مجھے کیا ہوا
حیدر رانیہ کے آنے تک زینب کے ساتھ تھا اس کے بعد وہ ہسپتال سے چلا گیا تھا۔
زینب نے ہوش میں آنے پر نہ کچھ کہا تھا نہ ہی وہ روئی تھی۔ وہ بے سد سی تھی۔ ایک گہرے سناٹے کا راج تھا اس کے دل و دماغ میں ایک ایسے سناٹے کا راج جس کے بعد طوفان کی آمد ہوتی ہے۔
اس کی یہ خاموشی اس کے ارد گرد کے لوگوں کو ہولا رہی تھی لیکن وہ اس سب سے بے خبر خود میں ہو کے بھی خود میں نہیں تھی۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کہیں گم ہو گئی تھی۔
اس سب کے دوران انس احسن نے والیواللہ کے آخری سفر کے تمام انتظامات خود دیکھے تھے۔ انہیں ان کے جانے کا بہت افسوس تھا بہت دکھ تھا وہ اسلام آباد سے آنے پر ان سے وہ بات کرنا چاہتے تھے جن کا انتظار انہیں کافی عرصے سے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین ہفتے بعد
آج والیواللہ کو گئے تین ہفتے گزر گئے تھے۔ زینب نے باہر کی دنیا سے ناتا توڑ دیا تھا نہ وہ آفس جا رہی تھی نہ ہی کہیں اور۔ رانیہ اور نور روز اس سے ملنے اس کے اپارٹمنٹ میں آتیں تھیں لیکن وہ سارا وقت صرف ان کی سنتی تھی کچھ کہتی نہیں تھی۔ رانیہ نے اسے یوں دیکھ رو کے اس کی منت بھی کر لی تھی لیکن آج اسے رانیہ کے آنسووں سے فرق نہیں پڑا تھا۔
اس کا غم اتنا چھوٹا تو نہ تھا۔ کسی یتیم شخص کا ایک بار پھر یتیم ہو جانا کس قدر تکلیف دے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اس شخص کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا اور وہ اس درد سے گزر رہی تھی۔ وہ کیسے کچھ کہتی وہ کیسے رو لیتی کیوں کہ اگر اب کے وہ ٹوٹ جاتی تو اس کا ریزہ ریزہ بکھر جاتا اور وہ ان کو سمٹنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔
رانیہ اور نور نے جاتے وقت اس سے پھر التجا کی تھی اسے اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلایا تھا اور زینب نے بس اثبات میں گردن ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
وہ لاونچ میں صوفے پر بیٹھی تھی جب اس کی نظر خاکی رنگ کے ڈبوں پر پڑی۔ اسے اچانک ہی کچھ دن پہلے کا یتیم خانے کے باہر کا منظر یاد آیا تھا۔
"یہ اٹھاؤ سامان اور دفع ہو جاؤ یہاں سے تم جیسی لاوارث لڑکی کو ہم یہاں ایک دن اور برداشت نہیں کر سکتے نہ جانے کس کا گندا خون ہے اس کی رگوں میں۔۔۔۔والیواللہ صاحب کی تو مت ماری گئی تھی جو کسی کے گناہ کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے تھے" آسیه بیگم اس سے کہتے کہتے مجمعے میں کھڑے لوگوں سے مخاطب ہوئیں تھیں۔
زینب چپ سب سن رہی تھی۔ وہ ان کی باتوں کا جواب ضرور دیتی اگر والیواللہ کے جانے کا دکھ اس کے سر پر سوار نہ ہوتا۔
"مت کیا ماری گئی تھی فائدہ اٹھا رہے تھے اتنی حسین لڑکی کو تو میں بھی منہ بولی بیٹی بنانے کو رضامند ہوں لیکن صرف منہ بولی" مجمعے میں کھڑا ایک بڑی عمر کا شخص اپنے لہجے میں دنیا بھر کی غلاظت لئے بولا تھا۔
آسیه بیگم سٹپاٹائیں تھیں وہ زینب کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتیں تھیں لیکن یہاں بات والیواللہ کی ہو رہی تھی جن کی وہ سب ہی عزت کرتے تھے۔
یہ سن زینب کے جسم میں خون کی رفتار تیز ہوئی تھی۔ اس نے ہونٹ سختی سے بینچ اس شخص کے منہ پر ایک کے بعد ایک تھپڑ مارا تھا۔
وہ آدمی اشتعال میں آتا اب اس کی طرف اسے مرنے کو دوڑا تھا کہ انس احسن نے اپنے ہاتھ کا مکا بنائے اس کے جبڑے پر اتنی زور سے مارا تھا کہ وہ سنمبھل نہ سکا اور زمین پر جا گرا۔
"سوچنا۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔مت" وہ ہر لفظ پر زور دیتے اسے تنمبی کر رہے تھے۔
وہ حال میں واپس لوٹی تھی۔ وہ صرف اپنی ذلت کا باعث نہیں تھی وہ والیواللہ جیسے اعلی کردار والے شخص کی بھی ذلت کا باعث بن رہی تھی یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔
اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ اس ڈبے کو کھولا تھا جس میں سے اسے اپنی تمام شیٹس اور انعامات ملے تھے۔ یہ سب تو اس نے والیواللہ کے لئے جیتے تھے انہیں خوش کرنے کے لئے، ہر ایک شیٹ کو دیکھ اسے اس سے جوڑی ہر بات یاد آ رہی تھی۔ اس نے انہیں فرش پر رکھا تھا اس ڈبے میں سے والیواللہ کے کپڑے اور ان کے استمعال کی کئی چیزیں نکلی تھیں۔ پھر زینب نے اسی ڈبے میں رکھے ایک چھوٹے ڈبے کو دیکھ اسے باہر نکالا تھا اس میں سب سے اوپر اسے اپنی اور والیواللہ کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ان کی داڑھی پکڑ کھینچ رہی تھی اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور اگلے ہی پل آنکھوں میں آنسو بڑھ گئے۔
