۱
'۱۹,۱,۲۰۲۱'
"آخر کار آج مائرا کی مہندی ہے، اور پھر یہ سارا کمرہ میرا ہوجائیگا۔ ویسے مجھے کمرے ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا اُسکے جانے سے دکھ بھی ہوگا لیکن چلو کوئی نہیں۔
کہنے کو تو ہم كذنز ہیں پر لڑائی اُسنے مجھ سے ہمیشہ بہنوں کے طرح ہی کرنی ہوتی ہے تو توبہ توبہ مجھے اتنا زیادہ دکھ بھی نہیں ہوگا۔
اچھا ہے نا۔
لیکن میں دِل سے خوش ہوں، ماما بتا رہی تھیں کے کافی اچھی جگہ اُسکا رشتا انہوں نے طے کیا اور یہ اُسکی قسمت ہے کے وہ وہاں جا کے راج کریگی۔ مجھے خوشی ہے پر پتہ نہیں کیوں میں نے اُسکے آنکھوں میں وہ خوشی نہیں دیکھی۔ جیسے ایک نمی ایک التجا وہ آنکھوں سے کر رہی ہو پر پھر سوچتی ہوں کے شاید میرا وہم ہوگا۔ وہ آج بہت اچھی لگ رہی ہے اور بس میں ابھی نیچے جانے ہی والی ہوں۔۔۔
آئی ہوپ سب بیسٹ ہوگا...
کل ملتے ہیں ڈیر ڈائری."
ادينہ جو ڈائری لکھ رہی تھی جلدی سے ڈائری بند کر کے اُٹھی اور اپنا حجاب پھر سے ٹھیک کرنے لگی، مزاجاً تھوڑی سی سنجیدہ پر جاننے والوں کے سامنے ایک بہت زندہ دل لڑکی تھی۔ کبھی بات بات پر رو دیتی تو کبھی مشکل سے مشکل وقت میں سب ایسے سنبھالتی جیسے پتھر کی بنی ہو۔ وہ خود کو خود ہی عجیب کہتی تھی، اور جیسی وہ تھی اس پر اُسکا زور چل ہی کب سکتا تھا؟
"ادينہ رسم شروع ہو چکی ہے جلدی آؤ نیچے." امی کی آواز سنتے ہی وہ کمرے سے نکل کر چلی گئی، نیچے جاتے ہی گیندے کے اور گلاب کے پھولوں کی مہک اس نے سونگھی۔ اسے پھول بہت پسند تھے پر سب سے زیادہ اسے کنول کے پھول پسند تھے، وہ سراہتی آنکھوں سے سب دیکھتی نیچے گئی، اسی میں اسکی نظر نازک سی پیاری سی دلہن مائرا پر پڑی جو بہت پیاری، ایک گڑیا کے جیسے لگ رہی تھی، وہ اسے کچھ پل دیکھتے گئی، اور ماضی کی اپنی اور اسکی یادوں میں گم ہوگئی...
اپنی باری آنے پر وہ اسٹیج پر گئی اور رسم کرنے کے بعد اُسنے مائرا کے گال کو چھو کر کہا۔
"آج بندر نہیں گڑیا لگ رہی ہو." مائرا یہ سن کے مسکرا دی اور اسکی آنکھیں جو لال ہو چکی تھیں اُنسے دو آنسو نیچے گر گئے۔
"کل روئیں گے نا، مزا بھی آئیگا، ابھی مجھے ہنسی آجائیگی۔" ادينہ کے شرارتی لہجے پر مائرا ادينہ کے گلے لگ کے رو پڑی۔ خود اسکی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے جنہیں اُسنے چھپ کے صاف کرلیا، پھر خود کو سنبھالتے ہوئے وہ مائرا کے ساتھ مذاق کرنے لگی۔ نہیں جانتی تھی کے ان پلوں کو وہ کتنا یاد کریگی، شاید یہ خوشیاں ایسی ہی وقتی ہوتی ہیں جو بس انسان کی تھکن اُتارنے آتی ہیں، اسے آنے والے امتحانوں کے لیے ایک اُمید دے جاتیں ہیں، جنکے بعد وہ اُن امتحانوں سے لڑ سکتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادينہ اور اُسکے بڑے بھائ سالار اپنی امی کے دو سہارے تھے، اُن دونوں کے بابا اس دنیا میں نہیں رہے تھے، پر پھر بھی اُنکی پرورش اور تربیت احسن طریقے سے اُنکی امی نے پوری کی تھی۔ وہ ایک سکول کی پرنسپل تھیں اور اپنی حلال کمائی سے اپنے بچوں کو انہوں نے پالا تھا۔
مائرا اُنکی دور دراز کی ایک كذن کی بیٹی تھی جس کے پیدا ہوتے ہی اُسکی ماں کا انتقال ہو چکا تھا اور کچھ ہی عرصے بعد والد بھی اس دنیا سے چلے گئے اور یوں مائرا کو انہوں نے اپنی بیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔
کبھی بھی ادينہ اور مائرا میں فرق نہیں رکھا۔ یہ پیار ہی تھا کہ کوئی بھی غیر جب انسے ملتا تو مائرا کو اسی گھر کا فرد سمجھتا۔
اب جبکہ مائرا رخصت ہوکے جانے والی تھی تو
