۱۳
ناول : دل نا اُمید تو نہیں
قسط : ۱۳
#Seconlastepisode
موت کو اتنے قریب سے دیکھ کے ادینہ کو اپنا ذہن ماوف ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ اسکو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی تھی پر ایک گولی اُسکے بازو کو چھو کر گزری تھی۔ اُسنے اُس وحشت کو محسوس کیا تھا جو اس جنت نظیر وادی کے رہنے والے اکثر محسوس کرتے تھے۔
اُنھیں فوری طور سے ہسپتال بھیج دیا گیا تھا، آرمی کے جوانوں نے مقابل موجود دشمنوں کو چند ہی لمحوں میں منہ توڑ جواب دینا شروع کردیا تھا، اور کچھ ہی وقت گزرا کے پیچھے موجود حالات قدرے بہتر ہوگئے تھے۔
وہ ہسپتال کے ایک کمرے میں بےسدھ سی ہو کے بیٹھی ہوئی تھی، بچوں کی چینخین اور وہ خون سے لت پت منظر ابھی تک اُسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
نرس اُسکی بینڈیج کر رہی تھی پر ادینہ کی بےحسی دیکھ کے وہ بھی حیران تھی، ادینہ ایک پل کو بھی درد سے کراہی نہیں تھی، بس ایسے ہی یک ٹکی باندھے سامنے کی دیوار کو دیکھ رہی تھی۔
اُسکی بینڈیج پوری ہوتے ہی نرس حیران ہوتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی، ادینہ بھی کچھ حد تک خود پر قابو پا چکی تھی، اُسنے ایک گہری سانس لی اور ایک روانی سے اُسکے آنسو بہنے لگے۔ اُسکے پاس سر رکھ کے رو دینے کے لیے کوئی نہیں تھا۔
اُسنے اپنے آنسو بہنے دیے، کے کبھی کبھی دل تب ہی ہلکا ہوتا ہے جب ان آنسوؤں کو بہہ دینے دیا جائے۔
کچھ وقت گزرا، پھر وہ اُٹھی، اپنا چہرہ آنسوؤں سے صاف کیا اور باہر بنی بالکنی کی اور چلی گئی، اُس کے ساتھ موجود ٹیچرز کی بینڈیج ابھی ہو رہی تھی تو وہ کچھ دیر اپنا ذہن کسی اور طرف لگانا چاہتی تھی، وہ بالکنی کی پچھلی طرف تھی کے اُسے ایک جانا پہنچانا چہرہ نظر آیا۔
قسمت تھی یا کچھ اور کے اُسی لمحے داؤد نے بھی ادینہ کی ہی اور دیکھا۔
دونوں کی نظریں جب ایک دوسرے سے ملیں تو پہلے تو حیرت کا ایک طوفان اُن میں اُٹھا۔۔۔
بے یقینی، خوف اور حیرت سے ملتے جلتے اثرات ادینہ کی آنکھوں سے گزرے۔
وہیں داؤد کی آنکھوں میں ایک عجیب سی گہرائی اور چمک آئی تھی، تشکر سے ملا جلا احساس بھی ادینہ نے دیکھا، جسے اُسی لمحے اپنا وہم سمجھ کے جھٹک دیا۔
اُسے دوسری اور سے مائرا، سالار اور اپنی امی کی بھی آوازیں آئیں جنہیں ابھی تک ادینہ دکھائی نہیں دی تھی۔
وہ جس لمحے سنبھلی اُس نے داؤد کو اپنی طرف آتے دیکھا، اتفاق تھا يا کیا کے اُسی اثناء میں ایک ایمبولینس دونوں کے بیچ سے ہوتی ہسپتال کے عین سامنے جا رکی، کچھ پل ہی تھے پر ادینہ کے لیے کافی تھے، وہ آن ہی آن میں ہسپتال کی پچھلی طرف جا کے کھڑی ہو چکی تھی۔
اُسکے دل کے دھڑکنے کی آواز وہ خود بھی سن سکتی تھی۔
یہ صحیح وقت نہیں تھا! اُسکی سوجی آنکھیں اور صبح کا ٹراما اُسے بےحد اُلجھا گیا۔
