قسط 9
ایشال کی شادی ہوچکی ہے حماد نے اس کی آنکھوں میں دیکھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔
یاور ایک دم ٹھٹک گیا۔۔۔۔۔۔
اور اپنا موں موڑ لیا حماد نے بغور اس کے تاثرات دیکھ وہ موں موڑ کر اپنے آنسو پی رھا تھا اور زبردستی اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائ ۔۔۔۔ اور واپس چھڑا موڑا۔۔۔۔۔
یاور مجھے لگ تا ہے ہمیں چل نا چاھیے بہت دیر ہوگئ ہے حماد نے کہا۔۔۔۔
اوکی پھر کل مل تیں ہے یاور بھی یہان سے اٹھنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔ حماد کے بولنے پر جلدی سے بولا۔۔۔۔۔
چلو میں تمھے ڈراپ کر دیتا ہوں حماد نے کہا۔۔۔۔
نھین بابا نے ابھی میسیج کیا ہے ہماری گاڑی آگئ ہے اور ڈرایئوڑ لیکے آرہا ہوگا یاور نے کہا کیو کہ فلحال وہ اکیلا رھ نا چاھ تا تھا۔۔۔۔۔۔
اوکی ٹھیک اپنا خیال رکھ نا اوکی باء۔۔۔۔۔ حماد نے اس کو گلے سے لگایا اور اپنی گاڑی میں بھیٹھ گیا۔۔۔۔۔اور اپنی گاڑی لی کر چلا گیا۔۔۔۔۔
اتنے میں یاور کی گاڑی بھی آگئ ۔۔۔۔
میں خود ڈرائیو کرونگا یاور یے کھ تا گاڑی میں بھیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ اور گاڑی تیزی سے بھگا لے گیا۔۔۔۔۔۔
یاور کے ذہن میں بار بار حماد کی آواز گونج رہی تھی ایشال کی شادی ہوچکی۔۔۔۔
نھین ایسا تو نھین ہوسکتا ایشال کی شادی نھی ہوسکتی وہ خود کلامی سے بولا۔۔۔۔۔۔
مینے بہت چاھا ہے ایشال تم کو تم کسی اور کی ہوگئ مطلب تم نے میرا بھی نھی سوچا کیسے سوچتی تم میرا تمھارے لیے تو میں کچھ نھین تھا نا ہوں نا ہونگا پر میرے لیے تم سب کچھ کیو ہوئ کیو نھین اب اور سھنے کی حمت نھین ہے مجھ میں۔۔۔۔۔ یاور نے خود، کلامی کی اور اذیت سے اپنی آنکھین زور سے میچ کر کھولی۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھین سرکھ ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ گاڑی وہ بہت ہی تیز چلا رھا تھا۔۔۔۔ پھر اس نے ایک جگہ پر گاڑی روکی ۔۔۔۔ اور باھڑ نکل آیا۔۔۔۔۔۔
یہان بہت بڑا سمندر تھا اور لوگ ریلنگ پے ہاتھ رکھے اس منذر کو دیکھ رہے تھے کوئ فوٹو نکال رہا تھا تو کوئ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا ۔۔۔۔۔ سب لوگ لطف اندوز ہورہے تھا
پر یاور تو جسے بکھر ہی گیا تھا اللہ اپنے میرے ساتھ ایسا کیو کیا مینے تو اس سے پاک محبت کی تھی پھر کیو اپنے اس کو میرے نصیب میں نھی لکھا کیو اللہ میں یے اذیت برداشت نھین کر پارھا پلیز، اللہ میں نھی رھ پاونگا اس کے بغیر یاور نے چینکھ کر کہا اور، زمین پر بھیٹھ گیا اور موں اپنے ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔۔۔۔
اس کا زبط بس یھین تک تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑی طرح بکھڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
لوگ اس کو آتے جاتے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ پاگل ہو۔۔۔۔ ہان پاگل ہی تو تھا وہ کیو کہ اس کو عشق ہوگیا تھا اور عشق کہا عقل مندون کو ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
عشق ہوتا نھین اتر تا ہے،،،،
غار دل میں کسی وحی کی طرح،،،
بیٹا کیو رو رہے ہو۔۔۔۔۔ کسی نے یاور کے کندھ پے ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔
یاور نے سڑ اٹھایا اور اپنی ان سرکھ آنکھوں سے دیکھا وہ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی تھے سفید بال موں پے سفید داڑھی لیے ہاتھون میں لکڑی اٹھائے وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
