قسط 2

آج اس کا پہلا دن تھا یونی میں وہ بہت ہی نروس
ہورہی تھی ناشتے کی ٹیبل پر بھی سوچو میں گم تھی حماد کب سے دیکھ رہا تھا اس کو شرارت سوجھی اس نے پانی کے گلاس میں سے اس کے موں پے چھینٹیں ماری وہ ہربڑا کہ رھ گئی

پانی کیو پھینکا مجھ پہ ایشال نے غصے سے کہا اور ٹشو سے اپنا چہرا صاف کرنے لگی۔

"میں سمجھا تم سو رہی ہو اس لیے جگانا ضروری سمجھا میں نے۔

"میں آپ کو سوئی ہوئی لگ رہی ہوں۔۔؟ آپ ہوش میں تو ہیں ایشال نے بی یقینی سے کہا۔

اففف کتنا بول تی ہو ٹائم نکلا جارہا ہے حماد نے اٹھ تے ہوئے شرارت سے کہا۔

کیا میں بول رہی ہوں بھائی آپ پاگل ہوگئے ہیں ایشال نے بی یقینی سے کہا۔

ایسے بول تے ہیں بڑے بھائی کو حماد مصنوعی ناراضی سے کہا اتنے میں حماد کا فون بج اٹھا ہیلو کھا رہہ گئے ہو اتنی لیٹ سمیر کی غصے سے بھری آواز گونجی بس آرہے ہیں چلؤ حماد نے فون بند کیا اور وہ بھی اپنا  عبایا پہن کے اس کے ساتھ باھر نکلی اور وہ دونوں گاڑی میں سوار ہوگئے تم اترو میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں پھر ساتھ میں چل تے ہیں یونی صحیح ہے حماد نے کہا تو ایشال نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی سے اتر گئ پھر حماد گاڑی پارک کر کہ آیا اور ایشال کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا پھر دونوں اندر گئے یہاں بھی سب ایشال کو عجیب عجیب نظروں سے گھور رہے تھے حماد اس کا ہاتھ تیزی سے پکڑ لیا جیسے وہ کوئی بچی ہو اور لوگوں کے ڈر سے کہیں کھو نا جائے ایسی ہی تو ہوتیں ہے یے بھائ ہم ان سے کتنا بھی لڑ لیں پر وہ کبھی بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ تے وہ ہمیشہ ہر وقت ہمارا محافظ ہوتیں ہے....... سنو ہم لوگوں کا ایک گروپ ہے جس میں 3 لڑکے سمیر اور یاور اور تیسرا میں اور 3 لڑکیاں ہیں اقراء علماء اور فزا وہ سب بہت ہی اچھی ہیں چاھو تو دوستی بھی کر لو پر یاور اور سمیر سے بات کرنے کی ضرورت نھیں ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ بہت بڑے ہیں یا میں ان کو پسند نھیں کرتا میری ان سے بہت ہی اچھی دوستی ہے بل کہ یاور کو تو میں بھائ سمجھ تا ہوں پر پھر بھی مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم کیسی بھی نا محرم سے بات کرو سھی ہے حماد نے سمجھاتے ہوئے نرمی سے کہا افففف بھائ آپ اتنی بڑی تقریر نا بھی کرتے تب بھی میں کسی لڑکے وڑکے سے بات نا کڑتی ایشال نے اکتا کر کہا چلو اب چپ وہ سب یہیں آرہے ہیں حماد نے ان سب کو ہاتھ ہلا کر کہا تو وہ خاموش ہوگئ

سلام گائس شی از مائے سسٹر حماد نے ان لڑکیوں کو متوجہ کیا تو ان 3 لڑکیان اس کے گلے لگ گئ ہیلو ائیم سمیر سمیر نے اپنا ہاتھ آگئے کیا جب کہ ایشال نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا جب کے یاور نے بس اس کو سلام کیا.... اور اپنا موبائیل نکال لیا اس کو بے چینی ہورھی تھی وہ بار بار ان براون آنکھوں میں دیکھ رہا تھا

سسٹر جی کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھو سمیر نے شرارت سے کہا

تو ایشال جو اقراء کی باتون کا ہولے ہولے جواب دے رہی تھی چونک گئ اور صرف اسبات میں سر ہلایا جب کہ حماد نے سمیر کو غصے سے گھوڑا پر وہ سمیر ہی کیا جو چپ کر جائے

آپ یے عبایا کیو پہن تی ہیں میرا مطلب آج کے زمانے میں تو یہ سب نہیں چلتا نا آپ نے شوقیہ پھنا ہے یا اس حماد نے زبردستی پھنایا ہے سمیر ایک دم سنجیدگی سے کہا

نا ہی میں نے شوقیہ پھنا ہے اور نا ہی مجھے بھائ نے فورس کیا ہے میں عبایا صرف اللہ کے لیے پہن تی ہوں کیو کے یہ میرے اللہ کو پسند ہے کہ مجھے کوئ بھی نا محرم نا دیکھے آپ یہ کیسے کھ سک تے کہ آج کل کے زمانے میں کوئ عبایا نھیں پھن تا اج بھی ایسی بہت سی لڑکیان آپ کو ملینگی جو ابایا نہیں پھن تی جب کہ ان کی آنکھوں میں حیا ہوتی ہے وہ نامحرم کے سامنے نظریں نیچی کر کہ چل تی ہے ہم کسی کو بھی جج نہیں کر سکتے اگر کوئ بھی لڑکی عبایا پھنے اور اس کی آنکھوں میں حیا نا ہو تو اچھا ہے کہ وہ ابایا نا پھنے ایشال نے ایک ایک لفظ دھیمے اور مضبوت لہجے میں کہا اور اس کی آنکھین ہنوز نیچے تھین....)

وہ سب ہو نکو کی طرح موں کھولے اس کو دیکھ رہے تھے جب کہ یاور تو کہیں کھو سا گیا تھا

آنکھوں سے پڑھی جاتی ہے
حیا کی کہانی اور یہ لڑکی پارسا تھی جو آنکھیں نیچی کر کہ رکھہ تی تھی میں اتنا کیو سوچ رہا ہو اس کے باڑے یہ کیو میرے حواسون پر چھا گئ میں صرف اسی کا ہو جو میرے نکاح میں ہے یاور کے دل میں جنگ چل رہی تھی

اقراء لیکچر کا ٹائم ہورھا ہے جاو ایشال کو بھی لیکے جاو اور خیال رکھ نا اس کا حماد نے کہا تو ان سب نے اسبات میں سر ہلایا اور ایشال کو وہا سے لے گئ

آج تو تم نے میری بہن سے بات کر لی پھر نا دیکھو میں تم کو ضروری کام ہو تو بھی میرے پاس آیا کرو اس سے بات کڑنے کی ضرورت نھیں ہے حماد نے اس کو تنبیہ کی تو اس نے اپنے بتیس کے بتیس دانت باھر نکال لیے" چلو چھوڑو" اس کو اس کی تو عادت ہے لیکچر کا ٹائم ہورھا ہے چلو یاور نے بات کو سمبھال تے ہوئے کہا تو اس نے اسبات میں سر ہلایا اور اس کے ساتھ ہی چل دیا

Keep supporting
Kashaf

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top