مقابل
وہ اس وقت اپنی شاندار سی لینڈ کرسر کے بونٹ پے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا اور اس سے کچھ دور فاصلے پر احمر کھڑا تھا اور حیدر کے آج کے روایے کے بارے میں سوچ رہا تھا اس کے دائیں جانب علی ایک کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اور حیدر کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ٹھیک اس کے ساتھ کھڑا حاشر بھی آج کے واقعئے کے بارے میں ہی سوچ ویچار کر رہا تھا ان میں سے کوئی بھی حیدر سے اُس وقت اس متعلق بات کرنے کی ہمّت نہیں رکھتا تھا کیوں کہ حیدر عبّاس میں اگر کچھ برا تھا تو وہ اس کا غصّہ تھا اور وہ غصّے کا بے حد تیز تھا۔
انہیں یہاں کھڑے آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تھا لیکن اب تک ان میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے کیا ہوا ہو گا" علی نے حیدر پے نظریں جمائے حاشر سے سرگوشی میں پوچھا۔
"جہاں تک میرا دماغ کہتا ہے۔۔۔" حاشر ابھی کہہ ہی رہا تھا جب علی نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کے اس کی بات کاٹی اور کہا۔
"ایک سیکنڈ"
"کیا ہوا" حاشر نے چونک کے پوچھا۔
"پہلے تو یہ بتاؤ تمہارے پاس دماغ آیا کہاں سے؟"
علی نے حیرانی کی بھرپور اداکاری کر کے پوچھا۔
"چین سے امپورٹ کرایا ہے" حاشر نے تپ کے کہا۔
"واہ چین نے کافی ترقی نہیں کر لی خیر تم لوگ تو فائدے میں ہو اصلی نہیں تو کیا ہوا نقلی سے ہی کام چل تو رہا ہے" علی نے سنجیدگی سے تبصرہ کیا۔
"تم کبھی سریس بھی ہو جایا کرو" حاشر نے غصّے سے کہا۔
"میں نے سوچا تھا" علی نے کہا۔
"سیریس ہونے کے بارے میں؟" حاشر نے حیرانی سے آئ برو اچکا کے پوچھا۔
"ہاں پھر میں نے سوچا جس دن علی احمد سیریس ہو گیا اس دن تم سب کو چارسو چالیس ووڈ کا نہ صرف جھٹکا لگے گا بلکہ ہو سکتا ہے تم لوگ کوما میں بھی چلے جاؤ اس لیے میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا"
"بڑی فکر ہے تجھے ہماری" حاشر نے دانت پیس کے کہا۔
"کیا کروں عادت سے مجبور ہوں" علی نے رحم دلانا انداز میں کہا۔
"اس میں کوئی شک نہیں" حاشر نے طنز کیا۔
"ویسے مجھے لگتا ہے ہمارا آخری سال کافی رنگین ہونے والا ہے" علی نے ایک نظر حیدر کو دیکھ کے کہا۔
"وہ کیوں" حاشر نے ماتھے پے شکنے لئے پوچھا۔
"آج جو کچھ ہوا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے حیدر نے اپنا ریکارڈ توڑا ہے۔۔۔۔یہ جنگ کافی طویل ہونے والی ہے" علی نے اپنی طرف سے بڑی پتے کی بات حاشر کو بتائی۔
"تم جب بھی منہ کھولنا بکواس ہی کرنا" حاشر نے دانت پیس کے کہا۔
"میں تو پیشنگویاں کر رہا ہوں اب تمہیں ہضم نہیں ہو رہیں تو وہ الگ بات ہے" علی اطمینان سے کہا۔
"علی بابا آپ کے چالیس چور کہاں ہیں" حاشر نے پوچھا۔
"چالیس کا تو نہیں پتا پر ایک میرے سامنے ہے اور مرنے کی درخواست کر رہا ہے" علی نے چبا چبا کے کہا اور حاشر نے اس کی دھمکی سن کر چپ سادھ لی۔
یہ دونوں ہلکی آواز میں اپنی باتوں میں مصروف تھے جب احمر کو حیدر کی طرف بڑھتا دیکھا تو خود بھی اس کے ساتھ ہو لئے۔
"یہ سب کیا تھا حیدر؟" احمر نے حیدر سے پوچھا۔
"کیا سب" حیدر نے سر اٹھایا اس کا غصہ کم ہو گیا تھا پر وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا فلحال تو بکل بھی نہیں۔