اس میں سے اسے گلابی رنگ کا چھوٹے بچے کا کمبل اور ایک جوڑا بھی ملا تھا اس کے علاوہ اس میں ایک چھوٹا سا سونے کا لوکیٹ تھا جس پر زیڈ کا حرف جڑا تھا دو سونے کی چھوٹی چھوٹی ہی چوڑیاں تھی۔ زینب کو بے حد حیرت ہوئی تھی کیا بابا اس کے بچپن میں امیر تھے کیا ان کے پاس اتنا پیسا تھا کہ وہ اسے یہ سب دلا سکیں یہی سوچتے اس نے اس میں سے ایک آخری چیز نکالی تھی۔۔۔ایک خاکی رنگ کا لفافہ۔۔۔۔۔جو اس کو خاک میں ملانے کے لیے کافی تھا۔۔۔
اس نے اسے کھولا تھا اندر ایک خط موجود تھا۔ وہ اسے کھول اپنے سامنے کئے پڑھنے لگی۔
السلام عليكم
اخبار میں آپ کا دیا اشتہار دیکھا تھا اسی میں سے آپ کا پتا دیکھ آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔۔۔۔آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں سوچا نہیں تھا کسی انجان کو یہ سب بتاؤں گی پر اب آپ انجان بھی کہاں رہے ہیں۔
میں ایک بد قسمت ماں ہوں جو اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہ کر سکی۔۔۔میری چھوٹی اور سب سے لاڈلی بیٹی نے محبّت کی تھی پتا نہیں محبّت کی کون سی قسم تھی یہ کہ ہر حد عبور کر لی گئی۔۔۔۔اللہ کی بنائی حدود کا احترام نہ کیا گیا جس کا نتیجہ آپ کے پاس ہے۔
میری بیٹی تو اسے پیدا بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ اس کا باپ اسے چھوڑ بھاگ گیا تھا اور اس محبّت کو نفرت میں بدلنے میں ایک لمحہ لگا تھا۔ جہاں وہ مجھے پردے میں رکھ اپنا دامن کالا کر آئی تھی وہیں وہ بھلے سے اس ننھے وجود کو بھی ختم کر دیتی لیکن میں۔۔۔۔میں کیسے کسی کے قتل میں شریک ہو سکتی تھی میں نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔۔۔۔۔میں اسے ایک انجان جگہ لے گئی جہاں کوئی ہمیں نہ جانتا تھا اور پھر نو مہینے بعد اللہ کی رحمت نازل ہوئی۔۔۔میری زرنش پیدا ہوئی جہاں اسے ایک نظر دیکھ مجھے محبّت ہوئی تھی وہیں اس کی ماں نے اسے دیکھ نخوست سے منہ پھیرا تھا کیوں کہ وہ اپنے باپ جیسی تھی اس کی آنکھیں ہو با ہو باپ جیسی تھیں کالی گہری سیاہ آنکھیں لیکن ایک بات نئی تھی ان آنکھوں میں یہ بولتی تھیں جو اس کے لب نہ بولتے تھے وہ پڑھ لیتی تھیں جو سامنے والا کہہ نہ سکتا تھا۔ دن گزرتے گئے اور میری اس سے محبّت بڑھتی گئی پر افسوس میں کب تک اپنی زرنش کو اس دنیا سے بچا سکتی تھی میں تو اسے اپنے ہی گھر والوں سے نہ بچا سکی۔
میرے بیٹے اور بیٹیوں نے اسے قبول نہ کیا انہیں اپنی نام نہاد عزت کی پرواہ تھی جو بہت پہلے ہی نیلام ہو چکی تھی۔ میں روتی۔۔۔سسکتی۔۔۔بلکتی۔۔۔رہی لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور اسے لے گئے۔
میں گھر کے باہر کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی جب وہ واپس آیا میں نے پوچھا کہاں چھوڑ آئے میری زرنش کو وہ مجھے پکڑے اندر لے آیا میں نے ایک بار پھر پوچھا۔
"غلاظت کچرے میں رہے تو ہی اچھی لگتی ہے گھر میں نہیں"
اس نے کہا تو میرا رواں رواں جلنے لگا۔ میں نے اسے خوب کھری کھونٹی سنائی پر اس کے چٹان سے سخت لفظوں نے میری بولتی زبان کو بند کر دیا۔
"جب اس کی ماں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے جینے مرنے سے تو آپ کو بھی نہیں پڑنا چاہیے یہ نہ ہو کے اس گھر میں پڑی دوسری غلاظت کو بھی میں باہر پھینک آؤں۔۔۔۔رشتہ دیکھیں اس کا اور چلاتا کریں اسے میں اب اسے اس گھر میں مزید برداشت نہیں کر سکتا"
میں کچھ نہ کر سکی سوائے دعاؤں کے۔ پھر ایک ہفتے پہلے اخبار میں آپ کا دیا اشتہار پڑھا۔ میں اللہ کا جتنا شکر ادا کر سکتی تھی میں نے کیا اس نے میری زرنش کو اپنے امان میں رکھا اسے صحیح سلامت رکھا۔
میں تو آپ سے یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ میری زرنش کا خیال رکھیے گا کیوں کہ جس کی ماں نے اسے قبول نہیں کیا اسے دنیا کیسے قبول کرے گی۔
یہ خط لکھنے سے پہلے میں نے آپ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کی تھی۔ مجھے آپ کی بیوی اور بیٹی کا بہت افسوس ہے شاید اللہ نے اس بچی کو آپ کے لئے ہی دنیا میں بھیجا ہے۔ میں اس کو آپ کو سونپتی ہوں آج سے یہ آپ کی ہے۔
میں اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ آپ کو بھیج رہی ہوں ساتھ کچھ رقم بھی امید کرتی ہوں آپ کے کام آئے گی۔ میں امید کرتی ہوں آپ زرنش کا خیال رکھئیں گے۔
اللہ حافظ
زرنش کی نانو
زینب نے خط پڑھ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا اس کا چہرہ آنسوؤں سے پاک تھا طوفان آیا تھا اور ہر چیز کو تہس نہس کر اس کی آنکھوں کو خشک کر گیا تھا۔
اس نے اپنے شک کو دور کرنے کے لئے لفافے کو الٹ دیا تھا اس میں سے نوٹوں کی گڈی اور ایک اخبار اور کچھ دستاویز نکلے تھے۔
