۵
'یہ بچے بھی کتنے معصوم ہیں، اس دنیا کی ہر چالاکی، ہر برائی سے دور۔ لوگ کہتے ہیں کے یہ بچے اسپیشل ہیں، عام انسانوں کے جیسے نہیں سوچ سکتے.
شاید سب ٹھیک ہی کہتے ہیں، واقعی یہ عام انسانوں جیسے نہیں سوچتے۔ انکے تو پیار میں بھی مخلصی ہوتی ہے۔ یہ دل سے سوچتے ہیں، یہ دل کی ہی سنتے ہیں۔ یہ ہم جیسے نہیں ہیں، یہی انکی خوبی ہے!'
ادینہ سے اکثر مائرا پوچھتی تھی کے وہ نارمل ٹیچنگ کے بجائے ان اسپیشل بچوں کی ٹیچر کیوں بنی۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی، پر بس اُسے سکون ملتا تھا۔ جب ان بچوں کو بےحد چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ خوش ہوتا دیکھتی تھی نا، اس کا دن مانو بہترین ہوجاتا تھا۔
وہ ان بچوں کو کچھ سکھاتی یا نہیں، وہ ان سے بہت کچھ سیکھ ضرور رہی تھی۔
مخلصی، معصومیت اور سچائی۔
وہ اُنھیں کام کرتا دیکھ ہی رہی تھی کے اچانک سے اُسکی ایک سینئر ٹیچر آ کر اُسکے پاس بیٹھیں۔ رسماً دونوں نے کچھ باتیں کی اور پھر ادینہ کو اُن سے پتہ چلا کہ اُنکے سکول کے ڈونیٹر آج شام میں سکول کا آکر ویسٹ کرینگے۔
ادینہ صبح سے سکول میں دیکھنے والی تیاریوں کی وجہ جان چکی تھی۔ جلد ہی اس نے بھی سب کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹایا اور ڈیکوریشن کو مکمل کیا۔
وہ بچوں کو سمجھا رہی تھی کے آنے والے گیسٹ کے ساتھ اچھے سے ملنا ہے، مینرز کا دھیان رکھ کے۔
ساری تیاریوں کے ہو جانے کے بعد وہ سب سکول کے گیٹ کے اندر گیسٹس کو ریسیو کرنے کھڑے ہی تھے کے اُن لوگوں کے آنے کی اطلاع سب کو مل گئی۔
ادینہ جو کافی فاصلے پر کھڑی ہوئی تھی، وہ بھی مشتاق تھی اُنھیں دیکھنے کے لیے جو یہ سکول اپنے فنڈز سے چلا رہے تھے۔ وہ اسی سوچ میں تھی کے آنے والے لوگوں کو دیکھ کے تھوڑا چونکی، کافی چہرے اُسے دیکھے دیکھے لگ رہے تھے۔
تھوڑا غور کرنے پر اُسے یاد آیا کے وہ لوگ تو کل،
کل اُسنے داؤد کے گھر دیکھے تھے۔
تو کیا یہ سکول جس میں وہ کام کرتی تھی یہ داؤد ، یعنی ہاشم انٹرپرائز کے فنڈز سے چلتا ہے!
وہ اس صدمے سے نکلی بھی نا تھی کے اندر آنے والے داؤد کو دیکھ کے اور بھی بے یقینی کی کیفیت میں چلی گئی۔
داؤد کے متعلق اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کی کی جانے والی تعریف وہ با آسانی سن سکتی تھی۔ اُسکا بس چلتا تو وہ سب کو کہتی کے یہ سامنے کھڑا شخص حقیقت میں کیا ہے۔ پر وہ چپ رہی۔
کچھ دیر بعد ہی اُسنے محسوس کیا کے سب چپ ہوگئے ہیں، شاید داؤد کے سرد رسپانس سے۔
وہ نظر اُٹھا کے آس پاس دیکھنے لگی مگر سب کی نظر خود پر پا کر چونک گئی۔ اسی دوران اُسنے محسوس کیا کے ایک نظر اُسے دیکھ رہی ہے۔ اُسنے اُس اور دیکھا تو پتہ لگا کے وہ داؤد ہی کی نظر ہے۔
داؤد اُسے ہی دیکھ رہا تھا، اور سب اُسے۔
ادینہ بہت شرمندہ ہوئی، وہ اندر جانے ہی والی تھی کے اُسے داؤد کی آواز سن کے رکنا پڑا۔
"آج یہاں سکول میں؟
آپ یوں میرے پیچھے آ کر ثابت کیا کرنا چاہتی ہیں؟"
داؤد کے لفظ اب ادینہ کے لیے نئے نہیں تھے۔ اسلئے وہ کچھ نہیں بولی اور اندر جانے کے لیے قدم ہی اٹھایا کے پھر سے داؤد کی آواز اُسنے سنی۔
"تو یہ آپکا سو کالڈ ایٹیٹیوڈ ہے؟
پر سوری ٹو سے، میں اس سب میں انٹریسٹیڈ نہیں ہوں۔"
ادینہ کا دل چاہا وہ داؤد کو اپنے دماغ کا علاج کروانے کا مشورہ دے۔ وہ بس سب کا لحاظ کر کے چپ تھی۔ اسی سب میں ادینہ کی سینئر ٹیچر بولیں۔
"سر کیا آپ میم ادینہ کو جانتے ہیں؟
یہ یہاں ۱.۵ سال سے جاب کر رہی ہیں پر مجھے یہ نہیں پتہ تھا کے آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔" سینئر ٹیچر ادینہ کی اور حیرت سے دیکھتے ہوئے بولیں۔
"میم؟
"Is she a teacher?
