مجھے کیا ہوا (زینب 1 )


عائشہ رخصت ہو کر علی کے گھر کی ہو گئی چونکہ عائشہ نے زور دیا تھا کہ حیدر بھی اس کی شادی میں شامل ہو۔۔۔عبّاس عالَم یہ سوچ کے خاموش ہو گئے تھے کہ اسکی غیر موجودگی لوگوں میں چہمگیوں کی وجہ بنے گی اور شادی کے ان چند دنوں میں زینب وہی "بہو" بن گئی تھی ان سب کے لئے جسے وہ بہت چاؤ سے بیاہ کے لائے تھے مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ انہوں نے اس یتیم اور بے سہارا لڑکی کو سہارا دیا۔۔۔۔۔مان دیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشہ اس وقت بے چارگی۔۔۔۔بے بسی اور غصّے کے زیرِ اثر اپنے (علی کے کمرے) میں بیڈ پر بیٹھی تھی اس کا دل کر رہا تھا یہاں سے بھاگ جائے کیوں کہ علی سے ایسے پیش آ رہا تھا جیسے وہ اس کی نہیں پڑوسیوں کی بیوی ہو۔۔۔۔عائشہ اپنے کہے پر پچھتا رہی تھی وہ ضرور اسکی اس دن کی باتیں دل پر لے گیا تھا اور اب اس سے صرف ضرورت کے طور پر بات کر رہا تھا۔

ڈور نوب کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔۔وہ پستائی تری پیس سوٹ میں ملبوز تھکا تھکا لگ رہا تھا ظاہر تھا شادی کے تیسرے ہی دن آفس چلے جانے سے تھکن ہی ہونی تھی اسے لگا وہ اس کی وجہ سے چلا گیا تھا کیوں کہ وہ اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔عائشہ کو اس پر غصّہ آ رہا تھا اگر یہی سب کرنا تھا تو شادی کیوں کی تھی۔۔۔۔۔

وہ ناراض ہو گئے ہیں شاید میں نے بھی تو بہت سنا دیا تھا۔۔۔۔وہ اس کا دفاع خود ہی کرنے لگی تھی۔

علی کپڑے چینج کر کے آ چکا تھا اور اب ڈھیلے ڈھالے نائٹ ڈریس میں ملبوز وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنے گیلے بال سیٹ کر رہا تھا۔

عائشہ اسے دیکھتی اس کی طرف بڑھی۔۔۔وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا اپنے کام میں مصروف تھا۔

"آپ ناراض ہیں؟" اپنی پوری ہمّت مجتمع کرتے اس نے پوچھا تھا۔

علی کا برش کرتا ہاتھ روکا۔۔۔اس نے گردن موڑ کے اسے دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔

"نہیں تو" اس نے رکھائی سے کہتے برش ڈریسنگ پر رکھا اور موبائل اٹھاتے وہ جانے ہی لگا تھا جب وہ ایک بار پھر بولی۔

"آپ ناراض ہیں مجھ سے" اس کی آواز بھرا گئی تھی۔

عائشہ کی بھیگی آواز سن وہ پورا کا پورا اس کی طرف گھوم گیا تھا۔۔۔۔اس کا سر مزید جھک گیا تھا شاید وہ آنسو پینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

وہ چلتا ہوا اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔

"تم رو رہی ہو" اس نے بڑی نرمی سے استفار کیا تھا۔

"آپ ناراض ہیں؟" عائشہ نے نظریں اٹھاتے علی کو دیکھتے پوچھا۔۔۔اس کی آنکھیں مترم تھیں۔۔۔پانی سے بھری ہوئیں۔۔۔علی کو لگا وہ ڈوب جائے گا۔۔۔۔اس نے ڈوبنے کے ڈر سے ہاتھ پیر چلائے۔

"نہیں میں نہیں ناراض۔۔۔۔پلیز چپ ہو جاؤ" وہ جلدی جلدی بولتا اس کے گالوں پر بہتے آنسو پوچھ رہا تھا۔

"ایم۔۔۔۔سوری" اس نے ہچکیوں کے بیچ کہا۔

"تم رونا تو بند کرو" وہ اس کے آنسو صاف کرتا ہلکان ہو رہا تھا۔

"آپ پہلے معاف کریں" وہ بضد تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے معاف کیا" اس نے جیسے ہتیار ڈالے تھے۔

"نہیں آپ اصلی والا معاف کریں" وہ سوں سوں کرتی بولی تو علی نے بمشکل اپنی ہنسی دباتے پوچھا۔

"اب یہ اصلی والا معاف کرنا کیا ہوتا ہے؟"

