قسط 8
بھائ آج فائینلی ہم پاکستان جارہے اریشا نے چہیکتے ہوئے کہا .......
ہان گڑیاں ہم جارہے میں تم ہے بتا نہین سکتا میں کتنا خوش ہوں یاور نے بھی اپنے بال بنا تے ہوئے خوش ہوتے کہا.....
بھائ آپ کو ایک بات مینے نہین بتائ تھی اریشا نے اس کے روم کی بیڈ شیٹ ٹھیک کر تے ہوئے کہا .....
کونسی بات... یاور نے تفتیش سے پوچھا.....
پتا ہے بھائ ائیڑ پورٹ پر جب ایشال آپی مجھے بلا رہی تھی علماء نے میسیج کیا تھا یاد ہے آپ اس نے لکھا تھا کے وہ آدھی پڑھائ پاکستان میں پوڑی کریگی اریشا نے اس کو یاد دلایا....)
ہان تو... یاور نے بیڈ پے بھیٹھ تے ہوئے کہا.....
بھائ وہ علماء نے مزاک کیا تھا مجھے بلانے کے لیے کیو کہ اس کو پتا تھا میں نھین جاونگی...... اور باد میں اس نے مجھے بتا دیا تھا جب وہ پاکستان پہنچی تھی کاش آپ ایسے رئیکٹ نا کرتے تو ایشال آپی واپس آتی پر آپ نے تو سیدھا پرپوز ہی کر دیا ایشال آپی کو پھر حماد بھائ نے نیویارک آنے سے اس کو سختی سے منع کر دیا.... اریشا نے کہا....
کیا کھ رہی ہو تم تم نے مجھے پھلے نہین بتایا یاور نے حیرانی سے کہا
مجھے بھی باد میں پتا چلا تھا پر تب تک آپ ڈپریشن میں جا چکے تھے آپ کسی کی بات سن ہی نہین رھے تھے.... اریشا نے تاصف سے کہا....
یاور نے آپنا سر پکر لیا.... مینے آپنی محبت ہی نہین آپنا بھایوں جیسا دوست بھی گنوا دیا.... کاش میں ایسا نا کر تا کاش میں اتنا جزباتی نا ہوتا یاور نے دکھ سے کہا.....
کوئ نہین بھائ اب تو جاہی رہین ہے پاکستان آپ حماد بھائ سے مافی مانگ لینا... سھی ہے اریشا نے مسکرا کر کہا.....
تو یاور نے اسبات میں سر ہلایا....
************************************
کراچی کا موسم بہت ہی خوش گوار تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائین چل رہی تھی.....
یاور کی ساری فیملی کراچی ائیر پورٹ پہنچ گئ تھی اور وہ سب ہوٹل میں رھ رہے تھے فاروق صاحب نے فلاحال ہوٹل میں ہی کمرے بوک کروائے تھے ان کا کہنا تھا تھا تھکاوٹ اتر جانے کے باد وہ اپنے دوست کے گھر جائینگے،،،،، )
بھائی چلین پاکستان میں کہی چل تیں ہین گھومنے
اریشا، نے خوش ہوتے ہوئے کہا،
یار میں کام سے جارہا ہون یاور نے اکتا کر کہا۔۔۔۔۔
آپ ہمیشہ ایسے کر تیں ہین بہن کی تو کوئی قدر ہی نہین آپ کو، اریشا، نے موں بسور کر کہا۔۔۔۔۔
تم پھر شروع ہوگئ چلو پر ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم ہوٹل میں ہونگے کیا سمجھی یاور نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔
اوکی میں ابایا پہن کے آتی ہوں وہ یے کھ کے کمرے سے نکل گئ ۔۔۔۔۔
پیچھے یاور تاصف سے نفی میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔۔۔
************************************
بھائ مجھے نا لکی مال لیکے چلیں اریشا نے ڈرایو کر تے یاور سے کہا ۔۔۔۔
اگر تم ہوٹل بھیٹھ تی تو میں ایشال کو ڈھونڈنے نکل تا پر مجال ہے جو تم بھیٹھ جاو یاور نے اس کو غصے سے گھور کر کہا ۔۔۔۔۔