زینب کو اسے اٹھانے کی ہمت نہیں تھی پر اسے سچ جانا تھا۔ اس کے ہاتھ اور ہونٹ بری طرح کانپ رہے تھے۔ اس نے اپنے کانپتے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا تھا اور کانپتے ہاتھوں سے ہی اخبار کو اٹھایا۔ اس نے تیزی سے دھڑکتے دل سے اس میں وہ اشتہار ڈھونڈا تھا۔ وہ اسے مل گیا تھا اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑا تھا۔ وہاں اس کی تصویر چھپی تھی انہی کپڑوں میں جو اس نے ابھی اس ڈبے سے نکالے تھے گلے میں لاکٹ بھی وہی تھا جو ابھی وہ دیکھ چکی تھی۔ اس نے اس سب کو پھینک لمبی لمبی سانسیں لیتے ٹھل لگانی شروع کی تھی۔
منظر بدلا
"تمہیں کتنی بار کہا ہے اس لڑکی کے پاس مت جایا کرو" آسیہ بیگم دعا کو سخت گھورتے ہوئے بولی تھیں۔
"کیوں نہیں جایا کروں" دعا نے معصومیت سے سوال کیا۔
"کیوں کے وہ گندی ہے" وہ غصّے سے بولیں۔
"لیکن وہ تو اچھی ہیں" جواب اسی معصومیت سے آیا۔
"جس بات کا تمہیں نہیں پتا اس کے لئے میرے ساتھ بحث نہ کیا کرو۔۔۔پتا نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی جب یہ گند ہمارے ماتھے لگ گئی" آسیہ بیگم نے پہلا فقرہ دعا کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا اور دوسرے فقرہ بڑبڑاتے ہوئے وہ خود سے بولی تھیں۔
پھر منظر بدلا
"سر میں اِن کے ساتھ کوئی کام نہیں کرنا چاہتا" حیدر نے "اِن" پر زور دے کر کہا۔
"کیوں" سر رضا نے حیدر کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
"سر میں غیر خاندانی لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتا" بڑے ہی اطمینان سے توجہی پیش کی گئی۔
پھر منظر بدلا
جو چیز اللہ نے مجھے نہیں دی میں وہ اللّہ سے مانگنا بھی نہیں چاہتی۔۔۔اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی" زینب نے والیواللہ کو لاجواب کیا تھا۔
"اور بابا اگر مانگ بھی لوں تو کیا وہ لوگ مل جائیں گے جو ہیں ہی نہیں" وہ کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو رگڑ رہی تھی جیسے لکیروں کو مٹا دینا چاہتی ہو۔
"اور اگر وہ مل گئے تو" والیواللہ نے بساختہ کہا تھا۔
اسے ان کی اس بات کا مطلب اب سمجھ آیا تھا جسے اس نے اپنا دھوکہ سمجھ نظر انداز کر دیا تھا۔
*یہ اٹھاؤ سامان اور دفع ہو جاؤ یہاں سے تم جیسی لاوارث لڑکی کو ہم یہاں ایک دن اور برداشت نہیں کر سکتے نہ جانے کس کا گندا خون ہے اس کی رگوں میں۔۔۔۔والیواللہ صاحب کی تو مت ماری گئی تھی جو کسی کے گناہ کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے تھے*
*رانیہ مجھ سے زبان نہ چلاؤ ! ! تم اس لڑکی کے ساتھ اب مجھے نظر نہ آؤ بدچلن ماں کی بدچلن بیٹی*
*غلاظت کچرے میں رہے تو ہی اچھی لگتی ہے گھر میں نہیں*
*تم نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے۔۔۔۔ہاں میں بتاؤں تم کیا ہو تم ایک حرام کی پیداوار ہو*
تلخ جملے اس کی سماعتوں سے گزر اسے اس کی حقیقت دکھا رہے تھے۔ وہ آنکھیں زور سے بند کیے سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔
جو حقیقت لوگ اسے دکھا رہے تھے اس نے نہیں دیکھی تھی لیکن آج وہی حقیقت اسے اس کی اپنی قسمت دکھا رہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
وہ تیزی سے اٹھتی اپنے کمرے میں آئی سائیڈ ٹیبل کی دراز سے وہ چیزیں اِدھر اُدھر کرتی نیند کی گولیاں ڈھونڈ رہی تھی جو تھوڑی ہی دیر میں اسے مل گئیں تھیں۔ اس نے شیشی کو مٹھی میں بند کر کچن کا رخ کیا تھا۔ گلاس شیلف سے اس نے ایک گلاس نکالا تھا پر اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کی وجہ سے وہ زمین پر گر چورا چور ہو گیا اس نے پھر ایک گلاس نکالا لیکن وہ بھی ٹوٹ گیا۔۔۔۔اب کے اس نے بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے گلاس کو تھام کچن کاؤنٹر پر رکھا تھا۔۔۔فریج سے پانی نکال اس نے گلاس میں انڈیلا تھا جس میں سے آدھا پانی سلیپ پر اور فرش پر گرا تھا۔۔۔وہ بری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔اس نے گولیاں ہتھیلی پر نکالی تو وہ بھی یوں ہی گریں اور کچھ اس کی ہتھیلی پر بھی رہ گئیں۔۔۔۔اس نے انہیں منہ میں ڈال پانی کے ساتھ نگلا تھا جس میں سے بہت سا پانی اس کے کپڑوں پر بھی گرا تھا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنے بیڈ پر آ کے بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر کی بات تھی پھر اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا اور وہ دنیا سے بے خبر بیڈ پر ڈیہہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا۔۔۔۔۔بابا سن لیں نہ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔و۔۔۔عدہ۔۔۔توڑ۔۔۔نے۔۔کی۔۔۔۔اتنی بڑی سزا نہ۔۔۔۔دیں مجھے۔۔۔۔۔میں برداشت۔۔۔۔نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔آپ۔۔۔۔جیسا۔۔۔۔کہیں گے۔۔۔۔۔ویسا ہی کروں۔۔۔۔گی۔۔۔آپ جہاں۔۔۔۔کہیں گے۔۔۔۔۔میں وہیں شادی۔۔۔۔۔کر۔۔۔۔لوں گی۔۔۔۔پلیز بابا۔۔۔۔۔جہاں تک پہنچے۔۔۔۔ہیں۔۔۔وہیں سے وا۔۔۔پس۔۔۔۔آ۔۔۔۔جائیں۔۔۔۔۔ورنہ آپ کی۔۔۔۔زینی۔۔۔۔ٹوٹ جائے گی۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔بابا۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔میرے۔۔۔۔پاس۔۔۔۔کوئی۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہے۔۔۔۔کوئی۔۔۔بھی۔۔۔نہیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔خود۔۔۔۔کو۔۔۔مجھ۔۔۔سے دو۔۔۔ر۔۔۔نہ کریں۔۔۔میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔ہمت۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔رکھتی۔۔۔۔آپ۔۔۔کو۔۔۔۔"