"دل سے معاف کرنا اصلی والا ہوتا ہے" وہ اس کے علم میں اضافہ کر رہی تھی۔

"اچھا" اس نے سمجھتے ہوئے سر کو ہلکی سے جنبش دی۔

"دل سے معاف کیا" اس نے دل پر ہاتھ رکھ عائشہ کو یقین دلایا تھا۔

"اب اپنی غلطی بھی بتا دو جس کے لئے معافی مانگ رہی ہو؟"

"آپ ایسے اچھے نہیں لگتے" وہ اس کا سوال گول کر گئی۔

"کیسے" وہ چونکا۔

"ایسے چپ چپ سے۔۔۔۔آپ پہلے ہی اچھے تھے ہنستے ہنساتے" وہ بات گول تو کر رہی تھی پر اپنی غلطی بھی تسلیم کر رہی تھی۔

"اوہ خدایا" وہ کہتے ساتھ بیڈ پر گر گیا تھا۔

"کیا ہوا" عائشہ اس کے انداز سے پریشان ہو گئی۔

"اچھا ہوا تمہیں احساس تو ہوا۔۔۔۔میرا جبڑا اور زبان دکھ گئے تھے بند ہوئے" وہ اپنی جؤ لائن سہلاتا مظلومیت سے بول رہا تھا۔

"آپ بھی نہ مجھے ڈرا دیا" اس نے ہنستے ہوئے علی کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔

"ہائے آپ کا یہ آپ بھی نہ کہنا" وہ ٹھنڈی آہ بھرتے بولا تو عائشہ کے لبوں پر شرمیلی مسکان آ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زینب عائشہ اور علی کی شادی سے فارغ ہوئی تو رانیہ کی دھڑا دھڑ کالز آنا شروع ہو گئیں تھیں کیوں کہ مہینہ اپنے اختتام پر تھا اور رانیہ کی رخصتی کو دو تین ہفتے ہی رہ گئے تھے اسی لئے رانیہ نے ابھی سے ہی زینب کو کال کرنا شروع کر دیا تھا وہ اسے قائل کرنے کی کوششوں میں ابھی سے لگ گئی تھی۔

زینب سوچ رہی تھی ایک مشکل حل نہیں ہوتی دوسری سر پر آ جاتی ہے۔۔۔۔پتا نہیں نیلم بیگم اسے وہاں دیکھ نا جانے کون سا کوھرام برپا کرتیں۔۔۔۔۔لیکن پھر زینب کو یاد آیا ولیمے والے روز انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا ہو سکتا ہے اب بھی کچھ نہ کہیں۔۔۔۔۔۔لیکن زینب چاہ کر بھی رسک لینا نہیں چاہتی تھی اسی لئے رانیہ کی کالز کو اٹینڈ نہیں کر رہی تھی پر جب رانیہ نے کالز کرنا بند نہیں کیں تو اس نے تنگ آ کے اپنا موبائل ہی بند کر دیا کم از کم اگر اب وہ ناراض ہوتی تو کوئی بھی بہانہ بنا سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کام کا پریشر تھا یا پھر شادی کی تھکاوٹ وہ اس سب میں اس کی زینب سے کم کم ہی بات ہو پائی تھی لیکن زینب کی ہر حرکت پر اس کی نظر تھی۔

وہ ابھی بھی آفس میں بیٹھا فائل پر جھکا تھا لیپ ٹاپ کی سکرین سے آتی روشنی اس کے چہرے کو کچھ اور روشن کر رہی تھی۔۔۔۔اس نے لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔

کال رانیہ کی تھی اس نے پہلی ہی بیل پر کال پک کر موبائل کان سے لگایا تھا۔

"زینب سے بات کرا دیں" وہ سلام دعا کے بعد ہچکچاتے ہوئے کہنے لگی۔

"میں آفس میں ہوں آپ اس کے نمبر پر کال کر لیں" وہ رسانیت سے بولا تو رانیہ نے فوراً سے پہلے اسے اپنا مسلہ بتایا۔

"زینی کا نمبر بند جا رہا ہے"

"بند کیا ہے تو بند جا رہا ہے" وہ بڑبڑایا تھا پر رانیہ سن چکی تھی۔

"کیا مطلب"

"مطلب کے وہ آپ کی رخصتی میں نہیں آنا چاہتی اسی لئے فون بند کر کے رکھا ہے" وہ صاف گو ہوا۔

"کیا!!  پر کیوں" وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔

"یہ تو وہی بہتر بتا سکتیں ہیں"

