نیا سفر پارٹ 2


اس وقت وہ دونوں پاکستان کی سب سے بڑی بزنس یونیورسٹی "برائٹ بزنس یونیورسٹی" کے باہر کھڑی تھیں۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے انس احسن ان دونوں کو یہاں چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ دونوں اس قدادام دروازے کو عبور کر کے اندر داخل ہو گیئں۔ اندر بیحد افراتفری اور ہلچل مچی ہوئی تھی آج فریشرز  کا پہلا دن تھا کوئی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی تلاش میں تھا تو کوئی سینئرز کے پرینکس کا شکار ہو رہا تھا۔

سامنے ایک وسیع و عریض میدان گھانس ،پھولوں اور درختوں سے سجا ہوا تھا میدان کے آگے قطار میں بہت سی عمارتیں موجود تھیں جن پر ماربلس لگاۓ گئے تھے دھوپ کی وجہ سے یہ عمارتیں اس وقت چمک رہیں تھیں میدان کے دائیں اور بائیں طرف ایک لمبی راہداری تھی جن کو عبور کرنے پر اور بہت سی عمارتیں نظر آتیں تھیں یہاں ہر ڈیپارٹمنٹ کی ایک الگ عمارت تھی۔

زینب رانیہ کا ہاتھ پکڑے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ رہی تھی وہ ان فضول قسم کے پرینکس کا ہرگز شکار نہیں ہونا چاہتی تھی اسی لیے ایڈمیشن کے دوران ہی وہ اپنا ڈیپارٹمنٹ دیکھ کے جا چکی تھی چونکہ بہت سے سٹوڈنٹس نے ایڈمشن آن لائن کیا تھا اسی لیے وہ اس وقت سینئرز کے لیے تفریح کا سامان بنے ہوئے تھے۔

اچانک رانیہ کی آواز زینب کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"زینی۔۔۔۔بھیڑیے" رانیہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔

"کیا!۔۔۔۔؟" زینب کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا۔

"بھیڑیے" رانیہ نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔

"رانی ہم جنگل میں نہیں ہیں ہم یونیورسٹی میں ہیں یہاں بهیڑیے کیسے ہو سکتے ہیں" زینب نے رانیہ  کو نرمی سے سمجھایا۔

"یہ ہیں تو اتنے سارے لڑکے" رانیہ نے جواب دیا۔

"ہیں؟۔۔۔یہ تم سے کس نے کہہ دیا؟" زینب نے رانیہ  سے پوچھا اور رانیہ کے جواب نہ دینے پر پھر بولنا شروع کیا۔

"رانی ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔شکاری شکار صرف تب کرتا ہے جب اُسے موقع ملتا ہے اور وہ موقع اُسے شکار خود دیتا ہے" زینب نے رانیہ کو سمجھایا۔

"تم سمجھ رہی ہو نہ" زینب نے رانیہ سے پوچھا آیا اسے اس کی بات سمجھ آئی بھی یا نہیں۔

"ہمم۔۔۔" رانیہ نے اثبات میں سر ہلایا اور زینب کے ساتھ چل دی۔

رانیہ کافی ڈری ہوئی لگ رہی تھی رانیہ کو ایک دم انس بھائی کی باتیں یاد آنے لگیں جو وہ کل کر کے گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرہ روشنی سے نہایا ہوا تھا بستر پر گفٹس پیپرس ،ٹیپ ،کارڈز ،قنچی اور اسی طرح کی کئی چیزیں بکھری ہوئی تھیں جو رانیہ زینب کو دینے کے لیے تیار کر رہی تھی اور اپنا سر الماری میں دیے نجانے وہ کون سا چراغ ڈھونڈ رہی تھی۔

دروازے کی نوب کی آواز نے بھی رانیہ کے کام میں خلل نہیں ڈالا۔ اندر داخل ہونے والا شخص بلیک  پینٹ اور گرے شرٹ میں ملبوز اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے ہوئے تھا اور کمرے کا بھرپور جائزہ لے رہا تھا اس نے گالا کھنکار کے رانیہ  کو اپنی طرف متواجہ کیا۔

"بھائی آپ یہاں۔۔۔۔۔کوئی کام تھا آپ کو؟" رانیہ نے ان کے آنے کی وجہ دریافت کرنا چاہی۔