وہ آفس میں سر کرسی کی پشت پر گرائے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔ جب وہی سب اسے بند آنکھوں کے پیچھے دکھا جو وہ ان چار ہفتوں میں انگنت بار دیکھ اور سن چکا تھا۔ پر یہ منظر۔۔۔۔یہ الفاظ بھلائے نہیں بھولے جا رہے تھے۔
اس نے آنکھیں کھولی تھیں جن میں الجھن رقم تھی۔ ان ہی آوازوں کے زیرِ اثر ٹیبل سے والٹ اور کیز اٹھائے اپنے کیبن سے باہر نکلتے وہ پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی گاڑی میں آ بیٹھا اور بے مقصد ہی سرقوں پر گاڑی دوڑانے لگا۔
مجھے کیا ہوا
یہ میں نے ہی نا جانا
پانچ چھ گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد بھی وہ تھکا نہیں تھا وہ اسی طرح جگہ جگہ کی خاک چھانتا پھرتا اگر وہ اس جگہ کو نہ دیکھ لیتا۔ یہ ایک پرائیویٹ اسکول تھا جو بڑے رقبے پر بنا ہوا تھا۔
اس نے گاڑی کو لاک کر اندر کا رخ کیا تھا۔
آفس کے آگے رک اس نے دروازے کو نوک کیا۔ سامنے بیٹھی لڑکی نے اپنا قلم روک سر اٹھا کے اس کی سمت دیکھا تھا اور اس کو دیکھ بڑی سی مسکان اس کے چہرے پر سج گئی تھی۔
"السلام عليكم حیدر بھائی" وہ پرجوش سی بولی۔
"وعلیکم السلام کیسی ہو؟" اس نے میز کے آگے رکھی چیئر پر بیٹھتے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے پوچھا۔
"الحمداللہ۔۔۔۔آپ کیسے ہیں؟" وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئی اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
"کیسا لگ رہا ہوں؟" حیدر نے الٹا اس سے سوال کیا۔
"ہمم۔۔۔۔ویسے تو ٹھیک لگ رہے ہیں پر آنکھیں دیکھ ایسا لگ رہا ہے جیسے کافی راتوں سے سوئے نہیں ہیں" اس نے حیدر پر ایک بھرپور نظر ڈال کہا۔
"ہاں بس کام کی مصروفیت کی وجہ سے ویسے تمہارا کام ٹھیک چل رہا ہے؟۔۔۔کسی مدد کی ضرورت تو نہیں؟" حیدر نے مہارت سے بات کا موضوع بدلا تھا۔
"سب بلکل فٹ چل رہا ہے۔۔۔۔بلکہ فٹ سے بھی بہت اچھا کیمپس میں بہت سی تبلیاں بھی کی ہیں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم اور ترقی کریں گے" وہ خوشی خوشی اسے بتا رہی تھی۔
"انشاءلله ضرور۔۔۔۔مجھے دکھاؤ گی نہیں" وہ حامی بھرتا اس سے کیمپس دکھانے کا پوچھ رہا تھا۔
"کیوں نہیں آئیں۔۔۔۔۔پہلے میں ذرا یہ سمیٹ لوں۔۔۔بس پانچ منٹ" اس نے ڈیسک پر پھیلے پیپرس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
حیدر مصروف سے انداز میں اس کے آفس کا جائزہ لیتا اب کمرے کے دائیں جانب بنی کھڑکی کے پاس کھڑا یہاں سے کیمپس کا بہترین ویو دیکھ رہا تھا جب سامنے بنی بلڈنگ پر اس کی نظریں جم سی گئیں۔
"یہ کون ہے؟" حیدر نے عائشہ سے پوچھا۔
"کون۔۔۔۔۔۔یہ" عائشہ نے اس کے برابر کھڑے ہو اس کی آنکھوں کا ارتکاز کرتے کہا۔
"زینب والیواللہ۔۔۔۔۔۔ہماری سیکرٹ ڈونر۔۔۔۔۔ان سے پہلی ملاقات کافی عرصے پہلے ہوئی تھی جب میں کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھی تو یہاں کی انچارج نے ایک بچی کو فیس پے نا ہونے پر اسکول سے باہر نکال دیا تھا وہ بچی ان کی کوئی جانے والی تھی۔۔۔۔ان کا گزر یہاں سے ہوا تو انہوں نے بچی کو باہر چبوترے پر بیٹھے دیکھا۔۔۔۔۔انہوں نے اندر آ کے میرا پوچھا اور پھر باہر دعا کے ساتھ بیٹھ میرا انتظار کرنے لگیں۔۔۔۔جب میں آئی تو انہوں نے کافی غصّہ کیا جو کے جائز بھی تھا فیس نا دینے پر بچوں کو ٹورچر کرنا انہیں مارنا ان پر غصّہ کرنا ان کے ننھے زہنوں پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔۔۔فیس کا معائدہ والدین کے ساتھ ہوتا ہے نا کے طالبِ علم کے ساتھ۔۔۔تو ان کو کس بات کی اذیت دی جاتی ہے میں اس کے بہت خلاف ہوں اسی لئے میں نے اپنے اسکول میں یہ واضح کر رکھا تھا پر وہ انچارج نیو تھیں شاید اسی لئے انھیں اس متعلق کچھ پتا نہیں تھا لیکن اسکول کے رولز کے مطابق مجھے انھیں فائر کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔اور جب سے اب تک دعا کی اور دعا جیسے بہت سے بچوں کی فیس یہی دیتی ہیں۔۔۔۔لیکن وہ چاہتیں ہیں ان کے اس عمل کو پوشیدہ رکھا جائے"