"آپ لے آیئے گا اسے" اس کے لہجے میں دبی دبی سی التیجا تھی۔

"آپ نے مجھ سے کہہ دیا ہے اب آپ بے فکر ہو جائیں میں لے آؤں گا" وہ اپنے مخصوص مظبوط لہجے میں کہتا اسے یقین دلا گیا تھا۔

"تھنک یو" وہ خوشی سے پھولتی بول گئی۔

"کام ہو جانے کے بعد کہیے گا" وہ رسان سے کہتا فون بند کر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن بیت گئے اور رانیہ کی رخصتی کا دن آ گیا۔۔۔۔حیدر نے اس متعلق زینب سے اب تک کوئی بات نہیں کی تھی۔

گھر میں سب احمر کی شادی میں جانے کی تیاریوں میں مشغول تھے اور وہ اداس سی اپنے بازؤں کے گرد ہاتھ بندھے بیٹھی تھے۔

حیدر آج آفس سے جلدی گھر آ گیا تھا اور آتے ساتھ سیدھے اپنے کمرے میں گیا تھا وہ اسکی موجودگی سے بے خبر خود میں الجھی تھی۔۔۔۔حیدر نے بینا آواز پیدا کئے دروازہ بند کیا اور ٹھیک اسی طرح اس نے اپنا بریف کیس صوفے پی رکھا اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا کچھ وقت اسے دیکھتے گزار دیا۔

"زینب" وہ زور سے اسے پکارتا اسکی محویت توڑ گیا۔

زینب چونکی حیدر سامنے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا زینب نے جلدی سے پاس پڑا دوپٹہ سینے پر برابر کیا اور سیدھے ہو کے بیٹھ گئی۔۔۔۔اسی طرح بیٹھے وہ اب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔

"تیار ہو جاؤ۔۔۔۔"

"مجھے نہیں جانا کسی کی شادی میں" زینب اس کی اتنی ہی بات بولنے پر بول اٹھی تھی۔

"میں لے کے بھی نہیں جا رہا کسی کی شادی میں۔۔۔ریڈی ہو جاؤ ایک آفیشل ڈنر پر جانا ہے" اس نے تردید کی تو زینب کو سبکی کا احساس ہوا۔

"میں کہیں نہیں جا رہی" وہ اپنی جلدبازی پر جھنجلاتی سلیپر پیروں میں ڈال جانے لگی تھی کہ حیدر دیوار کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہو گیا۔

"تم چل رہی ہو یا میں" اس نے جملہ ادھورا چھوڑا۔

"کیا میں۔۔۔۔کیا میں ہاں۔۔۔۔۔کیا میں میں لگا رکھی ہے تم نے۔۔۔۔پہلے دن سے اب تک تم مجھے بلیک میل کرتے آ راہے ہو" زینب تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی۔۔۔پہلے ہی اس کا موڈ ٹھیک نہیں تھا اور وہ حیدر کی ان روز روز کی بلاکمیلنگ سے تنگ آ گئی تھی۔

"اوبویسلی میں کر رہا ہوں۔۔۔۔اب تم چل رہی ہو یا میں اس پر عمل کروں" وہ ڈھٹائی سے کہتا اسے زچ کرنے پر تلا تھا جو وہ پہلے ہی کم نہ تھی۔

"حیدر!!! " وہ چیخ  پڑی تھی۔

"اتنی محبّت سے نہ پکارو کہیں میں فوت ہی نہ ہو جاؤں" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا وہ اسے ایسے بلاتی اچھی لگی تھی۔

"روکا کس نے ہے" وہ سردمہری سے کہتی آگے بڑھ گئی۔۔۔۔حیدر نے اسے بازو سے پکڑ روک لیا تھا جس میں وہ مچلنے لگی تھی۔۔۔۔زینب نے دیکھا تھا اسکی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی اور اس کی جگہ سخت سنجیگدی نے لے لی تھی۔

"مجھے مجبور مت کرو" اس کا لہجہ بھی اس کے تاثرات کی طرح ہی سخت تھا۔

"ورنہ کیا کر لو گے" اس کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔

"وہ جس کا تم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا" پتا نہیں کیا تھا اس کے لہجے میں اس نے جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا۔

"جب تک میں واپس آؤں مجھے تیار نظر آؤ تم" وہ نارمل ہوتا اسے حکم دے گیا تھا اور زینب کا خون خول اٹھا تھا اس کا بس چلتا تو حیدر کا گلہ ہی دبا دیتی۔

