۶

زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کے مر جاتے ہیں

بارش کی ننھی ننھی بوندیں اُسکی کھڑکی پر گر رہی تھیں، وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔

وہ اکثر سوچتی تھی کے یہ بوندیں بھی ایک بلندی سے یعنی آسمان سے سفر کرتیں نیچے آتی ہیں اور پھر بغیر کسی ارتعاش کے اپنا آپ کھو دیتی ہیں۔

کیا ہر سفر اپنی منزل پر ہی ختم ہونا ہوتا ہے؟
کیا ہر چیز کا انجام کھو جانا ہے؟
گم جانا ہے۔۔۔؟

خدا کی بنائی یہ قدرت اُسکے لیے بہت گہری تھی، وہ بس ان چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتی تھی۔ کبھی سمجھ جاتی تھی تو کبھی اُلجھ جاتی تھی۔ جانتی تھی کے خدا کی قدرت کی گہرائی بھی بس وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جو اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

تو وہ بھی بس کوشش ہی کرتی رہتی تھی۔

اسی لمحے اُسکی نظر اپنی کلائی میں بندھی گھڑی پر پڑی اور اُسے احساس ہوا کے وہ اسکول کے لیے لیٹ ہو نے والی تھی۔ وہ جلدی سے تیار ہوئی، حجاب کے ہالے میں خود کو لپیٹتی کمرے سے باہر چلی گئی۔ معمول کے مطابق اپنی ماما کو پیار کرکے اُنکی اُداس آنکھوں سے نظریں چراتی وہ گھر سے باہر چل دی۔
  
                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُمید کے مطابق سکول کا ماحول کچھ سرد تھا۔ ادینہ اس سب کے لیے تیار تھی، وہ ٹیچرز کی جانچتی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی۔
کل جو ہوا وہ ظاہر تھا کہ سب کو پتہ چل گیا ہوگا، گو کے وہ اُسے کہہ نہیں رہے تھے اور اُنکی نظریں سب بتانے کے لیے کافی تھیں۔

پہلا پریڈ لینے کے بعد ادینہ نے پھر سے اسکول میں ہلچل محسوس کی، آج کی ہلچل کل کی نسبت زیادہ تھی۔ کچھ ہی دیر میں کل جو اُسنے شکلیں دیکھیں تھیں وہ سب سکول کے ہال میں آچکی تھیں، اُنکے ساتھ آج میڈیا کے لوگ بھی تھے۔

ادینہ اندر سے پریشان اور مضطرب ہو گئی۔
یہ سب کیا تھا؟

کچھ دیر بعد اُسے باہر بلایا گیا، مرتا کیا نہ کرتا اُسے جانا پڑا۔

وہ اُن سب کے سامنے کھڑی ہی ہوئی تھی کے گیٹ سے داؤد کو آتا ہوا اُسنے دیکھا، خلافِ توقع اُسکے چہرے پر غُصہ نہیں بلکہ ایک مسکراہٹ تھی۔ اور اُسکے ہاتھوں میں سفید لیلیز کے پھول۔
وہ ادینہ کے عین آگے آ کے رکا اور اُسکی اور طنزیہ طور سے پھول آگے کیے۔

میڈیا اپنی ریکارڈنگ شروع کر چکا تھا۔ ادینہ کے لیے سب کچھ سمجھنا مشکل تھا۔

"کل جو بھی ہوا میں اُسکے لیے معذرت خواہ ہوں۔
کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا، اسی وجہ سے میں چاہونگا کے کل جو ہوا آپ اُسکے لیے مجھے معاف کردیں۔"
ادینہ نے اُسکے اگے کیے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھے بغیر داؤد کے چہرے پر غور سے دیکھا، جیسے وہ جاننا چاہتی ہو کے اس سب کا مقصد کیا ہے۔

"مجھے یہاں سے جانے کے بعد احساس ہوا کے واقعی مجھے بچوں کے سامنے غصّہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اور شاید میں آپ سے بھی روڈ ہوکر بولا تھا۔ جبکہ آپ ۱.۵ سالوں سے بغیر کسی سیلری کے ان بچوں پر محنت کر رہی ہیں۔"

"کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟" ادینہ کے سرد جواب سے داؤد کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی، اور وہ بولا۔

"میں ایک کھوکھلی معافی نہیں مانگ رہا۔ میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کے میں سچ میں شرمندہ ہوں۔ میں اسکول اسٹاف سے اجازت لینا چاہتا ہوں کے میں بھی ان بچوں کے ساتھ کچھ وقت رہنا چاہتا ہوں۔
انہیں کچھ وقت پڑھانا چاہتا ہوں، ان سے کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔"

ادینہ کا دماغ چکرا گیا۔ کچھ ہی لفظوں سے کھیل کے کیسے داؤد نے سارا معاملہ اپنے حق میں پلٹا تھا۔

سکول اسٹاف کے ساتھ ساتھ کمپنی کے لوگوں نے ایک ستائش سے بھری نظر سے داؤد کو دیکھا۔

اتنی بڑی کمپنی کا مالک ہو کے بھی وہ اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ اسکول اور اس جیسے کئی اسکول جو اُسکے فنڈز سے چلتے تھے اُن میں اپنی غلطی کو ٹھیک کر کے وہ ایک مثال قائم کر رہا تھا۔

ادینہ کو اپنا پلان فیل ہوتے دیکھ کے بےحد فکرمندی ہوئی۔ ایسے تو داؤد اس سے کبھی خائف نہیں ہوگا۔ اور اگر خائف نہیں ہوگا تو مائرا کے بارے میں بتائے گا کیسے!

ادینہ خلا میں گھور رہی تھی، اور وہ اُسکی اس حالت سے خاصہ مطمئن تھا۔

ادینہ نے جیسے تیسے کر کے دوسرا پریڈ اٹینڈ کیا۔
اگلا چونکہ سپورٹس پریڈ تھا تو اُسے کل کے جیسے ہی باہر اپنی کلاس کو لے کے جانا تھا۔ وہ سب کے ساتھ چل ہی رہی تھی کے اچانک کچھ یاد آنے پر اپنی کلاس کے ایک بچے کے پاس جسکا نام رائد تھا گئی۔ اور اُسے سائن لینگویج میں کچھ اشارے کرنے لگی۔

داؤد جو اسٹاف سے کچھ معلومات لے رہا تھا اُسکی نظر سے یہ سب چھپا نا رہ سکا، وہ ادینہ کے ہلتے ہاتھ دیکھ رہا تھا، اور اُسکے چہرے پر چھائی سنجیدگی، جیسے وہ بہت سیریس ہو کے اس بچے کو کچھ سمجھا رہی تھی۔

میم آمنہ جو ادینہ کی سینئر ٹیچر بھی تھیں، شروع سے داؤد اور ادینہ کے بیچ میں ایک عجیب سا تناؤ محسوس کر تی تھیں۔ داؤد کی آنکھوں کے تعاقب میں جب انہیں ادینہ دکھی تو وہ داؤد کو ایک نا سمجھی نظر سے دیکھے گئیں۔

"اس بچے کے ساتھ کیا ایشو ہے؟
یہ بچا کیا بول نہیں سکتا؟" داؤد کے سوال کرنے پر میم آمنہ اپنے ٹرانس سے باہر نکلیں۔

"یہ بچہ دکھنے میں بلکل نارمل ہے، لیکن ہاں، یہ بول نہیں سکتا۔ وقتاً فوقتاً یہ ایک ٹرانس میں چلا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کے یہ پیدائشی گونگا ہے۔ لیکن ۵ سال کی عمر سے اس نے ایک دم سے بولنا بند کردیا۔ کوئی کچھ بھی کر لے یہ رسپانس نہیں دیتا۔

"تو یہ ایک سائکولوجیکل کیس ہے یعنی؟"