"آئیکسکیوز می سر آپ ایسے اندر نہیں جا سکتے" ایک لڑکی نے آفس میں داخل ہوتے شخص سے کہا تھا جو اس کی کوئی سنے بغیر اندر چلاتا چلا آیا تھا۔
ان کی آوازوں نے عائشہ کی بات میں خلل ڈالا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کے آنے والے کو دیکھا تھا۔
"مل گیا" آنے والے نے کہتے ساتھ موبائل سے گردن اٹھا عائشہ کو دیکھا تھا اور دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔
"آپ ایسے کیسے اندر آ گئے" وہ غصّے سے بولی۔
علی کو جیسے سوال سنائی ہی نہیں دیا اس کا کان ایک بار پھر سن ہوا تھا۔
عائشہ نے اسے خود کو گھورتا پایا تو کڑے تیوروں سے ایک بار پھر پوچھا۔
"میں آپ سے پوچھ رہی ہوں آپ ایسے کیسے اندر آ گئے ہیں"
"پیروں سے" اس نے سر کو ہلکا سا خم دے کے اپنے پیروں کو دیکھتے کہا جو عائشہ کے غصّے کو بڑھانے کے لئے بہت تھا۔
"ناٹ سو فننی" وہ سیخ پا ہوئی۔
"تم یہاں کیسے" حیدر نے اطمینان سے علی سے پوچھا وہ ان کی باتیں سن چکا تھا۔
"تمہیں کچھ اندازہ ہے پچھلے پانچ چھ گھنٹوں سے تم غائب ہو عبّاس انکل کی کال آئی تھی تمہارا پوچھ رہے تھے۔۔۔۔۔پھر کیا تھا میں نے تمہیں ڈھونڈھ لیا اور آ گیا تمہیں لینے" وہ عام سے انداز میں اسے بتا رہا تھا۔
"عائشہ میٹ مائے فرینڈ علی احمد۔۔۔۔۔۔علی میٹ مائے سسٹر عائشہ اصغر" حیدر نے علی کی بات کو نظر انداز کرتے ان کا تعارف کرایا۔
"نائیس ٹو میٹ یو عاشی" علی نے فرانک ہوتے عائشہ سے کہا۔
"کیا کہا آپ نے" عائشہ کے تو سر پر لگی تلوں پر بجھی۔
"آپ سے مل کر اچھا لگا" علی نے مسکراہٹ دبائی۔
"اس کے بعد" وہ زور دیتی بولی۔
"عاشی" علی نے دانتوں کی نمائش کرتے بتایا۔
"اٹس عائشہ" وہ چبا چبا کر بولی۔
"ناٹ فور می" وہ نفی میں گردن ہلاتا مسکراتا ہوا بولا۔
"اللہحافظ" حیدر نے علی کو کولر سے گھنسٹتے باہر لے جاتے عائشہ سے کہا۔
"پھر آئیے گا حیدر بھائی" عائشہ نے پیچھے سے ہانک لگاتے حیدر سے کہا۔
حیدر نے جہاں بڑبڑاتے ہوئے "کبھی نہیں" کہا تھا وہیں علی نے "ضرور" کہا تھا۔
"بہن ہے میری" حیدر نے غصّے سے علی کا کولر ایک جھٹکے سے چھوڑتے اسے یاد دہانی کرائی۔
"بیوی صرف میری بنے گی" وہ حیدر کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے بے حد سنجیدگی سے اسے باور کرا رہا تھا۔
حیدر نے کچھ دیر بغور اسے دیکھا۔
"جب وہ تمہیں قبول کرے گی" وہ مسکراتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
"کیوں نہیں کرے گی ضرور کرے گی" علی نے حیدر کے برابر والی سیٹ پر بیٹھتے کہا جس میں وہ خود کو بھی یقین دلا رہا تھا۔
"میں دعا گو ہوں" حیدر نے مسکراہٹ چھپائی تھی۔
حیدر ابھی راستے میں ہی تھا جب احمر کی کال آئی۔
"کہاں ہو تم۔۔۔تمہیں پتا بھی ہے صفا کا اتنی دیر باہر رہنا ٹھیک نہیں ہے پھر بھی تم اسے لے گئے۔۔۔۔گھر جلدی پہنچو سب پریشان ہو رہے ہیں وہاں" وہ غصّے سے بھرا بات کر رہا تھا۔
"لیکن صفا میرے ساتھ نہیں ہے" اس نے سپیڈ کم کی تھی۔
"کیا؟ تو پھر کہاں ہے؟" مامو بتا رہے تھے کہ وہ ہاشم کے ساتھ بھی نہیں ہے گھر پر کال آئی تھی وہ صفا کا پوچھ رہا تھا لیکن سب کو لگا وہ تمہارے ساتھ ہے کیوں کہ وہ صبح سے باہر جانے کی ضد کر رہی تھی اور تمہیں کال کر رہی تھی" احمر پریشانی سے ساری صورتحال اسے بتا رہا تھا۔
"گھر پر ابھی کسی کو کچھ مت بتانا میں دیکھتا ہوں"حیدر نے کال منطقہ کر گھیر ڈال گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج زینب رانیہ اور نور کو لئے شاپنگ کرنے آئی تھی وہ بظاہر ایک بار پھر پہلے جیسی ہو گئی تھی لیکن اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا لیکن اب بھی اس کے ارد گرد کچھ لوگ موجود تھے جو اس سے بے غرض محبت کرتے تھے اس نے ان کے لئے خود کو پیچھے چھوڑا تھا۔۔۔۔۔لیکن کیا واقعی اس نے خود کو پیچھے چھوڑ دیا تھا کیوں کہ تنہائی میں اس کا اپنا آپ اس کے سامنے کھڑے ہو جاتا تھا۔۔۔۔سوچوں کا مدار ایک ہی سوچ کے گرد گھومنے لگتا تھا۔۔۔۔وہ ٹوٹنے اور جوڑنے کے عمل سے روز گزرتی تھی بینا کسی بین کے۔۔۔۔۔بینا کسی آنسو کے۔۔۔۔۔۔۔ٹوٹنے اور جوڑنے کے اس عمل نے اس کے وجود پر بہت سی دراڑیں ڈال دی تھیں جنہیں چھپانے کی انتھک کوشش میں وہ لگی رہتی تھی۔
یہ تینوں باتیں کرتیں ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے پارکنگ ایریا میں اپنی گاڑی کے پاس آئیں تھیں جب زینب کو کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی اس نے آگے پیچھے نظر گھومتے دیکھا یہاں اس وقت یہی تینوں موجود تھیں زینب نے اپنا وہم جان اسے نظر انداز کیا۔
ایک زور کی درد بھری آواز نے ان تینوں کو ہی اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اب آواز کا ارتکاز کرتیں ایک کار کے پاس روکیں تھیں انہیں کوئی نظر نا آیا۔ زینب نے جلدی سے کار کی دوسری جانب دیکھا نیچے بہت سے بیگز گرے تھے اور ایک لڑکی فرش پر بیٹھی درد سے بری طرح کراہ رہی تھی۔ وہ آئیکسپیکٹ کر رہی تھی۔ زینب صورتحال کو سمجھتے اس کے پاس گھونٹوں کے بل بیٹھی پر اس لڑکی کی آنکھوں سے آنسو اور زبان سے کراہوں کے سوا کچھ نہیں نکل رہا تھا۔