اسے نیلا پلا چھوڑ وہ لاونچ میں صوفے پر گرا پیر سامنے رکھی سینٹر ٹیبل پر پھیلا دئے۔۔۔۔سر صوفے کی پشت پر ٹکایا اور آنکھیں موند لیں۔

پتا نہیں کتنی دیر گزری تھی جب سعید عبّاس کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"تھکے ہوئے لگ رہے ہو"

اس نے نیم وا آنکھوں سے اپنے سامنے بیٹھے اپنے بھائی کو دیکھا جو فکرمند لگ رہے تھے۔

"ہمم " اس نے ہنکار ابھرا۔

"حیدر کب کب اور کس کس کے سامنے تم اس کی ڈھال بن کر کھڑے رہو گے" وہ آج آفس میں ہوئے واقعے سے واقف تھے۔

اب کے وہ سیدھا ہو کے بیٹھا تھا۔

"جب تک وہ اپنی ڈھال خود نہیں بن جاتی۔۔۔۔جب تک وہ ،وہ زینب نہیں بن جاتی جس کے پاس میری ہر غلط بات کا منہ توڑ جواب ہوتا تھا۔۔۔۔میں نہیں چاہتا وہ کل کو پھر کسی کے سامنے کھڑی اپنی ذات کو سوالیہ نشان سمجھے۔۔۔۔کسی کو بھی یہ اجازت دے کہ وہ اسکی ذات کے پڑکچے اڑانے لگے" اسے احساس ہوا وہ زیادہ کہہ گیا تھا اسی لئے چپ ہو گیا۔

"فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا" صاف ظاہر تھا سعید عبّاس کو اس وقت صرف اپنے بھائی کی پرواہ تھی۔

"مجھے بس اس کی فکر ہے"

سعید عبّاس اب کے زینب کے ذکر پر کچھ جیلس ہو گئے تھے وہ اس کے لئے دبلے ہوئے جا رہے تھے اور جناب کو زینب کے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

"ایسا کیا ہے اس میں کہ تمہاری ہر سوچ اس سے ہی جا ملتی ہے" سعید عبّاس پوچھ بغیر رہ نہیں سکے۔

"کیا ہے اس میں۔۔۔۔" وہ سوال دوہراتے مسکرایا۔

"اسے مجھ سے بنایا گیا ہے میرا آدھا حصّہ ہے اس میں"

سعید عبّاس اس کی بات میں موجود یقین دیکھ ٹھٹکے تھے اور سر جھٹک کے مسکرا دئے۔

"اور اسے پتا ہے کتنے لوگوں سے ہتاپائی کر رہے ہو تم اس کے لئے" ثانیہ بھابی ساری بات سن چکی تھیں لاونچ میں صوفے پر بیٹھتے متلاشی نظروں سے اسے دیکھتی پوچھ رہی تھیں۔

"وہ بے خبر ہی ٹھیک ہے" اس نے بات ختم کرنی چاہی۔

"اور تمہارے ساتھ۔۔۔۔تمہارے ساتھ ٹھیک ہے" ثانیہ بھابی بات ختم کرنے پر رضامند نہیں تھیں ایک نیا سوال اس کے آگے پیش کر دیا۔

"کہاں بھابی بات کرنا تو پسند نہیں کرتی پر میں بھی آپ کا دیور ہوں کھری کھوٹی ہی سہی شوق سے سن لیتا ہوں" وہ شوخی سے بولا تو ثانیہ بھابی کو لگا وہ شاید بتانا نہیں چاہ رہا تھا اور وہ خامہ خاں پرسنل ہو رہی تھی حالانکہ حیدر نے سچ بولا تھا۔

انہوں نے بات کو ہنس کے ٹالنا بہتر سمجھا۔

"چلیں تیار ہو جائیں اب" ثانیہ بھابی سعید عبّاس سے کہتی اپنے کمرے میں چلی گئیں تھیں۔۔۔اور ان کے ساتھ ہی سعید عبّاس بھی اٹھ گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زینب اس کے جاتے ہی اس کے پیچھے لپکی تھی اور وہ سب سن بیٹھی تھی جو اسے نہیں سنا چاہیے تھا۔۔۔۔

پتا نہیں حیدر کی باتوں کا اثر تھا یا کچھ اور زینب نے کمرے میں آ کے وارڈروب سے مہروں وہی سوٹ نکالا جو حیدر کے پسند کا تھا اور زیب تن کر لیا شاید وہ اپنے اس عمل سے حیدر کا احسان چکا رہی تھی یا پھر اپنے دل کا بوجھ کچھ کم کر رہی تھی برحال جو بھی تھا اب وہ یہ کر رہی تھی۔

