وہ ملے
رات کافی ہو چکی تھی وہ رات کے لباس میں ہی ملبوز تھا جو اب شکنوں سے بھرا تھا اپنے کمرے میں رکھی آرام دہ کرسی پر بیٹھا جھول رہا تھا سوچ سوچ کے اس کا ذہن مفلوج ہو گیا تھا دماغ کی رگیں ابھر گئیں تھیں درد کی شدید لہر اس کے سر میں اٹھی تھی وہ خود کو ہی سمجھنے سے قاصر تھا۔
اپنے سر کو دباتے وہ کچن میں آیا تھا اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی ایک ڈراؤ سے فرسٹ ایڈ باکس ناکلا اس میں سے پنڈول کی دو گولیاں نکالیں اور پانی کے ساتھ نگل لیں اور یوں ہی کچھ دیر گلاس کو ہاتھ میں تھامے کھڑا رہا۔ جب ہی لائبہ نائٹ ڈریس میں ملبوز کچن میں داخل ہوئی ایک پل کے لئے عاطف کو کچن میں دیکھ ٹھٹکی کچن کونٹر سے پانی کی بوٹل اٹھائی جو ابھی عاطف نے نکالی تھی۔ گلاس میں پانی نلکالے وہ گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی اور عاطف کو بغور دیکھ بھی رہی تھی جو اس کی موجودگی سے یکسر بے خبر تھا۔
لائبہ نے عاطف کا مراقبہ توڑنے کے لئے گلا کھنکھارا جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی۔
"آپ پریشان ہیں؟" اس نے فکرمندی سے پوچھا۔
"نہیں" عاطف نے خود کو سمنبھالتے ہوئے کہا۔
"آپ مجھ سے شیّر کر سکتے ہیں" لائبہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کہا وہ اسے ایسے دیکھ پریشان ہو گئی تھی۔
"میں تمہارے سوال کی وجہ سے پریشان ہوں" عاطف نے ہار مانتے کہا۔
"کون سا سوال" لائبہ کو یاد نہیں آیا وہ کس سوال کی بات کر رہا تھا۔
"یہی کہ کہیں مجھے کوئی لڑکی پسند۔۔" عاطف نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
"تو" لائبہ کو اب بھی اس کی پریشانی کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔
"اگر ایسا ہوا تو" عاطف نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
"اگر بات پسند کی ہے تو ایسا کوئی مسلہ نہیں ہے ایسی بہت سی چیزیں ہوتیں ہیں جو ہمیں پسند ہوتیں ہیں مسلہ تو تب ہوتا ہے جب کسی سے محبّت ہو جائے کیوں کہ یہ صرف ایک سے ہی ہوتی ہے اور بہت شدید ہوتی ہے" وہ ایک فلسفی کی طرح اسے محبّت کا فلسفہ سمجھا رہی تھی۔
"اور اگر محبّت ہو جائے کسی سے تو" ایک اور سوال داغا گیا۔
"تو اسے اپنا بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے" جواب بلاتوافق آیا۔
"تمہارا مطلب ہے شادی" عاطف نے اب کی بار اس کی طرف دیکھ کے پوچھا۔
"جی" جواب مختصر دیا لیکن اسی کے انداز میں۔
"اور اگر شادی کے بعد آپ پر یہ عیاں ہو کے جس محبّت کے خاطر آپ نے شادی کی محبّت تھی ہی نہیں تب کیا کرنا چاہیے"
"باقیوں کا مجھے نہیں پتا لیکن۔۔۔۔" لائبہ نے اتنا جملہ کہہ کے عاطف کی آنکھوں میں دیکھ کہا۔
"عاطف ظفر دل لگی میں بھی کسی کا دل نہیں توڑ سکتا" لائبہ کی آنکھوں اور لہجے میں اپنے بھائی کے لئے مان ہی مان تھا اور غلط بھی نہیں تھا وہ تھا ہی ایسا اپنا دل توڑ سکتا تھا کسی اور کا نہیں۔وہ لوگوں کو ستا اور تنگ کر سکتا تھا پر دل کسی کا نہیں توڑ سکتا تھا۔
"لیکن کوئی بھی آپ کو اپنی بیٹی ایسے ہی تو نہیں دے دے گا میرا مطلب ہے ہمارے پرنٹس۔۔۔آپ کو ان سے بات کرنی چاہیے" لائبہ نے کرب سے ان کا ذکر کیا وہ کم ہی ان کی بات کیا کرتی تھی۔
"پر مجھے نہیں پتا یہ پسند ہے۔۔۔۔محبّت ہے۔۔۔ یا پھر دل لگی" وہ الجھا ہوا تھا۔
"آپ کا دل اس کا نام لے رہا ہے کیا سمجھنے کے لئے اب بھی کچھ باقی رہا ہے؟" لائبہ نے کندھے اچکا کے پوچھا۔
لائبہ کہہ کے کچن سے باہر گئی تو عاطف ایک بار پھر سوچنے لگا کہ اچانک ہی لائبہ دوبارہ حاضر ہوئی عاطف کے ہاتھ میں اس کا موبائل تھمایا اور کہا۔
"بات کر لیں ابھی شاید اٹھا لیں" وہ کہہ کے جا رہی تھی جب عاطف کے پیچھے سے آواز لگانے پر دروازے کی چوکھٹ تھامے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
"تمہیں نہیں لگتا یہ کچھ زیادہ جلدی ہو رہا ہے" عاطف نے موبائل ہوا میں لہرا کے کہا۔
"جب محبّت ہو جاۓ تو باقی کے مراحل بھی جلدی جلدی طے کر لینا چاہیں آہستہ آہستہ پچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں" اس نے ایک بار پھر اپنا فلسفہ پیش کیا۔
"لیکن جب"
"اوہ گاڈ بھائی پلیز" لائبہ نے اس کی بات سمجھتے ہوئے ہاتھ اٹھا کے اسے روکا۔ وہ کم کم ہی اسے بھائی کہتی تھی اور عاطف ہمیشہ ہی دل سے مسکرا دیتا تھا۔
"ویسے میں نام جان سکتی ہوں لڑکی کا" لائبہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
"لڑکیاں جتنی حساس ہوتی ہیں ان سے کئی زیادہ حساس ان کی عزت ہوتی ہے" وہ فرش پر نظریں رکھیں ماضی میں رانیہ کی کہی گئی بات دوہرا رہا تھا پھر اس نے نظریں اٹھائیں تھیں۔
"میں بغیر کسی جواز کے اس کا نام لے کر اس کی عزت پر حرف نہیں آنے دے سکتا" اس کی آنکھوں سے محبّت ہی محبّت چھلک رہی تھی۔ وہ جذبہ جس سے وہ خود انجان تھا۔
"پھر کہتے ہیں کہ محبّت نہیں ہے۔۔۔۔گڈ نائٹ" لائبہ اسے جتاتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
وہ ساری رات عاطف نے لاونچ میں ٹہلتے گزاری تھی وہ بے چینی سے اپنے والدین کو کال پے کال کرتا رہا لیکن دوسری طرف اور بہت کچھ ایسا تھا جو ان دو اولادوں سے بڑھ کر تھا۔ عاطف کو جب یقین ہو گیا کہ کال رسیو نہیں کی جائے گی تو اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ظفر صاحب کے آفس کال کی پہلی ہی بیل پر کال اٹینڈ کر لی گئی۔
عاطف نے جب اس لڑکی سے ظفر صاحب کے متعلق سوال کئے تو پتا چلا کہ وہ کسی بہت اہم میٹنگ میں مصروف تھے اس نے کال ڈسکانیکٹ کی اور صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا سر صوفے کی پشت سے ٹکائے اس نے ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی میکانکی انداز میں اس کی نظر گھڑی پر پڑی بے یقینی سی بے یقینی تھی وہ پلکیں نہیں جھپکا پایا صبح کے پانچ بج رہے تھے اگلے ہی لمحے اذانوں کی آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں۔