"تم دونوں یہیں روکو ان کے پاس میں گاڑی لے کر آتی ہوں" وہ رانیہ اور نور سے کہتی اپنی گاڑی کی جانب بھاگی تھی۔
زینب کار پارکنگ سے نکال اپنی سابقہ جگہ پر آئی تھی۔ ان تینوں نے اس لڑکی کو سہارا دے بیک سیٹ پر بیٹھایا تھا۔ رانیہ اور نور اس کے ساتھ ہی بیک سیٹ پر بیٹھ گئیں تھیں۔
زینب اس لڑکی کو قریبی ہسپتال لے آئی اور ایمرجنسی میں داخل کروا دیا۔
لیبر روم کے باہر نور اور رانیہ پریشان سی بیٹھیں تھیں جب کے زینب مضطرب سی ٹھل رہی تھی۔
"زینی ہمیں ان کے گھر والوں کو انفارم کرنا چاہیے" نور نے کہا تو زینب کے قدم رک گئے۔
"لیکن کیسے؟" زینب نے سوچتے ہوئے سوال کیا۔
"اگر کوئی کنٹیکٹ نمبر مل جائے" رانیہ سوچتے ہوئے بولی۔
"ان کے پاس سامان تھا ہو سکتا ہے موبائل بھی ہو اس میں" رانیہ پرجوش ہوتی بولی۔
"ہاں ہو سکتا ہے میں چیک کر کے آتی ہوں تم دونوں یہاں کا خیال رکھو" وہ حامی بھرتے ہسپتال سے باہر اپنی کار کی ڈیگی میں اس لڑکی کا موبائل تلاش کرنے گئی تھی۔
تھوڑی ہی کوشش کے بعد اسے موبائل مل گیا تھا اس نے ڈیگی بند کرتے موبائل کی ڈائلنگ میں موجود پہلا نمبر ملایا تھا جو بھائی کے نام سے سیو تھا۔
حیدر نے صفا کو ہر اس جگہ ڈھونڈھ لیا تھا جہاں اس کے ہونے کا اندیشہ تھا پر وہ اسے کہیں نہ ملی۔ وہ ذہن پر زور دیتا کچھ اور جگہوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں صفا جا سکتی تھی۔
جب ہی صفا کا نام موبائل کی سکرین پر چمکا تھا اور حیدر نے ایک لمحے کی دیر کئے فون کان سے لگائے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا تھا۔
"کہاں ہو تم؟"
"وہ۔۔۔۔" زینب ہڑبڑائی۔
"میں پوچھ رہا ہوں کہاں ہو تم؟" حیدر دھاڑا۔
"ہمیں ایک لڑکی پارکنگ لاٹ میں ملی تھی ان کی کنڈشن ٹھیک نہیں تھی تو ہم انہیں ہسپتال لے آئے۔۔۔۔اگر ہو سکے تو آ آجائیں یہاں" نا چاہتے ہوئے بھی زینب کے لہجے میں ناگواری کا عنصر شامل ہوا تھا۔
"میں آ رہا ہوں" حیدر نے کال ڈسکنیکٹ کر موبائل علی کی طرف اچھالا تو علی اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
"لوکیشن ٹریس کرو جیسے آج صبح میری کی تھی" علی کا دل چاہا اپنے اس دوست کا گلہ دبا دے کیا ہو جاتا اگر وہ ہسپتال کا نام ہی پوچھ لیتا۔
"ہاشم کو کال کر کے بولو ہسپتال پہنچے" علی نے اسے ہسپتال کا نام بتایا تو حیدر نے ایک حکم اور صادر کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تینوں کے چہروں پر خوشی رقصاں تھی اور انہیں اس چھوٹی بچی سے ملنے کی بہت بے صبری تھی جسے دنیا میں آئے ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے۔
صفا اور نئی ننھی پری کو ہسپتال کے پرائیویٹ وڈ میں شفٹ کر دیا گیا تو زینب نے ڈاکٹر سے پیشنٹ سے ملنے کی اجازت لی جو ڈاکٹر نے بخوشی دے دی تھی۔
زینب نے بینا آواز پیدا کئے دروازہ تھوڑا سا وا کر اندر جھانکا تھا صفا جاگ رہی تھی اور اپنی بیٹی کو گود میں لئے پیار کر رہی تھی۔ زینب کو لگا دنیا میں اس سے حسین منظر اور کوئی نہیں۔
صفا نے اشارہ کر اسے اندر بلایا تو وہ تینوں صف بندھے اندر داخل ہوئیں۔
"اب کیسی ہے آپ کی طبیعت" وہ تینوں ایک ہی وقت میں بولیں تو صفا مسکرا دی اور اسے مسکراتا دیکھ یہ سب بھی مسکرائیں۔
"الحمداللہ اور آپ سب کا بہت شکریہ اگر آپ نہیں آتیں تو آج۔۔۔" صفا کی بات کو زینب نے کاٹا تھا۔
"ہم نے آپ کے گھر انفارم کر دیا ہے وہ آتے ہی ہوں گے" وہ جو نہیں ہوا وہ سنا نہیں چاہتی تھی ان خوشی کے پلوں میں تو بلکل نہیں۔
اچانک دروازہ کھلے ہاشم اندر آیا تھا جسے دیکھ صفا کے چہرے پر رنگوں کی بہار آئی تھی۔
وہ ان تینوں کی موجودگی سے بےخبر صفا سے اس کی طبیعت کا پوچھ رہا تھا اس کا انداز ایسا تھا کہ صفا جھینپ گئی اور جلدی سے اس کی گود میں بچی کو ڈالا۔
ہاشم نے کچھ پل دم سادھے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا پھر اس نے جھکتے اس کے ماتھے پر محبّت سے اپنا لمس چھوڑا تھا۔
زینب نے دکھا تھا اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی جسے وہ جذب کر گیا۔ زینب اندازہ نہیں لگا سکی کچھ دیر پہلے دیکھا وہ منظر زیادہ حسین تھا یا یہ۔۔۔۔۔۔اس سوال کا جواب شاید دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔
"کیا ہم۔۔۔بے۔بی۔۔۔۔کو؟" زینب نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"کیوں نہیں" صفا نے اس کی ادھوری بات سمجھ اسے اجازت دی تھی۔