"نہیں۔۔۔۔بات کرنی تھی تم سے۔۔۔۔یہاں آ کے بیٹھو" انس بھائی رانیہ سے کہتے ہوئے کمرے میں رکھے صوفے پے جا بیٹھے۔

رانیہ کو انس احسن معمول کے مقابلے آج کچھ زیادہ ہی  سنجیدہ لگے (یا اللہ‎ بھائی کو مجھ سے کیا بات کرنی ہے) وہ سوچتے ہوئے بھائی کے پاس جا کے بیٹھ گئی۔

رانیہ نے اسکول اور کالج دونوں ہی کو۔ایجوکیشن میں نہیں پڑھے تھے اسی لیے انس احسن کو اندازہ تھا کہ ان کی بہن کو مشکلات پیش آ سکتیں ہیں انہوں نے رانیہ کو روکنا مناسب نہیں سمجھا آخر ان کی بہن کو ایک بہترین یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کا سنہری موقع مل رہا تھا لیکن انہوں نے رانیہ کو سمجھانا بھی اپنا فرض سمجھا اسی سلسلے میں آج وہ رانیہ سے بات کرنے بھی آئے تھے۔

انس احسن نے بغیر تمہید بندھے بولنا شروع کیا۔

"تمہاری حفاظت کی زمیداری میری ہے رانیہ اور اس کے لیے میں اپنی جان سے بھی کھیل سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب تم زندگی میں آگے بڑھ رہی ہو بہت سی ایسی جگہیں ہوں گی جہاں میں موجود نہیں ہوں گا وہاں تمھیں اپنا محافظ خود بننا ہے۔۔۔۔محرم کی غیر موجودگی میں لڑکیاں اپنی بہترین محافظ خود ہوتیں ہیں۔۔۔۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تم لوگوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دو، ان پے اندھا اعتماد نا کرو"

انس بھائی نے رک کر رانیہ کی طرف دیکھا جو سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی وہ اندازہ نہیں کر سکے رانیہ کو ان کی بات سمجھ آئی یا نہیں۔۔۔انہوں نے پھر کہنا شورع کیا۔

"اس گھر کی چار دیواری میں تم بےفکری سے رہ سکتی ہو لیکن ان چار دیواری کے باہر تمھیں اپنی تمام ترحساسیات کو بیدار کر کے نکلنا ہو گا۔ اس دنیا میں انسان اور بھیڑیے دونوں موجود ہیں تمھیں ان میں فرق کرنا سیکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔اب بتاؤ تمہاری اس چھوٹی سی عقل میں میری بات سمائی بھی ہے کہ نہیں" آخر میں انس احسن نے رانیہ کے ماتھے پے انگلی رکھ کے چھیڑا۔

"آہ! انس بھائی۔۔۔۔۔۔۔پہلی بات میری عقل چھوٹی سی نہیں ہے اور دوسری یہ کہ آپ مجھے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اسی لیے میں نے اپنا خیال رکھنا ہے" انس بھائی کے "چھوٹی سے عقل" کہنے پر رانیہ کا منہ کھلا رہ گیا اسی لیے اپنی "عقل" ثابت کرنا بہتر سمجھی۔

"آہا۔۔۔۔رانیہ احسن تو سمجھدار ہو گیئں ہیں" انس احسن نے رانیہ کو ایک بار پھر چھیڑا۔

"جی شکریہ۔۔۔۔۔۔۔کیا کہا؟" رانیہ نے اپنی تعریف پر شکریہ ادا کیا لیکن جب بات سمجھ آئی تو اس نے آنکھیں بڑی کر کے انس بھائی کی جانب دیکھا اور پوچھا۔

انس احسن کا جاندار قہقہ فضا میں گونجا۔

"میں سمجھدار ہو نہیں گئی میں سمجھدار ہوں" رانیہ نے منہ بنا کر کہا۔

"جی اس کا مظاہرہ تو میں ابھی تھوڑی دیر پہلے دیکھ ہی چکا ہوں" انس احسن نے مسکرا کے کہا۔

"بھائی۔۔۔۔۔" رانیہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

"اچھا ٹھیک ہے کچھ نہیں کہہ رہا۔۔۔۔خوش" انس احسن نے مسکراتے ہوئے رانیہ کو خود سے قریب کیا اور اس کے سر کا بوسہ لیا۔