"اس کنٹریکٹ کو لے کر کیا تمہاری کوئی بات یا کوئی جھگڑا ہوا تھا زینب سے" احمر نے اپنے اندازے سے پوچھا جو کے ہر گز غلط نہ تھا۔
"اب تک جو بات ہوئی ہے وہ تم سب کے سامنے ہی ہوئی ہے اور آگے بھی جو بات ہو گی وہ تم سب کے سامنے ہی ہو گی" حیدر نے بونٹ سے نیچے اتر کے مضبوط لہجے میں کہا اور گلاسس لگائے۔
حیدر نے گاڑی کی چابی احمر کی شرٹ پاکٹ سے نکالی اور چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے گھر میں بیٹی ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا اور انہوں نے اب تک اس کا چہرہ بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا۔ بیوی کے ساتھ ان کا روایہ پہلا سا ہی تھا وہ اس کو اب بھی عزت اور محبت دیتے تھے لیکن اگر کسی کے وجود سے انکاری تھا تو وہ ان کی اپنی ہی بیٹی تھی۔
وہ ہاتھ میں فائل لئے بیڈ پے بیٹھے اس کا مطالع کر رہے تھے جب اس کی بیوی ہاتھ میں ایک مہینے کی پھول سی بچی کو لے کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ وہ دیکھ کر بھی انجان بن رہے تھے ۔
"یہ بیٹی ہے آپ کی" انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا۔
"جانتا ہوں" وہ انجان بننا چاہتے تھے لیکن بن نہیں سکے۔
"آپ کیا اس سے نفرت کرتے ہیں" انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
"نہیں۔۔۔پر بیٹیوں کے باپ کے کندھے جھک جاتے ہیں اس معاشرے کے سامنے" انہوں نے توجہی پیش کی۔
"جھکنا تو خدا کو پسند ہے اکڑ تو مردے میں بھی ہوتی ہے جو انسان کو انسان بنائے وہ عاجزی ہی تو ہوتی ہے" انہوں نے سمجھایا۔
"بیٹیوں کے باپ کو اس معاشرے میں ڈر ڈر کے جینا پڑتا ہے انھیں ہر وقت اپنی عزت کا خدشہ لگا رہتا ہے" انہوں نے ایک اور ڈر ظاہر کیا۔
"بیٹیوں کے باپ کو اپنی بیٹیوں کو صرف محبت کے بیچ سے ہی نہیں بونا ہوتا انھیں عزت دیں انھیں اعتبار دیں ان کو بولنے کا حق دیں انہیں فیصلہ کرنے کا حق دیں انہیں سنے۔۔۔۔پھر چاہے اگر وہ غلط ہوں تو انہیں سمجھائیں بھی اور آپ دیکھیں گے وہ ایسی مضبوط لاٹھی بننے گیں جنہیں والدین اپنے بڑھاپے میں بیٹوں میں ڈھونڈتے ہیں" انہوں نے اپنے آنسو صاف کر ایک بار پھر ان کو سمجھایا۔
"اور آپ کو لگتا ہے اتنی آزادی کے بعد عزت محفوظ رہے گی" انہوں نے نظریں اٹھا کہ براہراست ان کی آنکھوں میں دیکھ کے پوچھا۔
"انھیں اتنی آزادی دیں کہ وہ آپ کی محبت میں قید ہو جائیں پھر وہ اپنی خواہشات کو رد آپ کے ڈر سے نہیں آپ کی محبت اور اپنی خوشی سے کریں گی۔۔۔۔آپ کو کیا لگتا ہے ایک ایسی بیٹی جسے باپ مارتا پیٹتا ہے وہ کیوں چپ چاپ ایک دن کسی عمر رسیدہ مرد سے شادی کر لیتی ہے وہ اپنی تربیت کی قیمت ادا کرتی ہے جو والدین اس سے مانگ رہے ہوتے ہیں جب اسی بیٹی کو آپ عزت محبت اعتبار دیں گے تو آپ خود سوچیں کہ وہ آپ کو کیا نہیں دے گی۔ یہ بیٹیاں بڑی سخی ہوتی ہیں والدین کچھ مانگے تو یہ اپنی ہی خوشیوں کے جنازے بھی نکل دیتی ہیں یوں ہی تو نہیں اتنے شاعروں نے اپنی محبوباؤں کو ظالم کہا ہے یہ ظلم بھی ان بیٹیوں نے اپنے والد کی عزت کے تاج بلند کرنے کے لیے ہی کئے ہیں"
"لوگ کہتے ہیں بیٹیاں عذاب ہوتی ہیں" ایک آخری گرھا تھی جو وہ کھولنا چاہتے تھے۔