" جی سر۔"
یہ سن کے داؤد ایک پل کو شرمندہ ہوا، اور اگلے ہی پل جب اس نے ادینہ کے چہرے پر ایک طنزاً مسکراہٹ دیکھی، وہ مسکراہٹ جس نے ادینہ کا غُصہ اور چڑ آسانی سے داؤد کو دکھا دی تھی، وہ ایک دم سے تھوڑے غصے میں آگیا۔
پر پھر بات بدلتے ہوئے وہ سکول پروگریس کے بارے میں جاننے لگا۔
ادینہ کو کچھ کچھ سمجھ آگئی۔ یہ اچھے کام جو اکثر یہ بڑے لوگ اپنی واہ وائی کے لیے کرتے ہیں، کسی خاص موقع سے پہلے، اُن کو وہ بخوبی سمجھتی تھی۔ شاید اتنے بڑے فارن کنٹریکٹ کے لیے یہ پبلک امیج ہاشم انٹرپرائز کے لیے ضروری تھی۔
اُسے اس دکھاوے میں کوئی انٹریسٹ نہیں تھا، پر اپنے مطلب سے تھا۔ وہ چاہتی تھی کے ایسے ہی داؤد اُس کے ساتھ بدتمیزی کرے۔ اور ایسے ہی اُسے بیٹھے بیٹھے ایک خیال ذہن میں آگیا، اُسکے لبوں پر آئی مسکراہٹ کی وجہ وہ خیال ہی تھا۔
ادینہ دھیرے سے اندر کلاسز کی اور چلی گئی، جانے انجانے میں کسی کی نظر اُس پر تب تک تھی جب تک وہ اُسکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب آئیگا مزا۔
اب سب دیکھیں گے آپکی سو کالڈ اچھائی۔"
ادینہ جو جانتی تھی کے سب باہر سے اسٹاف روم میں آئینگے۔ سب سے پہلی کرسی پر کون بیٹھے گا وہ یہ بھی جانتی تھی۔
اُسنے زیادہ کچھ نہیں کیا بلکہ دو سے تین آئل پینٹس، وہ بھی براؤن کلر کے، اُس بیچ والی کرسی پر ڈال دیے تھے، کرسی چونکہ براؤن رنگ ہی کی تھی تو پہلی نظر میں کوئی رنگ پڑا اُس پر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اُسے بس انتظار تھا۔ ایک ریکشن کا۔
کچھ ہی دیر میں سب اندر آگئے۔ تب تک ادینہ آگے پیچھے ہوگئی تھی۔ وہ اپنی کلاس میں فوراً آئی اور سپورٹس پریڈ کی وجہ سے اپنی کلاس کو ہال میں لے کے جانے لگی۔
وہ جانتے بھوجتے اسٹاف روم کے باہر سے گزری۔ آبھی آدھے راستے میں ہی تھی کے کسی کے تیز تیز قدموں کے ساتھ باہر آنے پر متوجہ ہوئی۔
داؤد کو غصے سے لال پیلا دیکھ کے وہ بمشکل اپنی ہنسی روک پائی۔
" What a childish thing.