"خوش" رانیہ نے دانت نکال کے کہا۔

انس احسن کمرے سے چلے گئے اور رانیہ زینب کے لیے تحائف پیک کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ فائل میں سر دیے نا جانے کیا کر رہا تھا جب وہ دونوں اس کے پاس آ کے گھانس پر بیٹھ گئے جو اب ہنس ہنس کر بحال ہوئے جا رہے تھے۔ اس نے نظریں اٹھا کر دونوں کو دیکھا وہ اب اپنے ہنسنے کی وجہ بتا رہے تھے۔

"احمر تجھے پتا ہے ہم کیا کر کے آ رہے ہیں؟"ان میں سے ایک نے کہا جو اس وقت بلیو جینس اور بلیک شرٹ میں ملبوز تھا۔

"یقیناً۔۔۔پرینک" احمر نے یقین سے کہا۔

"لیکن تمھیں یہ نہیں پتا کے ہم پرینک میں کیا کر کے آئیں ہیں" ان میں سے دوسرے نے کہا جس کے چہرے پے بلا کی شطانیت موجود تھی۔

"کیا کر کے آئے ہو تم دونوں؟" احمر نے دونوں کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا دراصل علی کے چہرے کی شطانیت نے اسے یہ سوال کرنے پر مجبور کیا تھا۔

"زیادہ کچھ نہیں بس ریڈ چللی جوس پلا کر آئیں ہیں" علی نے بڑے اطمینان سے بتایا۔

"کیا!!!" احمر کا منہ کھولا رہ گیا۔

"اور تمھیں پتا ہے وہ بندہ اتنا نروس تھا کہ پورا گلاس خالی کر گیا اور بعد میں چیخ رہا تھا۔۔۔ مرچیں۔۔۔۔۔مرچیں۔۔۔" حاشر نے بھرپور نقل اتار کے بتایا اور ایک بار وہ دونوں پھر ہنس دیے۔

"شرم کرو تم دونوں۔۔۔۔وہ پہلے ہی نروس ہیں اور تم انھیں مزید تنگ کر رہے ہو" احمر نے ان دونوں کو شرم دلانی چاہی۔

"تو پچھلے چار سال سے ہمارے ساتھ ہے اور اب تک ایک پرینک بھی نہیں کیا آج میں تجھ سے پرینک  کروا کر ہی دم لوں گا" علی نے احمر کی بات کو سرے سے نظرانداز کر کے بڑے جوش سے کہا۔

"کوشش کر کے دیکھ لو" احمر نے بڑے اطمینان سے کہا۔

"یہ تم علی احمد کو چیلنج کر رہے ہو یا دھمکی دے رہے ہو" علی نے پوچھنا مناسب سمجھا۔

"دونوں میں سے جس آپشن سے تمھیں زیادہ بہتر سمجھ آتی ہے وہ چن لو" ایک بار پھر اسی اطمینان سے بتایا۔

"لو حیدر بھی آ گیا" حاشر نے مطلع کیا۔

حاشر کے کہنے پر دونوں نے گردن گھما کے دیکھا۔

بھورے بال گرے کانچ سی آنکھیں لمبی مغرور ناک سرخ و سفید رنگت چھ فٹ تین انچ کد۔۔۔۔۔۔۔وہ جس راہ سے گزرتا اس راہ کی ہر نسوانی نظر اس کے وجود کا طواف کیا کرتی تھی۔ وہ کم گو اور رعب دار شخصیت کا مالک تھا۔

حیدر کے ان تک پہنچنے سے پہلے علی،حاشر اور احمر اس کی طرف بڑھ گئے تھے سلام دعا کے بعد حاشر نے کہا۔

"یار حیدر بول نا احمر سے ایک پرینک تو کرے"

"کیوں احمر ہو جائے پھر؟" حیدر نے احمر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"یار تجھے پتا ہے مجھے یہ سب پسند نہیں" احمر نے ہمیشہ کہنے والا جملہ پھر دہرایا۔

" احمر۔۔۔۔ہم سینئرز یہ پراینکس فریشیرز کی نروسنس کو ڈائورٹ کرنے کے لیے کرتے ہیں جس میں ہم کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ہاں ان لوگوں کو آج یہ سب شاید برا لگے لیکن کل یہ انہی یادوں پر مسکرا بھی دیں گے" حیدر نے پہلی بار اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

"یہ دونوں بھرپور طریقے سے کسی کی نروسنس  کو ڈائورٹ  کر کے آ رہے ہیں۔۔۔۔
ریڈ چللی جوس پلا کے" احمر نے ان دونوں کے آج کے کارنامے حیدر کے گوشگزر کر دیے۔