بھائ آپ اتنے بور ہیں ایشال آپی کو تو آپ کل بھی ڈھونڈ سکتے ہین ضروری ہے آج ہی ڈھونڈنا اریشا نے موں بنا کر کہا۔۔۔۔۔
چلو اترو اب مجھے بہت غصا آرہا ہے تم پے جلدی گھومنا لیٹ مت کر نا، یاور نے مال پے گاڑی روک تے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔۔۔۔
نھین چل نا مجھے آپ کا چھڑا دیکھا ہے اتنا غصہ ایسے چلونگی میں بس آپ کو تو پتا نہین کیا ہوا ہے ایک تو، سیدھے موں بات بھی نھی کر تے پھلے میں آپ سے کتنی فرمائش کرتی تھی آپ میری ہر بات مسکرا کر مانتے تھے اب آپ ایسے کیو ہوگئ ہیں آپ کا رویہ دیکھا ہے ایشال آپی گئ تو اس، میں میرا قصور ہے نہین نا، پھر کیو آپ ایسے بات کرتین ہین جیسے مینے کیا ہو سب کچھ مانتی ہوں آپ کو گہڑا دکھ ہے پر اتنا بھی کیا دکھ کے اپنی بہن کو ہی بھول جاو۔۔۔ ایشال نے نم لہجے میں کہا اور آخر میں رو پڑی۔۔۔۔۔۔
یاور کو اپنے غصے کا احساس ہوا واقعی وہ اپنے مازی میں اتنا خوہ گیا تھا اس نے اپنی بہن سے بات کر نا، چھوڑ دی تھی اس، کی باتوں سے کتنا دکھ جھلک رہا اس کو یاور کا کتنا دکھ تھا یقیناً وہ اتنا عرصہ صبر ہی کر تی آرہی تھی کیو یاور اور اریشا مل کے بھیٹھ تے تھے تو مجال ہے وہ دونوں سنجیدگی سے بات کرے وہ دونوں ہمیشہ مزاک مستی کر تے رھ تے تھے پر کتنا ارسہ ہوا تھا وہ دونوں مل بھیٹھ کر ہنسی مزاک، نھی کی تھی
لڑے نہین تھے وہ دونوں۔۔۔۔۔۔
آئیم سوری یار میں کچھ زیادہ ہی غصا کر گیا یاور نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
ہان یے اچھا ہے پھلے اتنا غصا کرو پھر سوری بول دو اریشا نے آنسو پہنچھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
یار معاف کردو۔۔۔۔۔۔میں اپنے دکھ میں اتنا کھو گیا کے مجھے پتا ہی نہین چلا کے میرا رویہ کب تم سے تلک ہوگیا یاور نے شرمندگی سے کہا۔۔۔۔۔۔
کوئ بات نھین میں بھی کچھ زیادہ رئیکٹ کر گئ اریشا نے کہا۔۔۔۔۔
اب چلیں باھر آج ہم بہت انجوائے کرینگے یاور نے اپنی پرانی پوزیشن میں آ کے کہا۔۔۔۔۔۔
پھر اریشا نے اسبات میں سر ہلایا اور یاور کے ساتھ اندر قدم برھائے۔۔۔۔۔۔
پھر دونوں نے شاپنگ کی اور اریشا کو یاور کراچی کے مشھور پارک میں لیکے گیا پھر دونوں نے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔۔۔ ان، دونوں نے خوب انجوائے کیا اور واپس ہوٹل میں آگئے جہان وہ ٹھرے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
یاور کی مسکراہٹ صرف ہوٹل تک پہنچنے تک ہی تھی اپنے کمرے میں آکہ وہ پھر سے سنجیدہ ہوگیا تھا اور صبح کا انتظار کر نے لگا کیو کے آج تو نیند اس، کو، آنی نھیں تھی ۔۔۔۔ اس کو ایشال کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر اپنا لیپ ٹوپ اٹھالیا اسنے اور حماد کی آئیڈی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو بلا آخر اس کو مل گئ۔۔۔۔۔۔
اگر ایشال، کی شادی، ہوئ ہوگی تو اس کی آئیڈی میں حماد کی پکس اور ایشال کے دلھے کی بھی پک ہوگی یاور نے سوچا۔۔۔۔۔
پر اس کے آئیڈی میں ایسی، کوئ پک نھین تھی۔۔۔۔۔