"کئی سائکالوجسٹ نے یہ کیس ریڈ کیا پر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، پر یہ فزیکلی بلکل ٹھیک ہے۔ بس اکثر ٹرانس میں جانے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آتی کے اس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے۔

"وہ اس بچے کو کیا کہہ رہی ہیں۔"
داؤد کا ادینہ کے متعلق پوچھنے پر وہ تھوڑا چونکی، پھر بولیں۔

"رائد پانی سے بہت ڈرتا ہے، آج سپورٹس پریڈ کے لیے ادینہ انہیں باہر پلے گراؤنڈ میں لے کے جا رہی ہے، آخری بار جب وہ اپنی کلاس کو باہر لے کے گئی تھی تو رائد غلطی سے پول کی اور چلا گیا، گرنے ہی والا تھا کے ادینہ نے وقت پر اُسے بچا لیا۔

چونکہ سویمیگ پول پلے گراؤنڈ کے بلکل ساتھ ہے تو  ادینہ رائد کو اپنے آس پاس رہنے کا کہہ رہی ہے۔
تا کہ جو پچھلی بار ہوا وہ اس بار نا ہو۔"
جب تک آمنہ میم کی بات ختم ہوئی، ادینہ رائد کا ہاتھ پکڑے سب بچوں کے ساتھ ہال تک چلی گئی تھی۔

"یعنی تمہیں کچھ سازشیں کرنے کے علاوہ لوگوں کا خیال رکھنا بھی آتا ہے۔
سٹرینج." داؤد دل میں کہتے ہوئے دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔ کہیں نا کہیں پر اُسکے دھیان میں
وہ دونوں رہ گئے تھے۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بچے ہی ادینہ کی راہ فرار تھے، اُسکا سکون انہی میں تھا۔ وہ ہر بچے کو کھیلتا دیکھ کے مسکرا رہی تھی۔
کچھ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں اور فیس پر اپنا سب سے پسندیدہ پھول، کنول بنا رہی تھی۔

وقتاً فوقتاً وہ رائد کو بھی دیکھ رہی تھی جو باقی بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ دن بھر کے سارے واقعات اُسکی نظروں کے سامنے چلنے لگ پڑے۔ وہ مانو پھر سے کھو سی گئی۔
کچھ لمحے وہ اپنے انہی خیالات میں تھی کے اُسکے آگے کھڑی، ڈاؤن سنڈروم سے متاثرہ بچی نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے اُسکے ٹرانس سے نکالا۔

اُسے پہلے سمجھ نہیں آئی پر پھر اس نے جب اس بچی کے اشارے کا تعاقب کیا تو رائد کو ایک بال کے پیچھے بھاگتا ہوا جاتے دیکھا۔

رائد کی رفتار تیز تھی، ادینہ کی آنکھیں کھل گئیں جب اُسے احساس ہوا کے رائد سویمیگ پول کی طرف ہی بھاگ رہا تھا۔

"رائد، واپس آؤ!" ادینہ کی چینخ سے آس پاس کھڑے اور بھی ٹیچرز متوجہ ہوگئے، سب نے رائد کی اور دیکھا۔

تب تک ادینہ اُسکی اور بھاگنا شروع ہوگئی۔

فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اُسے کچھ وقت لگنا تھا، اسی اثناء میں اُس نے رائد کو چینختے اور پھر پول میں گرتے دیکھا۔ اُسکا دل منہ کو آیا۔

اُسکی ٹانگیں جیسے بےجان ہوگئی تھیں۔ آج بدقسمتی سے واٹر سپورٹس کی اور سوئمنگ پول کی بیسک ٹرینیگ کلاس نہیں تھیں تو اس کے ارد گرد کوئی گارڈز بھی نہیں تھے، پانی کا لیول گوکے زیادہ گہرا نہیں تھا پر ایک بچے کی مطابقت کے لحاظ سے کافی گہرا تھا۔

ادینہ نے اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے پانی میں گرتا دیکھا۔