اُسکا ذہن منتشر تھا، وہ اس لمحے داؤد کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ نظریں بچاتی وہ وہاں سے چلی گئی، اپنی طرف سے اُسے یقین تھا کہ داؤد نے اُسے دوبارہ نہیں دیکھا پر در اصل ایسا نہیں تھا۔
وہ اُسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا، اُسکے بازو پر لگی پٹی کو بھی۔ وہ سمجھ چکا تھا کے یہ لڑکی اُس سے اب بھی خائف تھی۔ وہ اُسکی ہچکچاہٹ سمجھ چکا تھا اسلئے اُسکے چلتے قدم رک چکے تھے۔
وہ اُسے مجبور نہیں کر سکتا تھا، اتنا بھی نہیں کے اُس کے نا چاہتے ہوئے اُسکے سامنے جاتا۔
بس یہ دیکھ کے کہ وہ ٹھیک تھی، داؤد سکون اور تشکر کے ملے جلے تاثرات کو خود میں اترتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادینہ وہاں سے نکلتے ہی ایک قریبی پارک میں جا چکی تھی، اُسنے وہاں جاتے ہی اپنے فون کو آن کیا
کئی کالز اور میسجز اُس کے سامنے آنے لگے۔
اُسنے سالار کو فوراً کال کی۔
"سالار۔۔۔"
"ادینہ!
تم کہاں ہو؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟"
"سالار میں ٹھیک ہوں، میں نے سب کو ہسپتال بھی دیکھا تھا لیکن۔۔۔"
"لیکن کیا؟"
"لیکن یہ کے اُس وقت میں نے داؤد کو بھی وہاں دیکھا تھا، مجھے نہیں پتہ کے وہ وہاں کیوں آیا؟
کیا تم لوگوں کو اس کے متعلق پتہ ہے؟"
"داؤد؟
وہ یہاں کیا کر رہا ہے؟"
"پتہ نہیں..." ادینہ کے کھوئے کھوئی لہجے کو سن کے سالار چپ ہوگیا۔
"ادینہ...
آج نہیں تو کل سب فیس کرنا ہے۔
تم گھبراؤ نہیں، داؤد برا انسان نہیں ہے، اُسنے تمہارے جانے کے بعد ہمیں کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔ بلکہ اُسنے تو امی سے معافی بھی مانگی تھی۔
اب شاید وقت ہے کے ہم بھی اُنسے معافی مانگیں۔۔۔
غلطی پر ہم بھی تھے نا!"
"ہاں میں جانتی ہوں۔۔۔
میں معافی مانگو گی۔ میں سب فیس کرونگی۔۔۔"
اُسنے ہمت کر لی تھی، کچھ ہی دیر میں ایک ٹیکسی کو روک کے وہ واپس گھر آچکی تھی۔ اُسے آتا دیکھ کے علینہ فوراً اُس سے آکے گلے لگی، اُسکے آنکھوں میں آنسو واضع تھے۔
پیچھے پیچھے فریحہ بیگم، اُسکی ماما فاطمہ بیگم اور مائرا بھی باہر آگئیں۔ سالار سب کو گھر ہی لے کے گیا تھا۔ سب اُس سے ملے، انکا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اُسکا درد خود پر لے لیں۔
وہ مسکراتی گئی، وہ اتنے پیار، اتنے خلوص کو سب سے سمیٹ چکی تھی، سب اُس سے اتنا پیار کرتے تھے؟
اُسکی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں، وہ اپنوں کو ان گزرے مہینوں میں بہت یاد کرچکی تھی۔ وہ اُٹھی فریحہ بیگم کے پاس جا کر اُسنے اُنھیں گلے سے لگایا۔
"آپ میری ماں جیسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی بھی۔ اس سارے وقت میں مجھے کسی کی کمی محسوس نہ کروانے کا شکریہ!" پھر علینہ کی اور جا کے اُسے گلے لگا کر بولی۔
"اور تم جانتی ہو کے تم مجھے کتنی عزیز ہو، اسلئے اب آنٹی کو مناؤ اور ہمارے پاس ہمارے شہر آجاؤ!