ادينہ مائرا کو لے کے کافی حساس ہو گئی تھی، اُسکی آنکھوں میں مسلسل نمی کی وجہ ادينہ نے پوچھنے کی کوشش کی پر مائرا ہمیشہ اسے ٹال دیتی۔ ادينہ ابھی تک مائرا کے سسرال والوں سے نہیں ملی تھی۔ گو وہ اپنی كزن کا دولہا دیکھنے کے لیے کافی مشتاق تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'۲۰,۱,۲۰۲۱'
'آج وہ جا رہی ہے، پر میرا دل بہت بیٹھ رہا ہے، چاہتا ہے کہ اُسے روک لوں پر یہ رسم ہی ایسی ہے شاید۔ آج سے پہلے اس سے لڑتی تھی اور آج اُسکے ہوتے ہوئے بھی وہ یاد آنا شروع ہو گئی ہے۔
اور میرے تو آنسو بھی نکل پڑے ہیں، پر
خیر آج کے بعد کمرہ تو میرا ہوگا نا۔۔۔
بس یہ اچھی بات ہے."
وہ ڈائری بند کرتی اُٹھی، مسکرائی اور کمرہ صاف کرتے ہی خود بھی تیار ہوگئی۔
کچھ ہی لمحوں میں وہ لوگ ہال کے لیے نکل پڑے۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا، مائرا بھی پارلر سے آگئی تھی، آج اُسکا روپ بلکل ہی الگ تھا۔ ادينہ دِل ہی دل میں اُسکی خوشیوں کی دعا کرنے لگی۔
اُسے برائیڈل روم میں بٹھانے کے بعد مہمانوں کو ریسیو کرنے سب باہر چلے گئے۔ لڑکے والوں کے آنے کے بعد اُسنے سب کو ریسیو کرنا شروع کردیا۔
جو بات ادينہ کو کھٹکی وہ یہ تھی کہ لڑکے والے اپر کلاس کے لوگ تھے جب کے وہ مڈل کلاس سے تھے۔ اتنے امیر لوگوں نے ان کے گھر رشتا بھیج کیسے دیا تھا؟
ادينہ نے یہ بات بھی محسوس کی کے زیادہ تر لوگ انتہائی بیزاری کے ساتھ شادی میں شرکت کرنے آئے تھے۔ وہ بہت تذبذب میں اُنھیں ریسیو کر رہی تھی۔
پر اُسکا دل تب دھڑکا جب اُسنے دولہے کہ چہرے پر بیزاری کے واضع اثرات دیکھے۔
یہ سب کیا تھا اور اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ کے جیسے یہ کوئی زبردستی کی شادی ہو۔ اگر اس شادی سے کوئی خوش نہیں تھا تو یہ شادی کیوں ہو رہی تھی۔
اگر اس شادی سے کوئی خوش تھا تو وہ مائرا کی دادو ساس تھیں۔ اصل خوشی بس اُنکے چہرے سے واضع ہورہی تھی۔ ادينہ ساتھ ساتھ سب کو بیٹھا رہی تھی کے اتنے میں ہی اُسے ایک شخص دکھائی دیا، جسکے وضع قطع سے بلکل ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی شادی میں آیا ہے، اُسکے آس پاس ایک الگ قسم کی سرد مہری تھی۔ اُسکی آنکھیں بغیر کسی تاثر کے بھی اُسکی بیزاری کا اعلان کر رہی تھیں۔
ادينہ بہت سے لوگوں کو اُسکے پاس آنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی، جیسے وہ خاص ہو، جیسے یہاں اس چھوٹی سی شادی میں آنا اُسکی عزت کے خلاف ہو۔۔
ادينہ کی ہمت جیسے جواب دے گئی ہو، وہ سب کو بیٹھنے کا کہہ کے اس شخص کی طرف گئی اور پاس پڑی خالی ٹیبل کی اور اشارہ کرتے ہوئے بولی،
"یہ ٹیبل خالی ہے، یو کین سٹ ہیر." پر ادينہ کو جواب دینے کے بجائے وہ شخص بس ادينہ پر ایک نظر ڈال کے واپس آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔ ادينہ کو ہتک کا احساس ہوا اور وہ یہ کہتی وہاں سے چل پڑی۔
"بیٹھنا ہوا تو ضرور بیٹھ جائیے گا پر دھیان رکھیے گا کے یہ شادی ہے کسی کا ماتم نہیں۔" ادينہ کے لہجے سے وہ شخص ذرا سا چونکا اور ادينہ کو جاتے ہوئے ایک پل کو دیکھا اور ایک طنزاً ہنسی اُسکے چہرے پر آگئی۔
ادينہ اسی طرح آگے پیچھے سب سے پوچھ رہی تھی کے اُنھیں کچھ چاہیے یا نہیں کے اتنے میں اُسنے اسی شخص کو فون سے کان لگاتے ہوئے دیکھا اور پھر باہر کی اور جاتے ہوئے۔
"عجیب انسان ہے، کھانا کون چھوڑتا ہے شادی کا؟"
وہ اسی کشمکش میں تھی کے اُسکی امی انتہائی پریشانی میں باہر نکلی۔ جو کچھ دیر پہلے دولہے میاں کو برائڈل روم میں فوٹو سیشن کے لئے چھوڑ کے آئیں تھیں۔
"کیا ہوا امی؟" وہ پریشانی سے اُنھیں دیکھتے ہوئے بولی۔
"مائرا کمرے میں نہیں ہے!" یہ بات سنتے ہی
ادينہ سکتے کی کیفیت میں آگئی.