حیدر اب ان دونوں کو گھوری سے نواز رہا تھا تب ہی حاشر، علی کی طرف انگلی کر کے بولا۔

"حیدر یہ علی کا آئیڈیا تھا میں نے تو اس بیچارے کو کینٹین سے کیک بھی کھلایا"

"احمر تو اب کرو گے پرینک ؟" علی نے باتوں کے دوران احمر کی فائل اس کے ہاتھ سے لے لی تھی اور  اب احمر کے آگے لہرا کر پوچھ رہا تھا۔

ایسا ہو سکتا تھا بھلا کوئی علی احمد کو چیلنج کرے اور علی احمد قبول نا کرے۔

"علی یہ غلط ہے" احمر نے دو قدم آگے ہو کے کہا۔

"یہی صحیح ہے" علی نے دو قدم پیچھے ہو کے کمینگی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"میں نہیں کروں گا" احمر نے ایک بار پھر انکار کیا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔تین سیکنڈ کا وقت ہے تمہارے پاس اس کے بعد یہ فائل ردّی بن جائے گی" علی نے فائل کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔

"لیکن میں کروں گا کیا؟" احمر نے ہار مانتے ہوئے کہا کیوں کہ علی سے کوئی بعید بھی نہیں تھی وہ جو کہہ رہا تھا کر بھی دیتا۔

"یہ ہمارا سر درد نہیں ہے" علی نے کہا۔

"البتہ یہ ضرور بتا سکتے ہیں کے کس کے ساتھ کرنا ہو گا" علی نے احمر کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کے کہا۔

"وہ سامنے اس لڑکی کو دیکھ رہے ہو۔۔۔۔بس اسی کے ساتھ" علی نے چاروں طرف اپنی نظر گھومائی اور ایک لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو کالے رنگ کے حجاب میں موجود شال کو اپنے گرد اچھے سے لپیٹے ہوئے تھی اور کافی ڈری ہوئی لگ رہی تھی۔

احمر اس لڑکی کی جانب بڑھنے لگا اسے اس معصوم سی لڑکی کو بیوقوف بنانے کا دل نہیں کیا پھر پیچھے مڑ کے دیکھا حیدر دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہا تھا حاشر اسے آگے جانے کا اشارہ کر رہا تھا جب کے علی فائل کو لہرا رہا تھا۔

اس نے سوچا "ان کو اتنی دور سے آواز تو نہیں جائے گی تو میں اس لڑکی سے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے ان لوگوں سے کہہ دوں گا کہ میں نے لڑکی کو غلط راستہ بتا دیا۔ ہاں یہ صحیح ہے احمر" اس نے خود کو مطمئن کیا اور آگے بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"رانی کہاں گم ہو گئیں؟" زینب نے رانیہ کا کندھا ہلا کے پوچھا۔

"وہ۔۔۔۔زینی میرے اب سمجھ آیا بھائی مجھے کل اتنی نصیحتیں کیوں کر رہے تھے" رانیہ چونکی اور رونی صورت بنا کے کہا۔

"کیوں کیا ہوا؟" زینب نے نا سمجھی سے پوچھا۔

"یار اتنے سارے لڑکے۔۔۔۔ہم اتنے سارے لڑکوں کے ساتھ پڑھیں گے؟" رانیہ نے اپنا مسئلہ بتایا۔

"نہیں یہ سارے ہی تھوڑی ہوں گے" زینب نے اطمینان سے بتایا۔

"زینی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے" رانیہ نے زینب کو بتایا۔

"رانی پہلے تم اپنا چہرا ٹھیک کرو اگر کسی نے دیکھ لیا تو تمھیں ہی اپنے پرینک کا نشانہ بناۓ گا۔۔۔۔۔۔۔رانی ڈرو لیکن ڈر کو خود پر حاوی مت ہونے دو۔۔۔اس پر حاوی ہو جاؤ" پہلے فقرے میں زینب نے رانی کو ڈانٹا جب کے دوسرے میں رانیہ کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا تب ہی رانیہ کو کسی نے مخاطب کیا۔

"اکسکیوز می"

کالے بال، ہری آنکھیں ، لمبی ناک چہرے پے ہلکی بڑھی ہوئی شیو وہ ایک خوش شکل نوجوان تھا۔ وہ خوش اخلاق تھا اور دوسروں کے نظریات سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔

رانیہ پہلے تو گھبرا گئی لیکن پھر اپنے ازلی روپ میں واپس آ کے بولی۔

"کیا مسُلہ ہے آپ کے ساتھ" رانیہ کا لہجہ سامنے والے کو کافی ناگوار گزرا وہ جو پرینک نا کرنے کا ارادہ کر کے آیا تھا اب ترک کر چکا تھا تبھی کہا۔

"آپ کامرس ڈیپارٹمنٹ سے تلعق رکتھی ہیں نا وہ دراصل سر احمد کی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسی لیے آج وہ کلاس بلڈنگ نمبر چھ میں لیں گے آپ وہیں چلے جائیں" اتنا کہہ کے وہ آگے بڑھنے لگا جب اس لڑکی کی آواز نے اس کے قدم روک لئے۔

"اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو کلاس نہیں لینی لیکن آپ کو تو لینی ہے نہ۔۔۔آپ وہاں کہاں جا رہے ہیں غلباً  آپ بھی کامرس ڈیپارٹمنٹ سے ہی تلعق رکھتے ہیں" رانیہ نے اس شخص کے آئی۔ڈی کارڈ کی طرف کافی جتاتی ہوئی نظروں سے اشارہ کیا۔

(آئی۔ڈی کارڈ کی ڈوری کا رنگ کامرس ڈیپارٹمنٹ کو نمایاں کرتا تھا اسی رنگ سے احمر نے رانیہ کے ڈیپارٹمنٹ کا اندازہ لگایا تھا)

اس سے پہلے کے احمر اس پر واضح کرتا کہ وہ نہ تو بی۔بی۔اے کا  سٹوڈنٹ ہے اور نہ ہی فریشر ہے وہ زینب کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ 

احمر ابھی وہیں کھڑا تھا جب بھرپور قہقوں کی آواز نے اس کی توجہ اپنی طرف ملبوز کروائی پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ تینوں موجود تھے وہ جو سوچ رہا تھا وہ تینوں دور کھڑے رہیں گے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا وہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن چکے تھے علی اور حاشر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے جب کہ حیدر سر جھکاۓ اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا۔ احمر کا موڈ کافی خراب ہو چکا تھا اسی لیے علی کے ہاتھ سے اپنی فائل جھپٹی اور اپنی کلاس کی اُور بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر عباس ،احمر وقار ،علی احمد اور حاشر منیر چاروں کی دوستی اسی یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی ان سب ہی نے بی۔بی۔اے ساتھ کیا تھا اور اب ایم بی اے کر رہے تھے۔

چاروں ہی پڑھنے میں زہین تھے لیکن حیدر عباس کا نام یونیورسٹی کے بہترین طالبعلموں کی فہرست میں صف اول تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب اور رانیہ کا پہلا دن کافی اچھا گزرا تھا وہ دونوں مطمئن تھیں اور آج کافی تھک گیئں تھیں۔

رانیہ کو واپسی میں انس احسن نے پک کر لیا تھا۔ جب کے زینب یونیورسٹی سے ڈائریکٹ اپنے جاب کے لیے نکل گئی تھی۔

زینب نے بچپن سے ہی کمانا شروع کر دیا تھا یتیم خانے میں سلائی کڑھائی سکھائی جاتی تھی۔ زینب  سلائی کڑھائی کرتی اور والیواللہ اس کو بازار میں بیچ کے آتے اور زینب کا معاوضہ امانت سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیتے اور زینب کو رقم احتیاط سے خرچ کرنے کی تلقین کرنا کبھی نہ بھولتے۔

زینب نے جب میٹرک کر لیا تو پھر بچوں کو ٹوشن   دینا شروع کیا اور انٹر کے بعد وہ ایک کمپنی میں جاب کر رہی تھی جہاں زینب  کو اچھی خاصی تنخواہ مل جاتی تھی۔ زینب نے والیواللہ کے کہنے پر یتیم خانے کو خیر آباد کر دیا تھا اور اب ایک کرائے کے مکان میں رہ رہی تھی۔

زینب والیواللہ کی زندگی میں بھی اور بہت سے یتیموں کی طرح بہت سے دکھ و درد تھے لیکن ایک درد وہ تھا جس سے ابھی تک زینب والیواللہ کو آزمایا نہیں گیا تھا ایک راز تھا جس سے اب تک زینب والیواللہ بے خبر تھی ایک پردھا اٹھنا ابھی باقی تھا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top