کیا ایشال، کی، شادی نھی ہوئ تو کیا اتنے سالوں سے۔۔۔۔ یاور نے خود کلامی کی۔۔۔۔۔
میسیج کر کے دیکھ تا ہوں شاید حماد رپلائے کر لے یاور نے خود کلامی کی اور ٹائپ کر نے لگا۔۔۔
کیو کے ایشال کے جانے کے باد حماد اپنا ایک سال رھا۔ تھا اور اسی ایک سال کے دوران حماد نے اس کے ساتھ کوئ رابطہ نھین رکھا تھا اور اس ایک سال کے باد حماد پاکستان چلا گیا تھا اور اتنے عرصے میں کبھی حماد نے بات نھین کی تھی اور نا ہی یاور نے اس سے کوئ رابطہ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔
یاور نے اپنی دوسری آئیڈی سے اس، کو، میسیج کیا
ا
اسلام علیکم۔۔۔ یاور نے لکھا اور بھیج دیا
فورن ہی سلام کا جواب آیا۔۔۔۔
آپ حماد ہو یاور نے لکھ کے بھیجا۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے آپنے میسیج ٹائپ کر نے سے پہلے میری آئیڈی چیک کی ہوگی جھٹ سے جواب آیا۔۔۔۔۔
جی مجھے کنفرم کرنا تھا کے حماد ہی ہو نا اس لیے یاور نے مسکرا کر بہیجا اس کو پتا تھا ابھی حماد غصا ہورہا ہوگا اور یقیناً ابھی بلاک کرنے کا سوچ رہا ہوگا۔۔۔۔
کام بتائیں رپلائے آیا۔۔۔۔۔
آپ نے مجھے پہچانا نھیں میں آپ کا پرانا دوست یاور نے اپنا مزاک ترک کر کے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔
کونسا دوست مینے نھین پھچانا رپلائ آیا۔۔۔۔۔
میں یاور ہوں حماد کیا ابھی بھی نھین پھچانا تم نے یاور نے سنجیدگی سے رپلائے کیا۔۔۔۔۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رھی۔۔۔۔۔
بلاک مت کرنا مجھے تم سے بات کرنی ہے کیا ہم کھی مل سکتیں ہیں میں کراچی میں ہوں۔۔۔۔ یاور نے رپلائے کیا۔۔۔۔۔
میرا نھین خیال اب کچھ بچا ہے مل نے کے لیے دوسری طرف سے رپلائے آیا۔۔۔۔۔
کیا تم بھول رہے ہو کبھی ہم بھائیو کی طرح رہے تھے یاور نے دکھ سے رپلائے کیا۔۔۔۔۔
نھین میں کچھ نھین بھولا پر تم بھول گئے تھے اس وقت بھی اور آج بھی دوسری طرف کچھ دیر باد رپلائے آیا۔۔۔۔۔۔۔
کل ہم کسی ریسٹورنٹ میں مل سکتیں ہیں پلیز یاور نے میسیج ٹائپ کیا ۔۔۔۔۔۔
یاور اب ہم میں کچھ نھین بچا پھر مل نے کا فائیدہ دوسری طرف حماد کا رپلائے آیا۔۔۔۔۔
پلیز بس ایک بار مل لو مجھ سے مجھے تم سے بات کر نی ہے یاور نے جلدی سے میسیج ٹایپ کیا۔۔۔۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔۔۔۔
اوکی کل شام 6:00 بجے اپنا ایڈریس بھیجو مین پک کرتا ہوں تمھے ویسے بھی تمہے یہان کی. جگاہوں کا پتا نھین اور یے مت سمجھنا میں پھلے والا ہوگیا ہوں اس ملاقات کے باد ہم نھین ملینگے حماد رپلائ کیا۔۔۔۔۔
یاور کا چھڑا، کھل اٹھا۔۔۔۔۔ تھے تو بہت ہی پکے دوست نا وہ۔۔۔۔ وہ دونوں ایسے کیسے ٹوٹ جاتے۔۔۔۔
یاور نے مسکرا کر ایڈریس بہیجا اور لیپ ٹوپ بند کر کے لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کر نے لگا پر آج بھی اس کی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔
************************************
بھائ کہا جانے کی تیاری ہے اریشا نے اس کے روم میں آتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