ایک ارتعاش پیدا ہوئی، جو رائد کی چینخ سے بھی اونچی تھی۔
ادینہ گرتے گرتے بچی، پر اُسنے بھاگنا نہیں چھوڑا۔
ادینہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، وہ بے دھیانی میں جیسے بھاگ رہی تھی، اُسکے پیر پر ایک پتھر بہت زور سے لگا۔ اُسے احساس نہیں ہوا کے اُسکے پیر سے خون نکلنے لگ گیا تھا۔

کئی لوگ پول کی طرف بھاگ رہے تھے، پر چونکہ پلے گراؤنڈ پول سے تھوڑا فاصلے پر تھا اسلئے ایک آدھا منٹ انہیں لگ جانا تھا۔

اُسی لمحے پانی میں کسی اور کے گرنے کی آواز آئی۔
جو پہلے سے زیادہ اونچی تھی۔ ادینہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا، پر اگلے ہی لمحے اُسنے ایک دراز قد اور وجہیہ آدمی کو ایک چھوٹا بچہ پانی سے باہر نکالتے دیکھا۔

وہ آدمی داؤد تھا، اور بچا رائد، جو اُسکی گود میں ہچکیوں سے رو رہا تھا، اُس نے داؤد کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
پانی سے باہر آتے ہوئے کئی ٹیچرز نے رائد کو داؤد سے لینے کی کوشش کی پر وہ بچا داؤد سے ہی لپٹا رہا۔

داؤد نے انہیں آنکھ کے اشارے سے منع کردیا۔ اور ایک بینچ پر بیٹھتے ہوئے رائد کو تھپتھپانے لگا۔

ادینہ کے قدم آہستہ آہستہ رک گئے۔
وہ جو رائد کو اُٹھانا چاہتی تھی، اپنا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے بس اُن دونوں کو دیکھے گئی۔

رائد ٹھیک تھا!
پر جس نے اُسے بچایا تھا سنجیدگی اُسکے چہرے سے بھی چھلک رہی تھی، فکر مند وہ بھی لگ رہا تھا۔

کیا یہ نظر کا ایک دھوکہ تھا یا واقعی رائد کو پانی سے نکالنے میں داؤد کی مکمل مخلصی شامل تھی؟

کیا داؤد اتنا ہی برا تھا جتنا وہ اُسے سمجھتی تھی؟

وہ واپس مڑنے ہی والی تھی کے میم حفظہ جو کل بچوں کو ڈانٹ سنانے والی تھیں، ادینہ کے پاس آئیں اور اُسے کہنے لگیں۔

"رائد آپکی کلاس کا بچا ہے۔ آپکو خیال رکھنا چائیے تھا۔ کیا ایسے آپ اپنی ڈیوٹی کرینگی؟
گو کے آپ ایک والنٹیر ورکر ہیں لیکن اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کے آپ اتنی لاپرواہی کرینگی."

ادینہ واقعی خود کو قصور وار سمجھ رہی تھی، اُسنے نظریں جھکا دیں۔ وہ جانتی تھی کے وہ پریشان تھی اور اُسکا دھیان رائد سے ہٹ گیا تھا۔
پر!
اُسنے جان کے ایسا نہیں کیا تھا۔

وہ کوئی جواب دیتی اس سے پہلے ہی میم آمنہ بلینکٹ لیے وہاں آگئیں، ادینہ کی غلطی واقعی تھی، اور کل جو ہوا اُسکے بعد وہ جانتی تھیں کے ادینہ کا اس سکول میں رہنا زیادہ دن کے لیے ممکن نہیں ہے۔

اس سے پہلے وہ کچھ کہتیں، داؤد نے اُن سے بلینکٹ لیا اور رائد کو اُس میں کور کے دیا۔

باہر ٹھنڈ تھی، وہ رائد کو لے کے میڈیکل روم میں جانے کے لیے اُٹھا۔ تینوں کی اور آتے ہوئے وہ میم آمنہ کے سامنے رکا اور اُسنے کہا۔

