نیا سفر
رات کے تیسرے پہر اس کی آنکھ کھلی کمبل کو ایک طرف کر وہ بستر سے اٹھتی واشروم میں چلی گئی اور وضو کر کے باہر آئی تہجد کی نماز ادا کی اور جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو لب بلکل ساکت تھے دماغ ہر قسم کی سوچ سے پاک تھا کافی دیر مصلحے پے بیٹھے رہنے کے بعد اس نے اپنے دعائی ہاتھ چہرے پے پھیر لئے اور ایک بار پھر سونے کے لیے لیٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی اذان اس کے سماعتوں سےٹکرائیں تو وہ ایک بار پھر ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی فجر ادا کرنے کے بعد اس نے اپنا رخ چکن کی جانب کیا اور فریج سے پھل نکالے جو وہ کل لے کر آئی تھی اور اپنی واڈروب سے کچھ شاپنگ بیگز نکالے اور ساتھ ہی اپنا یونیورسٹی بیگ بھی تیار کیا۔
سورج کی روشنی چاروں اور پھیل گئی تھی۔ اسکول کی وینس باہر کھڑیں بچوں کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ روڈون پر ٹرافک کی آمدورفت شروع ہو گئی تھی لوگ اپنا نرم گرم بستر چھوڑے روزگار کی تلاش میں نکل گئے تھے۔
مینروڈ پر آ کے اس نے ایک رکشا ہیئر کیا اور اپنی منزل کی طرف گامزمان ہو گئی۔ آج اس کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہونے جا رہا تھا اور اپنے ہر سفر میں وہ اپنے اصل کی طرف رخ کرنا نہیں بھولتی تھی آج بھی نہیں بھولی تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ ایک بڑے سے گیٹ کے باہر کھڑی تھی گیٹ کے اوپر بڑا سا بورڈ لگا تھا جس پے ایک تحریر موجود تھی"اِینجلس اورفینج "۔ یہ یتیم خانہ کافی بڑا تھا۔ زینب نے اپنی زندگی کے سولہ سال اسی یتیم خانے میں گزارے تھے وہ آنکھ بند کر کے بھی اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ سکتی تھی۔
اس نے خان بابا کو سلام کیا اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔ اندر ایک بڑا سا میدان تھا اور اس کے گرد کئی عمارتیں موجود تھیں وہ ایک بڑی راہداری سے ہو کر والی بابا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ کمرے کے باہر کھڑے اس کی نظر اندر بستر پر بیٹھے شخص پر پڑی سفید لباس زیب تن کئے سر پر ٹوپی پہنے چہرے پر سفید داڑھی موجود تھی ان کا چہرہ پررونق تھا جو اس وقت قرآن کی تلاوت کرنے میں محو تھے۔
دروازے کو دستک دے کے وہ اندر کی جانب بڑھی۔ والی بابا نے جب سر اٹھا کے دیکھا تو انھیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی زینب نے مسکرا کر انھیں سلام کیا۔
"اسلام و علیکم بابا"
"وعلیکم اسلام " والیواللہ نے قرآن کو بند کر کے احتیاط کے ساتھ الماری کے اندر رکھا اور اپنا ہاتھ زینب کے سر پر پھیر کر جواب دیا۔
والیواللہ نے کمرے میں رکھے صوفوں کی طرف زینب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔
"زینی بیٹے! کمزور لگ رہی ہو" پریشانی سے پوچھا گیا۔
"آپ کی زینی کمزور نہیں ہے بابا" والیواللہ کی طرف دیکھ کے جواب دیا گیا۔
"میں صحت کی بات کر رہا ہوں زینی" والیواللہ نے خفگی سے جواب دیا۔
"ٹھیک نہیں ہے تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔آپ پریشان مت ہوں" زینب نے اپنی طرف سے انھیں اطمینان کرنا چاہا۔
"سب ٹھیک ہے نا زینی؟" والیواللہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئے تھے۔
"شاید" زینی نے آہستہ آواز میں سر جھکا کے جواب دیا۔
"زندگی پرسکون ہے ؟" ایک بار پھر سوال کیا گیا۔
(وہ کہنا چاہتی تھی زندگی تو کبھی پرسکون نہیں رہی میرے لیے لیکن بس اتنا ہی کہا )
"پتا نہیں"
"زینی تم اپنے لیے دعا کیا کرو۔۔۔۔اللہ کو وہ سوالی زیادہ پسند ہیں جو براہراست اس سے اپنے لیے کچھ مانگتے ہیں۔۔۔۔تم اپنے لیے جس تڑپ سے اللہ سے مانگ سکتی ہو کوئی دوسرا نہیں مانگ سکتا" وہ زینب کے جوابات سے پریشان ہو گئے تھے اسی لیے سمجھانا بہتر سمجھا۔
"میں دعا میں کیا مانگو بابا ؟" زینب نے اس بار والیواللہ کی طرف دیکھ کے سوال کیا۔