نہیں تو ہم تمہیں اکیلے ہی لے جائینگے۔" ادینہ کی آواز سب کی سماعت سے ٹکرائی، اور جہاں سب مسکرا دیئے وہیں سالار اور علینہ بوکھلا سے گئے۔
واپسی کا سفر شروع ہوا، جلد ہی طے بھی ہوگیا۔
وہ واپس آگئی تھی، اپنے گھر، اپنوں کے پاس۔
ابھی تک وہ مائرا سے ملی نہیں تھی، اسلئے کمرے میں جاتے ہی دروازہ کُھلا چھوڑ گئی، جانتی تھی کے وہ اُسکے پیچھے ضرور آئیگی، اور ایسا ہی ہوا۔۔۔
"ادینہ!"
پر وہ چپ رہی، کچھ نہیں بولی۔
"ادینہ...
مجھے معاف کردو!"
وہ پھر بھی چپ رہی، مائرا کو لفظ نہیں مل رہے تھے، وہ ابھی بھی یونیفارم میں تھی، پر اُسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
ادینہ پھر بھی چپ رہی۔
"تم مجھے ڈانٹ دو، ناراضگی کا اظہار کردو، لیکن ایسے خاموش نہیں رہو!" مائرا کی بھیگی آواز سن کے وہ مسکرا دی، پیچھے مڑی اور اُسکے سامنے جا کے کھڑی ہوگئی۔
"کس بات کی معافی؟"
"مطلب۔۔
جو میں نے کیا۔۔۔"
"اور تم نے کیا کیا؟" ادینہ کے سوال سے وہ چپ ہوگئی۔
"اپنا خواب پورا کرنے پر مجھ سے معافی مانگ رہی ہو؟
یا ایک زبردستی کی شادی میں نا بندھنے کے لئے؟"
مائرا چپ ہی رہی، پر اُسکے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
"معافی مانگنی ہے تو بس اس بات کی مانگو کے تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا۔
مجھ سے یہ سب کہا نہیں۔
اور اس بات کا زخم میرے دل پر ہے، اور یہ ایک عرصے تک رہے گا۔ بس اس بات کی معافی میں تمہیں فوراً نہیں دے سکتی۔"
"ادینہ!
میں بہت شرمندہ محسوس کر رہی تھی، میں ڈر گئی تھی۔۔۔"
"باقی مائرا تمھارا بس طریقہ غلط تھا، منزل نہیں۔۔۔
اور تم ایک آفسر ہو اب، یہ ڈر جیسا لفظ تم کیوں استعمال کر رہی ہو؟"
مائرا نے اور کچھ سنے بغیر ادینہ کو گلے لگا لیا۔ ادینہ جانتی تھی کے اُسے اور مائرا کو وقت چاہیے، کے دل میں جو باتیں رہ گئی تھیں، جو زخم لگ چکے تھے انھیں بھرنے میں وقت لگنا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں یہ طے پایا کے ادینہ، سالار، مائرا اور اُنکی ماما سارے جا کے دادو جان، سکندر اور داؤد سے معافی مانگنے گے۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں وقت کٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے صبح ہوگئی، اتوار کا دن تھا اسلئے آج کا دن اُنھیں وہاں جانے کے لیے بہتر لگا۔۔۔
ادینہ کافی پریشان تھی، پر خود کو سنبھالتے ہوئے اپنا حجاب ٹھیک کرتے ہوئے سوچتی رہی کے آج کیا ہونے والا تھا!
