محبّت کےمختلف رنگ
رات کا آخری پہر چل رہا تھا کمرے میں موجود کھڑکیاں کھولی تھیں جن سے آتی ہوا کھڑکیوں پر لگے سفید پردوں کو جھولا رہی تھی۔ اس نے کچن سے پانی کا جگ اور گلاس لیا اور لائٹ اوف کر کے اپنے کمرے میں آئی بیڈ کے برابر رکھی سائیڈ ٹیبل پر جگ گلاس رکھا تو اچانک ہی اس کی نظر کھولی کھڑکیوں پر پڑی وہ انہیں بند کرنے کی غرض سے ان کی جانب بڑھی لیکن کھڑکیوں سے آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے اس کے اس عمل کو روک دیا اس نے کچھ دیر آنکھیں بند کیے اس تازی ہوا کو اپنے اندر اترا اور اِسے اپنے رخساروں پر محسوس کیا اس کے لمبے کالے بال ہوا سے اڑ کر اس کے چہرے پر بکھر رہے تھے اس نے آنکھیں کھولیں اپنے بالوں کو کانوں کے پیچھے اوڑھسا کھڑکیاں بند کیں ساتھ ہی کمرے میں بھی اندھیرا کر دیا اور بستر پر نیم دراز ہو گئی نیند تو آنکھوں میں تھی نہیں لیکن اور بہت کچھ تھا ان آنکھوں میں جو سب سے چھپائے رکھتی تھی وہ۔
چھت پر لگے پھنکے کو تکتے سوچ رہی تھی کہ کیا اس کی زندگی کی رفتار اتنی تیز نہیں ہو سکتی کہ ایک فیز۔۔۔۔ایک راؤنڈ۔۔۔۔اور پھر زندگی کا ہر فیز ہر راؤنڈ۔۔۔۔۔اور پھر پوری زندگی گزر بھی جائے اور آنکھوں میں ہی نہ آئے پتا ہی نہ چلے زندگی کبھی ملی بھی تھی۔۔۔۔۔۔ لوگ زندگی جینا چاہتے ہیں نجانے کیوں؟۔۔۔۔۔ یہاں مجھے اسے گزرنا نہیں آ رہا کہاں اس سب کو جینا یہ سب بس گزر جائے میں یہ سب نہیں جینا چاہتی میں زندگی نہیں جینا چاہتی۔
وہ نجانے کیا کیا سوچ رہی تھی پھر اچانک ہی آج کا پورا دن اس کے ذہن کے پردے پر نمایاں ہونے لگا۔ ایک لفظ تھا صرف ایک لفظ جو اسے اپنے ارد گرد گونجتا محسوس ہوا اس نے خود پر ضبط کرتے کروٹ بدلی۔
اب کے اس کی سوچوں کا محور والیواللہ کی طرف تھا وہ حیران ہوئی تھی جب والیواللہ نے اس کی شادی کی بات نکالی اس نے کبھی اس حوالے سے نہیں سوچا تھا وہ حقیقت پسند تھی وہ خوابوں میں جینے والی لڑکی نہیں تھی اپنے دُکھوں پر روتی دھوتی معصوم سی اور خود کو اس سب سے نکالنے کے لئے کسی شہزادے کا انتظار کرتی۔ وہ خود اعتماد تھی وہ اپنی ہمّت سے غموں کو بھی جھکا دینے والی تھی وہ رونے والوں میں سے نہیں تھی وہ رولانے والوں میں سے تھی وہ حساب برابر کرنا جانتی تھی وہ سوتی شیرنی تھی جب تک کوئی اسے نہیں چھیڑتا وہ وار نہیں کیا کرتی تھی اور جب کرتی تو سامنے والا زیر ہوتا تھا۔
"شادی" وہ زیر لب بڑبڑائی تھی۔
"نہیں یہ میں کیسے کر سکتی ہوں" اس نے خود سے پوچھا۔
"تم وعدہ کر آئی ہو" اندر سے آواز آئ۔
"ہاں پر مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں میں اکیلی ٹھیک ہوں۔۔۔۔اور شادی تو تب ہو گی نہ جب بابا کو کوئی لڑکا پسند آ جائے گا" اس نے خود کو تسلی دی۔
"اور بابا کو کوئی مل گیا تو" ایک بار پھر کسی نے اس کے اندر سے پوچھا۔