یہ وقت، وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے اس لمحے عاطف پر بھی یہ عیاں ہو گیا تھا کہ ہو سکتا تھا کہ وہ رانیہ سے محبّت نہ کرتا ہو پر۔۔۔۔پر وہ زندگی اسی کے ساتھ گزرنا چاہتا تھا اسی کو اپنی زندگی کے سفر میں بطور ہمسفر منتخب کرنا چاہتا تھا۔
وہ ایک فیصلہ کُن نتیجے پر پہنچتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلسل بجتے الارم نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا تھا اس نے سائیڈ ٹیبل سے ٹٹول کے فون اٹھایا الارم بند کیا اور کچھ دیر یوں ہی لیٹی رہی پھر اٹھ کر اپنے ورڈروب کا رخ کیا اس میں سے ایک پینٹ شرٹ کا انتخاب کرتی وہ شاور لینے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ واشروم سے نکلی۔ ڈریسنگ کے آگے کھڑے ہو کے اپنے گیلے بالوں کو ڈارئیر سے خشک کرتے انہیں سیٹ کیا اور خود پر ایک بھرپور نگہا ڈالے وہ کچن میں گئی جہاں نورین بی بی ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ ڈائننگ کی نشتست سنمبھلتے اسنے ملازمہ سے پوچھا۔
"عاطف کہاں ہے؟
"وہ تو ابھی تک اٹھے ہی نہیں" ملازمہ نے ناشتہ سرو کرتے بتایا۔
"کیا!!۔۔۔۔۔۔لیکن وہ تو اتنی دیر نہیں سوتے" اسے حیرت ہوئی۔
"ہو سکتا ہے طبیعت ٹھیک نہ ہو" انہوں نے قیاس کیا۔
ملازمہ کی بات سنتے اسے یاد آیا کہ رات کو عاطف پریشان تھا کہیں واقعی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی۔ اسنے سوچتے ہوئے کہا۔
"میں دیکھ کے آتی ہوں"
عاطف کے کمرے کے پاس پہنچی تو دروازے پر ایک لفافہ چپساں تھا وہ اسے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی جو خالی تھا باتھروم چیک کیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا پھر اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑے لفافے کو چاک کیا اور اس میں سے کاغذ نکلتے اپنے سامنے کیا جس میں لکھا تھا۔
"لائبہ تم نے کہا تھا اِٹ اِس لؤ۔۔۔۔۔میں ابھی بھی یہی کہوں گا کہ مجھے نہیں پتا کے سچ میں ایسا ہے بھی یا نہیں لیکن۔۔۔۔یہ جو وقت ہے نا اس نے مجھے لاعلم کر دیا ہے اس بات سے کہ میں اسے اپنی زندگی میں چاہتا ہوں۔۔۔۔۔میں اسکے ساتھ اچھے برے دن دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔میں اسی کے ساتھ جینا اور اسی کے ساتھ مارنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔میں نے بہت کوشش کی تھی کل رات بہت کالز کیں تھیں اپنے پرنٹس کو پر وہ بزی ہیں ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔میں ایک آخری کوشش کرنے جا رہا ہوں۔۔۔۔میں ہمارے پرنٹس سے ملنے جا رہا ہوں دعا کرنا کہ وہ مصروف نہ ہوں اور یہ بھی کہ عاطف نے زندگی سے پہلی بار کچھ مانگا ہے زندگی اسے مایوس نہ
کرے "
لائبہ اسکے لئے پورے دل سے دعاگو تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات کو آج تین ہفتے گزر گئے تھے نہ احمر نے رانیہ سے کبھی بات کی نہ رانیہ نے احمر سے جب بھی دونوں کا آمنہ سامنا ہوتا رانیہ خفگی سے رخ پھیر اپنا راستہ ہی بدل دیتی۔
آج اتوار کا دن تھا رانیہ لاونچ میں بیٹھی بہت انہماک سے ٹی۔وی دیکھ رہی تھی جسے بلال نے آ کے توڑا رانیہ نے اسے خشمگیں نظروں سے گھورا۔
"آپ کو بھائی بلا رہے ہیں اپنے کمرے میں" بلال نے فوراً کہا۔
رانیہ ٹی۔وی بند کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ انس احسن کے کمرے کے باہر وہ اپنے بلائے جانے کی وجہ سوچ رہی تھی۔ اس نے ہلکی سی دستک دی اور جواب موصول ہونے پر اندر چلی آئی۔
"بیٹھو" انس احسن نے کتاب کو اسٹڈی ٹیبل پر رکھا شاید وہ کچھ دیر پہلے اس کا مطالع کر رہے تھے۔ انس احسن کے کہنے پر رانیہ بیڈ پر ٹک گئی اور انس احسن کے دوبارہ بولنے کا انتظار کرنے لگی۔
"دو ہفتے پہلے کچھ لوگ تمہیں دیکھ کے گئے تھے کیسے لگے تمہیں وہ لوگ؟" انس احسن نے اسی موضوع پر بات شروع کی جس سے رانیہ بچنا چاہ رہی تھی۔
"بس ٹھیک تھے" رانیہ نے جان چھڑانی چاہی۔
انس احسن نے کچھ سمجھتے ہوئے سر کو جنبش دی اور ایک لفافہ رانیہ کی طرف بڑھایا جسے رانیہ نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔
"یہ کیا ہے؟" رانیہ نے ذہن میں آیا سوال کیا۔
"اس میں لڑکے کی تصویر ہے تم دیکھ لو۔۔۔ہم سب کو یہ رشتہ بہت اچھا لگا ہے لڑکا اور خاندان دونوں ہی اچھے ہیں۔۔۔۔اب ہم تمہارے جواب کے منتظر ہیں" انس احسن نے تفصیل سے بتایا۔
رانیہ کو سمجھ نہیں آیا سب کو اس کی شادی کی جلدی کیوں تھی ابھی تو اس کی اسٹڈیز بھی مکمل نہیں ہوئیں تھیں۔
اس نے بے دلی سے لفافہ چاک کیا اور تصویر نکالی تصویر میں موجود شخص بہت شناسا سا تھا وہی آنکھیں وہی چہرہ وہی بال اور وہی مسکراہٹ۔۔۔۔رانیہ پتا نہیں کتنی دیر اس تصویر کو بے یقینی کے عالَم میں دیکھتی رہی جب بار بار آنکھیں جھپکنے سے بھی منظر نہیں بدلا تو رانیہ پر یہ ظاہر ہو گیا وہ کوئی اور نہیں تھا وہ وہی تھا۔ وہ جو کہہ گیا تھا اس پر عمل بھی شروع کر دیا تھا اس نے۔ رانیہ نے تصویر واپس لفافے میں ڈالی اور بیڈ پر پٹخنے کے سے انداز میں رکھی۔
انس احسن اس پورے وقت میں اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ ملاحظہ فرما رہے تھے۔
"تو تمہارا جواب کیا ہے؟" انس احسن نے ایک بار پھر پوچھا۔
"نہیں" رانیہ نے قطعیت سے انکار کیا۔
"وجہ" انس احسن نے تحمل سے پوچھا جیسے انھیں علم ہو کہ انکار ہی کرے گی۔
"کیوں کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟" رانیہ نے سافگوئی کا مظاہرہ کیا۔
"ظاہر ہے شادی دو فریق کی رضامندی سے ہی ہوتی ہے یہ تو کوئی وجہ نہیں ہوئی کیا تم ایسے شخص سے شادی کرو گی جو تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا ہو" انس احسن نے اکہڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
رانیہ اب خود کو ملامت کر رہی تھی اب وہ بھائی سے یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ مجھ سے محبّت کرتے ہیں اس لئے میں ان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔
"کوئی مقول وجہ" انس احسن نے ایک بار پھر پوچھا۔
"بس مجھے نہیں کرنی ان سے شادی" رانیہ نے بچوں کی طرح ضد کرتے کہا۔