بیٹا عشق کر بھیٹھے ہو کیا۔۔۔۔ انہوں نے مسکڑا کر پوچھا۔۔۔۔
نھین مجھے عشق کا تو نھین پتا پر جو ان سے ہین نا وہ کسی اور سے نھین یاور اپنے آنسو پنچھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اچھا پھڑ رو کیو رہے ہو ان ادھیڑ عمر آدمی نے پھر کہا۔۔۔۔۔
بابا وہ کسی اور کی ہوگئ اور میں کچھ نھی کر سکا یاور نے سمندر مین دیکھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔ وہ اب کافی حد تک اپنے آپ کو سمبھال چکا تھا۔۔۔۔۔۔
بیٹا اللہ کے ہر فیصلے مین کوئ نا کوئ مصلحت ہوتی ہے تم اللہ سے نا امید نا ہو کیا، پتا اس نے تمھارے لیے اس سے بھی بھترین لکھا ہو۔۔۔۔ انہونے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
بابا میرے نصیب میں کوئ اور لکھ دی گئ ہے وہ بھی بچپن سے یاور نے دکھ سے کہا۔۔۔۔۔
بیٹا پھر تمھارے نصیب میں جو ازل سے لکھی گئ ہے وہ ہی تم کو ملے گی۔۔۔۔۔ ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا۔۔۔۔۔
پر میں کیسے بھول جاوں اس کو پھر اللہ نے میرے دل میں اس کو ڈالا ہی کیو جب وہ میرے نصیب میں نھی تھی یاور نے دکھ سے کہا۔۔۔۔۔ اور پھر دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گڑے۔۔۔۔۔
بیٹا کبھی بھی اللہ سے مایوس نا ہونا وہ لیتا ہے تو اس کے بدلے میں دیتا بھی بہت ہے اگر وہ تمھارے نصیب میں نھی تو تم اس کو بھول نے کی کوشش کرو جانتا ہوں بھولنا اتنا آسان نھین ہوتا کبھی کبھی تو سدیان بیت جاتی ہین بھول نے کے لیے اور کبھی تو ہم بھول ہی نھین پاتے جب جب ہم اس شخص کا چھڑا دیکھ تے ہیں وہ ہی باتین وہ ہی یادین ہمارے سامنے آجاتی ہیں ہم بناوٹی مسکراہٹ تو سجا لیتے ہیں پر وہ ہمیں ہی پتا ہوتا کے ہم کتنا اندر سے ٹوٹ چکے ہوتین ہین کتنا بکھر گئے ہوتیں یے کوئ نھی جان پاتا پر اپنوں کے لیے جو ہمیں بہت چاھ تے جن کے لیے ہم سب کچھ ہیں ان کے لیے ہمیں اپنے ہونٹوں پر جوٹی مسکان سجانی پر تی ہے جھوٹے قہقے لگانے پر تیں ہیں کیو کے اپنی خوشی نھین اپنوں کی خوشی کی خاتر جو ہمارے خیر خواہ ہیں کیو کہ جب دکھ پہنچتا ہے تو اندر تک ہلچل مچا دیتا ہے اور ہم چاھ کر بھی دل سے خوش نھی ہو پاتے اس لیے تم بھی اپنے آپ کو سمبھالو اس لڑکی سے شادی کرو جو تمھاڑے نصیب میں بچپن سے لکھی گئ ہے اپنے لیے نھین تو اپنے ماں باپ کے لیے جن کو تم پے ناز، ہے جن کا غروڑ ہو تم ادھیڑ عمر نے مسکڑا کر اس کو سمجھایا۔۔۔۔۔
یاور غوڑ سے ان کی ایک ایک بات سن رہا تھا جب وہ چپ ہوئے تب بھی وہ ان کو ایسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
بیٹا کیو ایسے دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ انھون نے کہا تو وہ چونک پڑا۔۔۔۔۔۔
آپ کتنی اچھی باتین کر تیں ہین آپ کا ایک ایک لفظ مینے حفظ کر لیا ہے ۔۔۔۔۔۔ یاور نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔۔
اچھا اب میں چل تا ہوں نماز پرھ نے بیٹا اللہ حافظ اپنا خیال رکھ نا۔۔۔۔ وہ یے کھ کر چل دیے۔۔۔۔
پھر ایک دم رکے اور پلٹے۔۔۔۔۔
تم نماز پرھ تے ہو انہونے کہا۔۔۔۔
جی میں پرھ تا ہوں پر جب سے پاکستان آیا ہوں نھی پڑھی یاور نے شرمندگی سے کہا۔۔۔۔
میں کل پرھونگا۔۔۔ یاور نے پھر سے کہا۔۔۔۔
بیٹا نماز کبھی بھی کل نھین پڑھ تے نماز تو آج سے پرھ تے ہین انہون نے کہا۔۔۔۔ اور چل دیے۔۔۔