"قران میں کہی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
(اور وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں)
ہمیں لگتا ہے کسی کو تکلیف پنہچا کر ہم نے اس پر ظلم کیا ہم نے اس پر نہیں ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا جو لوگ کہتے ہیں بیٹیاں عذاب ہوتیں ہیں تو وہ ظلم کر رہے ہیں اپنی ہی ذات پر بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتیں ہیں اور اللہ کی رحمت کو عذاب کہنے والوں پر پھر عذاب ہی نازل ہوتے ہیں"
اس نے بڑی نرمی سے اپنی بیوی کی گود سے اسے اٹھایا وہ اپنی بڑی بڑی کالی آنکھیں کھولے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے جھک کے اس کے ماتھے پے بوسہ لیا تو وہ ننھی سی کلی مسکرا دی اور اس کو یوں مسکراتے دیکھ وہ دونوں بھی نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیے۔
"میری اس سے محبت کی وجہ صرف ایک ہے کہ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔۔۔۔تم ٹھیک کہتی ہو میں نے خود پے ظلم کیا اس سے اتنے دن دور تھا ایسا لگ رہا تھا کسی عذاب میں ہوں اس کی ایک مسکراہٹ نے میرے دل میں ٹھنڈک اتار دی ہے" انہوں نے اسے خود سے اور قریب کر لیا اور اس کا منہ چومنے لگے۔
"میرے ہم سفر ہونے کا شکریہ" انہوں نے اپنی بیوی کا ہاتھ تھام کے کہا۔ بے شک وہ ایک بہترین ساتھی تھیں۔
"مجھے اپنا ہمسفر بننانے کا شکریہ" انہوں نے انہی کے انداز میں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیدر عبّاس اسی کنٹریکٹ کی بات کر رہا تھا جس کو تم نے انکار کر دیا تھا؟" نور نے زینب سے پوچھا۔
"ہاں" زینب نے ہلکی آواز میں جواب دیا۔
"زینی مجھے اس کے تیور صحیح نہیں لگ رہے تھے میں اس بارے میں انس بھائی سے بات کروں گی" رانیہ نے پریشانی سے کہا۔
"خبردار۔۔۔خبردار اگر تم نے اس بارے میں کسی کو کچھ بھی بتایا" زینب نے رک کے رانیہ کو وارن کیا۔
"لیکن ایسے تو۔۔۔۔" نور نے کچھ کہنا چاہا لیکن زینب نے اس کی بات کاٹ دی۔
"میں ان میں سے نہیں ہوں جو ضرورت پڑنے پر اپنے دوستوں کو ھتیار بنا کر استعمال کرتے ہیں مجھے میری جنگیں خود لڑنے دو مجھے پتا ہے تم دونوں کو میری فکر ہے لیکن مجھے خوشی تب ہو گی جب تم دونوں مجھ پر بھروسہ بھی کرو میں تم دونوں کو یہ یقین دلاتی ہوں کہ جب کبھی بھی مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہوئی میں ضرور لوں گی لیکن ابھی اپنے مسائل مجھے خود حل
کرنے دو" زینب نے ان دونوں کے ہاتھ تھام کے کہا۔
زینب نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے کوئی بھی تکلیف اٹھائے اسی لیے ان دونوں کو منع کیا۔
"ٹھیک ہے" رانیہ اور نور نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر یک زبان ہو کر کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لائبریری میں بیٹھی منہ میں قلم دبائے کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھی اور وہ ٹھیک اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا لیکن رانیہ دنیا و مافیا سے بے نیاز اپنی کتاب میں اتنی محو تھی کہ اس کو دیکھا ہی نہیں تھا۔