"رانیہ بچی مت بنو اتنے اچھے رشتے بار بار تو نہیں آتے اور پھر تمہارے انکار کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ بھی ہو۔۔۔۔تمہارے پاس وقت ہے جب کوئی مضبوط وجہ مل جائے تو بتا دینا مجھے میں وہیں سب کچھ روک دوں گا۔۔۔۔اگلے ہفتے کی تاریخ دے رہا ہوں میں نکاح کے لئے" انس احسن غصّے سے کہتے کہتے نرم ہوئے تھے۔
"نکاح کیوں میرا مطلب ہے منگنی" رانیہ کی بات ہونے پہلے ہی انس احسن بول پڑے۔
"اس کا کہنا ہے کے وہ تمہیں پورے کا پورا اپنا بنانا چاہتا ہے صرف نام سے منسوب نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف اپنی ذات سے منسوب کرنا چاہتا ہے" انس احسن نے لبوں میں مسکراہٹ سجائے کہا۔
رانیہ کا چہرہ یک دم لال ہوا تھا وہ کیا سب کہتے رہے تھے بھائی سے رانیہ کو اندازہ ہو رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے انکار کو کسی خاطر میں نہیں لے رہے تھے۔
رانیہ کو احمر پر اب اور غصّہ آ رہا تھا اس نے نور اور زینب سے بھی اس متعلق بات کی لیکن کوئی اس کی بات سننے کو ہی تیار نہیں تھا سب کو وہ اچھا لگتا تھا اور اسے وہ برا لگتا تھا اس نے کتنی دلیری سے اپنی محبّت کا اظہار کر دیا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو اور تو اور گھر تک پہنچ گیا اور رشتہ بھی مانگ لیا جب کے رانیہ کے ذہن میں دور دور تک شادی کا خیال بھٹک بھی نہیں رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر نے ایم۔بی۔اے کے لاسٹ سمسٹر کے پیپر دے دئے تھے اور اب وہ سب ہی نتائج کے انتظار میں تھے جب یونیورسٹی کی طرف سے ایک ایونٹ منعقد ہوا چونکہ نتائج نہیں آئے تھے تو یہ اب بھی سٹوڈنٹ ہی تھے اور بطور سٹوڈنٹ اپنا آخری ایونٹ اٹینڈ کر رہے تھے۔
ایونٹ کی رات جب احمر نے رانیہ اور عاطف کو ساتھ دیکھا تو احمر پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ رانیہ کے لئے بہت سے امیدوار ہوں گے پر۔۔۔۔۔پر اب احمر کے لئے صرف رانیہ تھی۔ احمر نے اس دن جو بھی رانیہ سے کہا وہ یک دم نہیں تھا دل کی یہ خواہش تھی جو اس طرح لبوں پر آئی تھی اور پھر اپنے کہے کو حقیقت بنانے میں احمر نے دیر نہیں کی تھی اگلے دو دن میں گھر میں بات کر چکا تھا اور زہرہ بیگم تو فوراً راضی ہوں گئیں تھیں وہ اپنے بیٹے کی پسند دیکھنے کے لئے بہت آئکسیٹڈ تھیں اور پھر جب وہ رانیہ کے گھر اسے دیکھنے گئیں تو پھر دیکھتی ہی رہیں انھیں یہ معصوم سی گڑیا اپنے بیٹے کے لئے بے حد پسند آئی تھی انھوں نے فوراً حامی بھر لی تھی۔
اندر گھر کے بڑے موجود تھے جب کے باہر گارڈن میں انس احسن احمر کے ساتھ بیٹھے تھے ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی یہیں کیا گیا تھا۔ انس احسن ہلکی پھلکی سی بات چیت کر رہے تھے شاید وہ ایک دم موضوع پر نہیں آنا چاہتے تھے یہ سمجھتے ہوئے احمر نے بات کا آغاز کیا۔
"میں رانیہ کی یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہوں اسی سال میں نے اپنا ایم۔بی۔اے مکمل کیا ہے۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتا میں کب اسے چاہنے لگا پر اتنا پتا ہے کہ اسے اپنا بنانا ہے" اس نے آج بھی اتنی ہی بہادری سے اقرار کیا تھا جتنا پہلے کر چکا تھا اس نے آنکھیں نہیں جھکائیں تھیں وہ آنکھیں ملائے بات کر رہا تھا۔
"کیا رانیہ کو پتا ہے؟" انس احسن نے اپنی حیرت چھپائی۔
"ایونٹ والی رات بتایا تھا رو دی تھی" احمر نے بمشکل خود کو ہنسے سے روکا تھا۔
"کیوں؟" انس احسن نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"شاید اسے مجھ سے یہ توقعات نہیں تھیں" احمر نے وہ وجہ بتائی جو اسے سمجھ آئی اور جو سچ بھی تھا۔
"میری پوری فیملی یہاں پہلے سے ہی رضامند ہو کے آئی ہے میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں" احمر نے بغور انہیں دیکھتے ہوئے کہا جو کچھ سوچ رہے تھے۔
"مجھے وقت درقار ہے" انس احسن نے وقت منگا۔
"جی ضرور۔۔۔۔۔میں یہ بات بھی کرنا چاہتا تھا کہ جب آپ کی رضامندی شامل ہو جائے گی تو میں رانیہ سے نکاح کرنا چاہوں گا" وہ یقین سے بولا۔
"ہو سکتا ہے جواب منفی ہو۔۔۔۔۔اور صرف نکاح کیوں" انس احسن کو اس کے یقین نے سوال کرنے پر اکسایا۔
"جواب مثبت ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔اور نکاح اس لئے کیوں کہ رانیہ کی اسٹڈیز ابھی مکمل نہیں ہوئیں" اس نے نکاح کرنے کی وجہ بیان کی۔
"نکاح ہی کیوں منگنی بھی تو ہو سکتی ہے" ایک اور سوال کیا گیا۔
"کیوں کہ میں اسے پورے کا پورا اپنا بنانا چاہتا ہوں صرف نام سے منسوب نہیں کرنا چاہتا میں اسے اپنی ذات سے منسوب کرنا چاہتا ہوں"
"ابھی کیوں رانیہ کی اسٹڈیز ختم ہونے کے بعد بھی یہ سب ہو سکتا تھا؟" انس احسن ساری گرہیں آج ہی کھولنا چاہتے تھے۔
"مجھے آج اسے اپنا بنانا ہے تاکہ کل اسے کھونے کا ڈر میرے دل میں نہ ہو" اس کے لہجے میں محبّت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسن ملک کی طرف سے دو ہفتے بعد مثبت جواب آ گیا تھا اور نکاح کے لئے جمعے کا دن تجویز کیا گیا تھا جس پر سب ہی راضی تھے۔
احمر اپنی محبّت کی داستان پہلے ہی حیدر کو سنا چکا تھا۔ اس کو حیرت ہوئی جب لڑکی کا نام سن کر حیدر نے نہ تو غصّہ کیا اور نہ ہی کوئی ناراضگی ظاہر کی وہ پہلے کی طرح نارمل ٹون میں بات کر رہا تھا اور اس کے لئے خوش بھی تھا۔
آج وہ اسے اپنی خوشی میں شامل ہونے کی دعوت دینے کے لئے فون کر رہا تھا جو کافی انتظار کے بعد ہی سہی لیکن اٹھا لیا گیا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے حیدر کو اپنے نکاح پر معدو کیا جس کے جواب میں حیدر نے کہا۔
"میں نہیں آ سکتا"
"کیوں نہیں" احمر نے بلاتوافق پوچھا۔
احمر کے اس سوال پر حیدر نے خالی الذہنی سے اپنے کیبن پر نظر دوڑائی جواب کہیں نہیں تھا نہ دل میں کہیں نہ ہی دماغ میں وہ خود نہیں جانتا تھا "کیوں نہیں"
"تم کب تک اسی طرح ناراض رہو گے؟" احمر نے خفگی سے پوچھا۔
"میں کسی سے ناراض نہیں ہوں" اس کا لہجہ مدھم تھا۔