یہ حرکت ہی بس کر سکتی ہو تم؟"
داؤد کے تنبیہہ کرنے پر ادینہ نے اپنے آپکو سنبھالا اور ہنسی روکتے ہوئے بولی۔
"کیا مطلب آپکا سر؟"
اُسکے جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک بچا زور زور سے ہنسنے لگا۔ اُسکے ہاتھ کا اشارہ داؤد کی پینٹس کی طرف تھا جس پر ایک براؤن رنگ کا بہت ہی بھدا نشان پڑا ہوا تھا۔ وہ بچا اپنی ٹوٹی پھوٹی آواز میں بولا۔
"Send him to washroom ma'am۔"
اُس بچے کی آواز سن کے سب داؤد کی پینٹس کی اور متوجہ ہوئے، اور کچھ ہی لمحوں میں سارے بچے زور زور سے ہنسنے لگے۔ داؤد نے اتنی ہتک کبھی برداشت نہیں کی تھی۔
اُسکا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا، وہ جانتا تھا اس سب کے پیچھے کون ہے۔ اتنے میں ہی ایک اور ٹیچر جو تھوڑی اوور ایفیشنت بنتی تھیں، جنکی کبھی ادینہ سے بنی نہیں تھی، داؤد کے پیچھے پیچھے اسٹاف روم سے باہر آئی، پر سب کو ہنستا دیکھ کے اُسے داؤد کی نظروں میں آنے کا ایک چانس مل گیا، اسلئے وہ اُن معصوم بچوں کو ڈانٹنے لگ پڑی۔
"Say Sorry to Sir.
یہ مینرز ہیں تم لوگوں کے؟
ہنسنا بند کرو تم سب۔"
اُس لڑکی کی تیز اور نوکیلی آواز سن کے داؤد اور
ادینہ دونوں نے کوفت سے نظریں اُسکی اور کیں۔
"I am sorry Sir.
یہ بچے اکثر پینٹ یہاں وہاں پھینکتے رہتے ہیں۔
انکی طرف سے میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔"
ادینہ کو اگر داؤد نا جانتا ہوتا تو یقین کر لیتا کے یہ معافی وہ سچے دل سے مانگ رہی ہے۔
زیادہ نا سہی پر اتنا تو وہ اُسے جان گیا تھا کے ادینہ مرتی مر جائیگی پر اُسکے آگے نہیں جھکے گی۔
کچھ گڑبڑ کا اُسے احساس ہوچکا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کے ادینہ کیا کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
"تو آپکو یہاں کس لیے رکھا ہوا ہے؟
ان کی گرومنگ کے لیے ہی رکھا گیا ہے نا۔" داؤد کے کرخت لہجے سے وہ بچے جو ہنس رہے تھے ایک دم چپ ہوگئے، جیسے ڈر گئے ہوں۔
"My students are well mannered, Sir.
یہ دیکھ کے تو کسی کی بھی ہنسی نکل سکتی ہے،
پر میں آئندہ اور دھیان دونگی۔
I Apologize to you again."
اتنے نرم لہجے میں سیدھا سیدھا اپنی بات کہہ جانا
ادینہ کا ہی کام تھا۔
" بات اور بچوں کی ہوتی تو میں کچھ نہیں کہتا۔ پر ان بچوں کی اچھی گرومنگ کے لیے ہی ہماری کمپنی آپکے اسکول کو فنڈز دیتی ہے۔ اگر وہ ہی آپ سے نہیں ہو پا رہا تو غلطی آپ ہی کی ہے۔
یہ دیکھ کے کون ہنستا یا کون نہیں مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ پر یہ بچے مینرز میں اوروں سے کم تر سمجھے جائیں یہ میں ہرگز برداشت نہیں کرونگا۔
آپ سمجھتی ہیں کے آپ انہیں گروم نہیں کر سکتی تو نا اسٹاف کی کمی یہاں ہے، نا جابز کی کمی آپکو ہوگی۔"
"مجھے لگتا ہے آپ مجھے جاب سے نکالنے کا سوچ رہے ہیں، اس سب کے بعد بھی کے میں آپ سے معافی مانگ چکی ہوں۔"
پر اس سے پہلے کے ادینہ کی بات کا اقرار داؤد کرتا، اندر سے وہی سینئر ٹیچر باہر آئیں اور معاملے کی سنجیدگی جان کر کھڑی ہوگئیں۔
"جی، آپ ٹھیک سوچ رہیں ہیں۔
I hope you find a good job soon.
پر یہاں اسٹاف میں مجھے مچوریٹی اور سیریسنس
چاہیے۔"
"سر!
آپ انہیں نکال نہیں سکتے." جواب ادینہ نے نہیں بلکہ اس سینئر ٹیچر نے دیا۔
"What! Why?"
