۴
سکندر کے لفظوں میں سچائی واضع تھی۔
کیا وہ واقعی کسی معصوم پر بہتان لگا رہی تھی؟
اُسکے ساتھ کل جو بھی ہوا وہ کچھ لمحوں کے لیے بھول چکی تھی، کوئی رسوائی کوئی ذلت اُسے یاد نہیں رہی۔
اُسکا چہرہ جو بیک وقت کئی چہروں پر ہنسی لے آتا تھا، وہ ہنسی جس کی نظر مائرا اتارتی تھی، اور دعا کرتی تھی کے ادینہ کے چہرے پر ہمیشہ رہے،
وہ کئی دنوں سے ایک سوگ چینخ چینخ کے بیان کر رہا تھا. وہ دادو کے قدموں میں جیسے ڈھے سی گئی تھی۔ جیسے واقعی اب وہ کبھی مائرا کو ڈھونڈ نہیں سکے گی۔
وہ نا اُمید ہو رہی تھی، جانتی تھی کے نا اُمیدی مایوسی کے لیے دروازہ کھولتی ہے اور مایوسی ایمان کو ختم کر کے انسان کو کفر کی طرف لے کے جاتا ہے، وہ مایوس ہونے سے ڈرتی تھی، وہ مایوس ہو ہی نہیں سکتی تھی!
وہ خود کو سنبھالتی اُٹھی اور دادو کے کمرے سے باہر نکل گئی۔
راہدری سے گزر کے نیچے جانے ہی والی تھی کے کسی کی آواز پر چونکی۔
"کیا تم دو منٹ میری بات سن سکتی ہو؟"
سفید رنگت، اونچے قد کاٹھ کی ایک نازک سی لڑکی کھڑی ادینہ سے مخاطب تھی۔ ادینہ نے سر ہاں میں ہلایا اور اس لڑکی کے پیچھے چلی گئی۔
اندر جاتے ہی اس لڑکی نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور ہچکچاتے ہوئے ادینہ کے پاس آئی۔
"میں کون ہوں یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے، پر میں نے ابھی ابھی تمہاری ساری باتیں سن لی تھیں۔
میرا مقصد تمہیں نقصان پہنچانا نہیں ہے!
میں تو بس تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں...
شاید تم یہ سوچو کے میں تمہاری مدد کیوں کرنا چاہتی ہوں تو اسکا جواب میرے پاس بس یہ ہے کہ،
میں بھی ایک لڑکی ہوں!
اور میں اگر ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوتا دیکھوں گی تو میں ضرور آواز اُٹھاونگی۔"
"کیا کہنا چاہتی ہو تم؟" ادینہ کے سپاٹ لہجے سے وہ لڑکی چونکی اور پھر بولی۔
"میں نہیں جانتی کے سکندر معصوم ہے يا نہیں پر۔۔۔"
"پر کیا!" ادینہ نے بے صبری سے اُس لڑکی سے پوچھا۔
"ہماری فیملیز ایک دوسرے کو جانتی ہیں، میں اکثر یہاں آتی رہتی ہوں۔ ایک دن ایسے ہی میں بار سکندر کے کمرے کے باہر سے گزری تو۔
تو میں نے سنا کے وہ کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا، شاید اُسے تنبیہ کر رہا تھا۔"
"کیا مطلب؟"
"مطلب وہ کسی مائرا کا ہی نام لے رہا تھا، کہہ رہا تھا کے وہ اس زبردستی کی شادی سے خوش نہیں ہے، اور وہ ایسے کسی رشتے میں بندھنا نہیں چاہتا نا ہی بندھے گا، خاص کر کے کسی ایسی لڑکی کے ساتھ جو، جو سٹیٹس میں اس سے کم تر ہو.
میں جانتی ہوں خالی میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے، اسلئے یہ دیکھ لو، یہ اس دن کی ویڈیو ہے جس میں سکندر کی کہی ہوئی باتیں ریکارڈڈ ہیں۔"
وہ لڑکی اپنی بات پوری کر نے کے بعد ریکارڈنگ آن کر چکی تھی، ریکارڈنگ پوری چلی اور ادینہ ایک سکتے کی کیفیت میں چلی گئی۔
غم، غُصہ اور بےبسی اُسکے چہرے سے واضع دکھ رہی تھی۔
وہ یہ سوچ رہی تھی کے کیسے مائرا نے یہ سب سننے کے بعد بھی اُسکی امی کا مان رکھا!