وہ نکلے، اور پھر آدھے گھنٹے میں ہی ولا کے گیٹ پر پہنچ گئے۔ چوکیدار نے ادینہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ پر وہ سالار اور ادینہ کی ماما کو پہچانتا تھا اسلئے حیران ہوتے ہوئے اُنھیں اندر جانے دیا۔
ادینہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
وہ اس ڈرائنگ روم میں پہلے بھی آ چکی تھی، پر تب کا اور اب کا وقت کافی مختلف تھا۔
دادو کو ایک ملازم نے بلایا، اور اُنہوں نے آتے ہی سب سے اپنے نرم لہجے میں ملنا شروع کردیا۔
اپنے کمرے سی باہر ناشتے کے لیے نکلتے داؤد کو بھی ایک ملازم سے کچھ مہمانوں کے آنے کی خبر ملی، اُسے لگا اُسکی وہی سیکنڈ کزن سائرہ نا ہو جو اکثر اُنکے گھر ہی پائی جاتی تھی۔
"آپ لوگ سائرہ بی بی کو سرو کردیں، میرا اُنسے ملنا ضروری نہیں ہے۔"
"ام، سائرہ بی بی نہیں آئیں۔
وہ، وہ سکندر صاحب کا جدھر رشتا ہوا تھا وہ لوگ آئیں ہیں۔۔۔" ملازم کی بات سن کے داؤد کے دل میں تھوڑی سی ہلچل ہوئی، یہ لفظ کمرے سے باہر نکلتے سکندر نے بھی سن لیے تھے۔
وہ دونوں صبح اس وقت اُٹھ جایا کرتے تھے، دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ڈرائنگ روم کی طرف چلے گئے۔
اُدھر دادو مائرا کو دیکھ کے بےحد خوش تھیں، وہ ساری باتیں بھُلا کر اُس سے پیار سے ملی تھیں۔
مائرا نے بہت ہمت کرتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔
"میں شاید کبھی اپنی نظریں آپکے اور امی کے سامنے اُٹھا نہیں سکتی۔ میری وجہ سے تو میری بہنوں سے زیادہ عزیز بہن، ادینہ نے بھی بہت تکلیفیں سہہ لیں۔
اس سب کی وجہ میں ہوں شائد! پر، پر میں نے کوشش کی تھی۔ میں اس رشتے کو نبھانا چاہتی تھی، لیکن۔۔۔
لیکن ایک تذلیل میں نے محسوس کی۔ مجھے لگا جیسے میں کسی کی دولت کی خاطر جھک کے، کسی کی تذلیل سہہ کے شادی اگر کرگئی، تو اپنی عزت نفس کھو دونگی۔۔۔
میں چاہتی تھی کے مجھے کچھ کبھی ملے نا ملے بس عزت ملے۔۔۔
مجھے اس عزت نے، اس مان نے یہ سب کرنے پر مجبور کیا جو امی کی تربیت نے میرے اندر ڈالی تھی۔۔۔"
اُسکی، اور وہاں بیٹھے سب بندوں کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ وہ سب کہہ گئی، اُسنے آرمی جوائن اسی عزت کے لیے کی تھی۔ وہ خود کے لئے اور اپنے جُڑے رشتوں کو کبھی دھوکا نہیں دے سکتی تھی، پر وہ بےبس ہوگئی تھی۔
باہر کھڑا سکندر اور داؤد اب سب جان چکے تھے۔۔۔
'تو تم اسلئے ایسا کرگئی...' سکندر اُسے دیکھتے ہوئے سوچے گیا۔ کے اُسکے لفظوں اور لہجے کی وجہ سے ہی شاید یہ سب ہوا تھا، ذمےدار وہ بھی تھا۔۔۔
اس نے کسی کی عزت نفس مجروح کی تھی، پر اُسے احساس آج ہوا تھا، کیا آج بہت دیر ہوگئی تھی؟
کیا وہ نازک سی لڑکی، جو اب ایک باہمت آفسر تھی، کیا ابھی بھی وہ ایک اور کوشش کر سکتی تھی؟
یا کیا ایسا سکندر چاہتا تھا کے وہ کوشش کرے؟
اگر ہاں تو کیا وہ اس بات کا اقرار کر رہا تھا کے وہ مائرا کو اور اُسکی معصومیت کو پسند کر چکا تھا، اور آج اُسکی سوچ کو بھی؟
داؤد اندر جا چکا تھا۔ اُسکی نظروں نے فوراً ہی ادینہ کو ڈھونڈ لیا تھا جو ایک کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھی تھی، جس نے داؤد کے آتے ہی نظریں نیچے کر لی تھیں۔ شاید اُن میں ایک الگ طرح کا گلٹ تھا۔