"میں نکاح تب ہی کروں گا جب تم یہاں ہو گے ورنہ نہیں" وہ ضدی ہوا۔
"اگر تم نے نکاح نہیں کیا احمر تو ہماری دوستی کبھی تھی بھی یہ بھول جانا اور تم اچھے سے جانتے ہو پھتر پر کھینچی لکیر تو شاید بدل جاتی ہو لیکن حیدر عبّاس کے کہے لفظ کبھی نہیں بدلتے" وہ اپنے لفظوں پر زور دیتا بولا۔
"لیکن حیدر تم میرے اتنے اہم دن میرے ساتھ نہیں ہو گے" اس نے ایموشنل کرنا چاہا۔
"بے فکر رہو تمہاری دلہن کو رخصت کرانے ضرور آؤں گا" وہ مسکرایا تھا ان گزرے مہینوں میں پہلی بار۔
"تمہیں بہت مس کرتا ہوں اور اب لگتا ہے اور بھی کروں گا" وہ اداس ہوا۔
"میں کچھ وقت اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کچھ وقت اپنے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔کچھ سوال ہیں میں ان کے جواب چاہتا ہوں خود سے۔۔۔۔پھر آ جاؤں گا ویسے بھی ابھی کنٹریکٹ ختم ہونے میں وقت ہے میں اسے ادھورا چھوڑ کے نہیں آ سکتا" وہ بھی اداس تھا پر اپنی اداسی چھپا گیا تھا۔
"تمہارا انتظار رہے گا" احمر صرف اتنا ہی کہہ پایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا پورا ہفتہ رانیہ نے ایسی ایسی وجوہات انس احسن کو پیش کیں جو شاید ہی کسی نے پیش کیں ہوں جیسے کے آپ نے ٹھیک سے دیکھا نہیں اس کی آنکھیں بینگی ہیں ناک سہی نہیں ہے ہنستا اچھا نہیں ہے بال سلکی نہیں ہیں اس نے اس ایک تصویر کو اس ایک ہفتے میں نجانے کتنی بار دیکھا تھا اور اس میں سے وہ خرابیاں دریافت کیں جو اس میں تھیں ہی نہیں۔ وہ ایسے احمر کو جج کر رہی تھی جیسے عموماً لڑکیوں کو کیا جاتا ہے۔
ایک دن تو حد ہی ہو گئی جب اس نے انس احسن سے کہا کہ اس کی آنکھیں کنچی ہیں اور کنچی آنکھوں والے مرد بے وفا ہوتے ہیں انس احسن کا دل کیا اپنا سر دیوار سے پٹخ دیں لیکن اسے صرف سخت قسم کی گھوری سے نواز کے چلے گئے رانیہ کو ان کے ردِعمل کی وجہ سمجھ نہیں آئی یہ تو بہت ٹھوس وجہ تھی وہ بے وفا ہیں وہ بس کندھے اچکا کر رہ گئی۔
بلاخر وہ دن بھی قریب آ گیا جب اسے اس کا ہونا تھا اور اب رانیہ کو نئی فکر لاحق ہو گئی تھی وہ اپنے اتنے خاص دن زینب کو اپنے ساتھ چاہتی تھی پر زینب نے آنے سے منع کر دیا تھا اور کیوں کیا تھا وجہ رانیہ جانتی تھی۔۔۔۔نیلم بیگم جو یقیناً اسے یہاں دیکھ غصّے سے پھٹ ہی پڑتیں جو کم از کم زینب نہیں چاہتی تھی اگر کوئی کچھ کر سکتا تھا تو وہ انس احسن تھے وہ ضرور کوئی راستہ نکال لیتے اس نے سوچا اور بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھایا سلیپیرس پیروں میں ڈالیں اور انس احسن کے کمرے میں پہنچ گئی۔
"بھائی" اس نے انہیں مخاطب کیا جو ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے کال پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھے۔
"آئی کال یو بیک" انہوں نے رانیہ کی پریشان صورت دیکھ کال پر کہا۔
"کیا ہوا ہے رانیہ" انہوں نے فکرمندی سے استفسار کیا۔
"بھائی میں آپ کے فیصلے پر رضامند ہوں لیکن آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا کہ نکاح کے وقت زینب میرے ساتھ ہو گی میں نے اسے آنے کو کہا پر اس نے انکار کر دیا" رانیہ نے آنکھوں میں نمی لئے کہا۔
"بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔وعدہ" انس احسن نے اسے اپنے ساتھ لگائے کہا۔
"سچ" رانیہ کی نم آنکھوں میں خوشی کی لہر واضح دیکھی جا سکتی تھی۔
"بکل سچ" انس احسن نے سر کو ہلکی سے جنبش دی اور مضبوط لہجے میں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا پر نور سورج طلوع ہونے سے پہلے بہت سے ایسے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں صرف رانیہ کے لئے دعا گو تھے کہ اس کی آنے والی زندگی خوشیوں سے بھری ہو اسے زندگی کی ہر خوشی دیکھنی نصیب ہو لیکن رانیہ۔۔۔۔رانیہ نے آج بھی اپنی دعا نہیں بدلی تھی وہ خود کو بھلائے آج بھی زینب کے لئے خوشیاں مانگ رہی تھی ڈھیر ساری خوشیاں۔۔۔۔۔۔اور ایسا ہو سکتا تھا بھلا کہ نورِ خدا اس شخص کو خوشیوں سے محروم رکھتا جو دوسروں کی خوشیاں اتنی دل جمعی سے مانگتا ہو۔
نکاح چونکہ سادگی سے ہونا تھا اسی لئے احسن صاحب نے قریب کے رشتےداروں کو مدعو کیا تھا جو سب لاونچ میں محفل لگائے بیٹھے تھے جن میں رانیہ بھی تھی اور اکتائی ہوئی مہندی لگوا رہی تھی اس کے گورے گورے سرخی مائل ہاتھ پیروں میں آج احمر کے نام کی مہندی لگی تھی جو یقیناً بہت گہرا رنگ چھوڑنے والی تھی۔
اس کی کمر بیٹھے بیٹھے اکڑ گئی تھی کچھ دیر آرام کی نیت سے نور کے ہمراہ اپنے کمرے میں آئی دروازہ وا کرتے ہی بیڈ پر بیٹھے نفوس کو دیکھ رانیہ کی اکتاہٹ پل میں غائب ہوئی تھی دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا اس نے زینب کو گلے لگایا جس میں خلل دروازے کی دستک نے پیدا کیا چونکہ رانیہ کے ہاتھوں میں مہندی لگی تھی اسی لئے دروازہ نور نے کھولا اور رانیہ آگے کھڑی ہو گئی دروازے کے فریم میں انس احسن کا چہرہ دیکھ رانیہ وہی عمل دوہرانے والی تھی جب انس احسن نے ایک ہاتھ اٹھاۓ مسکراتے ہوئے کہا۔
"رانی مہندی"
"کیا بھائی۔۔۔۔۔۔آئی لو یو بھائی آپ دنیا کے سببببب سے اچھے بھائی ہیں" رانیہ پہلے خفگی سے بولی اور پھر یک دم خوشی سے چہکتے ہوئے"سب" کو کافی کھینچ کے بولی۔
"وہ تو میں ہوں" انس احسن نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ حامی بھری۔
انس احسن نے اپنے دوسرے ہاتھ میں تھاما رانیہ کا آج کا جوڑا نور کو دیا اور واپسی کی راہ لی۔
زینب پہلے بھی کئی بار رانیہ کو سمجھا چکی تھی لیکن شاید رانیہ کو سمجھ نہیں آیا تھا یا پھر دیر سے آنا تھا۔ زینب نے اس کا بازو تھامے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود گھوٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گئی۔زینب نے بینا تمہید بندھے بولنا شروع کیا۔