حیدر نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھا اور اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔دروازہ کھول اس کی نظر سامنے کھڑی زینب پر پڑی تھی جس کی پشت اس کی طرف تھی۔۔۔۔وہ ائیرنگ کان میں ڈال رہی تھی اور اس کی موجودگی سے یکسر بے نیاز تھی۔۔۔۔حیدر منجمد ہوا تھا اسکا حسن دیکھ کر نہیں۔۔۔۔وہ رنگ دیکھ کر ہوا تھا جو اس کے پسند کا تھا جو اسکی سفید رنگت کو دہکا رہا تھا۔

وہ اسی کیفیت میں اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔۔۔۔وہ اب تک اپنے کام میں مصروف تھی۔۔۔۔حیدر نے آئینے میں دیکھتے اپنے اور اس کے عکس کو باری باری دیکھا تھا۔۔۔۔۔اس خوبصورت آئینے کے فریم میں ان دونوں کا عکس ایک دوسرے کو مکمل کر رہا تھا۔۔۔۔بلکل چاند اور ستاروں کی طرح ایک دوسرے کے داغوں کے ساتھ جب وہ ایک جگہ ملتے تو ماحول کو سحر زادہ بناتے تھے اور اب بھی بنا رہے تھے۔۔۔۔

حیدر کی نظر آئینے سے ہوتی ہوئی اسکی کمر پر بکھرے سیاہ بالوں پر جا ٹھری۔۔۔۔وہ اس سے بس ایک قدم کے فاصلے پر تھی۔۔۔۔حیدر کے دل نے ان ریشمی بالوں کو چھونے کی خواہش کی تھی وہ اس پر عمل بھی کر دیتا اگر زینب اس کی محویت دیکھ اپنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں لپیٹ نہ لیتی۔

حیدر کو نجانے کیا سوجھی اس نے آگے بڑھ کر زینب کے جوڑے میں مقید بالوں کو کھول دیا۔۔۔۔بال آبشار کی مانند زینب کے شانوں پر لہرا گئے۔

زینب نے وقت ضائع کئے بغیر انہیں پھر لپیٹ لیا۔۔۔حیدر نے بھی اپنے کئے پر دوبارہ عمل کر دیا۔۔۔۔زینب کے بال پھر کمر پر جھول گئے۔

زینب نے ایک لمبی سانس اندر کو کھینچ بالوں کو پھر جوڑے کی شکل دی۔۔۔۔حیدر نے ہٹ دھرمی سے اپنا عمل دوہرا دیا۔

"تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے" زینب کا ضبط جواب دے گیا تھا۔۔۔۔حیدر کے تیسری بار بال کھولنے پر وہ غصّے سے دھاڑی تھی۔

"تم روح میں اتر رہی ہو" وہ دل کی آواز پر دل سے مسکرایا۔

"میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے جو تمہیں ہنسی آ رہی ہے تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے" حیدر کا مسکرانا اس کے غصّے کو ہوا دے گیا تھا۔

"اپنی جاگیر" وہ اسے نظروں کے حصار میں لیتا استحاق سے لبریز لہجے میں بولا۔

"وہم ہے تمہارا" استحاق کو مسترد کیا گیا۔

"سوچ ہے تمہاری" حیدر نے اسی کے انداز میں کہا تھا۔

"دیکھو۔۔۔۔۔۔" وہ انگلی اٹھاتی اسے باز رکھنے ہی والی تھی کہ وہ بیچ میں ہی بول پڑا۔۔۔

"قسم سے" وہ آنکھوں میں شوخی لئے پوچھ رہا تھا اور یہاں پہلی بار زینب کا دل زور سے
دھڑکا۔۔۔۔اس نے فوراً سے پیشتر ڈریسنگ سے کیچر اٹھایا اور اس کی ڈسٹرب کر دینے والی نظروں سے دور ہو گئی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم تو کہہ رہے تھے آفیشل ڈنر ہے" کار وینیو کے باہر روکی تو زینب نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں آفیشل ہی تو ہے۔۔۔۔۔تم میری آفیشل بیوی ہو تو تمہارے ساتھ ڈنر بھی تو آفیشل ہی ہوا نہ" وہ سیٹ بیلٹ ہٹاتا بڑے آرام سے بول رہا تھا۔

"تم انتہائی گھٹیا ،خودغرض اور۔۔۔۔۔۔۔" ابھی زینب نے اس کی شان میں قصیدے پڑھنے ہی شروع کئے تھے کہ حیدر نے اسے ٹوک دیا۔