"جو تم چاہتی ہو تمہارا ہو وہ اللہ سے مانگ لو" والیواللہ صاحب ایک بار پھر پریشان ہوئے تھے تو کیا اس عمر میں زینب کے پاس مانگنے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ سوچ کر ہی رہ گئے۔
"اور اگر نا ملا تو ؟" زینب نے ایک اور سوال کیا۔
"یقین سے مانگو گی تو ضرور ملے گا۔۔۔۔۔اور اگر نا ملا تو اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی" دوسرا فقرہ تھوڑا ٹھہر کے ادا کیا۔
"جو چیز اللہ نے مجھے نہیں دی میں وہ اللّہ سے مانگنا بھی نہیں چاہتی۔۔۔اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی" زینب نے والیواللہ کو لاجواب کیا تھا۔
تھوڑی دیر گزری تھی جب زینب نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔
"اور بابا اگر مانگ بھی لوں تو کیا وہ لوگ مل جائیں گے جو ہیں ہی نہیں" وہ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو رگڑ رہی تھی جیسے لکیروں کو مٹا دینا چاہتی ہو۔
"اور اگر وہ مل گئے تو" والیواللہ نے بساختہ کہا تھا۔
"کیا مطلب" زینب نے سر اٹھا کر والیواللہ کی طرف بے یقینی سےدیکھا تھا جو اب گھبراۓ ہوئے لگ رہے تھے۔
"زینی اپپی۔۔۔۔زینی اپپی۔۔۔۔زینی اپپی" دعا کی آواز نے زینب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی جس پر والیواللہ نے شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔
دعا آسیہ بیگم کی بیٹی تھی جو زینب کو پسند نہیں کرتیں تھیں وہ بیوہ تھیں اور اسی یتیم خانے میں کافی عرصے سے جاب کر رہیں تھیں اور ان کا گھر بھی یتیم خانے کے قریب ہی تھا۔
یقیناً دعا زینب کا سن کر یہاں چلی آئی تھی۔ زینب کی اس پانچ سالہ معصوم سی گڑیا سے کافی اچھی دوستی تھی۔
والیواللہ ناشتے کا انتظام کرنے چلے گئے تھے وہ جانتے تھے زینب ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ ہی ناشتہ کرے گی۔
"یہ تمہارے لئے" زینب نے دعا کے آگے ایک شوپر بڑھا کے کہا۔
"واؤ۔۔۔۔۔آئی۔لؤ۔۔یو۔۔۔زینی اپی۔۔۔۔۔۔اٹس اوسم"
دعا نے شوپر میں سے جب پینٹ کلرز دیکھے تو وہ بے تحاشا خوش ہو گئی اور زینب کے گلے لگ کر کہا زینب بھی مسکرا دی۔
"تمہیں رنگ سجانا اچھا لگتا ہے نا؟" زینب نے پوچھا۔
"بہت۔۔۔۔۔۔۔کیوں آپ کو اچھا نہیں لگتا؟" دعا نے پہلا فقرہ اپنی گول گول آنکھوں کو بڑا کر کے بولا۔۔۔۔جب کے اگلا فقرہ پے اس کے چھوٹے سے ماتھے پر شکنے ابھری تھیں۔
"نہیں" ایک لفظی جواب آیا۔
"کیوں؟" دعا کے ماتھے پر ایک بار پھر شکنے ابھریں تھیں۔
"جن کی زندگی بے رنگ ہو انھیں پھر رنگ اچھے نہیں لگتے" زینب نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
"میں بھر دوں گی رنگ آپ کی زندگی میں۔۔۔۔۔آپ اگلی بار آئیں تو ساتھ لے کر آیے گا" دعا نے بڑی معصومیت سے اپنی خدمات فراہم کرنے کی آفر کی۔
زینب کو حیرت ہوئی اس نے دعا کو غور سے دیکھا جس کی گول گول آنکھوں میں چمک تھی بلیک کلر کی فراک میں بالوں کو مانگ نکال کر دو مونیاں بنائی گئیں تھیں گلابی گلابی گال۔۔۔۔زینب کو اس وقت وہ کوئی معصوم سی پری لگ رہی تھی زینب نے آگے بڑھ کر اس کا گال چوما اور جواب دیا۔
"میں لے آوں گی"
اتنے میں والیواللہ کمرے میں داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی انہوں نے اسے ٹیبل پر رکھا اور زینب کو مخاطب کیا۔
"آجاؤ زینی بیٹے ناشتہ کر لو۔۔۔آپ بھی آجاؤ دعا" پہلا فقرہ زینب سے جب کے دوسرا دعا سے کہا گیا۔
"والی با۔۔۔۔آپ کھا لیں میں یہ ماما کو دیکھا کر آتی ہوں" دعا والیواللہ کو والی با کہا کرتی تھی۔
والیواللہ کو جواب دے کر بھاگتی ہوئی کمرے سے چلی گئی تھی۔
" بابا وہاں کچھ سامان رکھا ہے وہ اپنے پاس رکھ لیجئے گا" زینب نے پرانٹھے کا لقمہ لیتے ہوئے کہا۔
"زینی تمہیں اب اپنی یہ عادت چھوڑ دینی چاہیے" ناراضگی سے کہا گیا۔
"عادتیں بڑی مشکل سے چھوٹی ہیں بابا" بڑی دل کش مسکراہٹ کے ساتھ زینب نے کہا۔