اس نے رانیہ کی کتاب پر دستک کے انداز میں بجایا تو رانیہ ہوش کی دنیا میں آئی اور نظریں اٹھا کے دیکھا تو اس کا منہ کھلا جس کی وجہ سے منہ میں دبا اس کا پین کتاب پر جا گرا۔ رانیہ نے کتاب اٹھائی اور ایک بار پھر فرار کی راہ لی۔
احمر اس کی اس حرکت پر مسکرایا اور اس کے پیچھے ہی چل دیا۔
اس نے پلر کی اوٹ سے چھپ کر راہداری پر نظر ڈالی جہاں ایکا دکا ہی سٹوڈنٹس چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے رانیہ مطمئن ہو کے پیچھے چھپی اور ایک گہری سانس لینے کے بعد کہا۔
"بچ گئی"
"بچ گئی نہیں پھنس گئیں ہیں آپ"
احمر کی آواز سن کے رانیہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی وہ اس کے سامنے کھڑا تھا فرار کے سارے راستے بند تھے۔ رانیہ نے منہ پھلائے اوپر کی جانب دیکھا جیسے اللہ سے کہہ رہی ہو اسے کیوں بھیج دیا۔
وہ ابھی اوپر ہی دیکھ رہی تھی جب احمر نے اسے پہلے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں خود بھی آسمان کی طرف سمت کر کے دیکھا اور وہاں کچھ نا پا کر رانیہ کو دوبارہ مخاطب کیا۔
"مس رانیہ"
"جی۔۔۔۔آپ۔۔۔۔میں نے تو آپ کو دیکھا ہی نہیں" رانیہ انجان بنی۔
"جی وہ تو آپ جن دیکھ کے بھاگیں تھیں" احمر نے اپنی ہنسی دبائی اور اس کا دیا ہوا لقب اسے یاد دلایا۔
رانیہ اس کی بات پر جھینپ گئی۔
"خیر ہمیں سر احمد نے کام دیا ہے جو ہمیں ساتھ کرنا ہے میں اسی سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں۔۔۔۔دیکھیں اگر آپ کو ہماری پہلی ملاقات کے حوالے سے کوئی ڈر ہے تو اسے اپنے دل سے نکل دیں میں ہر گز ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر انتقامی کروائی کرتے ہیں اس دن جو کچھ بھی ہوا میں مانتا ہوں غلطی میری تھی مجھے اتنی جلدی react نہیں کرنا چاہیے تھا اور مجھے اچھا لگا کہ آپ میری باتوں میں نہیں آئیں ہم دونوں ہی اسٹوڈنٹ ہیں اور اسٹوڈنٹ لائف میں یہ سب چلتا رہتا ہے آپ بے فکر ہو جائیں میری طرف سے۔۔۔میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پوھنچاوں گا کیوں کہ میں عورتوں کی عزت کرنا جانتا ہوں" احمر نے رانیہ کو اپنی طرف سے مطمئن کرنا چاہا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔
"یقیناً آپ کو عورتوں کی عزت کرنی آتی ہو گی لیکن کیا لڑکیوں کی عزت کرنا آتی ہے؟" رانیہ کو احمر کا عورت کہنا بے حد ناگوار گزرا تھا۔
"جی الحمداللہ" احمر رانیہ کی بات پر چونکا اور دھمیے سے مسکرا کے جواب دیا۔
"اگر آپ اجازت دیں تو ہم چلیں کام کرنے؟" احمر نے پوچھا۔
"کہاں؟" رانیہ نے ماتھے پے شکنے لئے پوچھا۔
"جہاں سے آپ ابھی بھاگ کے آئیں ہیں" احمر نے مسکرا کے کہا۔
"جی ضرور" رانیہ نے اعتماد سے کہا اور آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسلام و علیکم مس زینب" حاشر نے زینب کو مخاطب کیا جو بریک ٹائم میں بھی کلاس میں ہی تھی اور اپنے دفتر پر جھکی ہوئی کچھ لکھ رہی تھی۔
زینب نے گردن اٹھا کے آنے والے کو دیکھا۔ کالی آنکھیں کالے بال جو کے جیل سے سیٹ کئے گئے تھے اور گندمی رنگت کا یہ لڑکا رائل بلیو شرٹ اور بلیو ہی جینس زیب تن کئے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لئے اسکے جواب کا منتظر تھا۔
زینب نے اسے پہچان لیا تھا اسے اس نے اکثر اور بیش تر حیدر کے ساتھ ہی دیکھا تھا۔
"وعلیکم السلام" زینب نے اپنی ازلی بے نیازی سے جواب دیا اور ایک بار پھر اپنے دفتر پر قلم چلانے لگی۔