"رائد اب ٹھیک ہے۔
پر آج ہو ہوا وہ کسی سے بھی ہو سکتا تھا، آئندہ سے آپ سب بس زیادہ دھیان دیجئے گا۔" یہ کہہ کے وہ جانے ہی والا تھا کے پھر سے رک کے بولا۔

"ان کے پیر کی بینڈیج کروا دیں." وہ ادینہ کے پیر کی اور اشارہ کرتے ہوئے بولا، اور پھر چلا گیا۔

ادینہ، حفظہ اور آمنہ، تینوں کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی۔ خاص طور سے ادینہ کے لیے۔

وہ بے یقینی کی کیفیت میں اندر کی اور چلی گئی اُسے تو لگا تھا کے داؤد اُسے جاب سے نکالنے کی تاک میں ہے پر۔۔۔

جو سب بھی ہوا تھا اُسکی آنکھوں کے سامنے ہی چل رہا تھا، اور اُسکے لیے اس سب پر یقین کرنا مشکل تھا!

                               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات میں پھر سے بارش شروع چکی تھی۔ اس بار اُس میں دن سے زیادہ شدت تھی۔

ادینہ کو کچھ ہی دیر پہلے ابیحہ کی کال آئی تھی، ابیحہ نے اُسے بتایا تھا کے داؤد پھر سے انٹرنٹ پر ٹاپ سرچز میں آ چکا تھا، پر اس بار اُسکی اچھائی کے گن گائے جا رہے تھے۔

میڈیا جو پہلے سے داؤد ہاشم کے گن گا رہا تھا، رائد کے ایکسڈنٹ کے بعد سے اور بھی پکا ہوگیا تھا۔

کسی نے آج اُسکی معافی، اور اسکی رائد کو بچانے والی ویڈیو، جو ظاہر ہے CCTV فوٹیج سے حاصل کی تھی، میڈیا میں دے دی تھی۔

اُسی ٹائٹل کے ساتھ،
"آجکل کے امیر زادے۔"

وہ جانتی تھی یہ داؤد نے خود اپلوڈ کروائی تھی۔ یہ شاید صرف ایک جواب تھا، وہ بھی ادینہ کے لیے۔ اُسے یہ جتانے کے لیے کے چاہے وہ جو بھی کر لے وہ داؤد سے ایک قدم پیچھے تھی، ہے اور رہیگی بھی۔

ادینہ ایک عذاب میں تھی۔ ایک آخری اُمید مائرا کو ڈھونڈنے کی اُسکے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ اُسکی کشمکش بڑھ رہی تھی۔

پھر رائد کا چہرہ اور داؤد کا بروقت ریکٹ کرنا اُسکے خیال سے گزرا۔ وہ اُلجھ رہی تھی، اور وہ یہی نہیں چاہتی تھی!

ہاتھ میں قلم پکڑے وہ صفحہ گھورتی رہی۔ وہ لکھنا چاہتی تھی، پر اُسکے ہاتھ مانو رک سے گئے ہوں۔ پھر ہمت اکھٹا کرتے ہوئے اُسنے صفحے پر تاریخ لکھی۔

'۲۵'۱'۲۰۲۱'

سب کچھ ایک کشمکش ہے، ایک اُلجھن ہے، میں نہیں جانتی میں کیا لکھوں.

میں روز ایک جنگ سی لڑ رہی ہوں، روز اپنوں سے نظریں چراتی جی رہی ہوں۔ وہ سب بھی کر رہی ہوں جو میرا اصل نہیں ہے۔

پر میں پھر بھی کامیاب نہیں ہو پا رہی۔

میں پھر بھی تم سے دور ہوں مائرا!

میں تھک رہی ہوں پر میں تھکنا نہیں چاہتی!

تمہیں ڈھونڈنا میری اُمید ہے، تمہیں صحیح سلامت گھر لانا میرا زندگی کا حاصل ہے۔ پر میں ایسا کیا کروں کے سب ٹھیک ہوجائے؟ ایسا کیا کروں کے میری یہ کشمکش سلجھ جائے!...


                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rani_dream_faith🦋

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top