"تب کی تب دیکھی جائے گی" وہ جھنجلا کے اٹھی سائیڈ ٹیبل سے نیند کی گولیاں نکال کے پانی کے ساتھ نگلیں اور ایک بار پھر کروٹ بدل کے لیٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ راہداری کے دائیں جانب سے منہ میں قلم دبائے ماتھے پر شکنے لئے کتاب میں آنکھیں گاڑے چل رہی تھی اور وہ راہداری کے بائیں جانب سے چلتا آ رہا تھا جب اس کی نظر رانیہ پر پڑی وہ مسکرایا اور اس کے دائیں جانب جا کے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام" اس نے مصروف سے انداز میں بغیر گردن اٹھائے چلتے چلتے ہی جواب دیا۔
عاطف نے حیرت سے اس کی پشت کو دیکھا اور اس کے پیچھے چل دیا تھوڑا قریب پہنچنے پر اس نے ایک بار پھر سلام کیا۔
"وعلیکم السلام" رانیہ نے سابقہ انداز اپنائے ہی کہا۔
عاطف نے اپنی مسکراہٹ دبائی اور ایک بار پھر سلام کیا۔
"کیا ہے بھئی کیا عیدی چاہیے" رانیہ نے جھنجھلا کے گردن اٹھائی تو آنکھیں پھٹ گئیں۔
"آپ" اس نے حیرت اور ناگواری کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا اور اگلے ہی پل تیز تیز چلنے لگی۔
"ارے سنے تو" عاطف نے پیچھے سے آواز لگائی اور اس کے پیچھے جوگنگ کے انداز میں چلنے لگا۔
"سن تو لیں میں معافی مانگنے آیا ہوں"
"کس بات کی" رانیہ کے قدم رک گئے اس نے عاطف کو خشمگیں نظروں سے دیکھا اور ناگواری سے پوچھا۔
"اس دن جو بدتمیزی کی تھی اس کے لئے" عاطف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
"اس بات کا آپ کو علم ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کا شمار بدتمیزی میں ہوتا ہے" رانیہ نے طنز کیا۔
"ایم سوری" عاطف نے بیچارگی سے کہا۔
"دیکھیں اب میرے پیچھے مت آیئے گا مجھے آپ کی سوری کی ضرورت نہیں ہے" رانیہ نے قطعیت سے کہا اور اپنی راہ لی۔
"لیکن مجھے تو معافی چاہیے" عاطف نے اس کا راستہ روک کے ہٹدھرمی سے کہا۔
"معافی چاہیے تو جائیں جا کر گراؤنڈ کے دس چکر لگائیں اور اب بات تب ہی کئے گا جب اس پر عمل کر آئیں" رانیہ نے غصّے سے کہا اور جان بوجھ کر وہ کام کرنے کو کہا جو نہ ممکن میں سے ایک تھا بھلا کون اتنی کڑکتی اور آگ برساتی دوپہر میں گراؤنڈ کے چکر کانٹتا یہاں آدھا چکر لگانا مشکل تھا کجا کے دس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر احمد نے آج بی۔بی۔اے کی کلاس کو ایک ٹاسک دیا تھا اور اس کو پرفارم کرنے کے لئے انھیں کتابوں اور گوگل کی ضرورت تھی جس کی اجازت سر احمد سے مل چکی تھی۔ بقول سر احمد آپ آدھے گھنٹے میں دنیا کی کوئی بھی کتاب اور کسی بھی ویب سائٹ کا استعمال لے سکتے ہیں سوائے اپنے ٹیچرز سے کلاس فیلّوز سے کسی دوست سے یا کسی دشمن سے بھی۔
اب کلاس کا یہ حال تھا کہ سر احمد ایک کارنر پر چیئر پر بیٹھے کچھ پپیرس چیک کرنے میں مصروف تھے جب کہ کلاس میں اسٹوڈنٹس کی تعداد کم ہو گئی تھی کچھ لائبریری میں کتاب ڈھونڈنے گئے تھے تو کچھ آئ۔ٹی لیب میں اپنا مواد سرچ کرنے گئے تھے جب کے کچھ اسٹوڈنٹس جن کے موبائل میں نیٹ پیکجز ہوئے تھے وہ کلاس میں ہی بیٹھے اپنے ٹاسک پر کام کر رہے تھے۔
"رانیہ تم کہاں جا رہی ہو" زینب نے رانیہ کو جاتے دیکھ پوچھ لیا۔
"یار میں بُک لینے جا رہی ہوں لائبریری سے" رانیہ نے کھڑے کھڑے ہی بتایا۔
"تمہیں نہیں لگتا اس میں وقت برباد ہو گا ہم نیٹ سے اُٹھا لیتے ہیں جلدی ہو جائے گا" نور نے رسانیت سے کہا۔