ایسے نہیں تھا کہ حاشر اس کے اس طرح سے اگنور کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا ظاہر ہے وہ حیدر کا دوست تھا اور حیدر نے اس کی راہوں میں پھول تو بیچھائے نہیں تھے کہ وہ اس سے خوش دلی سے بات کرتی اور حیدر کا دوست ہونے کے ناتے وہ حاشر کو بھی اسی زمرے میں لے رہی تھی۔
"مس زینب میں حاشر منیر ہوں مجھے سر احمد کے پروجیکٹ کے سلسلے میں بات کرنی تھی آپ سے " حاشر نے ایک بار پھر بات کرنے کی کوشش کی۔
"بولیں" زینب نے دفتر میں پین رکھ اسے بند کیا اور پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
"سر احمد نے اسائنمنٹ دیا تھا آپ کو جس میں میری کارپوریشن کا کہا تھا بس یہی پوچھنے آیا ہوں ہم کب سے کام شروع کر سکتے ہیں آپ بتا دیں جیسا آپ کو مناسب لگے" حاشر نے شاہستگی سے پوچھا۔
اس کو اس طرح کی نا قادری پر غصّہ بھی آیا زینب پر نہیں حیدر پر کیوں وہ اس کو تنگ کر رہا تھا کیوں لڑ رہا تھا ظاہر ہے کوئی بھی لڑکی ہوتی وو یہی کرتی۔
زینب کو یہ لڑکا اچھا لگا وہ کتنی عزت سے بات کر رہا تھا اور کہاں حیدر جسے بات کرنے کی تمیز ہی نہیں تھی اور پھر اس کو اگنور کرنے کا کیا فائدہ غلطی تو حیدر کی تھی نا زینب نے سوچا۔
"جی میں نے بننا لیا ہے آپ چیک کر لیں ایک بار ٹھیک ہے یا نہیں" زینب نے بیگ سے اپنا سمال سائز لیپ ٹاپ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
حاشر کو دھچکا لگا کیا کل ہی تو سر احمد نے اسائنمنٹ دیا تھا اور یہ لڑکی بننا بھی لائی تھی۔ یونیورسٹی میں اس کی قابلیت کے چرچے تو سننے تھے پر یہ قابلیت کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی۔
حاشر نے جلدی سے نشست سنمبھالی اور لیپ ٹاپ پر نظریں جمائیں جہاں زینب نے ایک فائل اوپن کر دی تھی۔
وہ چند سیکنڈ یوں ہی سکرین کو دیکھتا رہا اور پھر زینب کی جانب پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔
"کیا ہوا کچھ غلط ہے کیا" زینب نے اس کے دیکھنے کے اندز سے پریشان ہو کے پوچھا۔
"یہ آپ نے بنایا ہے" حاشر نے اپنے تاثرات کو نارمل کر کے پوچھا۔
"جی"
"کتنے وقت میں" حاشر کا اشتیاق بڑھا۔
"کل رات میں۔۔۔۔۔ اب آپ بتائیں گے بھی کیا ہوا ہے" زینب جھنجلا گئی تھی لیکن پھر بھی اپنے لہجے کو حتا و امکان نرم بننا کر کہا۔
"اٹس ٹوٹلی پرفیکٹ۔۔۔۔۔ہوںنہ۔۔۔۔۔ناٹ جسٹ پرفیکٹ۔۔۔۔اٹس مور دٙئین پرفیکٹ"
(ITS totally perfect....hnh...not just perfect it's more than perfect)
حاشر نے اپنے ہی جملے کی تصیح کرتے ہوئے ستائشی انداز میں کہا۔
"آج یقین آ گیا آپ کی قابلیت پے" حاشر نے زینب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیوں پہلے نہیں تھا کیا" زینب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
حاشر نے اس کی مسکراہٹ دیکھ سوچا یہ لڑکی مسکراتی بھی ہے۔
"نہیں ایسا نہیں ہے لیکن تب صرف سننا تھا آج دیکھ بھی لیا" حاشر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ کا لیول ہی الگ ہے آپ کو میری کیا کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔پتا نہیں سر احمد نے کیا سوچ کر مجھے آپ کی مدد کے لئے چنا" حاشر نے مسکراتے ہوئے کنفیوزڈ انداز میں اپنے بال خھوجائے۔