"باقی کی خوبیاں تم اندر چل کے آرام سے بتانا میں پوری توجہ سے سنو گا" وہ اپنی جگہ چھوڑ اسکی سائیڈ کا دروازہ کھولے کھڑا تھا اور جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو حیدر کو بولنا پڑا۔

"اترو"

"میں کہیں نہیں جا رہی تم خود جاؤ" وہ چہرہ دوسری طرف کئے اپنے لفظوں پر زور دیتی بولی تھی۔

"تمہارا وزن اتنا نہیں ہے کہ میں اٹھا نہ سکوں" وہ اپنے اگلے عمل سے اسے پہلے ہی باخبر کر رہا تھا۔

زینب نے گردن اٹھا کے اسے دیکھا اور اسی کے انداز میں کہا۔

"اور میرے ہاتھ اتنے کمزور نہیں ہیں کہ میں چلا نہ سکوں"

حیدر کھڑا کچھ دیر اسے گھورتا رہا اور پھر اس نے جھک کے زینب کی سیٹ بیل کھولنی چاہی تو وہ مذمت کرنے لگی حیدر نے اپنے مضبوط ہاتھ میں اس کی نازک سی دونوں کلائیاں دبوچ لیں۔۔۔۔سیٹ بیل کھولی اور اسے باہر کی طرف کھینچا وہ بمشکل اپنا توازن برقرار رکھ سکی تھی۔

حیدر نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور زینب کی ایک کلائی چھوڑ دی تاہم زینب کی ایک کلائی اب بھی اس کی گرفت میں تھی۔۔۔۔۔وہ اسے تیز تیز قدم لیتا اپنے پیچھے گھسیٹ رہا تھا۔۔۔۔زینب پہلے تو چار نا چار اس کے ساتھ گھسیٹی چلی گئی لیکن پھر زینب نے اپنی پوری قوت لگاتے اپنا ہاتھ کھینچا تھا۔۔۔۔کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کے زمین پر بکھر گئیں۔۔۔۔حیدر نے پلٹ کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔

"مجھے نہیں جانا اندر" وہ غصے سے بولی تھی۔

وہ کچھ وقت کے توقف کے بعد نرم لہجے میں بولا تھا۔

"جب تک ہم اپنی عزت اپنی قدر خود نہیں کریں گے کوئی دوسرا بھی نہیں کرے گا اپنی عزت اپنی قدر کرنا سیکھو خود کو خود کی نظروں میں معتبر بناؤ" وہ اسے سمجھانے کی غرض سے بولا تھا۔

زینب نے کبھی نہیں سوچا تھا اس کو یہ نصیحت بھی سنی تھی جس پر کچھ عرصے پہلے وہ جی جان سے عمل پیرا تھی آج نہیں تھی وجہ شاید حالات تھے۔۔۔۔شاید وقت۔۔۔

"میں نہیں جاؤں گی" اس کا احتجاج کمزور ہوا تھا۔

"یہ لڑکی کبھی جو بینا دھمکی کے سن لے" حیدر نے سوچتے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"ٹھیک ہے تم یہاں روکو میں ذرا رانیہ کو احمر سے محتات کر آؤں۔۔۔جیسے ہی برات واپسی ہوتی ہے ہم بھی تب ہی نکل جائیں گے"

زینب اسکی بات میں چھپی دھمکی اچھے سے سن
چکی تھی اور ایک بار پھر اس کا میٹر چڑھ گیا تھا۔

"کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے میں تمہارا منہ نوچ لوں تمہارا گالا دبا دوں اور تمہارا سر پھاڑ دوں" وہ سیخ پا ہوتی مٹھیاں زور سے بینچے شاید خود کو یہ سب کرنے سے روک رہی تھی۔

"بندا حاضر ہے" حیدر نے ایک ادا سے سر کو خم کر کے کہا۔

زینب پیر پٹخ کے رہ گئی۔

حیدر نے اس کا ہاتھ اپنے بازو کے گرد لپیٹا اور "اب ٹھیک ہے" کہتا اندر کو چل دیا۔

وینیو کو پھولوں اور برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔ہال کھچا کھچ مہمانوں سے بھرا تھا۔۔۔۔حیدر نے احمر کو دیکھا تو سیدھا اس کے پاس جا پونچھا۔۔۔۔زینب اتنی ہی دیر رانیہ کے پاس بیٹھی رہی جب تک حیدر اسے لئے وہاں بیٹھا رہا۔