کیسے وہ اپنا منہ سی گئی اور کچھ بھی بولے بغیر اُسنے کسی سے کچھ نہیں کہا۔
اور یہ سکندر جس پر آج وہ یقین کرنے جا رہی تھی وہ یہ گھٹیا باتیں مائرا سے کر چکا تھا!
ادینہ کا شک اور بھی پکا ہوگیا تھا، اب وہ وجہ اُسے مل گئی تھی جس کی وجہ سے سکندر مائرا کو گم کروا سکتا تھا۔ اب ایک حصہ دوسرے حصے سے مل رہا تھا، اب وہ سب سمجھ رہی تھی۔ اُسنے وہ ویڈیو اُس لڑکی سے لی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
پر کیا واقعی یہ سب سچ تھا؟
یا اُسے یہ سب ہی دکھایا جا رہا تھا، اُسے یقین دلایا جا رہا تھا کے جو وہ سمجھتی ہے وہی سچ بھی ہے۔ اگر ہاں تو کیوں اُسے ایک مہرے کی طرح سے استعمال کیا جا رہا تھا، اور کون کر رہا تھا ایسا؟
يا پھر یہ سب واقعی سچ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے سے باہر نکلی اور نیچے کی طرف چل پڑی، خیالات میں اس قدر گم تھی کے اُسے دکھائی ہی نہیں دیا کے دوسری اور سے ایک کام کرنے والی ٹرے میں گرم گرم کافی اوپر لے کے جا رہی تھی۔ اتنے ہی میں ایک گہری آواز سن کے وہ اپنے ٹرانس سے نکلی۔
"سنبھل کے۔"
دیکھنے پر اُسے پتہ لگا کے وہاں وہ شخص کھڑا تھا جس نے سکندر کے ساتھ مل کے اُسکے گھر والوں کو مسلسل عذاب میں ڈالا ہوا تھا۔ اور آج وہ اُسے سنبھلنے کا کہہ رہا تھا؟
خود وہ اپنے ریکشن سے بھی چونکا اور پھر چہرے پر ایک ہنسی سجائے بولا۔
"مہمانوں کا خیال ہم رکھتے ہیں، پھر چاہے وہ بن بلائے ہوں۔ یہاں ذرا سنبھل کے چلیں تو بہتر ہوگا۔"
ادینہ نے کوئی جواب نہیں دیا، کچھ نہیں کہا بس اس نفرت کے کچھ حصے سے داؤد کو دیکھا جو وہ اپنے دل میں اُسکے لیے رکھتی تھی۔ ایک وحشت، ایک لرزاہٹ تھی اُسکی آنکھوں میں
۔
جیسے اُسکی آنکھیں کہہ رہی تھیں اُس نفرت کے بارے میں جو وہ دل میں رکھتی تھی۔
داؤد کے لیے لوگوں نے ہمیشہ ستائش اور حسرت کی نظر اٹھائی تھی۔
ستائش اُسکے کام اور رتبے کے لیے، اور حسرت اُسکے جیسا ہونے کی۔
پر یہ نظر اُسنے کبھی نہیں دیکھی تھی، جو کھلم کھلا ایک نفرت کا اظہار کر رہی تھیں۔
اُسکے لب کھلے، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو، پر وہ رُک گیا۔
ادینہ، جسے خود کو سنبھالنے کا طریقہ آتا تھا آج وہ بھی ہار گئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ داؤد کی اور گئی اور کہا۔
"تم تو بہت امیر ہو نا، ایک خاص انسان، ایک اونچے مقام پر بیٹھا ہوئے۔
اس لحاظ سے کچھ زیادہ تو ہم نے تم سے نہیں مانگا۔
بس وہ ہی مانگا جو اپنا تھا۔ دے دو اُسے، بس وہ چاہیے ہمیں، وعدہ کرتی ہوں کے ہم دور چلے جائینگے۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا، پر اُسے واپس دے دو۔" داؤد ادینہ کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پایا۔
اتنی نفرت لیے وہ بس التجا کر رہی تھی؟