"شاید اس لیے کے آپ مجھ سے کچھ سیکھ لیں" زینب نے سنجیدگی سے کہا۔
"ہا ہا ہا۔۔۔۔۔ہاں یہی ہو سکتا ہے لیکن آپ نے مجھے کچھ سیکھنے کا موقع ہی نہیں دیا" حاشر نے زینب کا مذاق سمجھتے ہوئے کہا۔
"انشاءلله آئندہ" زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"میں حیدر کی طرف سے معافی مانگتا ہوں جو بھی وہ کر رہا ہے ٹھیک نہیں ہے لیکن آپ یقین کریں مجھے بلکل علم نہیں ہے کہ وہ یہ سب کر کیوں رہا ہے" حاشر نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی اور زینب نے تحمل سے ساری بات سنی اور پھر کہا۔
"معافی کبھی بھی کسی کی طرف سے نہیں ہوتی اور نا ہی یہ کسی کی بھی طرف سے قبول کر لی جاتی ہے۔۔۔غلطی جس کی ہے معافی بھی اسے ہی مانگنی چاہیے آپ کو اس میں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے"
"اللہ حافظ" زینب نے کہتے ساتھ ہی اپنا بیگ شانوں پر ڈالا اور مسکراتے ہوئے کہا اور کلاس سے باہر چلی گئی۔
حاشر نے سوچا کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس طرح سے بات ہر گز نا کرتی وہ ضرور اسے حیدر کے حوالے سے سناتی یا اپنی قابلیت کے لحاظ سے نیچا ہی دیکھاتی لیکن بات تو ساری یہی تھی وہ کوئی اور لڑکی نہیں تھی وہ زینب والیواللہ تھی جو دوسروں کی غلطیوں کی سزا کسی تیسرے کو دینے کی روادار نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خبر کو پھیلنے کے لیے اگلے دن کی بھی
ضرورت نہیں پڑی تھی وہ یونیورسٹی بے شک بہت بڑی تھی لیکن یہاں کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ہیڈ اف ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ جاتی تھی پھر
یہ معملہ تو یونیورسٹی کے دو بہترین طلبا کا تھا
جو اب ایک دوسرے کے مقابل آ گئے تھے۔
ان کے متعلق پوری یونیورسٹی چہ مگیوں میں
مصروف تھی اور سر رضا اپنا سر پکڑے بیٹھے
تھے انھیں جس بات کا ڈر تھا وہی ہو رہا تھا وہ دونوں ایک دوسرے سے مقابلے بازی کر رہے
تھے۔
سر رضا بہت سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پھنچے کہ وہ کل ہی ان کو اپنے سامنے بیٹھا
کر اس مسلے کا حل نکلوائیں گے کیوں کہ جس طرح کا بچکانہ راویہ ان دونوں نے اپنایا ہوا تھا ان
سے ہر گز اس کی توقع نہیں کی جا
سکتی تھی اور اگر معملہ ڈین تک پھنچ جاتا تو ایک نیا مسلہ کھڑا ہو جاتا۔
اگلے ہی دن سر رضا نے ان دونوں کو اپنے آفس
میں مطلوب کر لیا تھا اور اب وہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر بے نیاز سر رضا کو سوالیہ نظروں سے تک رہے تھے۔ سر رضا اپنا غصّہ ضبط کرتے جملوں کو ترتیب دے رہے تھے اور پھر انہوں نے کہا۔
"آپ کے درمیان جو بھی مسلہ چل رہا ہے اسے یہیں بیٹھ کے حل کریں"
"سر ہمارے درمیان کوئی مسلہ نہیں چل رہا" حیدر نے کہا۔
"تو جو کل ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے" سر رضا اب کی بار صرف حیدر سے مخاطب تھے۔
"سر میں صرف بات کر رہا تھا" حیدر نے لہجے کو قدرے نرم بنا کے کہا۔
"آپ دونوں بات کر رہے تھے تو اتنا بڑا ہنگامہ
ہو گیا جب ہنگامہ کریں گے تو کون سا طوفان لے کر آئیں گے آپ" سر رضا نے غصّے سے کہا۔
"اب آپ کو صلاح کر لینی چاہیے ایک دوسرے سے معافی کا تبادلہ کریں اور آئندہ مجھے آپ دونوں کی کوئی شکایات موصول نہ ہو" سر نے اپنا حکم سنایا۔