"کیا مطلب اندر نہیں ہے؟
ابھی تو اندر تھی، اور دولہا بھائ کو بھی آپ ابھی۔۔۔" پر اس سے پہلے کے وہ بات پوری کرتی اُسکی امی بول پڑیں۔
"وہ کچھ ہی دیر پہلے باہر آگیا تھا، تب مائرا اندر ہی تھی، پر ابھی نہیں ہے!" یہ سنتے ہی وہ برائڈل روم کی اور گئی۔ وہ ہر جگہ مائرا کو ڈھونڈنے لگی، کمرے میں باہر، یہاں تک کہ لان میں بھی۔
مائرا کہیں نہیں تھی، اندر مہمان انتظار میں تھے اور اُسکا نام و نشان کہیں بھی نہیں تھا۔ ادينہ تھک کر ایک کرسی پر بیٹھی اور اپنا سر ہاتھوں میں لے لیا. مائرا ایسے کہاں جا سکتی تھی؟
وہ تو کبھی اکیلے باہر تک نہیں جاتی تھی تو آج وہ کہاں تھی؟ وہ کہاں چلی گئی تھی؟ اس سے پہلے اُسکی سمجھ میں کچھ آتا اندر سے آتی آوازوں نے اُسکا دھیان اپنی اور پھیر لیا۔
"کہاں ہے آپکی بیٹی؟ کیا میرے بیٹے کی عزت کی آپکی نظر میں کوئی اوقات ہے؟" یہ آواز اور کسی کی نہیں بلکہ دولہے یعنی سکندر کی ماں کی تھی۔
ادينہ بہت پریشان تھی پر اُسکی نظر سکندر پر پڑتے ہی اُسنے وہ مسکراہٹ دیکھ لی جو اُسکے چہرے پر تھی!
اُسکا دماغ اُبل رہا تھا، وہ سکندر کے پاس گئی اور اس سے پوچھا۔
"کہاں ہے مائرا؟ " اُسکے ایک دم سے سوال کرنے پر سب چونک گئے، مائرا کہاں تھی اسکا جواب سکندر کے پاس کیسے ہو سکتا تھا؟
"کیا مطلب ہے اس سوال کا؟
یہ سوال تو مجھے کرنا چاہیے آپ لوگوں سے." سکندر کے نخوت بھرے لہجے نے ادينہ کا غُصہ مزید بڑھا دیا۔
"یو نو وٹ آئی مین۔
ابھی آپ ہی تھے برائڈل روم میں اور مائرا بھی، پر اب وہ نہیں ہے۔" ادينہ کا لہجہ سن کے ایک پل کو سکندر واقعی خاموش ہوگیا۔ لیکن اُسکا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، شاید نہیں تھا۔ اسلئے وہ پھر بولا۔
"میں نے نا کچھ کیا ہے نا آپکو اپنی صفائی دینا چاہتا ہوں۔ حساب آپ لوگ دیں اس بے عزتی کا، جو آج آپ لوگوں نے میری کروائی وہ بھی سب کے سامنے."