اُسے تو لگا تھا کے جیسے ادینہ اس کو ملامت کریگی، کچھ کہیگی لیکن داؤد کی اُمید کے برعکس وہ وہی بات کر گئی جسکا جواب داؤد اُسے دے چکا تھا۔
"مائرا کا گم ہوجانا، اس سے میرا یا سکندر کا لینا دینا نہیں ہے۔
یہ تب بھی کہا تھا، اور آج بھی کہہ رہا ہوں۔
باقی اُسکے گم ہونے کا بہانہ بنا کے اگر تم یہ سمجھتی ہو کے تم یہاں روز روز آسکتی ہو، تو تم یہ سن لو کے ایسا آج کے بعد سے نہیں ہوگا۔ نا ہی تمہیں دادو سے ملنے کی اجازت دی جائیگی۔"
داؤد کے سرد لہجے سے ادینہ کو ایسا لگا کہ کسی نے رکھ کے اُسکی عزتِ نفس کو تھپڑ مارا ہو۔ پر وہ کچھ نہیں بولی سوائے ایک بات کے۔
"خدا سے ڈرو داؤد ہاشم۔
کے اُسکا انصاف سخت ہے۔"
یہ کہتی وہ وہاں سے باہر نکل گئی، غصے کی شدت سے اُسکی آنکھیں لال تھیں۔ یہ امیروں کو بھی کیسا گمان ہوتا ہے کے سب اُنکی دولت کے پیچھے مر رہے ہیں۔ یا اُنکی زندگی کا حصہ بننا چاہتے ہیں!
وہ گھن بھی نا کھاے ایسی دولت پر کے جس میں مکاری اور چالاکی کا ذرا سا بھی اثر ہو۔
باہر نکلتے ہی اُسے وہ بندے نظر آئے جو کچھ دیر پہلے اندر داؤد کے ساتھ آئے تھے۔ داؤد انہوں کو ہی چھوڑنے باہر تک آیا تھا اور تب ہی لاؤنج میں اُسے دکھ گیا تھا۔
وہ اُن سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھی اس لیے اُنکی باتیں اُس تک آسانی سے پہنچ گئیں جو وہ ڈرائیور کا ویٹ کرتے ہوئے کر رہے تھے۔
"ہاشم انٹرپرائز کے لیے اس سال کے آڈٹ کا ٹھیک آنا بہت ضروری ہے، اور اسکے ساتھ ہی انٹرپرائز کا امیج، تبھی یہ فارن کمپنی اپنا ٹینڈر اُنھیں دینے کا فیصلہ کریگی۔"
"ہاں ویسے یہ موقع کبھی کبھی نیشنل انٹرپرائزز کے ہاتھ آتا ہے، آڈٹ کا ٹھیک آنا تو بہت ضروری ہے، شاید آگے کی ساری ڈیلنگز اس کی محتاج ہونگی۔
بس ان دنوں میں کوئی مسئلہ نا ہو ورنہ کمپنی پے نقصان آسکتا ہے۔"
"ہر عروج پر زوال کا خطرہ ضرور ہوتا ہے۔
آخر کار تمہاری ایک کمزوری میرے ہاتھ تو آئی۔
آڈٹ ٹھیک آبھی جائے پر پبلک امیج ان بڑی کمپنیوں کے لیے بہت میٹر کرتا ہے۔ اور جیسے کل میری امیج اچھالی گئی، ویسے ہی اگر میں نے کردیا کچھ، تو کم از کم ان بڑے لوگوں کے دل میں خوف تو ضرور آئیگا۔
یہ خوف کے وہ جنہیں وہ چھوٹا اور حقیر سمجھتے ہیں اگر وہ پلٹ کے جواب دیں، تو ضرب کاری لگتی ہے۔ ایسی ضرب جو اپنا اثر ضرور چھوڑ کے جاتی ہے۔"
سرخ آنکھوں میں نمی لیے ادینہ مسکرا رہی تھی۔
ایک اُمید اُسے آج ملی تھی، ایسی اُمید جس نے اُسکے دل کو ہمت دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد ہاشم، بیک وقت کئی لوگوں کے دل پر راج کرتا تھا۔ بظاھر سخت، سرد اور ہر طرح کے جذبات سے عاری نظر آتا پر دراصل اپنے قریب لوگوں کا خود سے بھی بڑھ کر خیال رکھنے والا تھا۔
وہ ایسا تھا کے اپنوں کے لیے کسی بھی لڑائی میں کود جاتا، ہاشم انٹرپرائز آج جس مقام پر تھی اس میں سب سے زیادہ محنت داؤد کی تھی۔
