہ کو جلد از جلد اس ہیبت ناک جگہ سے لے کے جانا چاہتا تھا۔

ادینہ اور سالار دونوں نے داؤد کو ان دیکھا کیا اور باہر کی اور آہستہ آہستہ چلنے لگ پڑے۔

داؤد جسکا چہرہ کسی بھی جذبے سے عاری تھا وہ
ادینہ کی اور دیکھ رہا تھا۔ اُسنے فزیکل انکوائری کی نا ڈیمانڈ کی تھی نا ہی اُسے علم تھا۔ پر سالار کی حالت دیکھ کے اُسے، کہیں بہت اندر سے ندامت نے آ گھیرا۔

وہ اُن دونوں کے تھوڑا پیچھے گیا اور دبی ہوئی آواز میں ادینہ کی اور دیکھتے ہوئے بولا۔

"سالار آپکی بہن کے گم ہونے میں سکندر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اس سے زیادہ کلیئر میں نہیں جانتا کے میں یہ بات کیسے کہوں۔"

پر وہ دونوں داؤد کو نظر انداز کر رہے تھے، اُنکے لیے داؤد کسی بیسٹ سے کم نہیں تھا۔ ادینہ نے سالار کی بھنچی مٹھیاں دیکھیں اور اُسی اثنا میں اُسکا بازو پکڑ لیا۔ وہ سالار کو مزید کسی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پھر وہ دونوں چپ چاپ باہر نکل گئے۔

داؤد اُنھیں جاتا دیکھ رہا تھا، چاہے وہ سوشل سٹیٹس میں اُس سے کتنے ہی کمتر تھے، پر پولیس اسٹیشن جیسی جگہ سے بھی وہ سر اٹھا کے نکلے تھے۔ وہ ان بہن بھائیوں کو یا تو سمجھ ہی نہیں سکا تھا يا اگر سمجھا بھی تھا تو غلط۔

فطرتاً برا داؤد بھی نہیں تھا، اسلئے وقتاً فوقتاً اُسکی آنکھوں کے آگے ادینہ کی بےبسی، اور بیک وقت اُسکی سردمہری آرہی تھی، اور اُسے اپنا آپ ایک گہری دلدل میں گرتا محسوس ہو رہا تھا۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rani_dream_faith🌸

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top