"نہیں بُک ڈھونڈنے میں ٹائم نہیں لگے گا کیوں کہ میں پہلے اِشو کرا کے پڑھ چکی ہوں اس لئے آسانی سے مل جائے گی" رانیہ نے تفصیل سے بتایا۔
"اچھا چلو میں بھی چلتی ہوں" نور کتاب سائیڈ میں رکھ کھڑی ہونے لگی۔
"ماشاءالله سے تمہارا ایک قدم ڈائناسور کے ایک قدم کے برابر ہے تو تم رہنے ہی دو" رانیہ نے نور کے چھوٹے چھوٹے قدم لینے پر چوٹ کر کے کہا۔
"نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے" نور نے تپ کے کہا۔
"اچھا!!۔۔۔۔۔ایسا ہے تو چلو میرا ٹاسک بھی تم ہی پرفارم کر لو" رانیہ نے نور کو نیکی کرنے کا موقع فراہم کیا۔
"نہیں شکریہ میرا اب موڈ نہیں ہے" نور نے گردن اکڑا کے کہا۔
"نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے" رانیہ نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ نور کو اسی کا کہا جملہ لوٹایا اور کلاس سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تینوں کلاس میں بیٹھے لیکچر نوٹ کر رہے تھے تب ہی علی کی زبان میں کھوجلی ہوئی۔
"یار آج موسم کچھ خراب لگ رہا ہے" اس نے احمر کو سنانے کے لئے حاشر کی طرف جھک کے تھوڑی اونچی آواز میں بظاہر حاشر سے کہا جسے احمر نے بخوبی سنا۔
"موسم کو کیا ہوا ہے پچھلے ایک ہفتے سے پیچیانوے ڈگری ہی چل رہا ہے آج بھی اتنا ہی ہے اور کتنا برا ہو سکتا ہے وہ تو خیر ہے کہ ہم اے۔سی میں بیٹھے ہیں" حاشر نے موسم پر کافی تفصیلی تبصرہ کرتے کہا۔
"میرے کہنے کا مطلب ہے کسی کے دل کا موسم خراب لگ رہا ہے" علی نے شوخی سے احمر کی طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے کہا۔
"اوہ۔۔۔۔" حاشر نے کن انکھیوں سے احمر کو دیکھا جو انہیں ہی گھور رہا تھا۔
"علی تمہیں مرنے کی جلدی ہے" احمر نے چبا چبا کے علی کو خبردار کیا۔
"نہیں بھئی ہم کیوں مرنے لگے البتہ کچھ لوگ ہیں جو محبّت میں مرے جا رہے ہیں" علی نے سنجیدگی سے احمر کو ایک بار پھر چھیڑا۔
"علی اپنی بکواس بند کرو ایسا نہ ہو کہ تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ" احمر نے مُکا زور سے علی کے پیٹھ میں مارا۔
علی کی چیخ نکل گئی ساری کلاس ہی ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
"کیا ہو رہا ہے" سر عاصم نے مصنوئی غصّے سے پوچھا۔
"سر یہ دونوں فیوچر پلاننگ کر رہے ہیں" حاشر کی زبان پھسلی تھی جو مسلسل اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا۔
"جاب کے سلسلے میں؟" سر نے عام سے انداز میں پوچھا۔
"سر آپ کے زہین طلبہ کو جاب مل ہی جائے گی ہمیں تو یہاں محبت کی فکر کھائی جا رہی ہے" علی نے احمر کو ایک نظر دیکھ کہ کہا تو احمر سہم گیا علی سے کوئی بعید بھی نہیں تھی احمر کی محبت کا فسانہ سر کو سنانے بیٹھ جاتا۔
"تو جناب کو محبّت ہو گئی ہے ؟" سر عاصم نے اپنی ڈیسک سے ٹیک لگائے فرصت سے سنجیدہ لہجے میں پوچھا شاید علی کی کلاس لینے کا موڈ تھا آج ان کا۔
"کہاں سر" علی نے شرمانے کی اداکاری کر کے کہا۔
اگلے ہی لمحے علی نے پھر کہنا شروع کیا۔
"لیکن جب بھی ہو گی سر نہ رومیو جولیٹ جیسی ہو گی نہ شیریں فرہاد جیسی ہو گی نہ لیلیٰ مجنو جیسی ہو گی نہ سسی پنو جیسی ہو گی" علی ایک تارنگ میں کہتا چلا گیا۔