اُسے بزنس میگنیٹ کہا جاتا تھا، کوئی کشش کوئی تو بات ایسی تھی کے مقابل کے لوگ اُسکے اُسکی خوبیوں کا اعتراف کھلے دل سے کرتے تھے۔
اُسے کبھی کسی چیز کے پیچھے نہیں جانا پڑا تھا، آج تک سب اُسکے پیچھے آئے تھے۔ چاہے چیزیں ہوں یا لوگ۔ اُسنے طرح طرح کے لوگ دیکھے تھے جن میں سے زیادہ تر اُسکے پیچھے کسی مقصد یا کسی ارادے سے آتے تھے ایسے میں وہ ادینہ کو بھی اُن لوگوں میں گننے لگا۔
اُسکے لیے یہ رشتہ محض دادی جان کی خوشی تھی ورنہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑا ہوتا، لیکن آج، آج جیسے ادینہ نے اُسے دیکھا ایک پل کو وہ چونک گیا۔
اُس لڑکی کی نظر میں جو بات واضع تھی، وہ نفرت تھی، گھن تھی۔ اور اُسنے اس نفرت کو چھپانے کے کوشش بھی نہیں کی ہوئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اُسے اُسکی آنکھیں سچ کہتی دکھائی دیں تھیں۔ یہ آنکھیں اُن آنکھوں سے مختلف تھیں جن میں اُنکے لیے بس ستائش تھی۔
کچھ تو تھا اُن میں جس کو اس لڑکی نے چھپایا نہیں تھا۔ اُسنے کل جو کیا اُسے نہیں کرنا چاہئے تھا یا کرنا چائیے تھا؟
وہ ایک وارننگ دینا چاہتا تھا، کے وہ رک جائے، اُسکے اپنوں کو کوئی نقصان نا پہنچائے!
وہ چاہتا تو اُسکا چہرہ سب کے سامنے لا سکتا تھا لیکن اُسنے ایسا نہیں کیا۔
اُسنے انویسٹیگیشن کروائی تھی، اگلے روز خود بھی جا کے سب دیکھا تھا پر سکندر کا کوئی تعلق اس معاملے سے نہیں نکلا تھا تو وہ اور کیا کرتا۔
وہ بظاھر تو كام کر رہا تھا مگر اُسکا دھیان ابھی بھی اُن دو آنکھوں پر تھا جس میں نفرت کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"۲۳'۱'۲۰۲۱"
'آج لکھنے کو کچھ نہیں
بس ایسے سمجھو کے دل اُداس ہے'
آج وہ کرنے کا سوچا ہے جو میری فطرت میں نہیں ہے۔ پر مائرا میرا دل سکون میں نہیں ہے۔
جو کرنے جا رہی ہوں، نہیں جانتی کے اُسکا انجام کیا ہوگا، پر میں مجبور ہوں، اُن لوگوں نے کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں میرے پاس!
پر ہاں اگر تم تک کبھی یہ ڈائری پہنچی تو سمجھ لینا کے میں جہاں بھی ہونگی، خوش ہونگی اور صرف خوش نہیں میں پرسکون اور مطمئن بھی ہونگی کے میں تمہیں واپس لے آئی ہوں۔'
وقت دیکھا تو رات کے ۳ بج رہے تھے، ادینہ نے اٹھ کے تہجّد پڑھی، اُسی وقت اچانک اُسکے نمبر پر میسج آیا جو اور کسی کا نہیں بلکہ اُسکی سب سے گہری دوست کا تھا۔ جِسے کچھ دیر پہلے ہی ادینہ نے اپنا پلان بھیجا تھا۔
"کیا تم نے اس پلان کے متعلق ہر لحاظ سے سوچ لیا ہے؟"
"ہاں، اور کوئی راستہ بچا بھی نہیں ہے۔"
بس یہ جواب دیتی اُسنے فون بند کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، اللہ سے اس نے مدد مانگی کے اُسکی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں تھا، اور اُسکے ساتھ کے بعد کچھ بھی نا ممکن نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith🦋🌼
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top