اس کے بعد وہ پورا وقت یونہی اسے خود سے لگائے رہا تھا۔۔۔یونہی لوگوں سے ملا اور بڑے فخریہ انداز میں وہ زینب کا تعارف یہ کہتا سب سے کرا رہا تھا "میٹ مائی وائف زینب حیدر عبّاس" اور اس تعارف پر زینب ہر بار چونکتی۔۔۔۔۔اسے دیکھتی پر وہاں طنز کی کوئی رمق موجود نہیں تھی البتہ اسے لگا وہ اسے یوں سب سے ملواتا معتبر کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔آج زینب کو خبر ہی نہیں ہوئی اس نے کتنی ہی ناگوار نظریں خود پر پڑتیں محسوس ہی نہیں کیں اور اس بےخبری کے عالَم میں وہ حیدر کو تکتی رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ ریاضی کے سوالوں کی طرح ہر اسٹیپ کے بعد مشکل ہوتا جا رہا تھا لیکن زینب کو یاد نہیں پڑتا تھا ریاضی کبھی اس کے لئے مشکل بھی رہی تھی وہ تو اس کے ہر سوال کو بڑے شوق سے اور جلدی حل کیا کر لیتی تھی تو پھر یہ کون سا مضمون زندگی اسے پڑھا رہی تھی جس کے ہر مرحلے پر وہ ناکام ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔کاش!! کوئی اسے بتا دیتا کہ وہ "عشق " کے مضمون میں اس شخص سے ہار رہی تھی جسے اس نے ہر مقام پر ہرایا تھا۔۔۔۔۔ہر مضمون میں پیچھے چھوڑا تھا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے میں شرکت کے لئے وہ بغیر کسی دھمکی کے تیار ہو گئی تھی۔۔۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس بار حیدر کو جیتنے دے یہ احساس ہونے دے کہ وہ مجبور ہے حالانکہ وہ ایسا کئی بار کر چکی تھی۔

ولیمے کی شاندار تقریب کے بعد علی نے کرسیاں ہٹا کر چاندنی بچھائی۔۔۔۔چاندنی کے گرد گاؤں تکیے رکھے وہ مشاعرے کے پروگرام کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔گھر کے بڑوں کو چونکہ پہلے ہی یہاں سے رخصت کر دیا گیا تھا اسی لئے اس وقت یہاں نوجوان نسل ہی موجود تھی۔۔۔۔

یہ سب لڑکے ایک طرف جب کہ لڑکیاں دوسری طرف بیٹھیں تھیں۔۔۔وہ سب آمنے سامنے بیٹھے مشاعرہ شروع کرنے کے لئے تیار تھے۔

کیوں کے مشاعرے کا آئیڈیا علی کا تھا اسی لئے آغاز بھی علی نے ہی کیا تھا۔

سنا ہے لوگ مجھے آنکھ بھر کر دیکھتے ہیں

علی نے لفظ "اسے" کو مجھے سے بدلا اور عائشہ پر چوٹ کی جو اب ہر وقت اسے ہی دیکھتی رہتی تھی۔۔۔وہ اس کے سامنے رائل بلیو فروک میں ملبوز تھی اور علی نے اسی رنگ کا ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا۔ عائشہ کے سنہرے بال جو کندھوں پر گرے تھے اس نے چہرے کو ہلکا سا میک اپ کا ٹچ دیا تھا وہ پیاری سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی علی کو۔

سو آپ کی سماعتوں کا علاج کسی اچھے ہسپتال سے کرا کے دیکھتے ہیں

عائشہ نے ادھار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

عائشہ کا فقرہ سن لڑکوں نے دبی دبی سی ہوٹنگ کی تھی۔

علی نے اپنی غزل جاری کرتے آگے کا شعر پڑھا۔

سنا ہے بولوں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

علی نے اب کے اس کی کی گئی تعریف "آپ باتیں اچھی کرتے ہیں" پر اسے چھیڑا تھا۔

یہ بات ہے تو ان زہریلے پھولوں کو آپ پر نچھاور کر کے دیکھتے ہیں

عائشہ نے ہاتھ میں پہنے گجرے سے پھول توڑ اس کے منہ پر مارے۔

سنا ہے دن کو مجھے تتلیاں ستاتیں ہیں

عائشہ کو یاد آیا تھا وہ کل اس سے عبّاس بابا کے گھر جانے کی ضد کر رہی تھی۔

سنا ہے رات کو مچھر ڈس کے دیکھتے ہیں

عائشہ کا دل کیا تھا اس کی بوٹی نوچ لے یہ محفل میں بیٹھا کچھ بھی بولے جا رہا تھا۔

سنا ہے رات مجھے چاند تکتا رہتا ہے

علی نے ایک بار پھر عائشہ کے اسے دیکھنے پر چوٹ کی تھی۔

سنا ہے چڑیلیں آسمان سے اتر کے دیکھتی ہیں

عائشہ نے اس کی کزن "رامین" کو چڑیل کہا جو کل شام علی کو لیونگ روم میں سوتا دیکھ اس کے دیدار میں لگ گئی تھی جو عائشہ کو سلگا گیا تھا۔