"تم ابھی احمر بھائی کو پسند نہیں کرتیں پر انشاءلله وقت کے ساتھ ساتھ کرنے لاگو گی تمہیں لگ رہا ہو گا کہ کوئی تمہاری بات کو۔۔۔۔تمہارے انکار کو اہمیت نہیں دے رہا ایسا اس لئے ہے کیوں کہ احمر بھائی ایک بہت اچھے انسان ہیں اور پھر وہ تم سے محبّت بھی کرتے ہیں اور سب سے اہم بات وہ دنیا کے سامنے تمہیں یعنی اپنی محبّت کو قبول کرنے کی ہمّت رکھتے ہیں وہ تمہیں اپنانا چاہتے ہیں تمہیں اپنی عزت بنانا چاہتے ہیں اگر وہ غلط ہوتے تو نہ بات گھر تک پہنچتی نہ ہی نکاح تک وہ تمہارے ساتھ ڈیٹنگ کرتے جو آج کل کے نوجوان بہت شوق سے کرتے ہیں وہ تمہارے ساتھ وہ رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو اللہ نے آدمؑ اور بی بی حوا کے درمیان قائم کیا تھا خالقِ کائنات کا تخلیق کیا گیا پہلا اور پاکیزہ رشتہ۔۔۔۔تمہیں احمر بھائی کی محبّت پر یقین نہیں ہے لیکن کیا جان چھڑکنے والے اپنے بھائی کی محبّت پر بھی یقین نہیں ہے کیا؟ میری اور نور کی محبّت پر بھی یقین نہیں ہے؟ تمہیں کیا لگتا ہے اگر کچھ غلط ہو رہا ہوتا تو کیا انس بھائی یا ہم میں سے کوئی چپ رہتا اور ہونے دیتا کچھ بھی تمہارے ساتھ۔۔۔۔تمہیں آج اس رشتے کو پورے دل سے قبول کرنا ہے تم کرو گی نہ" زینب نے اسے سمجھایا اور آخر میں سوال بھی کیا۔
"تم ساتھ ہو گی تو ضرور" رانیہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
"اور میں" نور نے منہ پھلائے پوچھا۔
"تم بھی" رانیہ نے دانت دکھاتے کہا۔
دروازے میں حرکت ہوئی تو زینب جہٹ سے پردے کے پیچھے چپ گئی اور آنے والی کوئی اور نہیں نیلم بیگم تھیں جو کافی جلدی میں تھیں لیکن نور اور رانیہ کے تاثرات دیکھتے انہوں نے پوچھا۔
"تم دونوں کی ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں"
"انٹی میری تو نہیں البتہ رانیہ کی صبح سے ہی اوڑی ہوئی ہیں" نور نے بات دبانی چاہی۔
"میری کیوں اوڑنے لگیں؟" رانیہ نے اس کا برابر ساتھ دیا۔
ان کو ایک نئی بھنس میں پڑتا دیکھ نیلم بیگم نے حکم سنایا۔
"رانیہ اب تیاری پکڑو ظہر کے فوراً بعد نکاح ہے نور بیٹا آپ دیکھ لو ورنہ اس نے نجانے کب تیار ہونا ہے"
"جی انٹی" نور نے تابیداری سے کہا۔
نیلم بیگم دونوں کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالتے کمرے سے چلی گئیں۔
"بچ گئے" ان کے جاتے ہی رانیہ نے بیڈ پر دھڑم سے گرتے ہوئے اور نور نے بیڈ پر اسی کے انداز میں بیٹھتے ہوئے ہم آواز کہا۔
زینب پردے کے پیچھے سے نکلی اور ان دونوں کے ساتھ بیڈ پر جا بیٹھی ساتھ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
"ڈرامے باز"
نور اور زینب نے کچھ اشاروں کا تبادلہ کیا پھر نور نے رانیہ کا دائیں جب کے زینب نے رانیہ کا بائیں ہاتھ تھاما اور اسے گھسیٹ کے بیڈ سے اٹھا۔
"مادام آپ نے تیار بھی ہونا ہے" زینب نے اسے یاد دلایا۔
"بھلا مجھے کسی تیاری کی ضرورت ہو سکتی ہے؟" رانیہ نے آنکھیں پتپٹاتے پوچھا۔
"نہیں بکل نہیں۔۔۔۔۔۔جب احمر بھائی کو تم سے پسینے اور بدبو سے بھری ہوئی حالت میں محبّت ہو گئی تو آج تو وہ تمہارے عاشق ہی ہو جائیں گے" نور نے زینب کے کندھے پر کونی رکھے رانیہ کو چھیڑا۔
"نوررررررر اب تم نہیں بچو گی" رانیہ نے چیختے ہوئے نور پر ہاتھ ڈالنا چاہا جو زینب کے پیچھے چھپ گئی تھی۔
"رانی کچھ تو لحاظ کرو تم دلہن ہو" زینب نے ان دونوں کے بیچ کھڑے ہی کہا۔
"دلہن بننا نہ ہوا کوئی جرم سر لینا ہوا یہ نہیں کر سکتی وہ نہیں کر سکتی" رانیہ نے تپے ہوئے انداز میں کہا۔
"جاؤ جا کے تیار ہو" زینب نے اسکی بات پر مسکراتے ہوئے کہا۔
رانیہ بچوں کی طرح نور کو منہ چڑاتی اپنا جوڑا لئے باتھروم میں بند ہو گئی۔
کچھ دیر بعد جب رانیہ باتھروم سے نکلی تو اس نے ہاف وائٹ رنگ کا ہلکا سا کامدار جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا یہ رنگ اسکی گوری رنگت پر خوب جچ رہا تھا مہندی جو وہ دھو چکی تھی اس کا رنگ بہت گہرا آیا تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے وہ ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"دکھاؤ رانی۔۔۔۔۔اوہو مہندی کا رنگ تو بڑا گہرا آیا ہے" نور نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے شوخی سے ایک بار پھر رانیہ کو چھیڑا۔
"تمہارا ابھی پہلا حساب کلیر نہیں ہوا ہے اسی لئے ذرا سنمبھل کر" رانیہ نے وارن کیا۔
"سنمبھلنے کی ضرورت تو آج احمر بھائی۔۔۔۔۔" نور نے ابھی یہی کہا تھا کہ ڈریسنگ ٹیبل کی چیئر پر بیٹھتی رانیہ اسکی بات سمجھتے ہوئے ایک جھٹکے سے مڑی تھی اور اسکے پیچھے بھاگی تھی۔ ایک دوسرے کو کوشنس مارتیں وہ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے تھیں اور کچھ ہی دیر میں کمرے کا نقشہ بدل چکیں تھیں۔
زینب انکی چھیڑ چھاڑ سے محظوظ ہو رہی تھی لیکن جب ان دونوں نے رکنے کا نام نہیں لیا تو زینب بول پڑی۔
"رانی بس"
"تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا تھا" رانیہ نے شکایتی انداز میں کہا۔
"کیا کہا تھا میں نے" نور ایک بار پھر شوخ ہوئی۔
رانیہ نے التجائی نظروں سے زینب کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو اسے چپ کرا دو جسے سمجھتے ہوئے نور بولی۔
"اچھا بھئی ٹھیک ہے کچھ نہیں کہہ رہی"
"آؤ بیٹھو" زینب نے اسے پکڑے چیئر پر بٹھایا اور وہ دونوں اسے تیار کرنے لگیں۔
وہ دیر کی محنت کے بعد وہ دلہن بنے ان کے سامنے تھی زینب نے اسے آئینے میں دیکھ تعریف کی۔
"ماشاءالله بہت پیاری لگ رہی ہو"
"بکل۔۔۔۔۔بہتتت پیارییی" نور نے زینب سے متفق ہوتے کہا اور ساتھ پوچھا بھی۔
"اب چلیں ٹائم ہو گیا ہے"
"ہاں چلو" رانیہ نے زینب کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔
"رانی میں نہیں آ سکتی۔۔۔۔میں تمہارا اتنا خاص دن برباد نہیں کرنا چاہتی" زینب نے رانیہ سے اپنا ہاتھ چھوڑاتے کہا رانیہ اسے کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح دیکھنے لگی۔
"تم نہیں آؤ گی تو وہ ویسے بھی ہو جائے گا زینی" وہ رو دینے کو تھی۔
"رانی نہیں رونا نہیں ہے۔۔۔۔۔ہماری دوستی فصلوں کی تو محتاج نہیں ہے ہم کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں ہم ہمیشہ ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ہیں نہ؟" زینب نے تزدیق چاہی۔
رانیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اور پھر نور بھی تو ہے تمہارے ساتھ"
زینب نے اس کے کان میں بلتوتھ لگائی۔
"میں وہاں بھی تمہارے ساتھ ہوں گی اس کے ذریعے" زینب نے اس کا گال تھپکا۔
رانیہ نے زینب کو گلے لگایا اور نور بھی ان کے ساتھ لگ کے کھڑی ہو گئی اور پھر رانیہ چلی گئی اس کے جاتے ہی زینب نے بھی اپنی راہ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کی تقریب چونکہ ڈرائنگ روم میں ہونا طے پائی تھی اسی لیے آج اس کی سیٹنگ کو تبدیل کیا گیا تھا۔ کمرے کے دونوں اطراف براؤن رنگ کے صوفے سیٹ ایک صفت میں رکھے گئے تھے اور کھڑکیوں پر سفید رنگ کے نیٹ کے مگر خوبصورت سے پردے ڈالے گئے تھے کمرے کے وسط میں نیٹ کا ہی ایک بڑا سا فریم رکھا گیا تھا جس کا مقصد دونوں جگہوں کو جدا کرنا تھا۔
احمر کی پوری فیملی اور فرینڈز(حاشر ،علی) کا استقبال کافی گرم جوشی سے کیا گیا۔
علی اور حاشر نے یک رنگ کا سوٹ زیب تن کیا تھا وہ رائل بلو رنگ کے کرتے پاجامے میں ملبوز گرے رنگ کی واسکٹ پہنے بہت ہینڈسم لگ رہے تھے۔
سب مہمانوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد سب ایک بار پھر اسی جگہ موجود تھے کچھ ہی دیر میں انس احسن کی تقلید میں قاضی صاحب تشریف لائے اور مردوں کی سائیڈ پر بیٹھ گئے۔
اب سب کو رانیہ کے آنے کا انتظار تھا اور یہ انتظار زیادہ طویل نہیں ہوا تھا وہ نور کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی تھی پیروں میں بریک نگوں کے کام والی سلیپیرس پہنی تھیں جس میں سے مہندی کے نقشونگار بآسانی دیکھے جا سکتے تھے ہاف وائٹ جوڑا پہنے بائیں کندھے پر لال چنری لٹک رہی تھی سر پی سوٹ کے ساتھ کا دوپٹہ سیٹ کیا تھا اس کے ساتھ ہی ہاف وائٹ رنگ کا جلی دار دوپٹہ بھی گھونگٹ کی طرح ڈالا تھا۔ گلے میں چھوٹا سا مگر ہلکا سا نیکلیس اور چھوٹے چھوٹے ہی ایئررنگز پہنے تھے میک اپ کے نام پر اس نے گلابی رنگ کی لپسٹک کا استمعال کیا تھا جو اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھی۔
احمر جس کی نظریں دروازے پر ہی مرکوز تھیں اسے دیکھ دل زور سے دھڑکا تھا باقی سب منظر دھوندلہ سا گیا تھا اگر اس لمحے کوئی دیکھ رہا تھا تو صرف وہ تھی۔ وہ دنیا سے بیگانہ ہوا اسے دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے کا اثر ہی تھا کہ رانیہ کی نظر اس پل میں اس پر پڑی وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا اسنے آج سفید کرتے شلوار پر ہاف وائٹ رنگ کی واسکٹ پہنی تھی ہاتھ میں ریسٹ واچ چمک رہی تھی اور پیروں میں پشاوری چپل موجود تھی وہ بلا شبہ حسین مردوں میں سے تھا۔ رانیہ کو وہ آج نیا نیا سا لگا تھا۔ دونوں کی نظریں ملیں تو وہ رانیہ کو دیکھ مسکرایا تھا رانیہ کی آنکھیں حیرت سے سائز میں بڑی ہو گئیں تھیں اگلے ہی پل اسنے نظروں کا زاویہ بدل دیا۔
قاضی صاحب نے اجازت طلب نظروں سے انس احسن کو دیکھا انہوں نے آنکھیں جھپکائے اپنی رضامندی ظاہر کی تو قاضی صاحب نے نکاح نامہ اور قلم انکو تھما دیا۔ وہ نکاح نامہ اور قلم لئے خواتین کی جانب آئے اسے رانیہ کے آگے رکھی ٹیبل پر رکھا اور خود ایک گھٹنا زمین پر ٹیکائے بیٹھے اور رانیہ کا بایاں ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں تھام لیا۔
"رانیہ احسن ولد احسن ملک آپکا نکاح احمر وقار ولد وقار عابد کے ساتھ دس لاکھ روپے حق مہر سکہ راجولوقت طے پایا ہے کیا آپکو قبول ہے؟"
اس وقت رانیہ کے حواس خمسہ نے کام کرنا بند کر دیا تھا دل اور دماغ دونوں سے ہی کوئی سنگل نہیں آ رہا تھا اور پھر اس پر ایک ڈر پوری شدت سے حاوی ہوا تھا "حقدار بدل جانے کا" اسی لمحے انس احسن نے اپنی گرفت کو نرمی سے مظبوط کیا تھا کان میں لگے بلوتوتھ سے زینب نے سرگوشی کے انداز میں اسے پکارا تھا۔ دوسری طرف احمر سانسیں روکے آنکھوں کی باڑ گرائے بینا نیٹ کے اس پار دیکھتے اپنی سماعتوں کو ایکسٹرا زوم کئے رانیہ کے جواب کا منتظر تھا۔
رانیہ نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری آنکھیں بند کیں اور کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
"قبول ہے"
احمر نے اب بھی سانس نہیں لی تھی۔
قاضی صاحب نے دوسری بار پوچھا۔
"قبول ہے" نہ جواب بدلہ نہ انداز۔
احمر نے اب بھی سانس نہیں لی تھی وہ اب بھی کسی مجسمے کی طرح بیٹھا تھا۔
قاضی صاحب نے تیسری بار پوچھا۔
"قبول ہے" رانیہ کی آواز میں کپکپاہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
احمر نے بے اختیار سانس لی تھی آنکھوں کے پردے گرائے تھے اور لبوں پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ در آئی تھی۔ اتنی دیر تک آنکھیں نہ جھپکنے کی وجہ سے آنکھوں سے ایک موتی نکل کر اسکے کُرتے میں جابز ہو گیا تھا۔
پھر رانیہ نے دستخط کئے تھے اور یہی تین یکسر سوال احمر سے بھی کئے گئے جس نے بڑی خوشی سے ہر سوال کا جواب مثبت دیا۔ اگر یہی سوال اس سے ہزار بار بھی کیا جاتا تب بھی اسکا جواب یہی ہوتا شاید سوال کرنے والا تھک جاتا مگر وہ جواب دیتے نہ تھکتا۔
احمر نے دستخط کئے اور پھر قاضی صاحب نے دعا کرائی۔ دعا کے بعد مبارک باد کا ایک سلسلہ سا شروع ہو گیا تھا سب ایک دوسرے سے گلے میلے مبارک بعد دے رہے تھے اور احمر خوشی خوشی سب سے مبارک باد وصول کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے بعد رنگز آئیکسچینج کرنا پہلے ہی طے پایا تھا اسی لئے اب کمرے کے وسط سے نیٹ کا فریم ہٹا دیا گیا تھا اور احمر کو رانیہ کے پاس بیٹھا دیا گیا جو اسکے اتنے قریب بیٹھنے پر ڈسٹرب ہو رہی تھی۔ احمر کن انکھیوں سے اسے دیکھتا اسکی حالت سے خوب محظوظ ہو رہا تھا۔
منگنی کی رسم ادا کرنی تھی لیکن انس احسن کا کچھ پتا نہیں تھا نیلم بیگم اسے ہی ڈھونڈھ رہیں تھیں پر وہ یوں سب مہمانوں کو چھوڑ کر جا نہیں سکتی تھیں اسی لئے انہوں نے نور کو اشارہ کر کے بولایا۔ نور کھڑی ہوئی تو رانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ گھسیٹنے کے سے انداز میں اپنے پاس پھر سے بیٹھا لیا۔