"تو پھر کس قسم کی ہو گی آپ کو محبت" سر نے دلچسپی سے پوچھا۔
"سر ویسی ہی جیسی آپ اور کی وائف میں ہے" علی کے یہ کہتے ہی کلاس میں زبردست سی ہوٹنگ شروع ہو گئی تھی سر کا چہرہ شرم سے لال ہو رہا تھا اور ان کی حالت پر سب طلبہ ہنس رہے تھے جن میں حاشر اور احمر بھی شامل تھے۔
"میں بس جورو کا غلام بن کے رہنا چاہتا ہوں" علی نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا۔
"علی لیو دی کلاس ناؤ" سر عاصم نے غصّے سے کہا۔
"لیکن سر میں نے تو آپ کے سوال کا جواب دیا ہے" علی نے اطمینان سے کہا۔
"آئی سیڈ لیو" سر نے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
علی کلاس سے چلا گیا تو کلاس میں خاموشی چھا گئی اور سر عاصم بورڈ کی جانب چہرہ کئے اپنی حالت بحال کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ یک دم ہی دروازے کی اوٹ سے علی نے اپنا سر نکالے مسکراتے ہوئے سر سے پوچھا۔
"سر آپ شرما رہے ہیں؟"
اور علی کے یہ پوچھتے ہی کلاس میں ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹا سر عاصم نے ابھی کچھ کہنے کہ لئے منہ وا ہی کیا تھا کہ علی ایک بار پھر منظر سے غائب ہو گیا۔
سر عاصم کلاس میں موجود سب ہی طلبِ علموں کو اپنی گھوری سے وارن کرتے بورڈ کی طرف گھومے تو علی ایک بار پھر دروازے کے پاس نامودار ہوا۔
"سیریسلی سر آپ شرما رہے ہیں؟" علی نے دانتوں کی نمائش کرتے پوچھا تو سر عاصم مسکرا دیئے اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کہ علی کلاس میں داخل ہونے لگا تو سر نے مسکراتے ہوئے ہی "نو" کہا۔
"نو سر؟" علی نے گردن نفی میں ہلا کے پوچھا۔
"نو" سر نے آنکھیں بڑی کرتے مسکراتے ہوئے ہی کہا اور علی کو کلاس سے جانا ہی پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ لائبریری کی اُور بڑھ رہی تھی جب اس نے گراؤنڈ میں بڑی تعداد میں کھڑا مجمعہ دیکھا قریب جا کے دیکھا تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو ہو گئیں۔ عاطف گراؤنڈ میں دوڑ رہا تھا اور رانیہ نے پھر اسے روکتے دیکھا عاطف نے رُک کے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے اور تیز تیز سانسیں لیں ماتھے سے پسینہ لڑیوں کی صورت بہہ رہا تھا سر کے سارے بال پسینے میں شرابور تھے اور بُری طرح بکھر چکے تھے۔ پاس کھڑے ایک لڑکے نے اسے پانی کی بوتل دی عاطف نے پانی کے چند گھونٹ لئے اور باقی بچا پانی اپنے سر پر ڈالا اتنی تیز دھوپ میں یہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی کفرانِ نعمت ہی لگا پھر اس نے اپنے سر کو زور سے دائیں بائیں گھمایا تو فضا میں پانی کے قطرے بکھرنے لگے۔
یک دم ہی عاطف کی نظر رانیہ پر پڑی تو ہٹنا بھول گئی لبوں پے مسکراہٹ کب در آئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔ رانیہ اس کے دیکھنے پر سٹپاٹا گئی اور فوراً ہی وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ پُر سوچ انداز میں اپنی عادت کے مطابق اپنے آنچل کے کونے کو اپنی انگلی پر مڑوڑتی ہوئی راہداری سے گزر رہی تھی جب ہی اس کی سماعتوں سے کوئی آواز ٹکرائی۔