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبین میری

علی نے آئینے کو عائشہ سے تشبیہ دی۔

جو ایسے کالے دل ہوں ان سے آنکھ بچا کر رہتے ہیں

عائشہ نے ہاتھ جھاڑ سارا حساب برابر کیا تھا۔۔۔سبھی نے اپنی روکی ہوئی ہنسی کو بحال کرتے قہقے لگائے تھے۔

"اگر احمد فراز یہ سن لیتے تو صدمے سے ایک بار پھر دنیا سے چل بستے" یہ تبصرہ حاشر نے کیا تھا۔

"تم لوگ مشاعرہ کر رہے ہو یا اس کا جنازہ نکال رہے ہو" یہ احمر تھا جو بمشکل اپنی ہنسی روک رہا تھا۔

سب کی ہنسی بند ہوئی تو ایک ایک کر سب نے شعر پڑھا۔۔۔۔اب باری زینب کی تھی۔۔۔سب خاموش سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔وہ کھوئی ہوئی لگنے لگی تھی ایک دم سے

مجھے اپنے ضبط پے ناز تھا،سر بزم رات یہ کیا ہوا
میری آنکھ کیسے چھلک گئی،مجھے۔۔۔۔۔۔

اس کی نظر حیدر پر پڑھی تو جیسے وہ سب بھول گئی۔ وہ اپنی تمام تر توجہ اس پر ملبوز کئے بیٹھا تھا۔

"آگے" وہ سنا چاہتا تھا اسے۔

"میں بھول گئی" اس نے بہانہ بنایا۔

حیدر نے انہی گہری نظروں سے زینب کو دیکھتے گھمبیر لہجے میں غزل کا آغاز کیا۔

سفر تنہا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے

اس کا انداز ایسا تھا وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے لگی۔

جسے شفاف رکھنا ہو
اسے میلا نہیں کرتے


وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی۔


تیری آنکھیں اجازت دیں
تو ہم کیا نہیں کرتے

وہ اور کیا کرنے کی خواہش رکھتا تھا اس کے لئے اتنا سب کرنے کے بعد بھی وہ الجھی

بہت اجڑے ہوئے گھر کو
بہت سوچا نہیں کرتے

اب کے وہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی وہ اس کی سوچوں تک رسائی رکھتا تھا وہ جانتا تھا وہ کس اجڑے ہوئے گھر کو سوچتی تھی۔

سفر جس کا مقدر ہو
اسے روکا نہیں کرتے

وہ کس کو روک رہی تھی شاید خود کو

جو مل کے خود سے کھو جائے
اسے روسوا نہیں کرتے

اس نے تو حیدر کو روسوا نہیں کیا تو پھر وہ ایسے کیوں کہہ رہا تھا۔

یہ اونچے پیڑ کیسے ہیں
کہیں سایہ نہیں کرتے

وہ اب اس سے گلا کرنے لگا تھا۔۔۔۔ہاں وہ یہی کر رہا تھا۔

کبھی ہنسنے سے ڈرتے ہیں
کبھی رویا نہیں کرتے

زینب کو پتا نہیں کیوں اس وقت رونے کی شدید خواہش ہوئی تھی وہ اسے اتنے سے دنوں میں جان گیا تھا۔

تیری آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے

وہ جیسے بتا رہا تھا وہ اسکی آنکھیں پڑھتا رہا تھا
"کیوں" وہ جانتے ہوئے بھی انجان بنا چاہتی تھی۔

چلو تم راز ہو اپنا
تمہیں افشا نہیں کرتے

زینب نے بے اختیار سانس لی وہ اور کچھ نہیں بولنے والا تھا۔

سحر سے پوچھ لو محسن
ہم سویا نہیں کرتے

حیدر نے اسے اپنی حالت سے روشناس کرایا تھا۔

(محسن نقوی)

اس کے لبوں نے حرکت چھوڑ دی تھی۔۔۔۔آنکھوں نے نہیں۔۔۔۔ وہ اب بھی اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ماحول پر سکوت طاری ہو گیا تھا۔۔۔۔۔سب اپنی جگہ خاموش بیٹھے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔جو بارات والے دن  کی طرح آج پھر ایک دوسرے میں کھو گئے تھے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top