"کوشش تو کی جا سکتی ہے" والیواللہ ابھی بھی ناراض لگ رہے تھے۔
"میں کوشش بھی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں بابا آپ کو اچھا نہیں لگتا؟" اب کی بار زینب نے سنجیدگی سے کھانے سے ہاتھ روک کے پوچھا۔
"بات اچھے لگنے یا نا لگنے کی نہیں ہے زینی۔۔۔۔۔۔۔ بات تمہاری رقم کی ہے جو تم مجھ بوڑھے پر خرچ کر رہی ہو۔۔۔۔۔تمھیں اسے سنمبھال کر رکھنا چاہیے"
والیواللہ زینب کے اس طرح ان کی ذات پر پیسے خرچ کرنے پر ناراض تھے۔۔۔۔۔ایسا نہیں تھا انھیں برا لگتا تھا۔۔۔۔۔وہ خوش ہو جاتے تھے اس قدر اپنایت پر لیکن انھیں زینب کے بارے میں بھی سوچنا تھا۔
"بابا آپ کی زینی کے پاس رقم ٹھر جاتی ہے خوشی نہیں ٹھرتی" زینی نے سر جھکا کے جواب دیا۔
"اسلام و علیکم بابا" ان کی باتوں کے تسلسل کو رانیہ کی آواز نے تھوڑا تھا وہ دونوں یک دم رانیہ کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور سلام کا جواب دیا۔
"بابا آج ہمارا پہلا دن ہے تو آپ کو ہمارے لیے دعا کرنی ہے کہ ہمارا دن اچھا گزر جائے۔۔۔۔۔اور ہم کسی بھی قسم کی جھڑپ سے بچ جائیں" رانیہ بابا کو دعا کرنے کی درخواست نہیں کر رہی تھی وہ حکم سنا رہی تھی جسے والیواللہ سرجھکائے مسکراتے ہوئے سن رہے تھے۔
"بابا میں چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے" رانیہ کو نظر انداز کر کے والیواللہ سے زینب نے کہا جنھیں اس کی ناراضگی کا علم بخوبی تھا۔
"ہاں اب ہم چلتے ہیں" رانیہ کے بولنے پر زینب نے اسے گھوری سے نوازا۔
"جیتی رہو خوش رہو اور کامیاب بھی" والیواللہ نے دونوں کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی جس پے رانیہ نے باقاعدہ دونوں ہاتھ منہ پر پھیر کے آمین کہا۔
زینب اور والیواللہ مسکرا دئے لیکن زینب نے جلد اپنی مسکراہٹ چھپا لی تھی اور والیواللہ کو اللہ حافظ کہہ کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
"دعا کیجیے کا اس چڑیل کا موڈ بھی ٹھیک ہو جائے" رانیہ نے رازدانہ انداز میں کہا کہیں زینب سن ہی نا لے جس پر والیواللہ کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
پھر رانیہ بھی والیواللہ کو دعائی الفاظ کہہ کے تقریباً بھاگتی ہوئی باہر آ گئی اور زینب جو کے گیٹ سے باہر جانے ہی والی تھی اس کو ہاتھ پکڑ کے روک لیا۔
"زینی اچھا نا سوری" رانیہ نے چھوٹتے ہی کہا۔
"میں نے کتنی دفع کہا ہے تمہیں مجھے تمہاری پک اینڈ ڈراپ سروس نہیں چاہیے" زینب نے غصّے سے کہا وہ رانیہ کی اس حرکت سے تنگ آ گئی تھی پہلے اسکول اور کالج اور اب۔۔۔۔۔اب یونیورسٹی بھی وہ اسے جتنی بار منع کرتی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔
"اچھا نا ابھی تو چلو۔۔۔۔۔دیکھو ٹائم ہورہا ہے ایسا نا ہو ہم لیٹ ہوجائیں اور پہلے ہی دن ہماری عزت پر چار چاند لگ جائیں " رانیہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی اور کالائی پے بندھی گھڑی زینب کے سامنے کی۔
"تم کل سے مجھے لینے نہیں آؤ گی" انگلی اٹھا کر وارن کیا گیا۔
"بلکل بھی نہیں" رانیہ نے فرمابرداری سے کہا۔
"نہیں تو میں ناراض ہو جاؤں گی" زینب نے باور کرایا۔
"ٹھیک ہے" رانیہ نے بلاتوقف کہا۔
"اور بات بھی نہیں کروں گی" زینب نے ایک بار پھر کہا دراصل اسے رانیہ کی اتنی فرمابرداری ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
"ٹھیک ہے" رانیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"اور اب تم ہنسو گی بھی نہیں" زینب نے رانیہ کے لبوں پر دبی دبی سی مسکرات دیکھ لی تھی۔
"بلکل بھی نہیں" رانیہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
"رانی۔۔۔۔۔۔۔" زینب نے گھور کر کہا۔
"اچھا چلو بھی سوری نا" رانیہ اسے اپنے ساتھ کھینچتی ہوئی کار تک لائی جہاں انس بھائی انہی دونوں کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور گاڑی روڈ پر ڈال دی۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top