جب کے یاور وہی کھڑا ہوئا تھا ان ادھیڑ عمر کے آدمی کی ہر بات اس کے دماغ میں چل رہی تھی پھر ایک دم وہ گاڑی میں بھیٹھا اور گاڑی آگے بھگا لی اس کا رکھ مسجد کی طرف تھا۔۔۔۔۔۔
***********************************
بابا ہم کب جارہے ہین آپ کے دوست سے مل نے یاور نے ان کے کمڑے میں آتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
میرا ان سے رابطہ نھین ہو پارھا فاروق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔
کیو آپ ان سے رابطے میں نھین آپ نے تو بولا تھا کہ وہ ہمارا انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔۔ یاور بی یقینی سے کہا۔۔۔۔۔۔
تو فاروق صاحب مازی میں کھو سے گئے اور سب اس کو بتانے لگے۔۔۔۔۔
************************************
ماضی۔۔۔۔
رفیق صاحب اور فاروق صاحب ساتھ میں پلے بڑھے ان دونوں کا گھر آمنے سامنے تھا ان دونوں کی کافی گھڑی دوستی تھی سکول سے لیکے یونیورسٹی تک وہ دونوں ساتھ تھے پھر اچانک رفیق صاحب کے ماں باپ دونوں کار ایکسیڈنٹ میں مالک حقیقی سے جا ملے اور وہ تنہا رھ گئے پھر فاروق صاحب نے ان کو سمبھالا پر پھر اچانک فاروق صاحب کے باپ نے اس کو اپنے بزنس میں لگا دیا وہ بہت مصروف رھ نے لگے رفیق صاحب کو بھی بزنس سنبھالنے کا شوک چرھا انہوں نے بھی اپنے باپ کا بزنس سنبھال لیا تھا پر چونکہ ان کا بزنس اتنا نھین تھا جتنا فاروق صاحب کا تھا اس لیے انہون نے فاروق صاحب سے اپنا بزنس جوڑ لیا۔۔۔۔۔ دن گزر تے گئے ان دونوں نے شادی بھی کر لی اور ان دونوں کے دو دو بچے بھی تھے پھر اچانک فاروق صاحب نے اپنے بیٹا کا رشتہ بچپن میں ہی رفیق صاحب سے مانگا اور انہونے بنا اعتراض کے ان دونوں کا نکاح کر دیا سب بہت اچھے سے جارھا تھا سب بہت خوش تھے پھر اچانک رفیق صاحب اپنے بھائ کے ساتھ ان کے گھر آئے اور بزنس الگ کرنے کا مطالبہ کیا فاروق صاحب یے سن کے شوک رھ گئے انہوں صاف انکار کیا اور بولیں ہم دونوں ساتھ میں ہی رھینگے ہمیشہ تم یے کسی باتیں کر رہے ہو فاروق صاحب نے غصے اور بی یقینی سے کہا۔۔۔۔۔۔
کیو نھین کھین نیت تو نھین بدل گئ تمھاری رفیق صاحب کے بدلے ان کے بھائ نے بولا
تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئ یے الفاظ بول نے کی یے معملا رفیق اور میری بیچ کا ہے تم بیچ میں مت پرو فاروق صاحب نے غصے سے دھاڑ کر کہا۔۔۔۔۔
تم کیو چاھ تے ہو اچانک کے ہم الگ ہوجائیں بزنس میں فاروق صاحب نے غصا زبط کر تے ہوئے کہا۔۔۔۔
بس میں چاھ تا ہو کے میں اپنا بزنس کھولوں اس لیے اور کوئی مقسد نھین میرا رفیق صاحب نے نرمی سے کہا۔۔۔۔۔
اگر وہ بول رھا ہے تو الگ ہوجاو لالچی انسان اور ایک گندی گالی دی رفیق صاحب کے بھائ نے ان کو۔۔۔۔۔۔
فاروق صاحب ان کے بھائ کو کالر سے پکر لیا اور ان کے موں پر ایک تھپڑ رسید کر نے ہی والے تھے کے رفیق صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑی طرح سے جھٹک دیا۔۔۔۔۔۔ فاروق صاحب بی یقینی سے اس کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
تمھاری حمت کیسے ہوئ میرے بھائی پے ھاتھ اٹھانے کی۔۔۔۔ رفیق صاحب بڑی طرح سے چلائے۔۔۔۔
تم ہے اپنے بھائ کا نھین دکھ رھا کے وہ کیا بول رھا ہے فاروق صاحب نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔
سب دکھ رھا ہے اب تم میرا بزنس الگ کرو ورنہ میں تم پے کیس کر دونگا۔۔۔۔۔ رفیق صاحب نے کہا۔۔۔۔