زینب نے بہت احتیاط سے اس بچی کو ہاشم کی گود سے لیا تھا۔ کب ایک جاندار مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی اسے خود پتا نا چلا نور اور رانیہ اس کے ساتھ لگی بچی کو دیکھ رہیں تھیں جس کے گال ٹماٹر کی طرح لال ہو رہے تھے اور وہ محوِ خواب تھی۔ اس نے جھک کر باری باری اس کے دونوں گالوں کو چوما تھا ایک آنسو اس کی آنکھ سے آزاد ہوا تھا رانیہ اور نور نے چونک کر اسے دیکھا تھا پر وہ بچی کو دیکھ مسکرا رہی تھی۔۔۔وہ سمجھ گئیں تھیں کہ یہ آنسو خوشی کا تھا جسے وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی روک نہیں پائی تھی۔
کیوں وقت تھما
یہ میں نے ہی نا جانا
وہ آج پھر اسی انداز میں وہاں کھڑا تھا جہاں کچھ ہفتوں پہلے کھڑا تھا پر اب کے منظر بدل گیا تھا جسے روتا دیکھا تھا اس کی آنکھوں سے آج سچی خوشی پھوٹ رہی تھی وہ آج پھر اس پر سے نظریں ہٹانے میں ناکام ہوا تھا اور بری طرح ہوا تھا کیوں کہ اسے مسکراتا دیکھ اس کے اپنے لبوں پر تبسم ناچ گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ کمرے کے باہر آئیں تھی اور حیدر ایک بار پھر چھپا تھا ۔ وہ چلیں گئیں تھیں اور حیدر سمجھ نہیں سکا کے کیوں وہ اسے دیکھ ایسا ہو جاتا تھا جس سے نا ملنے کا تہیہ اس نے آج ہی کیا تھا وہ آج ہی غارت ہو گیا تھا۔۔۔۔۔کیوں ہر بار وہ اس سے بھاگنے کی کوشش کرتا اور ہر بار وہ اس کے سامنے آ جاتی تھی اور وہ بے بسی کی تصویر بن جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے دیکھتے مجھے ملتا سکوں
کیوں ملتا سکوں یہ میں نے ہی نا جانا
حیدر نے جب سے عقل کو قفل لگایا تھا تب سے ہی وہ خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا اور اس کی وجہ زینب تھی کیوں کہ وہ روز آفس ٹائمنگ میں اسکول پہنچ جاتا اور جب تک زینب وہاں سے رخصت نا ہوتی اسے دیکھتا رہتا۔
وہ اب بھی وہیں موجود اس میں کھویا ہوا تھا جو ایک گلابی فراک میں ملبوز ایک بچی کو گود میں بٹھائے اس کے ساتھ کھیل رہی تھی اور بہت سے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے بچے اس کے گرد کھڑے تھے ایک بچے نے نجانے اس سے کیا تھا کہ اس نے بچی کو نیچے اتار اپنے بیگ میں سے ایک شوپر نکال کر نعرا لگایا تھا۔۔۔۔۔حیدر کو علم تھا کہ شوپر میں کیا ہو گا کیوں کہ بچے اس طرح پاگل صرف چاکلیٹ کے نام پر ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔حیدر نے دیکھا تھا وہ بچوں کو چاکلیٹ ایسے ہی نہیں دے رہی تھی بلکہ فیس بھی چارج کر رہی تھی فقط ایک کیس اور بچے بخوشی ایک کی جگہ دو دو تین تین کیس اس کے گال پر کر رہے تھے اور پھر انہیں اتنی ہی چاکلیٹس بھی مل رہیں تھیں۔
"حیدر بھائی" عائشہ چیخ ہی تو پڑی تھی ۔ وہاں وہ لنگور آفس کے باہر کھڑا اس کو تاڑ رہا تھا اور یہاں حیدر بھائی بھی۔ عائشہ کو اب ان کے روز روز تشریف آوری کی وجہ سمجھ آ گئی تھی یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ نظر آ گئی تھی۔
"ہمم۔۔۔"
"حیدر بھائی یہ بری بات ہے" عائشہ نے احساس دلانا چاہا۔
حیدر خاموش رہا۔
"ابھی آپ ایسے دیکھ رہے ہیں تو آپ کو یہ صحیح لگ رہا ہے اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا اور انہیں ایسے دیکھ رہا ہوتا تب آپ کو یہی سب غلط لگتا" اس نے ایک کوشش اور کی۔
"کوئی اور نہیں دیکھتا کیوں کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں اور دوسری بات یہ کہ وہ ایسے لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھنا اچھے سے جانتی ہے" زینب منظر سے اوجھل ہوئی تو وہ اسے تفصیل سے جواب دینے لگا۔
"پھر اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا" عائشہ نے سینے پر ہاتھ باندھ پوچھا۔
حیدر نے اس کی بات سمجھ قہقہ لگایا تھا۔
"میری ہمت اور اوقات دونوں اس کے بس کی بات نہیں" حیدر نے اس کی ناک دباتے ہنستے ہوئے کہا۔
"وہ تو نظر آ رہا تھا کہ کیا ان کے بس میں ہے جب آپ انہیں دیکھ رہے تھے" عائشہ نے طنز کرتے کہا۔
عائشہ کی بات سن اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
"یہ آوازیں" نیچے سے کسی کے چیخ چیخ کے بات کرنے کی آوازیں آئیں تو عائشہ چونکی تھی۔
وہ حیدر کے ساتھ ان آوازوں کے پیچھے جا رہی تھی تب ہی ایک آواز اور ان کے قریب سے آئی جب وہ آفس کے آگے سے گزر رہے تھے۔
"حیدر" یہ علی تھا۔
"تمہیں یہاں کس نے بندھ کیا؟" حیدر نے حیران ہوتے اس سے پوچھا۔
"آئندہ انہیں یہاں نہیں لائیے گا" عائشہ نے کہتے ساتھ ہی تالے کی چابی حیدر کو دی تھی اور وہاں سے چلی گئی تھی۔
"سن لیا" حیدر نے علی کو باہر نکلتے جتایا۔
"کچھ کہا کیا" وہ انجان بنا۔
"کچھ نہیں" حیدر نے تاسف سے کہا۔
سامنے کا منظر دیکھ ان دونوں کے چلتے قدم وہیں ٹھہر گئے تھے۔