تم گیس کرو میں کہا جارہا ہوں یاور نے مسکرا کر کہا اور پرفیوم لگانے لگا۔۔۔۔۔
آپ کی تیاری سے تو لگ رہا ہے کسی ڈیٹ پے جارہین ہیں اریشا نے شرارت سے کہا۔۔۔۔۔۔
تم تو پچپن سے ہی اقل سے پیدل ہی رہنا میں حماد سے مل نے جارہاں ہوں یاور نے اس کی عقل پر ماتم کر تے ہوئے آخر میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا۔۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔!!!! آپ آپ حماد بھائ سے مل نے جارہیں ہے واوہ مطلب ایشال آپی بھی آپ کو مل گئ اریشا نے خوش ہوتے ہوئ کہا۔۔۔۔۔۔
اس کا تو پتا جا کے چلے گا کے ایشال کی شادی ہوئ یا نھین پر آئیم شور اس کی شادی ابھی نھی ہوئ ہوگی یاور نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دی تھی۔۔۔۔۔۔
بھائ ایک بات آپ بھول رہین ہے اس، کی، شادی ہوئ ہو یا نھین پر اس کا نکاح ہوا ہوا ہے اریشا نے اس یاد دلایا۔۔۔۔۔۔
یاور ایک دم چپ ہوگیا ٹھیک ہی تو کھ رہی تھی وہ تو پچپن سے کسی اور کی ہی تھی اس کے پاس لفظ ختم ہوگئے تھے بول نے کے لیے۔۔۔۔۔
اتنے میں فون بجا کوئ انون نمبر تھا۔۔۔۔۔
یاور نے فون اٹھایا۔۔۔۔
میں تمھاری ہوٹل کے باھر کھڑا ہوں یے کھ کے حماد نے فون کاٹ لیا۔۔۔۔
اوکی آگیا ہے حماد میں چل تا ہوں یاور نے کھ کے لمبے لمبے ڈنگ بھر تا روم سے باھر چلا گیا۔۔۔۔
پیچھے اریشا دکھ سے اس کی پشت ہی دیکھ کے رھ گئ۔۔۔۔۔۔۔
***********************************
وہ دونوں ریسٹورنٹ میں بھیٹھے تھے یاور نے جوس آرڈر کیا تھا جب کے حماد نے کچھ نھین لیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی میں تو تم نے بات کر نے نھیں دی اب پوچھ تا ہوں کیسے ہو یاور نے سنجیدگی سے کہا اور بغور اس کا، جائیزہ لیا۔۔۔۔ وہ سفید شلوار کمیز پہنے کھونیا مڑورے آنکھون مین سنجیدگی لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ آج بھی ویسا ہی تھا بس پھلے مسکرا بھی دیتا تھا پر اب تو اس نے جیسے ہنسنا ہی چھوڑ دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک حماد نے کہا اس کی نذرین ہنوز، یاور پر تھی۔۔۔۔۔۔
کیا میں پیارا لگ رہا ہوں کیا یاور نے شرارت سے کہا۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ کام کی بات کرو حماد نے غصے سے کہا۔۔۔۔
یار تم ایسے کیو بات کر رہے ہو جیسے مجھے جانتے ہی نھین۔۔۔۔یاور نے دکھ سے کہا۔۔۔
تو کیا کروں اس دن کے باد ہمارا سارا تعلق ٹوٹ گیا تھا اور وہ تعلق تم نے تورنے پر مجبور کیا تھا مجھے کیا تمھے یاد ہے حماد نے کہا۔۔۔
ہان میں مانتا ہوں وہ میری غلتی تھی اس کے لیے میں معافی مانگنے آیا ہوں پلیز مجھے معاف کردو یاور نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔۔۔۔۔
یاور میں تمھے کس کس چیز کے لیے معاف کروں۔۔۔ حماد کا لہجا اس بار دکھ سے بھڑا ہوئا تھا۔۔۔۔۔۔
حماد کیا ہم واپس دوست نھین ہوسکتے۔۔۔۔ یاور نے التجائ انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔
نھین اب یے ممکن نھین یاور کیا تمھے یاد ہے تم نے کیسے ائیر پورٹ پر سب کے سامنے شرمندہ کیا تھا۔۔۔۔ مجھے آج تک یے یقین نھین آیا کے تم ایسا کر سکتے ہو تم سے مینے یے امید کبھی نھین رکھی تھی پر تم نے ہی ایسا کیا۔۔۔۔ تم محبت میں اتنے اندھےے ہوگئے کہ تم نے مجھے بھی بھلا دیا حماد نے دکھ سے کہا۔۔۔۔
یار میں مان تا ہوں میری غلتی تھی پر کیا تم نے میری بات تحمل سے سنی تھی یاور نے کہا۔۔۔۔
تمھاری بات تحمل سے سن نے والی تھی تم میری ہی بہن کو میرے ہی سامنے پرپوز کرو گے اور میں تمھاری بات تحمل سے سنو حماد نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔
پلیز حماد اب بس کرو مجھے بس یے بتاو تم نے مجھے معاف کیا۔۔۔۔۔ یاور نے کہا۔۔۔۔
یاور میں تمھاری کوئ بات میں نھی آنے والا بھتر ہے کے اب تم چلے جاو یا ایسا کر تا ہوں میں ہی چلا جاتا ہوں حماد یے کھ کے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
نھین پلیز حماد مجھے معاف کردو پلیززززز یاور نے اس کا بازو پکڑ کر روکا اور پھر سے ہاتھ جوڑ لیے۔۔۔۔۔۔
یاور۔۔۔۔۔ تم مجھے بی بس کر رہے ہو حماد نے اکتا کر کہا۔۔۔۔
اوکی تم نھین کر تے نا معاف ٹھیکے میں چلا جاتا ہوں میرا مڑا ہوا موں ہی دیکھ نا اب تم یاور نے کہا اور باھڑ کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔۔۔
رکو۔۔۔۔!!!!!
یاور کے جاتے قدم حماد کے بلانے پر رکے۔۔۔
وہ پلٹا نھین بس رک گیا۔۔۔۔۔۔
حماد قدم قدم اٹھاتا اس کے پاس آیا ۔۔۔۔۔
دل تو نھین کر رہا کے میں تم ہے معاف کروں حماد نے ہاتھ باندھ تے ہوئے بغور اس کا چہڑا دیکھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
یاور کا چھڑا کھل اٹھا،،،،
حماد نے اس کو گلے سے لگا لیا۔۔۔۔۔ اس کو بھی تو اتنا ہی دکھ تھا اس کا۔۔۔۔۔۔
پھر دونوں ساتھ میں پہلے کی طرح باتین کرنے لگے پرانے قصے دھڑانے لگے۔۔۔۔۔۔
اریشا اور اقراء کیسی ہین مین تو جب سے پاکستان آیا ہوں کسی سے بھی مینے بات نھین کی حماد نے اچانک سوال پوچھا۔۔۔۔
اریشا ٹھیک وہ بھی آئی ہے پاکستان اور اقراء بھی ٹھیک ہے یے اور بات ہے وہ موٹی بہت ہو گئ ہے۔۔۔۔ یاور نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ اور سمیر کیا کر رہا ہے آج کل حماد نے کہا۔۔۔۔
وہ تو بہت بڑا ڈاکٹر ہوگیا ہے لفٹ ہی نھیں کراتا مجال ہے جو کبھی ٹائیم ہو اس کے پاس۔۔۔۔ یاور نے کہا۔۔۔۔۔
واہ ۔۔۔۔!!! دیٹس گوڈ حماد نے خوشی سے کہا۔۔۔۔۔
تم سناو تم کیا کر رہے ہو آج کل اور ایشال۔۔۔۔
یاور ایشال کا نام لیتے ہی رک گیا اور زبان دانتوں تلے دبا لی۔۔۔۔
حماد ایک منٹ کے لیے ٹھٹکا پھر بول نا شروع ہوا
میرے بابا کا بزنس ہے وہ سمبھال تا ہوں۔۔۔
اور ایشال کی شادی ہوگئ ہے۔۔۔۔۔ حماد نے اس کی آنکھوں میں دیکھ تے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
یاور ایک دم ٹھٹک گیا۔۔۔۔۔۔۔
Keep supporting
kashaf....
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top