"جو کچھ مائرا نے کہا وہ شاید تم دونوں بھی سن چکے ہو۔۔۔
شاید یہ سب ایسے ہی ہونا تھا! بیٹا ہم سب تم سب سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔۔۔
ہمیں معاف۔۔۔" پر اس سے پہلے وہ معافی مانگتی داؤد بول پڑا۔
"آنٹی اسکی ضرورت نہیں ہے۔" داؤد کے نرم لہجے کو ادینہ پہلی دفعہ سن رہی تھی، اور تو اور اُسکی آنکھیں خود پر ابھی بھی وہ محسوس کر رہی تھی۔
کیا واقعی وہ ایک نرم دل شخص ہی تھا؟ اگر ہاں تو تب کیوں وہ اسے اتنا غلط سمجھ بیٹھی تھی؟
"جو کچھ ہوا اُس میں میری غلطی تھی، مجھے تب جو ٹھیک لگا وہ اصل میں کتنا غلط تھا اسکا احساس مجھے بعد میں ہوا۔۔۔
میں، میں اپنے رویے اور حرکت کی آپ سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ سب ٹھیک نا کرتے تو بہت سے لوگوں کی زندگی کے خراب ہونے کی وجہ میں خود کو ہمیشہ سمجھتی۔۔۔
میں دل سے معافی مانگتی ہوں آپ سے، دادو آپ سے بھی، اور سکندر آپ سے بھی۔"
وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑے سکندر کو دیکھتے ہوئے بولی، جسکی نظر شاید مائرا سے ہوتے ہوئے ادینہ پر آئیں تھیں۔
پر سب چپ رہے، کسی نے کچھ نہیں بولا۔ پھر ایک دم سے دادو بولیں۔
"میں اپنی دوست اور اپنی خواہش پوری کرنا چاہتی تھی بس! ایک دوسرے کے گھر سے رشتا کرنا ہمارا خواب تھا لیکن میں نے تم بچوں کے احساسات کو جاننا ضروری نہیں سمجھا جسکی وجہ سے یہ سب!"
وہ اُداس ہوتے ہوئے بولیں، پر اُنکی نظر میں ابھی بھی داؤد تھا جو مسلسل ادینہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اُنہوں نے داؤد کی شخصیت میں اس لڑکی کے آنے کے بعد بہت بدلاؤ دیکھے تھے، وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں، اُنھیں ایسا لگ رہا تھا کے جیسے کہانی کا کوئی ایک اہم نقطہ اُنکی نظر سے اوجھل رہ رہا تھا۔۔۔
"دادو میں غلط تھا، اس سب کے کہیں نا کہیں وجہ میں ہی ہوں۔" سکندر مائرا کو دیکھتے ہوئے بولا، جو آج کسی ڈری ہوئی لڑکی کے جیسے نہیں تھی، بلکہ سکندر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھ رہی تھی۔
وہ کچھ اور اُمید کر رہی تھی، پر سکندر کی نظر مسلسل خود پے پا کر وہ ایک آفسر ہوتے ہوئے بھی نروس سی ہوگئی تھی۔ جبکہ سکندر ہلکا سا مسکرا دیا۔
"جو آپ چاہتی تھیں وہ اب بھی کیا آپ چاہتی ہیں دادو؟" داؤد کی عجیب سی بات سن کے سب حیران ہوئے۔ کم از کم ادینہ کے گھر والے اس سب کی اُمید نہیں کر رہے تھے۔
"کیا مطلب داؤد؟" دادو کی نظر داؤد پر گہری ہوئی، کچھ کچھ اُنکی سمجھ میں آرہا تھا۔۔۔
اور اگر ایسا تھا تو شاید انکا دل خوشی سے دھڑکنا بھول بھی سکتا تھا۔
"کیا مطلب بیٹا؟" فاطمہ بیگم کے پوچھنے پر داؤد پھر سے بولا۔
"جو سب ہوگیا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، پر اگر اب بھی آپ اور دادو یہ چاہتے ہیں تو۔۔۔" پر اس سے پہلے وہ بات پوری کرتا مائرا بول پڑی۔
"نہیں...
سکندر مجھے پسند نہیں کرتے، اور اب۔۔۔
اب مجھے اپنا آپ مزید بوجھ لگے گا اگر ایسا۔۔۔"
"اگر میں تمھیں پسند نہیں کرتا تو اور بھی کسی کو پسند نہیں کرتا ہوں۔ میرے لیے بزرگوں کے فیصلے تب بھی اہم تھے اب بھی ہیں۔" اور وہ جو سکندر کا انکار سننے کی اُمید کر رہی تھی، حیرت کا شدید جھٹکا کھا کر چپ ہوگئی!