"کیا اب بھی معافی نہیں مل سکتی" عاطف نے پھولی ہوئی سانس میں کہا شاید وہ اس کے پیچھے بھاگتا ہوا آیا تھا۔
"آپ پاگل ہیں" رانیہ کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
"کہہ سکتے ہیں" عاطف نے قدرے ہنسنے کے بعد جواب دیا۔
"تو میں سمجھوں آپ نے مجھے معاف کر دیا؟" عاطف نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"بکل بھی نہیں۔۔۔۔آپ کو لگتا ہے پہلے آپ لڑکیوں کو تنگ کریں گے اور پھر معافی کے طلبگار ہو جائیں گے تو آپ کو معافی مل جائے گی تو ایسا نہیں ہے مسٹر عاطف۔۔۔۔۔لڑکیاں جتنی حساس ہوتیں ہیں ان سے کئی زیادہ حساس ان کی عزت ہوتی ہے وہ کچھ نا کریں تب بھی آپ جیسے لوگ ان کے کردار کو مشکوک بنا دیتے ہیں" رانیہ غصّے میں کہتی چلی گئی۔
"میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے میں صرف ڈرا رہا تھا آپ کو۔۔۔۔ میری نیت بری نہیں تھی اور میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ ایسا نہیں ہو گا آپ کے ساتھ" عاطف واقعی شرمندہ لگ رہا تھا اس نے نظریں زمین پر جمائے کہا۔
"صرف میرے ساتھ۔۔۔۔میرے ساتھ نہیں مسٹر عاطف ہر لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔آپ کی نیت جو بھی رہی ہو اگر آپ اب پشیمان ہیں تو صرف مجھ سے معافی نہیں مانگے ان تمام لڑکیوں سے بھی مانگیں اور مجھ سے کوئی وعدہ نہ کریں آپ خود سے کریں" رانیہ نے کو عاطف کی "آپ کے ساتھ نہیں ہو گا" والی بات کافی کٙھلی تھی اس نے ایک بار پھر غصّے سے کہا اور جانے کے لئے پلٹ گئی جب عاطف نے جلدی سے پوچھا۔
"میں ان سب سے بھی معافی مانگ لوں گا کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا"
"معافی مانگنا جتنا مشکل ہوتا ہے اس سے کئی زیادہ مشکل معاف کر دینا ہوتا ہے آپ بتائیں اگر کوئی لائبہ کے ساتھ کچھ ایسا کرتا تو کیا وہ معاف کر دیتیں یا آپ معاف کر دیتے اسے۔۔۔۔جیسے آپ اپنی بہن کو لے کر پوزیسیو ہیں ایسے دوسروں کی بہنوں کے لئے بھی ہوں" رانیہ نے پلٹ کر اسے ایک اور پتے کی بات بتائی اور چل دی۔
پیچھے عاطف بے چارگی سے اسی سمت دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ ابھی گئی تھی وہ حیران تھا اس کی کہی باتوں سے وہ ایسی تو نہ لگتی تھی اتنی سمجھداری کی باتیں کرنے والی۔
"عاطف یہ لڑکی ٹھیک ہی تو کہتی ہے میں خود کو یہ کہہ کے بچا تو نہیں سکتا نہ کہ یہ سب میں اپنے ڈپریشن کو دور کرنے کے لئےکرتا رہا میں نے کچھ دیر کے لئے ہی سہی اپنی توجہ اپنی زندگی سے ہٹانے کے لئے بڑی غلط ہستی کو نشانہ بنایا۔۔۔۔۔ٹھیک ہے میں معافی مانگ لوں گا ان سب سے معاف کرنا نہ کرنا ان کا مسلہ ہے لیکن آپ کا معاف نہ کرنا اب میرا مسلہ بن گیا ہے آپ کی معافی لے کر رہوں گا میں" وہ خود کلامی کر رہا تھا اور لاشعوری طور پر رانیہ کی بات پر عمل کر رہا تھا وہ وہاں کھڑا خود سے وعدے کر رہا تھا یہ جانے بغیر کے دل کی دنیا میں کوئی اپنے قدم رکھنے شروع کر چکا تھا اور اب دیکھنا یہ تھا اسے یہ لاعلمی کون سا نافع دیتی ہے اور کون سا نقصان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور زینب اور رانیہ یونیورسٹی کے خارجی دروازے کی جانب بڑھ رہیں تھیں جب رانیہ نے کچھ یاد آنے پر اچانک ان دونوں سے پوچھا۔