ادينہ اب کی بار چپ ہوگئی، اُسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، مائرا ایسا کر ہی نہیں سکتی تھی، اور یہ لوگ اور انکا رویہ چینخ چینخ کے کہہ رہا تھا کے اُنھیں اس سب سے غم تو دور بلکہ خوشی ہوئی ہو جیسے۔
وہ کچھ بھی کر کے مائرا کو واپس چاہتی تھی، ان لوگوں کو وہ آسانی سے جانے نہیں دے سکتی تھی۔
"میں آخری بار پوچھ رہی ہوں، تم نے مائرا سے ایسا کیا کہا کہ وہ سب چھوڑ کے چلی گئی!
يا پھر اُسکے گم ہونے میں تمہارا ہاتھ ہے!
مجھے سب جاننا ہے۔" ادينہ شدت غم سے نڈھال ہو کر بولی۔ اُسے کسی نے چپ نہیں کروایا، پر ایک سرد آواز سن کر وہ چونکی۔
"سکندر ہاشم کا وقت اتنا بھی بے وقعت نہیں ہے کے اب وہ کسی کو گم کروائے، وہ بھی کسی ایسی لڑکی کو جو اپنا نام اتنے بڑے گھر میں جڑ جانے کے بعد بھی بھاگ گئی ہو۔" یہ وہی شخص تھا جسکی سردمہری وہ کچھ دیر پہلے دیکھ چکی تھی۔ یہ سب اُس سے برداشت نہیں ہو سکا اور وہ بولی۔
"یہ لفظ دوبارہ اپنی زبان سے مت نکالنا، جس شادی میں آپ لوگ آئے اُسے ماتم بنانا کافی نہیں تھا جو ایسے الفاظ آپ بول رہے ہیں۔" ہال میں موجود سب لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ شاید اس شخص کی سرد آنکھیں کسی کو بھی منجمند کے سکتی تھیں، پر اُسکے سامنے ایک بہن کھڑی تھی، ادينہ کھڑی تھی جو اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُسے سنا گئی تھی۔
اتنے میں ہی سالار واپس آیا اور اُسکی آنکھوں میں آئے آنسو اس بات کی گواہی تھے کے اُسے مائرا نہیں ملی۔ مہمان آہستہ آہستہ جا رہے تھے پر وہ شخص جسکا نام داؤد تھا وہیں کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ ادينہ کی اور آیا اور کہا۔
"میری فیملی پر جو انگلی اٹھایا کرتا ہے اُسکے ساتھ انصاف میں کرتا ہوں، میری فیملی سے دور رہنا."
یہ تنبیہ صرف ادينہ کے کانوں سے ٹکرائی، باقی سب بہت برے ہال میں تھے۔ ادينہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میرے گھر والوں کو جو دکھ دیتا ہے سکون سے میں بھی اُسے رہنے نہیں دیتی۔ تم اور تمہاری فیملی مجھے میری بہن کا خود بتا دے، ورنہ مجھے اپنے گھر والوں سے دور رکھنے کی کوشش تم کرنا۔"
آنکھوں میں انگارے لیے ادينہ نے اُسے مضبوط آواز میں جواب دیا۔ اُسے یقین تھا کے سکندر کے برائیڈل روم میں جانے کے بعد سے مائرا غائب ہے۔ نا ہی کسی نے اُسے جاتے دیکھا، نا ہی اس جگہ سیکیورٹی فوٹیج تھی۔
ادينہ نے اپنا سر پکڑ لیا، سکندر کی دادی جو ادينہ کی نانی اماں کی بہت اچھی دوست تھیں وہ بھی رو پڑیں۔ شک شاید اُنھیں بھی تھا پر لب اُنکے سل چکے تھے۔ بس جاتے جاتے وہ یہ کہہ کر گئیں۔۔
"مائرا کو میں ڈھونڈو گی یہ میرا وعدہ ہے تم سب سے!
یہ رشتا میں نے ہے کرایہ تھا نا میں ہی اس سب کی ذمےداری بھی لونگی۔
بس ثریّا تم خود کو اور اپنے گھر والوں کو داؤد اور سکندر سے دور رکھنا۔ داؤد اپنے گھر والوں کو لے کے حساس ہے، مجھے ڈر ہے کے تم لوگوں کو وہ نقصان نا پہنچائے!" یہ کہہ کے وہ ادينہ کی امی کے گلے لگیں اور نم آنکھوں سے اپنا دکھ ہلکا کرنے لگیں۔ پھر وہ چلی گئیں۔
ادينہ ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھی، آج مائرہ نے رخصت ہونا تو تھا، پر ایسے نہیں۔ اُسکا دل پھٹ رہا تھا لیکن وہ پکا عہد کر چکی تھی کے وہ کچھ بھی کر کے مائرا کو ڈھونڈے گی۔ چاہے اسے اس کے لیے داؤد سے ٹکر ہی کیوں نا لینی پڑے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Rani_dream_faith❤️
So, the first Chap is here, hope you all will like it. Read, Vote, Comment and share.✨
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top