"فاطمہ! تم میرا مان رکھو گی؟" فاطمہ بیگم کے لیے اُمید کے برخلاف سب بہت حیرت انگیز تھا! وہ یہ سب سوچ کے آئی ہی نہیں تھیں۔۔۔
اور سالار نا اُس سے کسی نے پوچھا نا ہی وہ سنبھل پایا۔
دادو کے پوچھنے پر فاطمہ بیگم کافی حیران تھیں، لیکن سچ یہی تھا کے اس رشتے سے وہ بےحد خوش تھیں۔۔۔
پر آگے جو ہوا اُس سب سے اُنہوں نے بہت کچھ سیکھا بھی تھا۔۔۔
"میرا فیصلہ آپکے حق میں تھا اور ہوتا بھی، پر اب میں چاہتی ہوں کے میری بچی کو میں یہ حق دوں۔
یہ سوال اُسی سے پوچھا جائے، اور جو وہ کہے گی وہی میرا بھی فیصلہ ہوگا۔" فاطمہ بیگم کے کہتے ہی سب مائرا کی طرف دیکھنے لگے سوائے داؤد کے۔
"ٹھیک ہے میں اُن سے خود پوچھوں گا۔" داؤد یہ کہتے ہوئے اُٹھا۔
مائرا کا دل زور سے دھڑک رہا تھا، یہ سچ تھا کے وہ سکندر سے متاثر ہوئی تھی اُسنے سکندر کو پسند کرنے کی کوشش بھی کی تھی، جس میں وہ کچھ حد تک ہی کامیاب ہوئی تھی، لیکن یہ بات اُسکے دل میں ہی رہیں، وہ اُسکے لفظوں سے زخمی بھی ہوئی تھی۔ ایسے ایک دم سے یہ بات وہ کبھی بھی نہیں مان سکتی تھی۔۔۔
اُدھر سکندر کے چہرے کا رنگ بھی اڑ رہا تھا، شاید وہ بھی ایک آخری جواب سننا چاہتا تھا۔ شاید اپنے لاشعور میں مقید اس لڑکی کا جواب سننا چاہتا تھا جسے ایک بار اپنی دلہن کے روپ میں وہ دیکھ چکا تھا۔۔۔
داؤد اٹھنے کے بعد آگے بڑھا، پر اُسکے قدم مائرا کی طرف نہیں بلکہ فاطمہ بیگم، سالار اور اُنکے ساتھ بیٹھی ادینہ کی طرف تھے۔
"آنٹی، جو ہوا وہ شاید اسلئے بھی تھا کے سکندر اور مائرا ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے، شاید اُنھیں ابھی بس وقت ہی چاہیے۔۔۔
پر میں فیصلہ لے چکا ہوں، اور اُنکے فیصلے کو سننا چاہتا ہوں جو آج مجھ سے معافی مانگنے آئی ہیں۔"
"کیا مطلب بیٹا؟" داؤد کی اُلجھی ہوئی بات سن کے فاطمہ بیگم نے پوچھا۔
"اسلئے نہیں کے دادو چاہتی ہیں، بلکہ اسلئے کے یہ میں چاہتا ہوں۔۔۔
میں۔۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپکے فیصلے کی عزت کرونگا، اور اُسے سننے کا انتظار بھی۔۔۔" ادینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے داؤد بولا۔
اور وہ جو اُلجھی ہوئی تھی اُسکی بات کو سمجھ کے اُسکا وجود کانپ سا گیا۔
یہ بات کسی کے تصور میں نہیں تھی، شاید داؤد کے خود کے تصور میں بھی نہیں کے وہ ایسے کسی کو خود شادی کا کہے گا۔۔۔
یہ وہ داؤد نہیں تھا جسے سب جانتے تھے، یہ داؤد کوئی اور داؤد تھا جسے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی، کب ہوئی شاید وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا پر بس یہ جانتا تھا کے اُسے یہ ہوگئی تھی!
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top