"تم دونوں کل کے ایونٹ میں آ رہے ہو نہ"
زینب اور نور نے نظروں کا تبادلہ کیا تو رانیہ نے ان کے ارادے بھانپتے ہوئے کہا۔
"خبردار جو تم دونوں نے نہ کہا ویسے ہی اللہ اللہ کر کے ایک ایونٹ آیا ہے اور تم دونوں ایسے کر رہی ہو"
"رانی مجھے تو جاب پے جانا ہے نہ۔۔۔۔۔نور آئی گی نہ" زینب نے اپنا مسلہ بتایا ساتھ نور کو بیچ میں گھسنیٹا۔
رانیہ کی خفا نظروں نے نور کو فوکس کیا جو ہڑبڑائی ہوئی بہانہ سوچ رہی تھی۔
"تم بھی آؤ گی اور تم میرے لئے ایک دن کی چھٹی نہیں لے سکتیں" رانیہ نے غصّے سے گھورتے ہوئے پہلا فقرہ نور سے اور دوسرا زینب سے کہا۔
"لے تو لوں پر کیا تم ایک دن کی پے کرو گی مجھے" زینب نے شرارتی انداز میں رانیہ سے کہا۔
"ہا۔۔۔" رانیہ کا تو حیرت کے مارے منہ ہی کھل گیا۔
"دوست دوست نہ رہا" نور نے افسوس سے چُور لہجے میں ٹکرا لگایا۔
"مجھے نہیں پتا آئیں گے تو ہم تینوں آئیں گے ورنہ۔۔۔" رانیہ ابھی کہہ رہی تھی جب نور نے اس کی بات اچک لی۔
"ورنہ کوئی نہیں آئے گا لو ہو گیا فیصلہ" نور نے اپنے ہاتھوں سے فرضی دھول جھاڑ کے کہا۔
"نہیں۔۔۔آنا ہے اور ہم تینوں نے ہی آنا ہے" رانیہ نے نور کی بات کی نفی کی اور اپنے ہر لفظ پر زور دے کر تینوں کے آنے کو یقینی بنایا۔
رانیہ ان دونوں کو دیکھتی ہوئی ان کے جواب کا انتظار کر رہی تھی جب نور اور زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے"
اور تب ہی رانیہ کے لبوں پر بڑی سی مسکراہٹ آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اب جانی پہچانی سرقوں سے گزر رہی تھی بظاہر کار کی بیک سیٹ پر بیٹھی وہ اب بھی وہیں تھیں جہاں وہ تھا مسکراتا ہوا اسے اس طرح مسکراتا دیکھ وہ بھی مسکرائی تھی کیا تھا وہ کون تھا وہ کیا تعلق تھا اس کے ساتھ جس کی ایک مسکراہٹ اس پر اتنا اثر کر رہی تھی۔
اچانک ہونے والی ہارن کی آواز اسے حال میں لائی تھی اپنے ارد گرد کا جائزہ لیتے اس نے بے بسی سے اپنا سر سیٹ کی پشت پر گرایا تھا۔ اسے یاد آیا تھا کہ وہ اس سے کتنا بچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس سے سامنا نہ ہو اور جب سامنا ہوا تو اسے دیکھنے سے گریز کر رہی تھی لیکن پھر بھی اس ستمگر کی ایک جھلک آنکھوں میں آ ہی گئی تھی۔
"بی بی جی گھر آ گیا" ڈرائیور کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں تھیں اور اپنا بیگ اور دل سنمبھالے وہ گھر میں داخل ہوئی تو لاونچ میں وہیل چیئر پر بیٹھی آمینه بیگم نظر آئیں وہ ہونٹوں پر مصنوئی مسکراہٹ سجائے ان کے پاس آئی انہیں سلام کیا اور انکی طبیعت بھی دریافت کی۔
"اب کیسی ہے آپ کی طبیعت اور آپ کمرے سے کیوں نکل آئیں آپ کو تو ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے نہ"
"تم نے پچھلے ایک ہفتے سے مجھے کمرے میں قید ہی کر دیا ہے کمر اکڑ گئی تھی میری۔۔۔۔اسی طرح آرام کرتی رہی تو مزید بیمار ہو جاؤں گی" آمینه بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے محبّت بھرے لہجے میں کہا۔