داؤد کے سوال پر ادینہ بول پڑی۔
"کیوں کے میں یہاں سیلری پر کام نہیں کرتی۔
It's a volunteer service.
جیسے آپ اس اسکول میں پیسے اور فنڈز دیتے ہیں، اُسی طرح میں اپنی سروس دیتی ہوں۔
آپ مجھے اتنی چھوٹی سی بات پر اس لیے نہیں نکال سکتے کیوں کے میں آپ کے انڈر کوئی کام کرنے والی ملازم نہیں ہوں۔
میں نے ان بچوں کو بہت کچھ سکھایا، اور بہت کچھ انہوں نے مجھے۔ انہوں نے کئی کمپیٹیشنز میں سرٹیفکیٹس حاصل کیے ہیں۔ آپ سب کچھ چاہیں تو دیکھ لیں۔
پر آخر میں یہ ہیں تو بچے ہی نا۔
یہ خود چوز کرتے ہیں کے کون انکی عزت کا حقدار ہے اور کون نہیں۔"
داؤد ایک ہی دن میں دوسری بار شرمندہ ہوا تھا۔
اُسنے ادینہ کے چہرے پر دوبارہ ایک مسکراہٹ دیکھی۔
وہ ایک کشمکش میں تھا، یہ لڑکی کیسی تھی؟ اسکا سچ کیا تھا؟
جو وہ اُسکے بارے میں سمجھا تھا کیا وہ سب واقعی غلط تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد کے لیے آجکا دن بہت مصروف گزرا۔ اس سے پہلے کے وہ گھر پہنچ کر آرام کرتا، اُسکے فون پر اُسکے سیکریٹری کی کال آئی۔ وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔ داؤد کو وہ کسی ویڈیو کے بارے میں بتا رہا تھا، جسکا لنک اُسنے داؤد کو فوراً ہی بھیج بھی دیا۔
داؤد نے لنک کھول تو ویڈیو کا ٹائٹل اُسے بتا دینے کے لیے کافی تھا کے یہ سب کس نے کیا۔
"آجکل کے امیر زادے"
اور پھر داؤد کی وہ ویڈیو جس میں وہ غصے میں اسپیشل اسکول کے اسٹاف کو ڈانٹ رہا ہے۔
اُسکا لہجہ ہتک آمیز ہے، اور بچے اُس سے خائف ہیں۔
داؤد کے لیے واقعی یہ ان ایکسپکٹڈ تھا۔ پر اُسکے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔ وہ ادینہ کو واقعی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
لیکن اُسکی آنکھوں میں ہلکی سی ستائش اُبھری۔ وہ جذبات کے بجائے دماغ سے کام لینے والی لڑکی تھی۔ اور اب اُسے اس گیم میں کوئی اپنے ٹکر کا ملا تھا۔
خیر وہ بھی داؤد تھا، چیزوں کو اپنے فیور میں کرنا جانتا تھا۔ اُسکے لیے یہ ویڈیو بند کروانا نہایت آسان تھا لیکن وہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
"کچھ دیر تم بھی جیت کا مزا لے لو۔ کل میں بتاؤنگا کے اصل کھیل کھیلتے کیسے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'۲۴'۱'۲۰۲۱'
ابھی ضد نہ کر، دل بے خبر
کہ پس ہجوم ستم گراں
ابھی کون تجھ سے وفا کرے؟
ابھی کس کو فرصتیں اس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں خدا سے دعا کرے
جو آج میں نے کیا وہ میری شخصیت کا خاصہ نہیں تھا۔ یہ میری فطرت نہیں ہے۔ پر میں مجبور کر دی گئی ہوں۔
یہ زندگی ایسی ہی ہے، اسکے دکھ بھی اپنے ہیں۔
خود ہی لڑنا پڑتا ہے، خود ہی سنبھلنا بھی۔
مائرا، یہ سب تمہارے لیے کیا ہے میں نے۔ شاید میرا دل دکھی ہے۔ اپنی ذات کی نفی کرنا آسان نہیں ہے۔
کیا کریں کبھی برائی کے بدلے برا کرنا سکھایا ہی نہیں گیا۔
میں بس چاہتی ہوں کے تم واپس آجاؤ۔ چاہے اُسکے لیے مجھے کتنے ہی داؤد ہاشم سے مقابلہ کرنا پڑے، اپنی ذات کی نفی بھی کرنا پڑے تو کوئی غم نہیں، میں کرونگی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا۔
Rani_dream_faith 🌸
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top