"یہاں پہلے میری جان پر بنی ہے اوپر سے تم اور مجھے اکیلا چھوڑ کے جا رہی ہو" رانیہ نے نور کے کان میں سرگوشی کی۔
"بےفکر ہو جاؤ یہ جان بہت عزیز ہے احمر بھائی کو" نور شرارت سے کہتی فوراً نیلم بیگم کے پاس چلی گئی تھی۔
"جان نہیں لوں گا" وہ شاید سب سن چکا تھا محفل سے آنکھ بچائے کہہ رہا تھا۔
"تو پھر کیا لیں گے" اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود کلامی کی تھی۔
"جو میں نے لینا تھا میں لے چکا ہوں" احمر کو پتا تھا کہ وہ اب اپنے ننھے سے ذہن پر زور دیتے سوچ رہی ہو گی"کیا" اور ایسا ہی تھا وہ اِدھر اُدھر دکھتی اپنے سوال کا جواب ڈھونڈھ رہی تھی جیسے کہیں لکھا ہی ہو گا۔
احمر گردن گھومائے محفل کی پرواہ کئے بغیر اسکو دیکھنے لگا جو اسکے دیکھنے کو اگنور کر رہی تھی اور پھر احمر نے اسے بتایا۔
"رانیہ۔۔۔۔رانیہ احمر۔۔۔۔آج کے دن کی سب سے بڑی حقیقت۔۔۔۔آج مجھے رانیہ مل گئی مانو سب مل گیا"
رانیہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا آج ان ہری آنکھوں کی ہر لکیر صاف نظر آ رہی تھی اسنے ان میں اپنا عکس دیکھا تھا جہاں خوشی رقصاں تھی اگلے ہی پل رانیہ نے اپنی سمت ِنگاہ بدل دی تھی۔ عجیب بات تھی اسے احمر کا یہ کہنا برا نہیں لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کافی دیر سے لاونچ کے گیٹ کے پاس کھڑی انس احسن کا انتظار کر رہی جو گارڈن میں ٹہلتے ہوئے نجانے کس سے کال پر اتنی لمبی گفتگو کر رہے تھے۔
وہ یہاں کھڑی پھر سے اپنی پرانی کفیت میں جانے لگی تھی۔ اس نے خود پر "میں ٹھیک ہوں" کا خول چڑھایا ہوا تھا جو اب اترنے لگا تھا اسے رونا آ رہا تھا اور وہ رو دیتی اگر علی وہاں نہیں آ جاتا۔
"آپ یہاں خیریت؟" علی نے دروازے کے باہر دیکھتے پوچھا۔
"علی بھائی آپ۔۔۔۔۔آپ میرا ایک کام کریں گے" نور نے اپنے پیچھے مڑ اسے دیکھا اور ساتھ یہاں سے نکلنے کی بھی کی۔
"کون سا کام" علی نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔
"منگنی کی رسم ہونے والی ہے تو نیلم انٹی نے مجھ سے کہا کہ رانیہ کے بھائی کو بلا لاؤں لیکن میں کب سے انتظار کر رہی ہوں ان کا پر وہ بزی ہیں آپ جا کر بلا لائیں گے؟ مجھے رانیہ کے پاس بھی جانا ہے" نور نے فٹا فٹ اپنی بات مکمل کی۔
"ہیں کہاں وہ؟" علی نے پوچھا۔
"وہاں۔۔۔۔تھنک یو" نور نے گارڈن میں ایک سمت اشارہ کر کے بتایا ساتھ میں شکریہ بھی ادا کیا۔
"مینشن ہی ناٹ سیس" علی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مزے سے کہا۔
"اوکے برو" نور نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انس احسن کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی نیلم بیگم زہرہ بیگم سے آئیکسکیوز کرتی انس احسن سے کہہ رہیں تھیں۔
"کہاں تھے تم۔۔۔۔خیر رنگ دو رسم شروع کرنی ہے"
"رنگ۔۔۔۔او گاڈ" انس احسن کو کچھ یاد آیا تھا۔
"کیا ہوا" نیلم بیگم نے پریشانی سے استفسار کیا۔
"میں نے رنگ کا آرڈر تو کیا تھا پر رسیو کرنا بھول گیا"
"انس۔۔۔۔ایسا کرو ڈرائیور کو بول دو وہ لے آئے گا" انہوں نے حل نکالا۔
"چھٹی پے ہے" انس احسن نے نظریں بچائے کہا۔
"ایک تو میں تمہاری اس عادت سے بیزار آ چکی ہوں یہ دسیوں بارھیویں بار ہو رہا ہے کہ جب ڈرائیور کی ضرورت ہے اور ڈرائیور ہی غائب ہے" نیلم بیگم غصے میں آ گئیں۔
"اگر آپ کی اجازت ہو تو میں لے آتا ہوں" علی نے کہا جسے یہ دونوں یکسر بھلائے اپنی الجھن میں الجھے ہوئے تھے۔
"نہیں ایسا کوئی مسلہ نہیں ہے میں لے آتا ہوں" انس نے جلدی سے کہا۔
"نکاح کا فنکشن تو لڑکے والوں کی طرف سے اٹینڈ کیا ہے پر شادی لڑکی والوں کی طرف سے اٹینڈ کریں گے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپکا انویٹیشن قبول کریں تو آپکو ہمیں ابھی خدمت کرنے کا موقعہ دینا ہو گا" علی نے خود کو خود ہی مدعو کیا۔
"اچھا ٹھیک ہے" انس احسن مسکرائے اور ہار مانتے ہوئے اسے اڈریس سمجھانے لگے ساتھ اسے ایک سلپ بھی دی۔
علی حاشر کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا وہاں سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی نے کار پارکنگ میں لگائی اور حاشر کے ساتھ اندر قدم رکھے۔ یہ دو منزیلہ ایک بہت ہی خوبصورت جولیری کا شوروم تھا جہاں چاروں اطراف شیشے کی شیلفوں میں قیمتی زیورات سجے تھے اور اسی طرح ان سبھی شیلفوں کے آگے کاؤنٹرز موجود تھے۔
یہ دونوں ایک کاؤنٹر کی طرف بڑھے تو سیل مین نے پیشاوارانہ انداز میں کہا۔
"ہاو مے آئی ہیلپ یو سر؟"
"برنگ دی آرڈر" علی نے حاشر کے ہاتھ سے سلپ لیتے کاؤنٹر پر رکھی۔
"اوکے ویٹ فار آ وائل" سیل مین سلپ تھامتا اندر چلا گیا۔
علی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سٹی بجاتے شوروم کا بھرپور جائزہ لے رہا تھا حاشر اسکی تقلید میں تھا جسے اسکے سٹی بجانے سے کوفت ہو رہی تھی۔
"تم منہ بند کر کے نہیں چل سکتے" حاشر نے دانت بینچے۔
"جتنا بند ہے اس پر ہی شکر کا سانس لو" علی نے سنجیدگی سے بینا اسکی طرف دیکھے کہا یہ جانے بغیر کے وہاں کوئی اور بھی تھا جسے اسکی یہ حرکت بہت ناگوار گزر رہی تھی جب ہی سیل مین نے انہیں اپنی طرف بلا کر آرڈر انکے حوالے کیا علی نے پیمنٹ کے لئے والٹ نکالا تو سیل مین نے کہا۔
"سر پیمنٹ ہو چکی ہے"
"ہو چکی ہے" علی نے ماتھے پر شکنے لئے حاشر کو دیکھا جس نے کندھے اچکا دئے۔
"جی مسٹر انس احسن نے کر دی ہے" سیل مین اپنے سابقہ انداز میں کہا۔
"او کے" علی نے حاشر کو بیگ تھمایا۔
یہ دونوں پارکنگ ایریا میں داخل ہوئے علی شاہانہ انداز میں چلتا ایک انگلی میں کی۔چین گھوما رہا تھا سٹی بادستور بج رہی تھی کہ اچانک
اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسکا کان سن ہو گیا ہے اگلے ہی پل اسے اپنے جبڑے میں درد اٹھتا محسوس ہوا کچھ لمحے لگے دماغ کو یہ پراسس کرنے میں کے آیا ہوا کیا ہے ہوش کی دنیا میں آتے ہی اسنے صنفِ نازک کو اپنے روبرو پایا وہ کاٹن کے رائل بلیو سوٹ میں ملبوز تھی اور اسکے سنہرے بال پونی میں مقید تھے وہ غصّے سے سرخ ہوتی آنکھیں اور ناک لئے اسے کچھ بول رہی تھی لیکن علی تو اس میں ہی کھو گیا تھا اور حاشر حیرت سے بیہوش ہونے کے قریب تھا علی احمد کو کسی نے تھپڑ مار دیا تھا اور وہ ایسے کھڑا تھا کہ مانو کسی اور ہی دنیا میں ہو۔