"اچھا چلو اٹھو ہاتھ منہ دھو کے آؤ پھر کھانا لگواتی ہوں" آمینہ بیگم نے اس کو بازو سے پکڑے اپنے پاس سے اٹھاتے کہا۔
"آپ نے کھا لیا؟" نور نے اٹھے ہوئے پوچھا۔
"نہیں" آمینه بیگم نے چور لہجے میں کہا۔
"دادو آپ بھی کمال کرتیں ہیں آپ تو کھا لیتیں آپ کی طبیعت ویسے ہی ٹھیک نہیں ہے" نور نے شیکایتی لہجے میں کہا۔
"کچھ نہیں ہوتا اب جاؤ جلدی مجھے کب تک بھوکا رکھنے کا ارادہ ہے" آمینه بیگم نے سارا ملبہ نور پر گرایا۔
"دادو" نور نے شاک ہوتے کہا اور آمینه بیگم ہنس دیں۔
"بس تھوڑی دیر میں آ رہی ہوں میں" نور کہتی ہوئی اپنے کمرے کی اُور بڑھ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد وہ ہلکے ہرے رنگ کا سوٹ زیب تن کئے ہاتھوں میں کھانے کی ٹرالی لئے ڈائننگ ہال میں آئی تھی جہاں آمینه بیگم اس کا ہی انتظار کر رہیں تھیں۔
"تھکی ہوئی آئی ہو ملازمہ سے کہہ دیا ہوتا" آمینہ بیگم کو اس کی فکر ہوئی۔
"اتنا بھی نہیں تھکی کہ یہ چھوٹے چھوٹے کام نہ کر سکوں" نور نے ٹیبل پر لوازمات سجائے اور آمینہ بیگم کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
آمینه بیگم کھاتے ہوئے نور کا جائزہ لے رہیں تھیں جو چہرے پر بیزاری سجائے کھانا چین رہی تھی جیسے یہ کام کوئی بہت ہی فضول ہو اس کے لئے وہ اپنی بیماری میں ہی بھانپ گئیں تھیں کہ کوئی بات ہے جو نور کو پریشان کر رہی ہے اور بات کیا ہو سکتی تھی انہیں اس کا بھی اندازہ ہو گیا تھا۔
"نور طبیعت ٹھیک ہے تمہاری" آمینه بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"جی مجھے کیا ہوا ہے میں تو ٹھیک ہوں" نور یک دم ہی ہائی الرٹ ہو گئی تھی وہ خود کو ملامت کر رہی تھی وہ کیسے بھول گئی تھی کہ دادو تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیا کرتیں تھیں اور میں انہی سے محتاط رہنا بھول گئی۔
"تو آنکھوں پر یہ ہلکے کیوں پڑے ہیں" آمینه بیگم نے سوپ کا سپ لیتے مصروف سے انداز میں کہا۔
"پڑھائی کی وجہ سے شاید" نور نے اپنے ہلکوں پر ہاتھ پھیرتے کہا جیسے وہ مٹ ہی جائیں گے۔
"پڑھائی کی وجہ سے یا محبّت کی وجہ سے" آمینه بیگم نے جتاتی نظروں سے نور کو دیکھا۔
"دادو کیا کہہ رہیں ہیں آپ" نور مسکراتے ہوئے انجان بنی اور جلدی جلدی کھانا کھانے لگی فرار بھی تو ہونا تھا۔
چند لمحے گزرے تھے کہ آمینه بیگم نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔
"تمہارے پاپا نے ایک رشتہ دیکھا ہے تمہارے لئے آج کل میں دیکھنے آ رہے ہیں تمہیں"
آمینه بیگم نے نور کے سر پر بم پھوڑا۔
"لیکن مجھے شادی نہیں کرنی ابھی۔۔۔۔۔ابھی میں پڑھ رہی ہوں" نور نے قطعیت سے انکار کرتے بہانہ بنایا۔
"ہاں تو پڑھائی سے کس نے روکا ہے تمہیں شادی پڑھائی کے بعد ہی ہو گی ابھی صرف نکاح ہو گا" آمینه بیگم نے بھی ثابت کیا وہ اسی کی دادی تھیں۔
"نکاح" نور نے ایسے کہا جیسے سامنے موت کا فرشتہ کھڑا روح قبض کرنے کی بات کر رہا ہو۔
"مجھے شادی ہی نہیں کرنی نہ آج نہ کل نہ آئندہ کبھی" نور نے بھرائی ہوئی آواز میں سر جھکائے کہا۔
"اس وجہ کا نام جان سکتی ہوں" آمینه بیگم نے نرم لہجے میں پوچھا۔