"ہم نے اپنے بچوں کا یہاں پر داخلہ ان کی اچھی تعلیم کے لئے کیا ہے نا کہ اس لئے کے آپ ان جیسی لڑکیوں کو یہاں پر آنے کی اجازت دیں اور ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کر دیں" ایک عورت غصّے سے زینب کی طرف اشارہ کر کہہ رہی تھی۔
"ہم تحمل سے بات کر لیتے ہیں آپ میرے ساتھ چلیں" عائشہ نے بگڑتی بات سنمبھالنی چاہی۔
"آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ میں تحمل سے بات کروں یہ جانتے ہوئے کہ خود آپ نے اس بدکردار ،بدچلن اور بد ذات لڑکی کو یہاں رکھا ہوا ہے۔۔۔جس کا کل بھی گند سے آٹا تھا اور آج میں بھی صرف گند ہی گند ہے۔۔۔۔۔جس کے نا باپ کا پتا نا ماں کا۔۔۔۔جس کی رگوں میں کس کا گندا خون دوڑ رہا ہے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔جسے والیواللہ صاحب نے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا بینا یہ سوچے کہ یہ کسی کا گناہ ہے۔۔۔۔۔۔کسی نے حرام کاری کر اسے پیدا کیا اور اس حرام کی چیز کو اپنے تن سے ہی نہیں اپنی زندگی سے بھی باہر پھینک دیا " عائشہ کی بات سن آسیه بیگم ہتھے سے ہی اکھڑ گیں تھیں۔
آسیه بیگم دعا کی ٹیچر سے اس کی پروگریس معلوم کرنے آئیں تھیں جب انہوں نے یہاں زینب کو دیکھا جو جا ہی رہی تھی ان کا تو پارا ہی ہائی ہو گیا۔
عائشہ سکتے کے عالَم میں چلی گئی تھی وہ عورت کیا اول فول بک رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
اسے کہا برا، مجھے لگا برا
کیوں لگا برا یہ میں نے ہی نا جانا
حیدر غصّے سے لال پیلا ہوتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی طرف بڑھ رہا تھا کہ علی نے زور سے اس کا بازو کھینچا تھا۔
"ابھی تمہارا کوئی بھی عمل زینب کے دامن پر صرف داغ لگائے گا" وہ مضبوطی سے حیدر کو تھامے سمجھا رہا تھا۔
حیدر نے اس کی بات سمجھ آنکھیں اور مٹھیاں زور سے بینچیں تھیں۔ وہ اپنے غصّے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ علی اسے وہاں سے لئے ہٹ گیا تھا جہاں ان کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔
زینب چپ چاپ وہاں سے چلی گئی تھی۔ عائشہ نے جلدی سے ہوش میں آتے معافی تلافی کرتے صورتحال کو سنمبھلا تھا اور کچھ ہی وقت میں سب ایک بار پھر پہلے جیسا ہو گیا تھا سب اپنی اپنی کلاسوں میں واپس چلے گئے تھے۔
آسیه بیگم کے اسکول سے جاتے ہی زینب ایک بار پھر اندر گئی تھی لیکن اب کی بار اسے عائشہ سے کچھ بات کرنی تھی۔ اسے آفس کی طرف جاتے حیدر اور علی نے دیکھا تھا اور حیدر کو اس کے باہر آنے کا انتظار تھا۔ وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئی تھی۔ حیدر کو اس کے چہرے پر کوئی ایک تاثر بھی نظر نہیں آیا تھا۔
"کیا کہہ رہی تھی وہ؟" حیدر نے آفس میں آتے ہی عائشہ سے پوچھا تھا۔
"آج جو کچھ ہوا اس کے لئے سوری میں کبھی یہ نہیں چاہتی تھی۔ آپ کو میری وجہ سے اتنا سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔ میں جانتی ہوں اس سب سے آپ کے اسکول کی ساخت کو بھی بہت نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن یہ پہلی اور آخری بار تھا آئندہ ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ اب سے میں یہاں نہیں آؤں گی لیکن میں آپ کو چیک پہنچا دوں گی۔۔۔۔۔دیر ہو رہی ہے چلتی ہوں اللہ حافظ" عائشہ نے کسی طوطے کی طرح حرف با حرف حیدر کو زینب کا کہا سنا دیا تھا۔
"میں جانتی ہوں یہ سب پہلی دفع نہیں ہوا ہے ان کے ساتھ ورنہ وہ کوئی تو جواب دیتیں کچھ تو کرتیں کچھ تو کہتیں لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا وہ بس سنتی رہیں۔۔۔اتنے سخت لفظ انہوں نے اپنی ذات پر برداشت کر لئے۔۔۔۔آپ کو پتا ہے بھائی وہ یہ سب ایسے کہہ گئیں ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو لیکن آنکھوں میں سیاہی تھی وہ سیاہی جو اس عورت نے اپنے لفظوں کے ذریعے ان میں انڈیلی اور جانے کتنے لوگ کتنی دفع دن میں ایسا کرتے ہوں گے اور یہ سیاہی ان کی آنکھوں سے اترتی دل کو سیاہ کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔" وہ ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھتی کہہ رہی تھی۔
تیرے دل پے لگی جو یہ سیاہی ہے مجھے کچھ بھی کر کے مٹانی ہے
کیوں مٹانی ہے یہ میں نے ہی نا جانا
"بھائی اس سے پہلے لوگ ان کے دل کو مکمل سیاہ کر دیں آپ کچھ کریں" وہ پر نم آنکھیں لئے حیدر سے التجا کر رہی تھی۔
عائشہ کے آنسو دیکھ علی کو آنسوؤں سے نفرت ہوئی تھی۔۔۔۔۔شدید نفرت۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ASALAMUALIKUM dear readers....tu kiya khayal hai kesa tha epi.....lekin zara koi naya comment dn dil ko zara acha lage😉....next na maniye ga🙏 plzzzz
ALLAH HAFIZ
WRITER:
NIMRA ISRAR
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top