جس پر ان میں سے کسی نے بھی کان نہیں دھرے۔
"حیدر۔۔۔معافی مانگیں" سر نے حیدر کو مخاطب کر کے کہا۔
"لیڈیز فرسٹ سر" حیدر نے مزے سے کہا۔
اس کے یہ کہنے پر زینب نے سر اٹھایا اور سر کی جانب دیکھا جو اس سے کہہ رہے تھے۔
"زینب۔۔۔"
"لیکن سر۔۔۔" زینب نے سر کی بات بیچ میں ہی اچک لی۔
"زینب معافی مانگیں" سر نے تحمکانا لہجے میں کہا۔
"سوری۔۔۔" زینب نے لمحے بھر کو رک کر ہلکی آواز میں کہا۔
"تھنکس بٹ نو تھنکس" حیدر نے اس کی جانب مسکراتی نظروں سے دیکھ کے کہا۔
حیدر کی اس حرکت پر زینب کو بے تحاشا غصّہ آیا اس نے اس کی جانب مڑ کر اسی کے انداز میں کہا۔
"سوری ٹو سے سوری ٹو یو بیکوز آئی ایم نیور ایور سوری ٹو یو"
اس نے اپنا رخ سر کی طرف کیا جو ہکا بکا سے وہ سب دیکھ رہے تھے اور یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ وہ مصلحت کی کوشش بھی نہ کر سکے پھر زینب نے کہا۔
"سر جب جب یہ شروع کریں گے تب تب میں ختم کروں گی۔۔۔ میں آپ کو صرف اس بات کی تسلی دے سکتی ہوں کہ آپ مجھے کبھی پہل کرتا نہیں پائیں گے"
"تمہیں کیا لگتا ہے مجھے تم سے بات کرنے کا شوق ہے" حیدر اب براہراست اس سے پوچھ رہا تھا۔
"وہ تو نظر آ ہی رہا ہے" وہ یہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔
حیدر عبّاس مٹھیاں بینچ کے رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کمرے میں داخل ہو کر زور سے اپنا ہینڈ بیگ بستر پر پٹخا وہ غصّے سے پاگل ہی تو ہو گئی تھی جب اسے کل کے قصے کے بارے میں پتا چلا جب یہ ہوا وہ وہاں موجود نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو اس میں یا کسی میں بھی اتنی ہمّت نہیں تھی کہ حیدر عبّاس کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے سوال کرے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ واقعیے کی نوعیت سے ناواقف تھی لیکن حیدر عبّاس کو ہمیشہ اس نے اپنا سمجھا تھا اور اب زینب والیواللہ ان کے بیچ میں آ رہی تھی جو کبھی ساتھ تھے ہی نہیں۔
اس نے ٹھان لیا تھا کہ وہ زینب کو اپنے راستے سے ہٹائے گی اسے حیدر عبّاس کی زندگی میں کوئی لڑکی دشمن کے روپ میں بھی قبول نہیں تھی۔
"زینب والیواللہ تم نے اچھا نہیں کیا دشمنی سے ہی سہی مگر تم حیدر عبّاس کی توجہ کا مرکز بن رہی ہو جس توجہ کی طلب کبھی میں نے کی تھی جس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنے کی خواہش کبھی میں نے کی تھی آج انجانے میں ہی سہی پر اس کی آنکھوں میں تمہارا عکس ابھرا ہو گا تم نے میری پسند پر آنکھ ڈالی ہے اور اس کی تمہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی کیوں کہ حیدر عبّاس صرف لائبہ ظفر کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ صرف لائبہ ظفر کا" اس نے اپنے بال جکڑے اور خود کلامی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAM o aLIKUM readers☺....kese hain ap sb or kiya ap enjoy kr rahe hain jag haari novel💞 agr kr rahe hain tu plz support bhi karen ap ke votes or ap ke reviews ka intezar rahe ga.....Allah hafiz🌹
WRITER:
NIMRA ISRAR
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top