"مجھے نہیں پتا" نور نروٹھے پن سے بولی وہ آمینه بیگم کو نہیں بتانا چاہتی تھی وہ تو کسی کو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی پر اس کا یہ راز کُھل گیا تھا آمینه بیگم کے سامنے۔
"تم کہو تو میں اور تمہارے پاپا جائیں تمہارا رشتہ لے کے" آمینه بیگم نے اس کو خود سے لاگائے بڑے پیار سے کہا۔
"بکل بھی نہیں۔۔۔۔آپ کہیں نہیں جائیں گی۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔میں سب ٹھیک کر دوں گی۔۔۔۔مجھے تھوڑا سا وقت چاہیے دادو تھوڑا سا وقت۔۔۔۔میں خود کو اس سے آزاد کرا لوں گی" نور آمینه بیگم کے سینے سے لگی ہچکیوں میں کہہ رہی تھی جو سوچ رہیں تھیں کہ محبّت نے کب "محبّت میں دھڑکنے والے دل" کو آزاد کیا ہے یہ تو ان آزاد دلوں کو آزاد رہتے ہوئے خود میں قید کر لیتی ہے اور پھر سیکنڈ منٹ گھنٹے کیا صدیاں بھی گزر جائیں تو یہ وہیں کی وہیں رہتی ہے وقت اسے ختم کرنے کی قوت نہیں رکھتا بلاشرط کے محبّت سچی ہو اور نور کی آنکھوں سے بہنے والے ننھے ننھے شفاف قطرے اس کی سچی محبّت کے گواہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے یہاں آئے ایک مہینہ ہونے کو تھا لیکن اس کا غصّہ جوں کا توں تھا اس نے گھر میں کسی سے بات نہیں کی تھی لیکن اپنے دوستوں سے رابطے میں تھا اور شکر تھا احمر کا کہ وہ اس کا کزن تھا اور اس کے حال احوال کی خبر عبّاس صاحب اور باقی سب کو دیتا رہتا تھا۔
کنٹریکٹ کے مطابق اسے ہر سہولت دی گئی تھی اس کا کمرہ تھا تو بڑا اور لگژری لیکن عبّاس مینشن میں موجود اس کے اپنے کمرے سے کم ہی شاندار تھا کمرے میں ایک چھوٹی سی بالکنی بھی موجود تھی جہاں وہ وائٹ ٹراؤذر اور گرے لوس ٹی۔شرٹ میں ملبوز اپنے دونوں ہاتھ ریلنگ پر رکھے نیلے آسمان پر بکھرے ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھ رہا تھا یہ اس بلڈنگ کا پندہرواں فلور تھا آسمان قریب محسوس ہو رہا تھا اور پھر حیدر کی نظر کسی غیر مرئی نقطے پر آ کے ٹھر گئی وہ پھر اسے سوچنے لگا تھا یہاں ایک دن بھی اس کا ایسا نہ گزرا تھا جب اس نے زینب کو سوچا نہ ہو زینب اور اپنی ہر ملاقات اتنی بار ذہن کی سکرین پر چل چکی تھی کہ اسے زینب کا کہا ہر لفظ ازبر تھا اور پھر آخری ملاقات میں جو ہوا حیدر کو لگا ایک بار پھر کسی نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا ریلنگ پر رکھے اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوئی تھی چہرے کے تاثرات سخت ہوئے تھے اس سے پہلے کے وہ بدلے کے عزائم تیار کرتا اس کی توجہ بجھتے ہوئے موبائل نے اپنی طرف کھینچ لی تھی۔
حیدر کیوں سوچ رہا تھا زینب کو کیوں وہ اس کے سوچوں میں ہمیشہ ہوتی تھی کیا حیدر چڑہتا تھا زینب سے یا نفرت کرنے لگا تھا کیا یہ واقعی نفرت تھی اور اگر یہ واقعی نفرت تھی تو اس نفرت کی آخری حد آخری منزل کیا تھی اس نفرت کا کیا انجام ہونا تھا یہ دیکھنا ابھی باقی تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM dear readers.....apna feedback or apne vote dn or novel enjoy krte rahin InshAllah agli qist....agle hafte😉
ALLAH Hafiz Fi Amanillah
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top