اور اپنے بھائ کے ساتھ باھر نکل نے لگے۔۔۔۔۔۔
رک جاو۔۔۔ فاروق صاحب نے تیزی سے کہا۔۔۔
تو رفیق صاحب وہی رک گئے۔۔۔۔۔
بزنس الگ کرنے کے باد تمھارا اور میرا رشتہ ختم سمجھو فاروق صاحب نے تیزی سے کہا۔۔۔۔۔
رفیق صاحب نے بی یقینی نے پیچھے مڑ کے دیکھا
ہان ہان میرے بھائ بھی مڑا نھین جارھا چلو رفیق بھائ ان کا بھائ ان کو لیکے چلا۔۔۔ گیا۔۔۔
اور مینے علیحدگی کر کے اپنا بزنس نیو یارک میں سیٹ کر دیا تب ہم دونوں شاید تم دونوں کے نکاح کو بھول ہی گئے تھے مینے پیچھے مڑ کے کبھی نھی دیکھا اور اس نے بھی کوشش نھی کی۔۔۔۔۔
فاروق صاحب کھ کے چپ ہوئے اور آنکھوں کا کونا صاف کیا۔۔۔۔
یاور اور اریشا بھی دکھ سے سب سن رہے تھے۔۔۔۔
بابا پھر آپ کیسے ڈھونڈینگے ان کو اور مجھے تو لگ تا ہیں اس لڑکی کی شادی بھی کر دی ہوگی اب انہونے۔۔۔۔۔ اریشا نے کہا
نھی پاکستان میں میرے بہت سے دوست ہیں جنہوں نے مجھے بولا ہے کے ابھی اس لڑکی کی شادی نھی ہوئ اور ان کا پتہ بھی مل ہی جائیگا۔۔۔۔۔ فاروق صاحب نے کہا۔۔۔۔۔۔۔
یاور تو کھی اور ہی کھویا ہوا تھا۔۔۔۔۔
بیٹا تم تیار ہونا شادی کروگے نا اس لڑکی سے تم فاروق صاحب نے اس کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔
جی جی بابا میں تیار ہوں آپ جیسا کھینگے ویسا ہوگا یاور نے سمبھلتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
فاروق صاحب کے چہرے پر پڑ سکوں مسکراہٹ ٹھڑ گئ۔۔۔۔۔۔
************************************
بھائ بابا کے دوست کا ایڈریس مل گیا آپ چل رہیں ہین۔۔۔ اریشا نے کہا
یاور جو آنکھین موندے سوفے سے سر ٹکائے بیٹھا تھا چونک کر آنکھین کھولی اس نے۔۔۔۔۔
بھائ آپ تو حماد بھائ سے مل نے گئے تھے نا پھر ایشال آپی کا کچھ پتا چلا اریشا نے سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔
ہان چل گیا پتا شادی ہوگئ اس کی یاور نے دکھ سے کہا اور آنکھین موند دی۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔!!!!! مطلب ان کی شادی ہوگئ اللہ اللہ یے کیا ہوگیا اریشا نے بی یقینی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
ہان ہوگئ اس کی شادی خیر بابا کو بول نا میں آج نھی جارھا سر میں درد ہے پھر کبھی چلونگا سھی ہے یاور نے بزاھڑ لاپرواہی سے کہا۔۔۔۔۔ اور اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔۔۔
پیچھے اریشا دکھ سے اس کی پشت دیکھ کے رھ گئ۔۔۔۔
************************************
بھائ آپ پکا نھی جارہے اریشا نے گاڑی میں بھیٹھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
نھین میں نھی جارھا بابا سے بات کر لی ہے مینے یاور نے کہا۔۔۔۔
اوکی آپ اپنا خیال رکھیں گا ہم دو تین گھنٹے میں ۔آجائینگے اریشا نے کہا تو اس نے اسبات میں سر ہلایا اور اندر چلا گیا۔۔۔۔۔
اور پیچھے فاروق صاحب نے بھی گاڑی اسٹارٹ کر دی۔۔۔۔
************************************
گاڑی رفیق صاحب کے پورچ میں آ رکی
اور اریشا نے دروازے کی بیل بجائ
کسی کے قدموں کی چاپ سنائ دی پھڑ کسی نے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔۔
اریشا اس لڑکے کو دیکھ کر ششدر سی آنکھین پھاڑے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
آپ۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
یھاں۔۔۔۔۔۔!!!! اریشا نے بی یقینی سے کہا۔۔۔۔۔
Keep supporting
Kashaf
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top