وہ لڑکی اسے کھری کھوٹی سنا کے چلی گئی تھی اور وہ اب تک اسی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ گئی تھی۔
"علی" حاشر نے اسے پکارا۔
"ہمم" وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
"علی وہ لڑکی تجھے تھپڑ مار گئی ہے" حاشر نے جیسے اسے یاد دلایا۔
"جانتا ہوں" سابقہ انداز میں ہی کہا۔
"لیکن اسنے ایسا کیا کیوں" اس نے ہوش میں آتے پوچھا۔
"بتا کر تو گئی ہے تم نے سنا نہیں" حاشر نے ماتھے پر بل لئے پوچھا۔
"میرا کان سن ہو گیا ہے شاید" اس نے اپنے کان کو چھوتے کہا۔
"اسی لئے کہتے ہیں کبھی دوستوں کی بھی سن لینی چاہیے۔۔۔۔۔اب یہ اتفاق ہی تھا کہ شاپ میں سارا وقت اس نے تمہیں اپنے پیچھے پایا وہ بھی سٹی بجاتا ہوا اسے لگا شاید تم اس پر لائن مار رہے ہو اور پھر جب یہاں بھی یہی ہوا تو اس کا صبر کا پیمانہ چھلک گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمہارا کان سن ہو گیا اور تمہارے گال پر ایک نقش رہ گیا۔۔۔۔اور ہاں دھمکی بھی دے کر گئی ہے کہ اگر تم نے دوبارہ اسے کسی بھی طرح تنگ کرنے کی کوشش تو وہ سیدھا پولیس اسٹیشن جائے گی" حاشر نے اسے پورے واقعے سے آگاہ کیا اور ہنستا چلا گیا۔
علی کو جب اپنی سچویشن کا احساس ہوا تو وہ انجگشن میں چابی لگاتا ڈرائیونگ سیٹ پی بیٹھ گیا جب کے حاشر کا ہنسنے کا پروگرام پورے زوروشور سے چل رہا تھا۔علی کے موبائل پر کال آئی تب جا کے حاشر کی ہنسی کو بریک لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچنے پر حاشر نے نیلم بیگم کو رنگ بیگ دیا جب کے علی نشست سنمبھلے گھوٹنے پر کونی جمائے گال پر ہاتھ رکھے بیٹھ گیا تھا جیسے دیکھ حاشر اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا۔
منگنی کی رسم شروع ہوئی نیلم بیگم نے رانیہ کے آگے رنگ بڑھائی رانیہ نے حلق تر کرتے اسے تھما اور احمر کی طرف دیکھے بینا جلدی سے اس کے بڑھائے ہوئے ہاتھ میں پہنا دی سب ہی اسکی اس حرکت پر مسکرا دئے۔
اب باری تھی احمر کی جو رانیہ کے ہاتھ آگے کرنے کا انتظار کر رہا تھا جو اپنے خیالوں میں گھم تھی برابر بیٹھی نور نے رانیہ کو ٹھوکا اس سے پہلے رانیہ صورتحال سمجھ پاتی احمر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور رنگ پہنا دی
یہاں علی نے سب بھولائے ہوٹنگ کی رانیہ کا چہرہ یک دم لال ہوا تھا پھر احمر نے علی کو دیکھتے پوچھا۔
"تمہارا گال لال کیوں ہو رہا ہے؟"
رانیہ کی جان ہی نکلنے کو ہو گئی اسے لگا وہ اس سے پوچھ رہا تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
احمر کے سوال پر علی ہڑبڑایا پھر بولا۔
"شاید کافی دیر سے ہاتھ رکھ کے بیٹھا ہوں اس لئے"
علی کے جواب دیتے ہی رانیہ کو احساس ہوا کے سوال اس سے نہیں کیا گیا تھا اس نے ایک سانس اندر کھینچتے خود کو پرسکون کیا۔
"لیڈز اینڈ جنٹلمین موقعے کی مناسبت سے مجھے ایک شعر یاد آیا ہے اجازت ہو تو عرض کروں" حاشر نے کھڑے ہو کے مودبانہ انداز میں پوچھا۔
"اجازت ہے" سب نے ہم آواز رضامندی دی۔
"تو عرض کیا ہے
چلتے چلتے
۔
۔
چلتے چلتے
سرِراہ چلتے چلتے
۔
۔
یونہی کوئی پِٹ گیا ہے
آخری مصرے علی کی طرف اشارہ کر کے پڑھا گیا۔ علی کو غصّے سے اپنی طرف لپکتے دیکھ یہ خود کو بجا رہا تھا انہیں دیکھ وہاں بیٹھا ہر نفوس مسکرا رہا تھا کہ احمر نے پوچھا۔
"کس سے"
"حاشر" علی نے آئی برو اچکاتے اسے کچھ بھی کہنے سے باز رکھا۔
"لڑکی سے" وہ اپنی بات کہنے کے بعد زور سے ہنستا کمرے سے ہی بھاگ گیا۔
"حاشر!!!۔۔۔۔۔آج تو تو گیا"
یہ دونوں بھاگتے ہوئے بیک سائیڈ کے پاس بنے پول کے ارد گرد تھے ایک بچنے کی کوشش میں تھا تو دوسرا پکڑنے کی۔ علی نے تیزی سے بھاگ حاشر کو پول میں دھکا دیا۔
حاشر ایسے کسی حملے کے لئے تیار نہیں تھا پانی میں سنمبھل نہیں پایا کچھ دیر ہاتھ پیر مارنے کے بعد پانی میں اپنا بیلنس قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہاتھ سے اپنے ماتھے پے آئے بال اور چہرے پر آیا پانی صاف کیا اپنی اکھڑی ہوئی سانس کو بحال کیا۔ پول سے نکلنے کے لئے پیچھے گھوما ہی تھا کہ اسے اپنے سامنے گھوٹنے کے بل بیٹھی ایک دوشیزہ نظر آئی جو بلیو پینٹ پر سفید رنگ کی کرتی پہنے گلے میں مفلر کی طرح اسکارف لئے بال اونچی سی پونی ٹیل میں مقید تھے وہ ہونٹوں پر نرم مسکان لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"مے آئی ہیلپ یو؟" اس نے مسکراتے ہوئے ہی پوچھا۔
حاشر کو یہ چہرہ شناسا سا لگا مگر ذہن پر زور دینے سے بھی اسے یاد نہ آیا۔
"نو" حاشر نے اسے ایک نظر دیکھ انکار کیا اور پول سے باہر آ گیا۔ اس نے بچارگی سے اپنے بھیگے کپڑوں کو دیکھا وہ اب ایسے اندر تو نہیں جا سکتا تھا مطلب اب اسے سیدھا گھر جانا ہو گا حاشر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دفع پھر پانی میں جا گرا سمجھ نہیں آیا کے ایسے کھڑے کھڑے کیسے گر گیا تو پھر وہی لڑکی سامنے آئی اب کے لبوں پر شیطانی مسکان ناچ رہی تھی۔سینے پر ہاتھ بندھے اس نے کہا۔
"یہ میری مدد قبول نہ کرنے کے لئے"
"تم ہو کون؟" وہ سخت ہوا۔
"اِشہل احمد" اندز ہونوز وہی تھا۔
"علی احمد کی بہن" اب کے علی بولا جو کب سے پلر سے ٹیک لگائے سب دیکھ رہا تھا۔
"کیا!!!" لہجے میں بے یقینی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM readers.....apne votes or reviews dn ap ko epi prh acha laga ke nhi....mere khayal hai yeh all in one hai sb ko haashir or ali ki sathi ka intezar tha or apko is mai woh mil gain hain....next ka kuch nhi pata abhi q k yeh bhut lengthy tha agla bhi shayad lengthy ho is liye inyezar and stay tune
ALLAHHAFIZ
WRITER:
NimRA Israr
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top